بزرگ شناسى و خودسازی
گرچہ انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ مختلف جہات اور اوصاف رکھتا ہے_ انسان کے وجود کا ایک مٹى کے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر یہ جوہر مجرد ملکوتى تک جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجید میںفرماتا ہے کہ '' خداوند وہ ہے کہ جس نے ہر چیز کو اچھا پیدا کیا ے اور انسان کو مٹى سے بنایا ہے اور اس کى نسل کو بے وقعت پانى یعنى نطفہ سے قرار دیا ہے پھر اس نطفہ کو اچھا اور معتدل بنایا ہے اور پھر اس میں اپنى طرف منسوب روح کو قرار دیا ہے اور تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل بنایا ہے اس کے باوجود تم پھر بھى بہت کم اس کا شکریہ ادا کرتے ہو_[1]
انسان مختلف مراتب اور جہات رکھتا ہے ایک طرف تو وہ ایک جسم طبعى ہے اور اس جسم طبعى کے آثار رکھتا ہے دوسرى طرف وہ جسم نامى ہے کہ وہ اس کے آثار بھى رکھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ایک حیوان ہے اور وہ حیوان کے آثار بھى رکھتا ہے لیکن بالاخرہ وہ ایک انسان ہے اور وہ انسانیت کے آثار بھى رکھتا ہے جو حیوانات میں موجود نہیں ہیں_
لہذا انسان ایک حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت وجود کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات کى حامل ہے_ جب یہ کہتا ہے کہ میرا وزن اور میرى شکل و صورت تو وہ اپنے جسم نامى ہونے کى خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرى شکل و صورت تو وہ اپنے جسم نامى ہونے کى حکایت کر رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حیوانى درجہ کى خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ میرا سوچنا اور عقل اور فکر تو وہ اپنے انسان اعلى درجہ کا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان کى میں اور خود مختلف موجود ہیں_ ایک جسمانى میں اور ایک میں نباتى اور ایک میں حیوانى اور ایک میں انسانى لیکن ان میں سے انسانى میں پر ارزش اور اصالت رکھتى ہے وہ چیز کہ جس نے انسان کو انسان بنایا ہے اور تمام حیوانات پر برترى دى ہے وہ اس کى روح مجرد ملکوتى اور نفخہ الہى ہے_
خداوند عالم انسان کى خلقت کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ٹى سے خلق کیا ہے پھر اسے نطفہ قرار دیا ہے اور اسے ایک مضبوطہ جگہ رحم مادر میں قرار دیا ہے اور پھر نطفہ کو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ کو نرم گوشت بنایا ہے اور پھر نرم گوشت کو ہڈیاں بنایا ہے پھر ان ہڈیوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس میں روح مجرد ملکوتى کو پھونکا ہے جس سے اسے ایک نئی مخلوق بنایا ہے_ شاباش اس کامل قادر پر جو بہترین خلق کرنے والا ہے_[2]
انسان کى خلقت کے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارک اللہ احسن الخالقین اسى ملکوتى روح کى وجہ سے انسان کایک ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم کى طرف سے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ '' میں نے آدم (ع) کو پیدا کیا ہے اور اس روح کو جو میرى طرف نسبت رکھتى ہے اس میں پھونکا ہے لہذا تم سب اس کى طرف سجدہ کرو_[3]
اگر انسان تعظیم کا مورد قرار پایا ہے اور خدا نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو محترم قرار دیا ہے اور انہیں خشکى اور سمندر میں سوار کیا ہے اور ہر قسم کى پاکیزہ اور لذیذ غذا اس کى روزى قرار دى ہے اور اپنى بہت سى مخلقو پر اسے برترى دے ہے[4] تو یہ سب اسى روح ملکوتى کے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازى یعنى اپنے آپ کو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنى انسانى میں کو سنوارے اور تربیت دے نہ وہ اپنى حیوانى میں یا جسمانى میں کى پرورش کرے پیغمبروں کى غرض بعثت بھى یہى تھى کہ انسان کو خودسازى اورجنبہ انسانى کى پرورش میں اس کى مدد کریں اور اسے طاقت فراہم کریں_ پیغمبر(ص) انسانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے انسانى میں کو فراموش نہ کرو اور اگر تم نے اپنے انسانى خود اور میں کو خواہشات حیوانى پر قربانى کر دیا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصیب میں آجائیگا_
خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے '' اے پیغمبر_ ان سے کہہ دے کہ نقصان میں وہ اشخاص ہیں جو اپنے نفس انسانى اور اپنے اہل خانہ کے نفوس کو قیامت کے دن نقصان میں قرار دیں اور یہ بہت واضح اور کھلا ہوا نقصان ہے_[5]
جو لوگ حیوانى زندگى کے علاوہ کسى دوسرے چیز کى سوچ نہیں کرتے در حقیقت وہى لوگ ہیں جنہوں نے انسانى شخصیت کو کھو دیا ہوا ہے کہ جس کى تلاش میں وہ کوشش نہیں کرتے_
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''میں اس شخص سے تعجب کرتا ہوں کہ ایک گم کى ہوئی چیز کى تلاش تو کرتا ہے جب کہ اس نے اپنے انسانى روح کو گم کیا ہوا ہے اور اس کے پیدا کرنے کے درپے نہیں ہوتا_[6] اس سے بدتر اور دردناک تر کوئی نقصان نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنى انسانى اور واقعى اور حقیقى شخصیت کو کھو بیٹھے ایسے شخص کے لئے سوائے حیوانیت کے اور کچھ باقى نہیں رہے گا_
[1]- الَّذِی أَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهُ وَ بَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِینٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ ماءٍ مَهِینٍ ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِنْ رُوحِهِ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ الْأَفْئِدَةَ قَلِیلًا ما تَشْکُرُونَ- سجدة/ 7.
[2]- وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِینٍ. ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِی قَرارٍ مَکِینٍ- ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَکَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً. ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ، فَتَبارَکَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِینَ- مؤمنون/ 12- 14.
[3]- فَإِذا سَوَّیْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ ساجِدِینَ- حجر/ 29.
[4]- وَ لَقَدْ کَرَّمْنا بَنِی آدَمَ وَ حَمَلْناهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْناهُمْ مِنَ الطَّیِّباتِ وَ فَضَّلْناهُمْ عَلى کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِیلًا- اسراء/ 70.
[5]- قُلْ إِنَّ الْخاسِرِینَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَ أَهْلِیهِمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ أَلا ذلِکَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِینُ- زمر/ 15.
[6]- قال على علیه السّلام: عجبت لمن ینشد ضالته و قد اضلّ نفسه فلا یطلبها- غرر الحکم/ ص 495.