پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

باطنى زندگي

باطنى زندگی

انسان اس دنیا میں ایک ظاہرى زندگى رکھتا ہے کہ جو اس کے جسم اور تن سے مربوط ہے_ کھتا ہے ، پیتا ہے، سوتا ہے، چلتا ہے، اور کام کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ باطن میں ایک نفسانى زندگى بھى رکھتا ہے، اس حالت میں وہ دنیا میں زندگى کرتا ہے_ باطن میں وہ کمال اور سعادت اور نورانیت کى طرف بھى سیر و سلوک کرتا ہے یا تو وہ بدبختى اور شقاوت اور تاریکى کى طرف جا رہا ہوتا ہے یا وہ انسانیت کے سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا ہوتا ہے اور تاریک وادى اور حیوانیت کے پست درجہ میں غلطاں ہوتا ہے یا وہ کمال کے مدارج طے کر کے نور اور سرور و کمال و جمال کے راستے طے کرتا ہے یا وہ عذاب اور تاریکى میں گر رہا ہوتا ہے گرچہ اکثر لوگ اس باطنى زندگى سے غافل ہیں لیکن وہ حقیقت اور واقعیت رکھتى ہے_

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ '' وہ ظاہرى دنیاوى زندگى کا علم تو رکھتے ہیں لیکن اخروى زندگى جو باطنى ہے سے غافل ہیں_[1]

کسى چیز کا جان لینا یا نہ جاننا واقعیت میں موثر نہیں ہوتا_ قیامت کے دن جب انسان کى آنکھ سے مادیت کے سیاہ پردے اٹھا لیئے جائیں گے تو اس وقت وہ اپنى واقعیت اور اپنے آپ کو پہچانے گا_

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' قیامت کے دن انسان سے کہا جائیگا کہ تو دنیا میں اس امر سے غافل تھا لیکن آج تیرى آنکھیں تیز بین ہوچکى ہیں_[2]

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروى امراسى دنیا میں انسان کى ذات میں موجود ہیں لیکن انسان ان سے غافل ہے لیکن آخرت میں جب غفلت کے پردے ہٹا لے جائیں گے تو اس وقت ان تمام امور کا مشاہدہ کرے گا_

آیات او رآیات سے یوں مستفاد ہوتا ہے کہ انسان کا نفس اس جہان میں کئی ایک چیزوں کو بجالاتا ہے اور جن چیزوں کو وہ بجالاتا ہے وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتى ہیں جو آخرت میں اس کى زندگى کا ماحصل اور نتیجہ آور ہوتى ہیں_

خداوند ارشاد فرماتا ہے کہ '' ہر نفس اس عمل کے مقابلے میں گروى ہے جو وہ بجا لاتا ہے_[3]

ارشاد فرماتا ہے '' ہر نفس نے جو کچھ انجام دیا ہے اسے پورا کا پورا ملے گا_[4]

خداوند فرماتا ہے کہ ''ہم کس کو اس کى قدرت سے زیادہ حکم نہیں دیتے_ انسان نے جو اچھائیں انجام دى ہیں وہ اسى کے لئے ہوں گى اور تمام برائیاں بھى اس کے اپنے نقصان کے لئے ہوں گی_[5]

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' ہر نفس جو خوبیاں انجام دى ہیں وہ اس کے سامنے حاضر ہوں گى اسى طرح جو برائی انجام دى ہے وہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کے اور برے کام کے درمیان فاصلہ ہوتا_[6]

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ '' جو شخص نیک عمل انجام دیتا ہے وہ اپنے لئے انجام دیتا ہے اور جوشخص برے کام انجام دیتا ہے وہ اس کے لئے زیان آور ہونگے پھر تم سب اللہ کى طرف لوٹ آوگے_[7]

خداوند عالم فرماتا ہے ''جو شخص ذرہ برابر اچھے کام انجام دیتا ہے وہ انہیں قیامت کے دن دیکھے گا اور جو شخص ذرہ برابر برے کام انجام دیتا ہے وہ ان کو بھى دیکھے گا_'[8]

