پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پيغمبروں كے بعثت كى اہم غرض نفوس كا پاكيزہ كرنا تھا

پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانى نفوس کى پرورش کرنا اور نفوس انسانى کو پاک و پاکیزہ بنانا تھا_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان سے ایک رسول ان کے درمیان بھیجا ہے تا کہ وہ ان کے لئے قرآنى آیات کى تلاوت کرے اور ان کے نفوس کو پاک و پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کى تعلیم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ایک کھلى ہوئی گمراہى میں غرق تھے_[1]

تعلیم و تربیت کا موضوع اس قدر مہم تھا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کى غرض قرار پایا اور خداوند عالم نے اس بارے میں اپنے بندوں پر احسان کیا_ انسان کى فردى اور اجتماعى شخصیت کى سعادت اور دنیوى اور اخروى شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے کہ کس طرح انسان نے اپنے آپ بنایا ہے اور بنائے گا_ اسى وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگى ساز سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے_ پیغمبر(ص) آئے ہیں تا کہ خودسازى اور نفس انسانى کى پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور مہم ا ور سرنوشت ساز کام کی رہنمائی اور مدد فرمائیں پیغمبر آئے ہیں تا کہ نفوس انسانى کو رذائل اور برے اخلاق اور حیوانى صفات سے پاک اور صاف کریں اور اچھے اخلاق اور فضائل کى پرورش کریں_ پیغمبر علیہم السلام آئے ہیں تا کہ انسانوں کو خودسازى کا درس دیں اور برے اخلاق کى شناخت اور ان پر کنٹرول اور خواہشات نفسانى کو قابو میں رکھنے کى مدد فرمائیں اور ڈرانے اور دھمکانے سے ان کے نفوس کو برائیوں اور ناپاکیوں سے پاک و صاف کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ فضائل اور اچھے اخلاق کے پودے کو انسانى نفوس میں پرورش دیں اور بار آور بنائیں اور اپنى راہنمائی اور تشویق اور ترغیب سے ان کے مددگار بنیں_

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ '' میں تمہیں اچھے اخلاق کى وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسى غرض کے لئے بھیجا ہے_[2]

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میں اسلئے بھیجا گیا ہوں تا کہ اچھے اخلاق کو نفوس انسانى میں مکمل کروں_[3]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم نے پیغمبروں کو اچھے اخلاق کے لئے منتخب کیا ہے جو شخص بھى اپنے آپ میں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم کا اس نعمت پر شکریہ ادا کرے اور جو شخص اپنے آپ میں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالى کى بارگاہ میں تضرع اور زارى کرنى چاہئے اور اللہ تعالى سے اچھے اخلاق کو طلب کرنا چاہئے_[4]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر بالغرض میں بہشت کى امید نہ رکھتا ہوتا اور دوزخ کى آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب کا عقیدہ بھى نہ رکھتا ہوتا تب بھى یہ امر لائق تھا کہ میں اچھے اخلاق کى جستجو کروں کیونکہ اچھے اخلاق کامیابى اور سعادت کا راستہ ہے_[5]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایمان کے لحاظ سے کاملترین مومنین وہ ہیں کہ جن کے اخلاق بہتر ہوں_[6]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ '' قیامت کے دن نامہ اعمال میں کوئی چیز حسن خلق سے افضل نہیں رکھى جائیگی_[7]

ایک آدمى رسول خدا کى خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کى یا رسول اللہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' وہ آدمى اٹھا اور آپ(ص) کے دائیں جانب آیا اور عرض کى کہ دین کیا ہے؟ آپ(ص) نے فرمایا ''حسن خلق'' یعنى اچھا اخلاق_ پھر وہ گیا اور آپ کے بائیں جانب پلٹ آیا اور عرض کى کہ دین کیا ہے ؟ آپ(ص) نے اس کى طرف نگاہ کى اور فرمایا کیا تو نہیں سمجھتا؟ کہ دین یہ ہے کہ تو غصہ نہ کرے_[8]

