پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تقوى تزكيہ نفس كا اہم عامل

تقوى تزکیہ نفس کا اہم عامل

 

اسلام میں تقوى کو ایک بہت اہم مقام حاصل ہے_ مومنین میں سے متقیوں کو ممتاز شمار کیا جاتا ہے_ تقوى کى لفظ قرآن مجید نہج البلاغہ اور احادیث کى کتابوں خاص طور پر نہج البلاغہ میں بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے_ قرآن انسان کى شرافت اور قیمت کا معیار تقوى کو قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ محترم اور معزز وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور متقى ہو_ [1]

تقوى کو آخرت کے لئے بہترین زاد راہ اور سعادت کا بہت بڑا وسیلہ بتلایا گیا ہے

قرآن مجید میں آیا ہے کہ ''تم اپنى آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کرو قرآن مجید میں آیا ہے کہ تم اپنى آخرت کے لئے زاد راہ حاصل کرو اور بہترین زاد راہ تقوى ہے_ [2]

نیز فرماتا ہے '' جو لوگ نیک اور تقوى رکھتے ہیں ان کے لئے بہت بڑى جزاء ہوگی_[3]

اور پھر فرمایا ہے_ کہ '' جس نے تقوى اختیار کیا اور اچھے کام انجام دیئے اس کے لئے کوئی خوف و ہراس نہیں ہے_ [4] اللہ تعالى فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالى کى مغفرت کى طرف جلدى کرو اور بہشت کى طرف جلدى کرو کہ جس کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے اور جو متقیوں کے لئے آمادہ کى گئی ہے_[5]

اور فرماتا ہے کہ ''متقى بہشت میں اور نعمت میں زندگى کرتے ہیں اور ان نعمتوں سے کہ جو اللہ تعالى نے انہیں عطا کى ہیں خوش اور خرم ہیں_ [6]

اسى طرح نہج البلاغہ اور احادیث کى کتابوں میں تقوى کو اخلاق کا سردار اور سعادت حاصل کرنے کا بزرگترین وسیلہ بتلایا گیا ہے جیسے_

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''تقوى کو تمام اخلاق کا راس ورئیس قرار دیا گیا ہے_ [7]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' ایک صفت ایسى ہے جو اسے نہ چھوڑے اور پکڑے رکھے تو اس کے اختیار میں دنیا اور آخرت ہوگى اور وہ بہشت حاصل کرلے گا_ آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ_ وہ صفت کونسى ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تقوى ہے_ جو شخص چاہتا ہے کہ تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہو تو تقوى کو اپنا پیشہ بنائے آپ نے اس کے بعد یہ آیت پڑھى کہ جو شخص تقوى کو اپنا پیشہ قرار دے تو خداوند عالم اس کے لئے گشائشے قرار دے دیگا اور اس کے لئے روزى وہاں سے دے گا کہ جس کا اسے گمان تک نہ ہوگا_ [8]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''تقوى کو ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ وہ تمام خوبیوں اور خیرات کا جامع ہے_ سوا_ے تقوى کے کوئی اچھائی وجود نہیں رکھتى جو اچھائی تقوى کے ذریعے حاصل ہوتى ہے تقوى کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتى خواہ وہ دنیا کى اچھائی اور نیکى ہو یا آخرت کی_ [9]

