روح انسانى اور نفس حیوانی
جو روایات اور آیات روح اور نفس انسانى کى بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ د و
قسم پر ہیں ایک قسم نفس انسانى کو ایک در بے بہا اور شریف ملکوتى کہ جو عالم ربوبى سے آیا ہے اور فضائل اور کمالات انسانى کامنشا ہے بیان کرتى ہیں اور انسان کو تاکید کرتى ہیں کہ ایسے کمالات اور جواہر کى حفاظت اور نگاہ دارى اور تربیت اور پرورش میں کوشش کرے اور ہوشیار رہے کہ ایسے بے بہا در کو ہاتھ سے نہ جانے دے کہ اس سے اسے بہت زیاد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے کے طور پر قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' اے محمد (ص) آپ سے روح کى حقیقت کا سوال کرتے ہیں ان کے جواب میں کہہ دے کہ یہ پروردگار کے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہیں دیا گیا ہے وہ بہت ہى تھوڑا ہے_[1]
اس آیت میں روح کو ایک موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار دیا ہے_
امیرالمومنین علیہ السلام نے روح کے بارے میں فرمایا ہے کہ ''روح ایک در بے بہا ہے جس نے اس کى حفاظت کى اسے وہ اعلى مرتبہ تک پہنچائیگا اور جس نے اس کى حفاظت میں کوتاہى کى یہ اسے پستى کى طرف جائیگا_[2]
آپ نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص نے اپنى روح کى قدر پہچانى وہ اسے پست اور فانى کاموں کے بجالانے کى طرف نہیں لے جائی گی_[3]
آپ نے فرمایا ''جس شخص نے روح کى شرافت کو پالیا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمینات سے حفاظت کردے گی_[4]
''روح جتنى شریف ہوگى اس میں اتنى زیادہ مہربانى ہوگی_[5]
آپ نے فرمایا کہ '' جس کا نفس شریف ہوگا وہ اسے سوال کرنے کى خوارى سے پاک کردے گا_[6]
اس قسم کى آیات اور روایات کے بہت زیادہ نمونے موجود ہیں_ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانى ایک بیش بہا قیمتى در ہے کہ جس کى حفاظت و نگاہ دارى اور تربیت کرنے میں کوشش کرنى چاہئے_
دوسرى قسم کى روایات وہ ہیں کہ جس میں نفس انسانى کو ایک انسان کا سخت دشمن
تمام برائیوں کا مبدا بتلایا گیا ہے لہذا اس سے جنگ کى جائے اور اسے سرکوب کیا جائے ور نہ وہ انسان کے لئے بدبختى اور شقاوت کے ا سباب مہیا کردے گا_ نمونے کے طور پر جیسے قرآن مجید میں آیا ہے کہ '' جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس کو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس کى جگہ جنت ہے_([7]
قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ '' میں اپنے نفس کو برى قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ ہمیشہ برائیوں کى دعوت دیتا ہے مگر جب خدا رحم کرے_[8]
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بدترین دشمن وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود ہے_[9]
حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''نفس ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے جو شخص اسے امین قرار دے گا وہ اس سے خیانت کرے گا جس نے اس پر اعتماد کیا وہ اسے ہلاکت کى طرف لے جائیگا، جو شخص اس سے راضى ہوگا وہ اسے بدترین موارد میں وارد کردےگا_[10]
نیز آپ نے فرمایا '' نفس پر اطمینان کرنا شیطان کے لئے بہترین اور مضبوط موقعہ ہوا کرتا ہے_[11]
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اے پروردگار کہ میں آپ سے نفس کى شکایت کرتا جو ہمیشہ برائی کى دعوت دیتا ہے اور گناہ اور خطاء کى طرف جلدى کرتا ہے او ربرائی سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ کو تیرے غضب کا مورد قرار دیتا ہے اور مجھے ہلاکت کے راستوں کى طرف کھینچتا ہے_[12]
اس قسم کى آیات اور روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس ایک ایسا موجود ہے جو شریر اور برائیوں کا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے کہ جہاد کر کے اس کى کوشش کو سرکوب کیا جائے_
