پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

انسانى ارزش

انسانى ارزش

انسان کى دو حیثیتیں اور دو وجود ہیں ایک وجود انسانى اور ایک وجود حیوانی_ انسان کى قدر اور قیمت انسانى وجود سے ہے اور حیوانى وجود سے نہیں ہے_ حیوانى وجود تو اس کا طفیلى ہے اور در حقیقت وہ کچھ بھى نہیں ہے_ گر چہ انسان حیوان تو ہے ہى اور اسے حیوانى وجود کے لئے اس کے لوازم زندگى حاصل کرنے کو اہمیت دینى بھى چاہئے_ لیکن انسان اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ حیوانى زندگى بسر کرے بلکہ انسان اس اس جہان میں اسلئے آیا ہے کہ وہ اپنى حیوانى زندگى سے انسان زندگى کى تکمیل کرے اور اس حیوانى زندگى سے انسان زندگى کا فائدہ حاصل کرے انسان دونوں انسانى حیوانى زندگى میں کئی ایک چیزوں کا محتاج ہوتا ہے کہ جن کے تقاضے خود اس کے وجود میں رکھ دیئے گئے ہیں_ اس لحاظ سے کہ وہ ایک حیوان ہے اور نامى ہے پانى غذا مکان لباس ہوا محتاج ہے تا کہ وہ زندہ رہے پانى اور غذا کا محتاج اور اس لحاظ سے کہ ان کو پورا کرے اسے تلاش اور کوشش کرنى ہوتى ہے_ بھوک پیاس لذت پانى اور غذا کى طلب یہ اس کے وجود میں رکھ دى گئی ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے کہ نسل انسانى باقى رہے جنسى غریزہ اور بیوى کى طرف میلان اس کے وجود میں رکھ دیا گیا ہے_ انسان اپنے باقى رہنے کا علاقمند ہوتا ہے زندگى کے باقى رکھنے میں حیوانى زندگى اور اس کے آثار کا پابند ہے جب غذا کو دیکھتا ہے اور بھوک کا احساس کرتا ہے تو غذا کھانے کى طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اپنے آثار سے کہتا ہے کہ مجھے غذا حاصل کرنى چاہئے اور اسے کھانا چاہئے اور اس کے حاصل کرنے میں کوئی مانع آڑے آرہا ہو تو اس سے مقابلہ کرتا ہے_ یقینا ایسا احساس پر انہیں ہے کیونکہ اپنى زندگى کے دوام کے لئے انسان کو کام کرنا چاہئے تا کہ کھائے اور پیئے_ اسلام میں نہ صرف اس سے روکا نہیںگیا بلکہ اس کى سفارش بھى کى گئی ہے_ لیکن اس مطلب کو بھى جاننا چاہئے کہ حیوانى زندگى اخروى زندگى کا مقابلہ اور تمہید ہے یہ خود انسان کى خلقت کى غرض نہیں ہے بلکہ یہ طفیلى ہے اصیل نہیں ہے_ اگر کسى نے حیوانى زندگى کو ہى اصل اور ہدف قرار دے دیا اور دن رات خواہشات و تمینات حیوانى زندگى میں لگا رہا اور اس کى کوشش اور تلاش کرتا رہا اور اپنى زندگى کا ہدف خورد و نوش پہننا اور آرام کرنا اور شہوت رانى اور غرائز حیوانى کا پورا کرنا قرار دے دیا تو وہ ضلالت اور گمراہى میں ہى جا پڑے گا_ کیونکہ اس نے ملکوتى روح اور عقل انسانى کو حاکمیت سے دور کر کے فراموشى کے خانے میں ڈال دیا ہے ایسے شخص کو انسان شمار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ایک حیوان ہے جو انسان کى شکل و صورت میں ہے_ اس کے پاس عقل ہے لیکن وہ ایسى دور ہوئی ہے کہ جس سے انسانى کمالات اور فضائل کو نہیں پہچان رہا وہ کان اور آنکھ رکھتا ہے لیکن حقایق اور واقعات کو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا_ قرآن ایسے انسان کو حیوان بلکہ اس سے بھى گمراہ تر جانتا ہے کیونکہ حیوان تو عقل ہى نہیں رکھتا لیکن ایسا شخص عقل رکھتا ہے اور نہیں سمجھتا _