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر کام کى شرافت اور قیمت تقوى کے واسطے سے ہوتى ہے صرف متقى سعادت اور نجات کو حاصل کرتے ہیں_ اللہ تعالى فرماتا ہے کہ تحقیق سعادت اور نجات صرف متقیوں کے لئے ہے_[10]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خدا کے بندو_ آگاہ رہو کہ دنیا اور آخرت کى نعمتیں صرف متقى حاصل کرتے ہیں_ دنیاداروں کے ساتھ دنیا کى نعمتوں سے استفادہ کرنے میں شریک ہوتے ہیں لیکن دنیاداروں کے ساتھ آخرت کى نعمتوں میں شریک نہیں ہوتے_ بہترین طریقے سے دنیا میں زندگى کرتے ہیں اور بہترین طریقے سے کھانے والى چیزوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں_ متقى انہیں نعمتوں سے کہ جن سے مالدار اور سرکش اورمتکبر استفادہ کرتے ہیں وہ بھى استفادہ کرتے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ زاد راہ اور منافع لیکر آخرت کے جہان کى طرف منتقل ہوتے ہیں_ دنیا میں زہد کى لذت کو حاصل کرتے ہیں اور علم رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالى کى رحمت کے جوار میں زندگى کریں گے اور جو کچھ خدا سے چاہئیں گے دیئے جائیں گے اور ان کا لذات سے بہرور ہونا ناقص نہیں ہوگا_ [11]

بعض احادیث میں تقوى کو نفس کے پاک کرنے اور نفس کى بیماریوں کو شفا دینے والا قرار دیا گیا ہے امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں_ ''یقینا تقوى تمہارے دل کى بیماریوں کا شفا دینے والا دارو ہے اور تمہارے نابینا دل کو روشنى دینے والا ہے اور تمہارے بدن کى بیماریوں کے لئے شفا بخش ہے اور تمہارے سینے کے فساد کا اصلاح کرنے والا ہے اور تمہارے نفس کى کثافتوں کو پاک کرنے والا ہے اور تمہارى دید کے پردوں کو جلا بخشنے والا ہے اور تمہارے اندرونى اضطرابات کو آرام دینے والا اور تمہارى تاریکیوں کو روشن کردینے والا ہے_[12]


احکام کى غرض تقوى ہے

تقوى اسلام میں پردازش اخلاقى اصل اور احکام اسلامى کى تشریع کى غرض بتلائی گئی ہے_ جیسے

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے_ '' لوگو اپنے پروردگار کى جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو خلق فرمایا ہے عبادت کرو شاید باتقوى ہوجاؤ_[13]

نیز فرماتا ہے '' روزہ تم پر ویسے واجب ہوا ہے جیسے تم سے پہلے والوں پر واجب ہوا تھا شاید تم با تقوى ہوجاؤ_[14]

اور فرماتا ہے کہ ''خون اور قربانیاں خدا کو نہیں پہنچتیں لیکن تمہارا تقوى خدا کو پہنچتا ہے_[15]

اور فرماتا ہے ''آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ حاصل کرو اور بہترین توشہ اور زاد راہ تقوى ہے_[16]

جیسا کہ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ بعض عبادتوں کى غرض بلکہ اصل عبادت کى غرض یہ تھى کہ لوگ اس کے بجالانے سے باتقوى ہوجائیں بلکہ اسلام کى نگاہ میں تقوى اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ تمام اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور راس بتلایا گیا ہے اور عمل بغیر تقوى کے مردود اور بے فائدہ ہوتا ہے قر آن مجید میں سے ہے کہ خداوند عالم نیک اعمال کو صرف متقیوں سے قبول کرتا ہے_[17]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا کہ '' تقوى کے حاصل کرنے میں بہت زیادہ عمل اور کوشش کر کیونکہ کوئی عمل بھى جو تقوى کے ساتھ ہو چھوٹا نہیں ہوتا اور کس طرح اسکو چھوٹا شمار کیا جائے جب کہ وہ اللہ تعالى کے ہاں مورد قبول ہوتا ہے جب کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ خدا متقیوں سے قبول کرتا ہے_ [18]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کسى کا رونا تجھے دھوکا نہ دے کیونکہ تقوى دل میں ہوتا ہے_ [19]

قرآن میں ہے کہ '' اگر صبر کرو اور تقوى رکھتے ہو تو یہ بہت بڑا کام ہے_ [20]