'خداوند فرماتا ہے '' انسان کے لئے نہیں ہوگا مگر وہ جسے تلاش اور حاصل کرتا ہے اور وہ اپنى کوشش اور تلاش کو عنقریب دیکھے گا_[9]

خدا فرماتا ہے '' جو اچھائی تم نے آگے اپنے لئے بھیجى ہے اسے اللہ کے پاس تم پاؤ گے_[10]

خدا فرماتا ہے کہ '' جس دن مال اور اولاد تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے مگر وہ جو سالم قلب کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے_[11]

پیغمبر علیہ السلام نے اپنے ایک صحابى سے فرمایا ''اے قیس تو مجبور ہے کہ اپنے لئے کوئی ساتھى بنائے جو قبر تیرے ساتھ ہوگا وہ ساتھى زندہ ہوگا اور تو اس کے ساتھ دفن ہوگا اگر تو تیرا ساتھى اچھا اور عمدہ ہوا تو وہ تیرى عزت کرے گا اور اگر وہ پست اور برا ہوا تو وہ تجھے بھى پست اور ذلیل کرے گا تو قیامت میں اسى ساتھى کے ساتھ محشور ہوگا اور تجھے اس کے متعلق پوچھا جائے گا پس کوشش کر کہ تو اپنا نیک ساتھى اپنے لئے اختیار کرے کہ اگر وہ نیک اور صالح ہوا تو وہ تجھ سے انس و محبت کرے گا اور اگر ساتھى برا ہوا تو تجھے اس سے وحشت اور عذاب کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اور وہ تیرا ساتھى تیرا عمل ہے_[12]

انسان اس دنیا میں اخروى زندگى کے لئے اپنے نفس کى تربیت کرنے میں مشغول رہتا ہے اور عقائد اور افکار اور ملکات اور عادات محبت علاقمندى اور مانوس چیزوں کى طرف توجہات اوروہ کام جو روح انسانى پر اثر انداز ہوتے ہیں تدریجا ان سے ساختہ پرداختہ اور پرورش پاتا ہے انسان کس طرح بنے ان چیزوں سے مربوط ہوتا ہے_ معارف عقائد صحیح فضائل، مکارم اخلاق محبت اور خدا سے پیوند توجہہ اور اللہ سے انس خدا کى اطاعت اور اس کى رضایت کا حصول اور وہ نیک کام بجالانا کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے یہ انسان کى ملکوتى روح کو مدارج کمال تک پہنچاتے ہیں_ اور مقام قرب الہى تک لے جاتے ہیں_ انسان اسى جہان میں ایمان اور اعمال صالح کے سبب ایک پاکیزہ اور جدید زندگى حاصل کرتا ہے جو آخرت کے جہاں میں ظاہر اور آشکار ہوگی_

خداوند قرآن میں فرماتا ہے '' جو بھى مرد یا عورت نیک کام انجام دے جب کہ ایمان بھى رکھتا ہو تو ہم اسے پاک اور عمدہ زندگى میں زندہ کریں گے_[13]

انسان اسى دنیا میں علاوہ ان نعمتوں کے کہ جن سے اس کا جسم لذت حاصل کرتا ہے وہ اخروى نعمت سے بھى بابہرہ ہو سکتا ہے اور ان کے ذریعے روح اور نفس کى پرورش بھى کر سکتا ہے اور اپنى معنوى اور اخروى زندگى کو بھى بنا سکتا ہے کہ جس کا نتیجہ آخرت کے جہان میں ظاہر ہوگا_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''خدا اپنے بندوں سے فرماتا ہے اے میرے دوست بندے دنیا میں عبادت کى نعمت سے فائدہ حاص کرو تا کہ اسى سے آخرت کے جہان میں فائدہ حاصل کر سکو_[14]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اللہ کا دائمى ذکر کرنا روح کى عذاب ہے_[15]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''اللہ کے ذکر کو فراموش نہ کرو کیونکہ وہ دل کا نور ہے_[16]

