پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

متقيوں كے اوصاف

متقیوں کے اوصاف

اگر تقوى کو بہتر پہچاننا چاہئیں اور متقین کى صفات اور علامتوں سے بہتر واقف ہونا چاہئیں تو ضرورى ہے کہ ہمام کے خطبے کا جو نہج البلاغہ میں سے اس کا ترجمہ کر دیں_

ہمام ایک عابد انسان اور امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھا ایک دن اس نے حضرت على علیہ السلام کى خدمت میں عرض کیا یا امیر المومنین_ آپ میرے لئے متقین کى اس طرح صفات بیان فرمائیں کہ گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں_ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے جواب میں تھوڑى دیر کى اور پھر آپ نے اجمالى طور سے فرمایا اے ہمام تقوى کو اختیار کر اور نیک کام انجام دینے والا ہو جا کیونکہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ خدا متقین اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے ھمام نے آپ کے اس مختصر جواب پر اکتفا نہیں کى اور آنحضرت کو قسم دى کہ اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں_ اس وقت آنحضرت(ع) نے حمد و ثناء بارى تعالى اور پیغمبر (ص) پر درود و سلام کے بعد فرمایا _ خداوند عالم نے لوگوں کو پیدا کیا جب کہ ان کى اطاعت سے بے نیاز تھا اور ان کى نافرمانیوں سے آمان اور محفوظ تھا کیونکہ گناہگاروں کى نافرمانى اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتى اور فرمانبردارى کى اطاعت اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی_ ان کى روزى ان میں تقسیم کردى اور ہر آدمى کو اس کى مناسب جگہ پر برقرار کیا_ متقى دنیا میں اہل فضیلت ہیں_ گفتگو میں سچے _ لباس پہننے میں میانہ رو_

راستہ چلنے میں متواضع _ حرام کاموں سے آنکھیں بند کر رکھى ہیں_ جو علم  انہیں فائدہ دیتا ہے اے سنتے ہیں مصیبتوں اور گرفتاریوں میں اس طرح ہوتے ہیں جس طرح آرام اور خوشى میں ہوتے ہیں_ اگر موت ان کے لئے پہلے سے معین نہ کى جا چکى ہوتى تو ثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ایک لحظہ بھى ان کى جان ان کے بدن میں قرار نہ پاتی_ خدا ان کى نگاہ میں بہت عظیم اور بزرگ ہے اسى لئے غیر خدا ان کى نگاہ میں معمولى نظر آتا ہے_ بہشت کى نسبت اس شخص کى مانند ہیں کہ جس نے بہشت کو دیکھا ہے اور بہشت کى نعمتوں سے بہرہ مندہ ہو رہا ہے_ اور جہنم کى نسبت اس شخص کى طرح ہیں کہ جس نے اسے دیکھا ہے اور اس میں عذاب پا رہا ہے_ ان کے دل محزون ہیں اور لوگ ان کے شر سے امان میں ہیں_ ان کے بدن لاغر اور ان کى ضروریات تھوڑى ہیں_ ان کے نفس عفیف اور پاک ہیں_ اس دنیا میں تھوڑے دن صبر کرتے ہیں تا کہ اس کے بعد ہمیشہ کے آرام اور خوشى میں جا پہنچیں اور یہ تجارت منفعت آور ہے جو ان کے پروردگار نے ان کے لئے فراہم کى ہے_ دنیا ان کى طرف رخ کرتى ہے لیکن وہ اس کے قبول کرنے سے روگرداغن کرتے ہیں_ دنیا انہیں اپنا قیدى بنانا چاہتى ہے لیکن وہ اپنى جان خرید لیتے ہیں اور آزاد کرا لیتے ہیں_ رات کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوجائے ہیں_ قرآن کى آیات کو سوچ اور بچار سے پڑھتے ہیں_ اس میں سوچنے اور فکر کرنے سے اپنے آپ کو غمگین اور محزون بناتے ہیں اور اسى وسیلے سے اپنے درد کى دواء ڈھونڈتے ہیں جب ایسى آیت کو پڑھتے ہیں کہ جس میں شوق دلایا گیا ہو تو وہ امید وار ہوجاتے ہیں اور اس طرح شوق میں آتے ہیں کہ گویا جزا اور ثواب کو اپنى آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں _ اور جب ایسى آیت کو پڑھتے ہیں کہ جس میں خوف اور ترس ہو تو دل کے کانوں سے اس کى طرف اس طرح توجہ کرتے ہیں کہ گویا دوزخ میں رہنے والوں کى آہ و زارى اور فریاد ان کے کانوں میں سنائی دے رہى ہے_ رکوع کے لئے خم ہوتے ہیں اور سجدے کے لئے اپنى پیشانیوں اور ہتھیلیوں اور پائوں اور زانوں کو زمین پر بچھا دیتے ہیں اپنے نفس کى آزادى کو خدا سے تقاضا کرتے ہیں_ جب دن ہوتا ہے تو بردبار دانا نیکوکار اور باتقوى ہیں_