جیسا کہ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ قرآن اور احادیث میں تقوى ایک اصلى ارزشمند اور آخرت کے لئے بہترین زاد راہ اور توشہ ہے اور دل کى اہم بیماریوں کے لئے شفا دینے والا دارو ہے اور نفس کو پاک کرنے کا بہت بڑا وسیلہ بتلایا گیا ہے اس کى اہمیت کے لئے اتنا کافى ہے کہ یہ احکام الہى کے جعل اور تشریع کى غرض اور ہدف قرر پایا ہے_ اب ہم تقوى کى وضاحت کرتے ہیں_


تقوى کى تعریف

عام طور سے تقوى کو ایک منفى یعنى گناہوں سے پرہیز اور معصیت سے اجتناب بتلایا جاتا ہے اور یوں گمان کیا جاتا ہے کہ امور اجتماعى میں شریک کرنے کى وجہ سے تقوى کو محفوظ رکھنا ایک بہت مشکل کام بلکہ ایک نہ ہونے والا کام ہے کیونکہ نفس کى سرشت میں گناہوں کى طرف میلان ہونا ہوتا ہے لہذا یا تقوى کو اپنائے اور پرہیزگار بنے یا اجتماعى کاموں سے کنارہ کشى کرے یا اجتماعى ذمہ داریوں کو عہدے پرلے اور تقوى کو چھوڑے کیونکہ ان دونوں کو اکٹھا ممکن نہیں ہوتا_ اس فکر اور نظریہ کا لازمہ یہ ہے کہ جتنا انسان گوشہ نشین ہوگا اتنا زیادہ تقوى رکھنے والا بنے گا_ لیکن بعض آیات اور احادیث اور نہج البلاغہ میں تقوى کو ایک مثبت پر ارزش عمل بتلایا گیا ہے نہ منفی_

تقوى کے معنى صرف گناہوں کا ترک کردینا نہیں ہے بلکہ تقوى ایک اندرونى طاقت اور ضبط نفس کى قدرت ہے جو نفس کو دائمى ریاضت میں رکھنے اور پے در پے عمل کرنے سے حاصل ہوتى ہے اور نفس کو اتنا طاقتور بنا دیتى ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالى کے احکام کا مطیع اور فرمانبردار ہوجاتا ہے اور نفس اتنا قوى ہوجاتا ہے کہ نفس غیر شرعى خواہشات کا مقابلہ کرتا ہے اور ثابت قدم ہوجاتا ہے_ لغت میں بھى تقوى اسى معنى میں آیا ہے_

تقوى کا مصدر وقایہ ہے کہ جس کے معنى حفظ اور نگاہدارى کے ہیں تقوى یعنى اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنے نفس پر کنٹرول کرنا ہوتا ہے_ تقوى ا یک اثباتى صفت ہے جو حفاظت دیتى ہے اور یہ منفى اور سلبى صفت نہیں ہے_ تقوى یعنى انسان کا عہد کرلینا کہ احکام شرعیت اور دستور الہى کى اطاعت کرونگا_ ہر گناہ کے ترک کا نام تقوى نہیں ہے بلکہ ترک گناہ اور کنٹرول کرنے کى قدرت اور طاقت اور نفس کو مضبوط رکھنے کى سرشت اور ملکہ کا نام تقوى رکھا جاتا ہے_ تقوى آخرت کے لئے بہترین زاد راہ ہے زاد راہ اور توشہ ایک مثبت چیز ہے منفى اور سلبى صفت نہیں ہے_

امیرالمومنین علیہ السلام کے چند جملات پر غور کیجئے_ آپ فرماتے _ ''اے خدا کے بندو میں تمہیں تقوى کى سفارش کرتا ہوں_ کیونکہ یہ نفس کے لئے ایک مہار ہے کہ جو نفس کو اچھائیوں کى طرف کھینچ لے جاتا ہے_ تقوى کے مضبوط رسے کو پکڑے رکھو اور اس کے حقائق کى طرف رجوع کرو تا کہ تمہیں آرام اور رفاہیت وسیع اور عریض وطن مضبوط پناہ گا اور عزت کے منازل کى طرف لے جائے_ [21]