قرآن مجید میں ہے کہ '' اے پیغمبر اگر تیرى دعوت کو قبول نہیں کرتے تو سمجھ لے کہ یہ لوگ اپنى خواہشات نفس کى پیروى کرتے ہیں اور کونسا شخص اس سے گمراہ تر ہے جو اللہ کى ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفس کى پیروى کرتا ہے اور اللہ تعالى ظالموں کو بھى ہدایت نہیں کر ے گا_[1] قرآن مجید فرماتا ہے _ کہ ''ہم نے بہت سے جنات اور انسان جہنم کے لئے پیدا کئے ہیں کہ وہ اپنے سوء اختیار سے جہنم میں جائیں گے_ اس واسطے کہ ان کے پاس دل تو ہو لیکن اس سے سمجھتے نہیں_ آنکھیں رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں_ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ جانوروں کى طرح ہیں بلکہ ان سے بھى گمراہ ترین یہ غافل ہیں_[2]

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' وہ شخص کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے با وجودیکہ وہ عالم ہے لیکن خدا نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہرلگادى ہے اور اس کى آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں آپ نے دیکھا؟ کہ سوائے خدا کے اسے کون ہدایت کرے گا؟ وہ کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتا_[3]

کون سا شخص اس سے بدبخت تر ہے جو ملکوتى نفس اور اپنى انسانى سعادت اور کمالات کو خواہشات نفس اور حیوانى زندگى پر قربان کر دیتا ہے؟ اور نفس انسانى کو حیوانى لذات کے مقابلے فروخت کر دیتا ہے؟

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''کہ خسارت میں وہ شخص ہے جو دنیا میں مشغول ہے اور اخروى زندگى کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے_[4]

آپ نے فرمایا '' اپنے نفس کو پست کاموں سے روکے رکھ گرچہ تجھے ان امور کى طرف رغبت ہى کیوں نہ ہو اس لئے کہ جتنا تو اپنے نفس کو اس میں مشغول رکھتا ہے اس کا تجھے کوئی عوض حاصل نہ ہوگا_

اپنے آپ کو دوسروں کا غلام نہ بنا جب کہ خدا نے تجھے آزاد خلق کیا ہے_ وہ خیر جو شر کے وسیلے سے حاصل ہو وہ خیر نہیں ہے اور گشایش حاصل نہیں ہوتى مگر سختى کے ذریعے سے_[5]

آپ نے فرمایا '' وہ برى تجارت ہے کہ جس میں تو اپنے نفس کو اس کى قیمت قراردے اور جو تیرا ثواب اور اجر اللہ کے ہاں موجود ہے اسے اس تجارت کا عوض قرار دے دے_[6]

انسان فقط حیوانى وجود کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک انسانى وجود بھى رکھتا ہے اسى حیثیت سے وہ جوہر مجرد اور ملکوتى موجود ہے جو عالم قدس سے آیا ہے اور حیوانی خواہشات کے علاوہ بھى ارزش رکھتا ہے _ اگر انسان اپنى باطنى ذات اور ملکوتى روح میں فکر کرے اور اپنے آپ کو خوب پہچانے اور مشاہدہ کرے کہ وہ عالم قدرت و کرامت علم و رحمت وجود نور و احسان خیر و عدالت خلاصہ عالم کمال سے آیا ہے اور اسى عالم سے سنخیت اور مناسب رکھتا ہے_ تو اس وقت انسان ایک اور دید سے ایک اور عالم کو دیکھے گا اور کمال مطلق کو نگاہ کرے گا اور اسى عالم کى صفات سے علاقمند ہوگا اور اس گران بہار سرمایہ کیوجہ سے اپنے حیوانیت کے پست مرتبے سے حرکت کرے گا تا کہ کمال کے مدارج کے راستے طے کرے اور مقام قرب الہى تک جاپہنچے یہ وہ صورت ہے کہ اس کے سامنے اخلاقى اقدر واضح ہوجائیں گى اگر اخلاق اقدار مثل علم احسان، خیر خواہی، ایثار، عدالت جو دو سخا محروم طبقے کى حمایت سچائی امانتدارى کا خواہشمند ہوا تو اس لحاظ سے اپنے آپ کو عالم کمال سے دیکھے گا اور ایسے مراتب اور اقدار کو اپنے انسانى بلند مقام کے مناسب پائیگا اور اسے اسى وجہ سے دوست رکھے گا یہاں تک کہ حاضر ہو گا کہ وہ حیوانى وجود اور اس کى خواہشات کو اس بلند مقام تک پہنچنے کے لئے قربان کر دے_

اخلاق اقدار اور مکارم روحانى اور معنوى جو ملکوتى روح انسان سے متناسب ہیں کہ ایک سلسلہ کا نام ہے اور انسان کمال تک پہنچنے کے لئے ان کى ضرورت کو محسوس کرتا ہے_