انسان کے لئے بہشت اور بہشتى نعمتیں جہنم اور جہنم کے عذاب عقائد اخلاق اور اعمال کے ذریعے سے ہى اسى دنیا میں بنتے ہیں گرچہ انسان اس سے غافل ہے لیکن آخرت کے جہان میں یہ سب حقیقت واضح ہوجائیگى _ امام سجاد علیہ السلام نے ایک بحیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ '' متوجہہ رہو جو بھى اولیاء خدا سے دشمنى کرے اور خدا کے دین کے علاوہ کسى دین کو اپنائے اور ولى خدا کے حکم کو پس پشت ڈالے اور اپنى راى اور فکر پر عمل کرے وہ شعلہ ور آگ میں ہوگا کہ جو جسم کو کھا جائیگى وہ بدن کے جنہوں نے اروح کو اپنے سے خالى کیا ہوا ہے اور بدبختى نے ان پر غلبہ کیا ہوا ہے یہ وہ مردے ہیں جو آگ کى حرارت کو محسوس نہیں کرتے اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ درد اور آگ کى حرارت کومحسوس کرتے _ اے صحابان بصیرت عبرت حاصل کر اور اللہ کا شکریہ ادا کرو کہ خداوند عالم نے تمہیں ہدایت کى ہے_[17]

خداوند عالم فرماتا ہے '' جو لوگ یتیموں کا مال ظلم اور ناحق سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور یہ آگ عنقریب شعلہ ور ہوگی_[18]

انسان اس دینا میں آخرت کے لئے نور و بصیرت فراہم کرتا ہے اور یا ظلمت اور تاریکى اگر اس دنیا میں اندھا اور بے نور ہوا تو آخرت میں بھى اندھا اور بے نور محشور ہوگا خدا فرماتے ہے جو شخص اس دنیا میں اس کے دل کى آنکھ اندھى ہے وہ آخرت میں بھى اندھا اور گمراہ محشور ہوگا_[19]

علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نجف اشرف میں ایک شخص عابد زاہدانہ زندگى بسر کرتا تھا کہ جسے شیخ عبود کہا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ وہ ولى خدا اور اہل سیر و سلوک تھے ہمیشہ ذکر اور عبادت میں مشغول رہتے تھے کبھى قبرستان وادى السلام جاتے اور کئی گھنٹوں تک گوشہ و کنار میں بیٹھے رہتے تھے اور فکر کیا کرتے تھے اور کبھى ٹوٹى ہوئی قبروں میں چلتے اور نئی قبر کو با دقت ملاحظہ کرتے تھے ایک دن جب قبرستان میں سے واپس لوٹ رہے تھے کہ کئی ایک آدمیوں سے ان کى ملاقات ہوگئی اور انہوں نے ان سے ان کى احوال پرسى کى اور پوچھا اے شیخ عبودى وادى السلام نے کیا خبر تھی؟ اس نے کہا کہ کوئی تازہ خبر نہ تھى _ جب انہوں نے اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عجیب چیز دیکھى ہے کہ میں نے جتنا پرانى قبروں کو دیکھا ہے ان میں سانپ بچھو اور عذاب کى علامتیں نہیں دیکھیں_ میں نے ان میں سے ایک قبر والے سے سوال کیا (روایات میں آیا ہے کہ میت قبر میں سانپ اور دوسرى موذى چیزوں سے عذاب دیا جاتا ہے لیکن میں تو آپ کى قبروں میں سانپ اور عقرب کو نہیں دیکھ رہا_ قبر والے نے جواب دیا ٹھیک ہے کہ سانپ اور بچھو ہمارى قبروں میں نہیں لیکن تم خود ہو کہ دنیا سے سانپ اور بچھو اپنے ساتھ لے آتے ہو اور یہاں ان سے عذاب دیئے جاتے ہو_