آپ فرماتے ہیں ''یقینا'' تقوى آج کے زمانے میں تمہارے لئے پناہ گا اور ڈھال ہے اور کل قیامت کے دن کے لئے جنت کى طرف لے جانے کا راستہ ہے ایسا واضح راستہ ہے کہ جس پر چلنے والا فائدہ حاصل کرتا ہے اور ایسى ودیعت ہے کہ جو اسے پکڑنے والے کى حفاظت کرتا ہے_ [22]

اے خدا کے بندو جان لو کہ تقوى ایک مضبوط پناہ گاہ ہے_ فسق اور فجور اور بے تقوائی ایک ایسا گھر ہے کہ جس کى بنیاد کمزور ہے اور رہنے والے کى حفاظت نہیںکرسکتا اور اس میں پناہ لینے والے کو محفوظ نہیں کرسکتا اور جان لو کہ تقوى کے ذریعے گناہوں کى زہر اور ڈنگ کو کاٹا جاسکتا ہے_ [23]

اے خدا کے بندو، تقوى خدا کے اولیاء کو گناہوں سے روکے رکھتا ہے اور خدا کاخوف ان کے دلوں میں اس طرح بٹھا دیتا ہے کہ وہ رات کو عبادت اور اللہ تعالى سے راز و نیاز میں مشغول رہ کر بیدار رہتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں_[24]

 

اور جان لو کہ تقوى تمہارے لئے اس دنیا میں پناہ گاہ اور مرنے کے بعد سعادت[25]

ہے_ جیسے کہ آپ نے ان احادیث کا ملاحظہ کیا ہے ان میں تقوى کو ایک با قیمت اور اہم اور ایک مثبت طاقت اور قدرت بتلایا گیا ہے کہ جو انسان کو روکے رکھتا ہے اور اسکى حفاظت کرتا ہے ایک ایسى طاقت جو کنٹرول کرتى ہے_ بتلایا گیا ہے کہ تقوى حیوان کى مہار اور لگام کى طرح ہے کہ جس کے ذریعے سے انسان کے پرکشش نفس اور اس کى خواہشات پر کنٹرول کیا جاتا ہے اور اسے اعتدال پر رکھا جانا ہے_ تقوى ایک مضبوط قلعہ کى مانند ہے کہ انسان کو داخلى دشمنوں یعنى ہوى اور ہوس اور غیر شرعى اور شیطانى خواہشت سے محفوظ رکھتا ہے_ تقوى ڈھال کى مانند ہے کہ جو شیطانى کے زہر آلودہ تیر اور اس کے ضربات کو روکتا ہے_ تقوى انسان کو ہوى و ہوس اور خواہشات نفس کى قید سے آزادى دلواتا ہے اور حرص اور طمع حسد اور شہوت غصب اور بخل و غیرہ کى رسیوں کو انسان کى گردن سے اتار پھینکتا ہے_ تقوى محدود ہوجانے کو نہیں کہتے بلکہ نفس کے مالک اور اس پر کنٹرول کرنے کا نام ہے_ انسان کو عزت اور شرافت قدرت اور شخصیت اور مضبوطى دیتا ہے_ دل کو افکار شیطانى سے محفوظ کرتا ہے اور فرشتوں کے نازل ہونے اور انوار قدسى الہى کے شامل ہونے کے لئے آمادہ کرتا ہے اور اعصاب کو طفیان اور آرم دیتا ہے_ تقوى انسان کے لئے مثل ایک گھر اور لباس کے ہے کہ جو حوادث کى گرمى اور سردى محفوظ رکھتا ہے خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے لباس التقوى ذلک خیر[26] تقوى ایک قیمتى وجود رکھتا ہے اور آخرت کے لئے زاد راہ اور توشہ ہے یہ ایک منفى صفت نہیں ہے البتہ قرآن اور حدیث میں تقوى خوف اور گناہ کے ترک کے معنى میں بھى استعمال ہوا ہے لیکن یہ تقوى کے لوازمات میں سے ہیں نہ یہ کہ تقوى کا معنى یہى ہے_