اور اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے انہیں انجام دینا چاہئے اور اخلاقى انجام دى جانے والى اشیاء کا سرچشمہ شرافت اور کرامت نفس ہوا کرتا ہے_ اور کمال روحانى اور بلندى مقام تک پہنچنے کے لئے بجا لایا جاتا ہے_ جب انسان یہ کہتا ہے کہ مجھے راہ حق میں ایثار کرنا چاہئے یعنى ایثار تکامل ذات اور بلندى مرتبے کے لئے فائدہ مند ہے اور ضرورى ہے کہ ایسے مرتبہ تک پہنچنا چاہئے_ معنوى کمالات تک پہنچنے کا راستہ صرف ایک ہے اور مقام انسان اس اقدار اور ان کى ضد کى پہچان میں مساوى خلق ہوئے ہیں_ اگر انسان اپنى محبوب اور پاک فطرت کى طرف رجوع کرے اور خواہشات اور ہوی نفس کو دور پھینک کر خوب غور و فکر کرے تو وہ اخلاقى فضائل اور اس کى قدر و قیمت اور اس کى ضد اسى طرح اخلاقى پستیاں اور رذائل اور اس کى اضداد کو پہچان لے گا اور اس میں تمام انسان تمام زمانوں میں ایسے ہى ہوا کرتے ہیں اور اگر بعض انسان اس طرح کى مقدس سوچ سے محروم ہیں تو اس کى وجہ انکى حیوانى خواہشات اور ہوى نفس کى تاریکى نے اس کے نور عقل پر پردہ ڈال رکھا ہوتا ہے_ قرآن مجید بھى فضائل اور رذائل کى پہچان اور شناخت کو انسان کا فطرى خاصہ قرار دیتا ہے جیسے فرماتا ہے کہ '' قسم نفس کى اور اس کى جس نے اسے نیک خلق کیا ہے اور انحراف اور تقوى کا اسے الہام دیا ہے جس نے اپنے نفس کى تربیت کى اسے پاک و پاکیزہ قرار دیا وہى کامیابى حاصل کرے گا اور جس نے اس کو گناہوں اور برے اخلاق سے آلودہ کیا وہ نقصان اٹھائے گا_[7]

پیغمبر(ص) اسى غرض کے لئے مبعوث ہوئے ہیں تا کہ انسان کى فطرت کو بیدار کریں اور اس کے اخلاقى ناآگاہ شعور کو آگاہى میں تبدیل کریں وہ آئے ہیں تا کہ انسان کے فضائل اور کمالات کے طریقوں کو پہچاننے کى طرف متوجہ کریں اور اس پر عمل کر کے مقام قرب الہى کو پانے اور مدارج کمال کو طے کرنے کى مدد اور راہنمائی فرمائیں_ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو انسانیت کے بلند مقام اور انسانى اقدار کى ضرورت اور انکى حفاظت اور زندہ رکھنے اور قدر و قیمت کى طرف متوجہ کریں_ وہ آئے ہیں تا کہ انسان کو یہ نقطہ سمجھائیں کہ تو حیوان نہیں ہے بلکہ تو انسان ہے اور فرشتوں سے بالاتر ہے_ دنیاوى امور اور حیوانى تظاہر تیرے ملکوتى بلند مقام کے شایان شان نہیں تو اپنے آپ کو اس کے عوض فروخت نہ کر_

امام سجاد سے پوچھا گیا کہ سب سے معزز ترین او رشریف ترین اور با اہمیت انسان کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ '' جو انسان دنیا کو اپنے لئے اہمیت نہ دے اور اس کو اپنے لئے خطرہ قرار نہ دے_[8]

اگر انسان اپنى انسان شخصیت کو پہچانے اور اپنى انسانى وجود کو قوى قرار دے اور فضائل اور کمالات کو اس میں زندہ کرے اور رذائل اور پستیوں پر قابو پائے تو اس وقت انسان کو یہ مجال نہ ہوگى کہ وہ انسانى اقدار کو ترک کردے اور رذائل کے پیچھے دوڑے مثلا سچائی کو چھوڑ دے اور جھوٹ کے پیچھے جائے امانت دارى کو چھوڑ دے اور خیانت کى طرف جائے_ عزت نفس کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ذلت وخوارى میں ڈالے احسان کو چھوڑ دے اور لوگ کو آزار اور تکلیف دینے کے پیچھے دوڑے_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جو شخص اپنے نفس کى عزت کرے اور اسے معزز قرار دے اس کى نگاہ میں خواہشات نفسانى ہیچ اور پست ہوں گی_''[9]