 

خدا کے خوف نے ان کو اس تیر کى مانند کر دیا ہے کہ جسے چھیلا جائے اور لاغر اور کمزور کر دیا ہے_ انہیں دیکھنے والے گمان کرتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں جب کہ وہ بیمار نہیں ہیں_ کہا جاتا ہے کہ دیوانے ہیں جب کہ وہ دیوانے نہیں ہیں بلکہ قیامت جیسى عظیم چیز میں فکر کرنے نے ان کو اپنے آپ سے بے خود کر دیا ہے_

اپنے تھوڑے عمل پر راضى نہیں ہوتے اور زیادہ عمل کو زیادہ نہیں سمجھتے_ اپنى روح اور نفس کو اس گمان میں کہ وہ اطاعت میں کوتاہى کر رہے ہیں متہم کرتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف اور ہراس میں ہوتے ہیں_ جب ان میں سے کسى کى تعریف کى جائے تو جو اس کے بارے میں کہا گیاہے اس سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو دو سروں سے بہتر پہچانتے ہیں اوراللہ تعالى ہم سے زیادہ آگاہ اور باخبر ہے_ خدایا جو کچھ ہمارے بارے میں کہا گیا ہے اس پر ہمارا مواخذہ نہ کرنا اور اس سے بالاتر قرار دے جو وہ گمان کرتے ہیں اور ان گناہوں کو جو دوسرے نہیں جانتے بخش دے_

اہل تقوى کى نشانى یہ ہے کہ تو اسے دینى معاملہ میں نرمى اور دور اندیشى کے ساتھ قوى دیکھے گا اوریقیین میں با ایمان اور مضبوط _ علم کے حصول میں حریص بردبارى میں دانشمند مالدار ہوتے ہوئے_ میانہ روی، عبادت باخشوع اور فقر میں آبرو مند اور با وقار_ سختیوں میں صبر کرنے والے _ حلال روزى کے حاصل میں کوشش کرنے وال_ ہدایت کے طلب کرنے میں علاقمندی_ طمع سے دور اور سخت جان_ نیک کام کرنے کے باوجود خوف زدہ ہیں_ رات کے وقت شکرانہ ادا کرنے میں ہمت باندھتے ہیں اور دن میں ذکر اور خدا کى یاد کو اہمیت دینے والے_ رات کو اس ڈر سے کہ شاید غفلت برتى ہو خوف زدہ_ دن کو اللہ تعالى کے فضل و کرم و رحمت کیوجہ سے خوشحال_ اگر نفس نے کہ جسد وہ پسند نہیں کرتا سختى برتى تو وہ بھى س کے بدلے جسے نفس پسند کرتا ہے بجا نہیں لاتے _ اس کا رابط اور علاقمند نیک کاموں سے ہوتا ہے اور فنا ہوتے والى دنیاوى چیز کى طرف میلان نہیں رکھتے_ تحمل اور بردبارى کو عقلمندى سے اور گفتار کو کردار کے ساتھ ملاتے ہے_ اسے دیکھے گا کہ اس کى خواہشات تھوڑى اور اس کى خطائیں بھى کم_ دل خشوع کرنے والا اور نفس قناعت رکھنے والا_ اس کى خوراک تھوڑى اور اسے کام آسان اس کا دین محفوظ اور اس کى نفسانى خواہشات ختم ہوچکى ہیں اور غصہ بیٹھ چکا ہے_ لوگ اس کے احسان اور نیکى کى امید رکھتے ہیں اور اس کے شر سے امن و امان میں ہیں اگر لوگوں میں غافل اور بے خبر نظر آ رہا ہو تو وہ اللہ تعالى کے ذکر کرنے والا شمار ہو رہا ہو گا اور اگر ذکر کرنے والوں میں موجود ہوا تو وہ غفلت کرنے والوں میں شمار نہیں ہوگا_