تقوى اور گوشہ نشینی

گوشہ نشینى اور اجتماعى ذمہ داریوں کے قبول نہ کرنے کو نہ صرف تقوى کى علامتوں سے شمار نہیں کیا جائیگا بلکہ بعض موارد میں ایسا کرنا تقوى کے خلاف بھى ہوگا_ اسلام میں گوشہ نشینى اور رہبانیت نہیں ہے_ اسلام انسان کو گناہ سے فرار کرنے کے لئے گوشہ نشینى اور مشاغل کے ترک کرنے کى سفارش نہیں کرتا بلکہ انسان سے چاہتا ہے کہ اجتماعى ذمہ داریوں کو قبول کرے اور امور اجتماعى میں شریک ہو اور پھر اسى حالت میں تقوى کے ذریعے اپنے نفس پر کنٹرول کرے اور اسے قابو میں رکھے اور گناہ اور کجروى سے اپنے آپ کو روکے رکھے_

اسلام یہ نہیں کہتا کہ شرعى منصب اور عہدے کو قبول نہ کرو بلکہ اسلام کہتا ہے کہ اسے قبول کرو اور اللہ تعالى کى رضا کى خاطر اللہ تعالى کے بندوں کى خدمت کرو اور صرف منصب اور مقام کا غلام بن کر نہ رہ جاؤ_ اور اپنے منصب اور عہدے کو نفسانی خواہشات اور شہوات کے لئے وسیلہ قرار نہ دو اور حق کے راستے سے نہ ہٹو_ اسلام نہیں کہتا کہ تقوى حاصل کرنے کے لئے کام اور کار و کسب سے ہاتھ اٹھا لو اور حلال رزق طلب کرنے کے لئے کوشش نہ کرو بلکہ اسلام کہتا ہے کہ دنیا کے قیدى اور غلام نہ بنو_اسلام نہیں کہتا کہ دنیا کو ترک کردے اور عبادت میں مشغول ہوجانے کے لئے گوشہ نشین ہوجا بلکہ اسلام کہتا ہے کہ دنیا میں زندگى کر اور اس کے آباد کرنے کے لئے کوشش کر لیکن دنیا دار اور اس کا فریفتہ اور عاشق نہ بن بلکہ دنیا کو اللہ تعالى سے تقرب اور سیر و سلوک کے لئے قرار دے اسلام میں تقوى سے مراد یہى ہے کہ جسے اسلام نے گراں بہا اور بہترین خصلت بتلایا ہے_

 


تقوى اور بصیرت

قرآن اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوى انسان کو صحیح بصیرت اور بینش دیتا ہے تا کہ دنیا اور آخرت کى واقعى مصلحتوں کو معلوم کر سکے اور اس پر عمل کرے جیسے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے _ '' اے ایمان والو اگر تقوى کو پیشہ قرار دو تو خدا تمہارے لئے فرقان قرار دے گا_[27] یعنى بصیرت کى دید اور شناخت عطا کرے گا تا کہ سعادت اور بدبختى کى مصلحتیں اور مفسدوں کو پہنچان سکو_ ایک اور آیت میں ہے کہ ''صاحب تقوى بنو تا کہ علوم کو تم پر نازل کیا جائے اور اللہ تعالى ہر چیز کا علم رکھتا ہے_[28]

گرچہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نازل ہوا ہے لیکن صرف متقى ہیں جو ہدایت دیئے جاتے ہیں اور نصیحت حاصل کرتے ہیں_

اسى لئے قرآن لوگوں کے لئے بیان ہے اور اہل تقوى کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے_[29]

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' تقوى دل کى بیماریوں کے لئے شفا دینے والى دواء ہے اور دل کى آنکھ کے لئے بینائی کا سبب ہے_[30]

