پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

شادى كا مقصد

شادى کا مقصد

شادى انسان کى ایک فطرى ضرورت ہے اور اس کے بہت سے فائدے ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں:
1_ بے مقصد گھومنے اور عدم تحفظ کے احساس سے نجات اور خاندان کى تشکیل

غیر شادى شدہ لڑکا اور لڑکى اس کبوتر کى مانند ہوتے ہیں جس کا کوئی آشیانہ نہیں ہوتا اور شادى کے ذریعہ وہ ایک گھڑ ٹھکانہ اور پناہ گاہ حاصل کرلیتے ہیں _ زندگى کا ساتھى ، مونس و غمخوار ، محرم راز ، محافظ اور مددگار پالیتے ہیں _
2_ جنسى خواہشات کى تسکین

جنسى خواہش، انسان کے وجود کى ایک بہت اہم اور زبردست خواہش ہوتى ہے اسى لئے ایک ساتھى کے وجود کى ضرورت ہوتى ہے کہ سکون و اطمینان کے ساتھ ضرورت کے وقت اس کے وجود سے فائدہ اٹھائے اور لذت اصل کرے _ جنسى خواہشات کى صحیح طریقے سے تکمیل ہونى چاہئے کیونکہ یہ ایک فطرى ضرورت ہے _ ورنہ ممکن ہے اس کے سماجى ، جسمانى اور نفسیاتى طور پر برے نتائج نکلیں _ جو لوگ شادى سے بھاگتے ہیں عموماً ایسے لوگ نفساتى اور جسمانى بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں _
3_ تولید و افزائشے نسل

شادى کے ذریعہ انسان اولاد پیدا کرتا ہے _ بچے کا وجود شادى کا ثمرہ ہوتاہے اور خاندان کى بنیاد کو مستحکم کرنے نیز میاں بیوى کے تعلقات کو خوشگوارى اور پائدار بنانے کا سبب بنتا ہے _ یہى وجہ ہے کہ قرآن او راحادیث میں شادى کے مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید کى گئی ہے مثال کے طور پر _خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے ، خدا کى نشانیوں میں سے ایک نشانى یہ (بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے شریک زندگى بنائی تا کہ تم ان سے انس پیدا کرو_(5) رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: اسلام میں زناشوئی (شادی) سے بہتر کوئی بنیاد نہیں ڈالى گئی ہے _ (6)

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں _ شادى کرو کہ یہ رسول خدا (ص) کى سنت ہے _

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شخص چاہتا ہے کہ میرى سنت کى پیروى کرے اسے چاہئے شادى کرلے _ شادى کے وسیلے سے اولاد پیدا کرے ( اور مسلمانوں کى تعداد میں اضافہ کرے ) تا کہ قیامت میں میرى امت کى تعداد ، دوسرى امتوں سے زیادہ ہو _ (7)

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : انسان کے لئے نیک اور شائستہ شریک زندگى سے بڑھ کر اور کوئی سودمند چیز نہیں _ ایسى بیوى کہ جب اس کى طرف نگاہ کرے تو اسے خوشى و شادمانى حاصل ہو _ اس کى غیر موجودگى میں اپنے نفس اور اس کے ماں کى حفاظت کرے _ (8)

مذکورہ باتیں ، شادى کے ذریعہ حاصل کئے جانے والے دنیوى اور حیوانى فوائد و منافع کے متعلق تھیں کہ ان میں سے بعض سے حیوانات بھى بہرہ مند ہوتے ہیں _ البتہ اس قسم کے مفادات کوانسان کى ازدواجى زندگى کا (اس اعتبار سے کہ وہ انسان ہے) اصل مقصد قرار نہیں دیا جا سکتا _

انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا ہے کہ وہ ایک مدت تک کھائے ، پیئے ، سوئے ، عیش کرے ، لذتیں اٹھائے اور پھر مرجائے اور نابود ہوجائے _ انسان کا مرتبہ ان تمام باتوں سے کہیں اعلى اورارفع ہے _ انسان اس دنیا میں اس لئے آیا ہے تا کہ علم عمل اور اعلى اخلاق کے ذریعہ اپنے نفس کى تربیت کرے اور انسانیت کى راہ مستقیم اور کمال کے مدراج کو طے کرے اور اس طرح پروردگار عالم کے قرب حاصل کرسکے _