پیغمبروں کى ہمیشہ کوشش رہى ہے کہ انسان کى فطرت کو بیدار کریں تا کہ وہ اپنے اس گرانقدر وجود کے جوہر کو پہچانے اور اپنا تعلق اور ربط ذات خدا سے دریافت کر لے اور تمام چیزوں کو رضا اور قرب پروردگار کے حاصل کرنے میں صرف کرے یہاں تک کہ کھانا پینا سونا جاگنا بولنا کام کرنا مرنا جینا سب کے سب پاک او راخلاقى ہوں_ جب انسان اللہ کا بندہ ہوجائے تو پھر اس کى رضا کے حاصل کرنے کے لئے کوئی اور اس کى غرض و غایت نہ ہوگى اس کے تمام کام عبادت اور اخلاق اور ذى قدر ہونگے_قُلْ إِنَّ صَلاتِی وَ نُسُکِی وَ مَحْیایَ وَ مَماتِی لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ لا شَرِیکَ لَهُ وَ بِذلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ.[10]

اسى لئے اپنے آپ کو پہچاننا اسلام میں ایک خاص قدر و قیمت رکھتا ہے_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس کا پہچاننا سب سے زیادہ منفعت دار فائد ہے_[11] '' آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے اپنے آپ کو پہچانا اس کا کام بلند ہوگا_''[12]

اپنے آپ کو پہچاننے سے مراد شناختى کارڈ نہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ انسان اپنے واقعى مقام کو اس دنیا میں پہچانے اور جان لے کہ وہ فقط خاکى حیوان نہیں ہے بلکہ وہ عالم ربوبى کا عکس اور پرتو ہے اللہ کا خلیفہ اور اس کا امین ہے وہ ایک ملکوتى وجود ہے کہ جو دانا اور مختار اور آزاد خلق ہوا ہے تا کہ کمال غیر متناہى کى طرف سیر و سلوک کرے اور اپنى مخصوص خلقت کى وجہ سے اپنے آپ کو بنانے اور اس کی پرورش کرنے کا پابند ہے انسان اپنى اس شناخت کیوجہ سے شرافت اور کرامت کو محسوس کرتا ہے اور اپنے مقدس اور پرارزش وجود کو پہچانتا ہے اور کمالات اور فضائل اس کے لئے پر معنى اور قیمت پیدا کرلیتے ہیں اس صورت میں وہ نا امیدى اور بے فائدہ اور بیہودہ خلق ہونے سے نجات حاصل کر لیتا ہے پھر زندگى اس کے لئے پر بہا اور مقدس اور غرض دار اور خوشنما ہوجاتى ہے_

 


[1]- فَإِنْ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّما یَتَّبِعُونَ أَهْواءَهُمْ وَ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَیْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ- قصص/ 50.
[2]- وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ کَثِیراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا یَفْقَهُونَ بِها وَ لَهُمْ أَعْیُنٌ لا یُبْصِرُونَ بِها وَ لَهُمْ آذانٌ لا یَسْمَعُونَ بِها أُولئِکَ کَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِکَ هُمُ الْغافِلُونَ- اعراف/ 179.
[3]- أَ فَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ وَ أَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى‏ عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلى‏ سَمْعِهِ وَ قَلْبِهِ وَ جَعَلَ عَلى‏ بَصَرِهِ غِشاوَةً فَمَنْ یَهْدِیهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَ فَلا تَذَکَّرُونَ- جاثیه/ 23.
[4]- قال على علیه السّلام: المغبون من شغل بالدنیا و فاته حظه من الاخرة- غرر الحکم/ ج 1 ص 88.
[5]- قال على علیه السّلام: اکرم نفسک من کل دنیّة و ان ساقتک الى الرغائب، فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا و لا تکن عبد غیرک و قد جعلک اللّه حرّا و ما خیر خیر لا ینال الا بشرّ و یسر لا ینال الّا بعسر- نهج البلاغه صبحى صالح/ ص 401 کتاب 31.
[6]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: لبئس المتجر ان ترى الدنیا لنفسک ثمنا و ممالک عند اللّه عوضا- نهج البلاغه/ خطبه 32- 75.
[7]- وَ نَفْسٍ وَ ما سَوَّاها فَأَلْهَمَها فُجُورَها وَ تَقْواها، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاها وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها- شمس/ 7 تا 10.
[8]- قیل لعلى بن الحسین علیه السّلام: من اعظم الناس خطرا؟ قال: من لم یرى الدنیا خطرا لنفسه- تحف العقول/ ص 285.
[9]- قال على علیه السّلام: من کرمت علیه نفسه هانت علیه شهواته- نهج البلاغه/ قصار 449.
[10]- انعام/ 162.
[11]- قال على علیه السّلام: معرفة النفس انفع المعارف- غرر الحکم/ ص 768.
[12]- قال على علیه السّلام: من عرف نفسه جلّ امره- غرر الحکم/ ص 628.
امینى، ابراهیم، خودسازى (تزکیه و تهذیب نفس)، 1جلد، شفق - قم، چاپ: هشتم.