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر شیطان کا آدم کى اولاد کے دل کے اردگر چکر لگانا نہ ہوتا تو وہ علم ملکوت کا مشاہدہ کر لیتے_[31]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ '' دل کے فاسد ہوجانے کے لئے گناہ کے بجالانے سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی_ دل گناہ کے ساتھ جنگ میں واقع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ گناہ اس پر غلبہ کر لیتا ہے اور اسے اوپر نیچے کردیتا ہے یعنى پچھاڑ دیتا ہے_[32]

اس قسم کى آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوى عقل کى بینائی اور بصیرت کا سبب بنتا ہے اور سمجھنے اور سوچنے کى قوت کو طاقت ور بناتا ہے اور عقل ایک گوہر گران بہا ہے جو انسان کے وجود میں رکھدیا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعے مصالح اور مفاسد خیرات اور شرور سعادت اور شقاوت کے اسباب خلاصہ جو ہونا چاہئے اور جو نہ ہونا چاہئے کو اچھى طرح پہچان سکے اور تمیز دے سکے_

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' بدن میں عقل حق کارسول ہے_[33]

جى ہاں اس طرح کى رسالت اور پیغام عقل کے کندھے پر ڈال دى گئی ہوئی ہے اور وہ اس کے بجالانے کى قدرت بھى رکھتا ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ جسم کى تمام طاقتیں اور غرائز عقل کى حکومت کو قبول کر لیں اور اس کى مخالفت اور اس کى احکام کى خلاف ورزى نہ کریں_ خواہشات اور ہوس اور ہوس عقل کے دشمن ہیں عقل کو ٹھیک کام انجام نہیں دینے دیتے_[34]

نیز آپ(ص) نے فرمایا '' جو شخص اپنے نفس کى خواہشات کا مالک نہیں ہوتا وہ عقل کا مالک بھى نہیں ہوگا_[35]

آپ نے فرمایا ہے کہ '' خودبینى اور خودپسندى عجب اور تکبر عقل کو فاسد کردیتے ہیں_[36]

آپ نے فرمایا ہے کہ '' لجباز اور ضدى انسان صحیح فکر اور فیصلہ نہیں کر سکتا_[37]

 

یہ تو درست ہے کہ بدن پر حکومت اور اس کو چلانا عقل کے سپرد کیا گیا ہے اور عقل اس کى طاقت بھى رکھتا ہے لیکن خواہشات اور غرائز نفسانى اس کے لئے بہت بڑى مانع اور رکاوٹ ہیں اگر ایک غریزہ یا تمام غرائز اعتدال کى حالت سے خارج ہو جائیں اور بغاوت اور طغیان کرلیں اور کام نہ کردیں تو پھر عقل کیسے اپنى ذمہ داریوں کے انجام دینے میں کامیاب ہو سکتى ہے_ اس طرح کا انسان عقل تو رکھتا ہے لیکن بغیر سوچ اور فکر والا_ چراغ موجود ہے لیکن خواہشات اور شہوات اور غضب نے سیاہ بادل یا مہہ کى طرح اسے چھپا رکھا ہے اس کے نور کو بجھا دیا ہے اور واقعات کے معلوم کرنے سے روک دیا ہے_ ایک شہوت پرست انسان کى طرح اپنى واقعى مصلحتوں کو پہچان سکتا ہے اور شہوت کے طغیان اور سرکشى کى طاقت کو قابو کر سکتا ہے؟ خودپسند اور خودبین انسان کس طرح اپنے عیوب کو پہچان سکتا ہے تا کہ ان کے درست کرنے کى فکر میں جائے؟ اسى طرح دوسرى برى صفات جیسے غصے حسد طمع کینہ پرورى تعصب اور ضدبازى مال اور جاہ و جلال کا منصب مقام ریاست اور عہدہ ان تمام کو کس طرح وہ اپنے آپ سے دور کر سکتا ہے؟ اگر ان میں سے ایک یا زیادہ نفس پر مسلط ہوجائیں تو پھر وہ عقل عملى کو واقعات کے پہچاننے سے روک دیتى ہیں اور اگر عقل ان کى خلاف عمل کرنا بھى چاہئے تو پھر اس کے سامنے رکاوئیں کھڑى کر دیتى ہیں اور داد و فریاد شروع کر دیتى ہیں اور عقل کے محیط کو تاریک کر دیتى ہیں اور اسے اپنى ذمہ دارى کے انجام دینے سے کمزور کر دیتى ہیں جو انسان ہوى اور ہوس اور خواہشات کا قیدى بن جائے تو پھر وہ وعظ اور نصیحت سے بھى کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے گا بلکہ قرآن اور مواعظ اس کے دل کى قساوت کو اور زیادہ کردیں گے لہذا تقوى کو بصیرت روشن بینى اور وظیفہ شناسى کا بہترین اور موثر ترین عامل شمار کیا جا سکتا ہے_