انسانى باطنى اور نفسانى زندگى ایک حقیقى اور واقعى زندگى ہوا کرتى ہے انسان اپنى باطنى ذات میں ایک واقعى راستہ طے کرتا ہے یا وہ سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے او ر یا بدبختى اور ہلاکت لے جاتا ہے وہ واقعى ایک حرکت اور سیر کر رہا ہے اور عقائد اور اخلاق اور اعمال سے انسان مدد حاصل کرتا ہے_

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو شخص بھى عزت چاہتا ہے _ تمام عزت خدا کے لئے اور اچھے کلمات اور(پاک نفوس) خدا کے لئے صعود کرتے ہیں اور عمل صالح کو خدا اوپر لے جاتا ہے _[20]''

نفس کا فعلى ہونا کوشش اور کام کرنے کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے_ عقائد اور اخلاق اور ملکات اور خصائل اور ہمارے اعمال سے وہ بنتا ہے جو آخرت کے جہان میں اچھا یا برا نتیجہ جا کر ظاہر ہوتا ہے_

 


[1]- یَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ هُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غافِلُونَ-. روم/ 7
[2]- لَقَدْ کُنْتَ فِی غَفْلَةٍ مِنْ هذا فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیدٌ- ق/ 22.
[3]- کُلُّ نَفْسٍ بِما کَسَبَتْ رَهِینَةٌ- مدثر/ 38.
[4]- ثُمَّ تُوَفَّى کُلُّ نَفْسٍ ما کَسَبَتْ وَ هُمْ لا یُظْلَمُونَ- آل عمران/ 161.
[5]- لا یُکَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها لَها ما کَسَبَتْ وَ عَلَیْها مَا اکْتَسَبَتْ- بقره/ 286.
[6]- یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَراً وَ ما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَیْنَها وَ بَیْنَهُ أَمَداً بَعِیداً- آل عمران/ 30.
[7]- مَنْ عَمِلَ صالِحاً فَلِنَفْسِهِ وَ مَنْ أَساءَ فَعَلَیْها ثُمَّ إِلى‏ رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ- جاثیه/ 15.
[8]- فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَهُ وَ مَنْ یَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَرَهُ- زلزال/ 7.
[9]- وَ أَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى‏ وَ أَنَّ سَعْیَهُ سَوْفَ یُرى‏- نجم/ 39.
[10]- وَ ما تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ- بقره/ 11.
[11]- یَوْمَ لا یَنْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ- شعراء/ 85.
[12]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: یا قیس! لا بدّ لک من قرین یدفن معک و هو حىّ و تدفن معه و انت میت فان کان کریما اکرمک و ان کان لئیما الأمک ثمّ لا یحشر الّا معک و لا تحشر الّا معه و لا تسأل الّا عنه فلا تجعله الّا صالحا فانه ان صلح آنست به و ان فسد لا تستوحش الّا منه و هو فعلک- جامع السعادات/ ج 1 ص 17.
[13]- مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثى‏ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیاةً طَیِّبَةً- نحل/ 97.
[14]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: قال اللّه تبارک و تعالى: یا عبادى الصدیقین تنعّمو بعبادتى فى الدنیا فانکم تنعمون بها فى الاخرة- بحار الانوار/ ج 70 ص 253.
[15]- قال على علیه السّلام: مداومة الذکر قوت الارواح- غرر الحکم/ ص 764.
[16]- قال على علیه السّلام: علیک بذکر اللّه فانه نور القلوب- غرر الحکم/ ص 479.
[17]- قرة العیون- تألیف مرحوم فیض/ ص 466.
[18]- الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوالَ الْیَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیراً- نساء/ 100.
[19]- مَنْ کانَ فِی هذِهِ أَعْمى‏ فَهُوَ فِی الْآخِرَةِ أَعْمى‏ وَ أَضَلُّ سَبِیلًا- اسراء/ 72.
[20]- مَنْ کانَ یُرِیدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِیعاً إِلَیْهِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهُ- فاطر/ 10.