اسلام کو اخلاق کے بارے میں خاص توجہہ ہے اسى لئے قرآن مجید میں اخلاق کے بارے میں احکام کى نسبت زیادہ آیات قرآنى وارد ہوئی ہیں یہاں تک کہ قرآن کے قصوں میں بھى غرض اخلاقى موجود ہے_ تمہیں احادیث میں اخلاق کے بارے ہزاروں حدیثیں ملیں گى اگر دوسرے موضوعات سے زیادہ حدیثیں نہ ہوئیں تو ان سے کمتر بھى نہیں ہیں_ اخلاق کے بارے میں ثواب اور خوشخبریاں جو ذکر ہوئی ہیں دوسرے اعمال کے ثواب سے کمتر نہیں ہیں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بیان ہوئی ہے وہ دوسرے اعمال سے کمتر نہیں ہیں_ اسى لئے اسلام کى بنیاد اخلاقیات پر تشکیل پاتى ہے_ مناسب نہیں کہ اسے دین کے احکام میں دوسرا درجہ دیا جائے اور دینداروں کے لئے آرائشے اور خوبصورتى کا درجہ دیا جائے اگر احکام میں امر اور نہى ہیں تو اخلاق میں بھى امر اور نہى موجود ہیں اور اگر احکام میں تشویق اور تخویف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق میں بھى یہى امور موجود ہیں_

پس احکام شرعى اور اخلاق میں کونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور کمال کے طالب ہیں تو اخلاقیات سے لاپرواہى نہیں برت سکتے ہم اخلاقى واجبات کو اس بہانے سے کہ یہ اخلاقى واجبات ہیں ترک کردیں اور اخلاقى محرمات کو اس بنا پر کہ یہ اخلاقى محرمات ہیں بجالاتے رہیں_ اگر نماز واجب ہے اور اس کا ترک کرنا حرام اور موجب سزا ہے تو عہد کا ایفا بھى واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھى سزا ہوگى پس ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

واقعى متدین اور سعادت مند وہ انسان ہے کہ جو احکام شرعیہ اور تکالیف الہى کا پابند ہو اور اخلاقیات کا بھى پابند ہو بلکہ سعادت اور کمال معنوى اور نفسانى میں اخلاقیات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جیسے کہ بعد میں ذکر کریں گے_

 

[1]- لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیاتِهِ وَ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إِنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ- آل عمران/ 164.
[2]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: علیکم بمکارم الاخلاق فانّ اللّه عز و جل بعثنى بها- بحار/ ج 69 ص 375.
[3]- عن النبى صلّى اللّه علیه و آله انه قال: انّما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق- مستدرک/ ج 2 ص 282.
[4]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: انّ اللّه تبارک و تعالى خصّ الانبیاء بمکارم الاخلاق، فمن کانت فیه فلیحمد اللّه على ذلک، و من لم یکن فلیتضرع الى اللّه و لیسئله- مستدرک/ ج 2 ص 283.
[5]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: لو کنّا لا نرجو جنة و لا نخشى نارا و لا ثوابا و لا عقابا لکان ینبغى لنا ان نطلب مکارم الاخلاق فانها مما تدلّ على سبیل النجاح- مستدرک/ ج 2 ص 283.
[6]- عن ابى جعفر علیه السّلام قال: انّ اکمل المؤمنین ایمانا احسنهم خلقا- کافى/ ج 2 ص 99.
[7]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: ما یوضع فى میزان امرئ یوم القیامة افضل من حسن الخلق- کافى/ ج 2 ص 99.
[8]- جاء رجل الى رسول اللّه علیه و آله من بین یدیه فقال: یا رسول اللّه ما الدین؟ فقال:
حسن الخلق. ثم اتاه من قبل یمینه فقال: یا رسول اللّه ما الدین؟ فقال: حسن الخلق. ثم اتاه من قبل شماله فقال: ما الدین؟ فقال: حسن الخلق. ثم اتاه من ورائه فقال: ما الدین؟ فالتفت الیه فقال: اما تفقه؟ هوان لا تغضب- محجة البیضاء/ ج 5 ص 89.