گالیاں دینے سے پرہیز کرتا ہے نرمى سے بات کرتا ہے_ برے کام اس سے نہیں دیکھے جاتے اور نیک کاموں میں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے_ خیرات اور نیکى کى طرف قدم بڑھانے والا اور برائیوں سے بھاگ جانے والا ہوتا ہے_ سختیوں میں باوقار اور مصیبتوں میں صبر کرنے والا آرام اور آسائشے میں شکر گزار جو اس کے نزدیک مبغوض ہے اس پر ظلم نہیں کرتا _ جس کو دوست رکھتا ہے اس کے لئے گناہ نہیں کرتا گواہوں کى گواہى دینے سے پہلے حق کا اقرار کر لیتا ہے_ جسے حفظ کر لیا ہے اسے ضائع نہیں کرتا اور جو اسے بتلایا جائے اسے نہیں بھلاتا _ کسى کو برے لقب سے نہیں بلاتا_ ہمسایہ کو نقصان نہیں پہنچاتا_ لوگوں پر جب مصیبتیں ٹوٹ پڑیں تو اس سے خوشى نہیں کرتا_ باطل کے راستے میں قدم نہیں رکھتا اور حق سے خارج نہیں ہوتا_ اگر چپ رہے تو چپ رہنے سے غمگین نہیں ہوتا اگر ہنسے تو ہنسنے کى آواز بلند نہیں ہوتى اور اگر اس پر ظلم کیا جائے تو صبر کرتا ہے تا کہ اس کا انتقام اس کے لئے لے لے_ اس کا نفس اس کى طرف سے سختى میں ہوتا ہے لیکن لوگوں کے نفس اس کى طرف سے آرام اور آسائشے میں ہوتے ہیں آخروى کاموں کے لئے اپنے نفس کو سختیوں میں ڈالتا ہے اور لوگوں کو اپنى جانب سے آرام اور آسائشے پہنچاتا ہے_ اس کا کسى سے دور ہوجانا زہد اور عفت کى وجہ سے ہوتا ہے اور کسى سے نزدیک ہونا خوش خلقى اور مہربانى سے ہوتا ہے دور ہونا تکبر اور خودخواہى کیوجہ سے نہیں ہوتا اور نزدیک ہونا مکرر اور فریب سے نہیں ہوتا_

راوى کہتا ہے کہ جب امیر المومنین کى کلام اس جگہ پہنچى تو ہمام نے ایک چیخ مارى اور بیہوش ہوگیا_ اور اپنى روح خالق روح کے سپرد کردی_ آنحضرت(ع) نے فرمایا ہیں '' اس طرح کى پیش آمد کیوجہ سے اس کے بارے میں خوف زدہ تھا_آپ نے اس کے بعد فرمایا لائق افراد میں وعظ اس طرح کا اثر کرتے ہیں_[1]

 

[1]- نهج البلاغه/ خطبه 193.