انسان ایک ایسى اعلى و برتر مخلوق ہے جو تہذیب و تزکیہ نفس کے ذریعہ برائیوں سے اجتناب کرکے اپنے فضائل اور بلند اخلاق نیز نیک کام انجام دے کر ایسے ارفع مقام پر پہونچ سکتا ہے جہاں فرشتوں کى بھى رسائی ممکن نہیں _

انسان ایک جاودان مخلوق ہے اور اس دنیا میں اس کے آنے کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبر وں کى ہدایت و رہنمائی کے ذریعہ دین کے اصول و قوانین کے مطابق عمل کرکرے اپنے لئے دین و دنیا کى سعادت فراہم کرے اور جہان آخرت میں پروردگار عالم کى رحمت کے سائے میں خوشى و آرام کے ساتھ ابدى زندگى گزارے لہذا انسان کى ازدواجى زندگى کے اصل مقصد کو اسى پس منظر میں تلاش کرنا چاہئے _ ایک دیندار انسان کے نزدیک شادى کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے شریک زندگى کے اشتراک و تعاون سے اپنے نفس کو گناہوں ، برائیوں اور بداخلاقیوں سے محفوظ رکھے اور صالح اعمال اور نیک و پسندیدہ اخلاق و کردار کے ساتھ اپنے نفس کى تربیت کرتے تا کہ انسانیت کے بلند مقام پر پہونچ جائے اور خدا کا تقرب حاصل کرلے _ اور ایسے اعلى مقصد کے حصول کے لئے شائستہ ، نیک اور موزوں شریک زندگى کى ضرورت ہوتى ہے _

دو مومن انسان جو شادى کے ذریعہ خاندان کى تشکیل کرتے ہیں انس و محبت کے سائے میں سکون و اطمینان کے ساتھ اپنى جائز خواہشات سے بہرہ مندہوسکتے ہیں اور اس طرح ناجائز تعلقات قائم کرنے ، فساد وتباہى کے مراکز کا رخ کرنے نیز خاندانوں کو تباہ کردینے والى شب باشیوں کے شرسے محفوظ رکھنے کے اسباب مہیا کئے جا سکتے ہیں _

یہى سبب ہے کہ پیغمبر اکرم او رائمہ اطہار علیہم السلام نے ازدوج یعنى شادى پر بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے _ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : جو شخص شادى کرتا ہے اپنے آدھے دین کى حفاظت کے اسباب مہیا کرلیتا ہے _ (9)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : شادى شدہ انسان کى دو رکعت نماز ، غیر شادى شدہ انسان کى ستر رکعت کى نمازوں سے زیادہ افضل ہے _ (10)

دیندار اور مناسب شریک زندگى (خواہ مرد ہو یا عورت) کا وجود ، فرائض کى ادائیگى اور واجبات و مستحبات پر عمل کرنے نیز محرمات و مکروہات سے اجتناب کرنے ، نیکیوں کو اختیار کرنے اور برائیوں سے پرہیز کرنے کے سلسلہ میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے _

اگر شوہر و بیوى دونوں دیندار ہوں اور تزکیہ نفس سے بہرہ مند ہوں تو اس دشوار گزار راہ کو طے کنرے میں نہ صرف یہ کہ کوئی رکاوٹ نہیں ہوگى بلکہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے _ خدا کى راہ میں جہاد کرنے والا ایک سپاہى کیا اپنى شریک زندگى کے تعاون اور رضامندى کے بغیر میدان جنگ میں اچھى طرف لڑسکتاہے اور دلیرانہ کارنامے انجام دے سکتا ہے ؟ کیا کوئی انسان اپنى شریک حیات کى موافقت کے بغیر روزى ، علم اور مال و دولت کے حصول میں تمام شرعى اوراخلاقى پہلوؤں کا لحاظ رکھ سکتا ہے ؟ اسراف اور فضول خرچیوں سے بچ سکتا ہے؟ اپنے ضرورى اخراجات کے علاوہ رقم کو نیک کاموں میںخرچ کرسکتا ہے؟