ممکن ہے کہ بعض لوگ تصور کریں کہ ان دو قسم کى آیات اور روایات میں تعارض اور تزاحم واقع ہے یا خیال کریں کہ انسان میں دو نفس اور روح ہیں کہ ایک اچھائیوں کامنبع ہے اور دوسرا نفس حیوانى ہے جو برائیوں کا سرچشمہ ہے لیکن یہ دونوں تصور اور خیال غلط ہیں_ پہلے تو ان دو قسم میں تعارض ہى موجود نہیں ہے دوسرے علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کى ایک حقیقت ہے اور ایک روح ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ انسانیت اور حیوانیت انسان میں ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہوں_
بلکہ نفس انسانى میں دو مرتبے اور دو وجودى حیثیت ہیں نیچے اور پست مرتبے میں وہ ایک حیوان ہے کہ جس میں حیوان کے تمام آثار اور خواص موجود ہیں اور ایک اعلى مرتبہ ہے کہ جس میں وہ ایک انسان ہے اور وہ نفخہ الہى اور عالم ملکوت سے آیا ہے_
جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس شریف اور قیمتى اور اچھائیوں کا مبدا ہے اس کے بڑھانے اور پرورش اور تربیت میں کوشش کرنى چاہئے یہ اس کے اعلى مرتبے کى طرف اشارہ ہے اور جب یہ کہا گیا ہے کہ نفس تیرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ کرو تجھے ہلاکت میں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور کوشش کر کے قابو میں رکھ یہ اس کے پست مرتبے کى طرف اشارہ ہے یعنى اس کى حیوانیت کو بتلایا گیا ہے_ جب کہا جاتا ہے کہ نفس کى تربیت اور پرورش کر اس سے مراد انسانى مرتبہ ہوتا ہے اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کو سرکوب اور مغلوب کر دے تو اس سے مقصود اس کا پست حیوانى مرتبہ ہوتا ہے_
ان دو مرتبوں اور دو حیثیتوں اور دو وجودوں میں ہمیشہ کشمکش اور جنگ رہتى ہے_ حیوانى مرتبہ کى ہمیشہ کوشش رہتى ہے کہ اپنى خواہشات اور تمینات کو پورا کرنے میں لگا رہے اور قرب الہى اور ترقى اور تکامل سے نفس انسانى کو روکے رکھے اور اسے اپنا غلام بنائے رکھے اس کے برعکس نفس انسانى اور مرتبہ عالى وجود انسانى ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے کہ کمالات انسانى کے اعلى مراتب طے کرے اور قرب الہى کى مقام پر فائز ہوجائے اس مقام تک پہنچنے کے لئے وہ خواہشات اور تمایلات حیوانى کو قابو میں کرتا ہے اور اسے اپنا نوکر اور غلام بنا لیا ہے اس کشمکش اورجنگ میں ان دو سے کون دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے اگر روح انسان اور ملکوتى نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر انسانى اقدار زندہ ہوجائیں گى اور انسان قرب الہى کے بلند مرتبے اور قرب الہى تک سیر و سلوک کر تا جائیگا اور اگر روح حیوانى اور حیثیت بہیمى نے غلبہ حاصل کر لیا تو پھر عقل کا چراغ بچھ جائیگا اور وہ اسے گمراہى اور ضلالت کى وادى میں دھکیل دے گا اسى لئے پیغمبر آئے ہیں کہ انسان کو اس مقدس جہاد اورجنگ میں حتمى اور یقینى مدد میں_
[1]- وَ یَسْئَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَ ما أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا- اسراء/ 85.
[2]- قال على علیه السّلام: ان النفس لجوهرة ثمینة من صانها رفعها و من ابتذلها وضعها- غرر الحکم/ ص 226.
[3]- قال على علیه السّلام: من عرف نفسه لم یهنها بالفانیات- غرر الحکم/ ص 669.
[4]- قال على علیه السّلام: من عرف شرف معناه صانه عن دنائة شهوته و زور مناه- غرر الحکم/ ص 710.
[5]- قال على علیه السّلام: من شرفت نفسه کثرت عواطفه- غرر الحکم/ ص 638.
[6]- قال على علیه السّلام: من شرفت نفسه نزّهها عن ذلّة المطالب- غرر الحکم/ ص 669.
[7]- وَ أَمَّا مَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوى- نازعات/ 41.
[8]- وَ ما أُبَرِّئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا ما رَحِمَ رَبِّی- یوسف/ 53.
[9]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: اعدى عدوک نفسک التى بین جنبیک- بحار/ ج 70 ص 64.
[10]- قال على علیه السّلام: انّ النفس لامّارة بالسوء فمن ائتمنها خانته و من استنام الیها اهلکته و من رضى عنها اوردته شرّ الموارد- غرر الحکم/ ص 226.
[11]- قال على علیه السّلام: الثقة بالنفس من اوثق فرص الشیطان- غرر الحکم/ ص 54.
[12]- قال على بن الحسین علیه السّلام فى دعائه: الهى الیک اشکو نفسا بالسوء امّارة و الى الخطیئة مبادرة و بمعاصیک مولعة و لسخطک متعرضة تسلک بى مسالک المهالک- بحار/ ج 94 ص 143.