مومن اور دیندار شریک زندگى اپنے ساتھى کو نیکى اور اچھائیوں کى ترغیب دلاتے ہیں اور لاابالى اور بداخلاق، اپنے شریک زندگى کو برائیوں اور بداخلاقیوں کى طرف راغب کرتے ہیں _ اور انسانیت کے مقدس مقصد سے دور کردیتے ہیں _ اسى سبب سے مرد اور عورت دونوں کے لئے کہا گیا ہے کہ شریک حیات کے انتخاب کے وقت ، ایمان، دیندارى اور اخلاق کو بنیادى شرط قرار دیں _

رسول خداصلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ خداوند عالم نے فرمایا: جب میں ارادہ کرتا ہوں کہ دنیا و آخرت کى تمام خوبیاں کسى مسلمان شخص کے لئے جمع کردوں تو اس کو مطیع قلب، ذکر کر نیوالى زبان اور مصیبتوں پر صبر کرنے والا بدن عطا کرتا ہوں _ اور اس کو ایسى مومن بیوى دیتا ہوں کہ جب بھى اس کى طرف دیکھے اسے خوش و مسرور کردے اور اس کى غیر موجودگى میں اپنے نفس اور اس کے مال کى حفاظت کرنیوالى ہو'' _ (11)

ایک شخص نے رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں آکر عرض کیا کہ میرى بیوى ، جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو میرے استقبال کے لئے آتى ہے ، جب گھر سے باہر جاتا ہوں نے مجھے رخصت کرتى ہے _ جب مجھے رنجیدہ دیکھتى ہے تو میرى دلجوئی کرتى ہے اور کہتى ہے اگرتم رزق و روزى کے متعلق فکرمند ہوتو رنجیدہ نہ ہو کہ روزى کا ضامن تو خدا ہے اور اگر آخرت کے امور کے بارے میں سوچ رہے ہو تو خدا تمہارى فکر و کوشش اور ہمت میں اوراضافہ فکرے _ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اس دنیا میں خدا کچھ خاص اور مقرب بندے ہیں اور یہ عورت بھى خدا کے ان خاص بندوں میں سے ہے_ ایسى بیوى ایک شہید کے نصف ثواب سے بہرہ مند ہوگى _ (12)

امیر المومنین حضر ت على (ع) کے پیش نظر بھى یہى اعلى مقصد تھا کہ حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں فرمایا کہ وہ اطاعت خدا کى راہ میں بہترین معاون و مددگار ہیں _

تاریخ میں ہے کہ رسول خدا (ص) ، حضرت على (ع) اور جناب زہرا(ع) کى شادى کے بعد مبارک دینے اور احوال پرسى کى غرض سے ان کے گھر تشریف لے گئے _ حضرت على (ع) سے پوچھا : اپنى شریک زندگى کو تم نے کیسا پایا؟

کہا : خدا کى اطاعت کے لئے ، زہرا کو میں نے بہترین مددگار پایا

اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا (ع) سے پوچھا : تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟

کہا : بہترین شوہر _ (13)

امیر المومنین علیہ السلام نے اس مختصر سے جملہ کے ذریعہ ، اسلام کى شائستہ اور مثالى خاتون کا تعارف بھى کرایا ، اور ازدواجى زندگى کے بنیادى اور اہم مقصد کو بھى بیان فرمادیا_

 

5_ سورہ روم آیت 21
6_ وسائل الشیعہ : تالیف : شیخ محمد بن الحسن الحر العاملى (م سنہ) جلد 14 ص 3
7_ وسائل الشیعہ جلد 14 ص 13
8_ وسائل الشیعہ ج 14 ص 23
9_ وسائل الشیعہ ج 14 ص 5
10_ وسائل الشیعہ ج 14 ص 6
11_ وسائل الشیعہ ج 14 ص 6
12_ وسائل الشیعہ ج 14 ص 23
13_ بحارالانوار ج 43 ص 117