آخر میں اس بات کى یاد دھانى ضرورى اور لازم ہے کہ تقوى عقل عملى اور ذمہ داریوں کى پہچان اور یہ جاننا کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے_ بصیرت کى زیادتى کا موجب ہے نہ صرف عقل کے حقائق کو جاننے اور پہچاننے کے لئے کے جسے اصطلاحی لحاظ سے عقل نظرى کہا جا تا ہے کیونکہ اس طرح نہیں ہوتا کہ جو ا نسان تقوى نہیں رکھتا وہ ریاضى اور طبعى کے مسائل سمجھنے سے عاجز رہتا ہے گرچہ تقوى سمجھنے اور ہوش اور فکر کے لئے بھى ایک حد تک موثر واقع ہوتا ہے_


تقوى اور مشکلات پر قابو پانا

تقوى کے آثار میں سے ایک اہم اثر زندگى کى مشکلات اور سختیوں پر غلبہ حاصل کرلینا ہے_ جو بھى تقوى پر عمل کرے گا خداوند عالم اس کى مشکلات کے دور ہونے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا اور ایسے راستے سے کہ جس کا اسے گمان تک نہ ہو گا اسے روزى فراہم کردے گا[38] خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جس نے تقوى پر عمل کیا خداوند عالم اس کے کام آسان کر دیتا ہے_[39]'

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جو شخص تقوى پر عمل کرے گا تو اس کى سختیاں اور مشکلیں جب کہ نزدیک تھا کہ اس پر وارد ہو جائیں دور ہوجائیں گى تلخیاں اس کے لئے شیرین ہوجائیں گى مشکلات کى لہریں اس کے سامنے پھٹ جائیں گى اور سخت سے سخت اور دردناک کام اس کے لئے آسان ہوجائیں گے_[40]''

اس قسم کى آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات کے حل ہونے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے میں تقوى انسان کى مدد کرتا ہے_ اب دیکھا جائے کہ تقوى ان موارد میں کیا تاثیر کر سکتا ہے_ زندگى کى سختیوں اور مشکلات کو بطور کلى دو گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے _ پہلا گروہ_ وہ مشکلات کہ جن کا حل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے جیسے کسى عضو کا نقص اور ایسى بیماریوں میں مبتلا ہونا کہ جو لا علاج ہیں اور ایسے خطرات کہ جن کى پیشگوئی نہیں کى جا سکتى اور اسى طرح کى دوسرى مشکلات کہ جنہیں روکنا اور دور کرنا انسان کے امکان اور قدرت سے باہر ہے_

دوسرا گروہ_ ایسى مشکلات اور سختیاں کہ جن کے دور کرنے اور پیش بینى کرنے میں ہمارا ارادہ موثر واقع ہو سکتا ہے _ جیسے اکثر نفسیاتى اور جسمى گھریلو اور اجتماعى اور کار و کسب کى بیماریاں و غیرہ_

تقوى ان دونوں مشکلات کے حل میں ایک مہم کردار ادا کر سکتا ہے_ گرچہ پہلے مشکلات کے گروہ کو روکنا اور ان کو دور کرنا ہمارے لئے عملى طور سے ممکن نہیں ہوتا لیکن ان مشکلات کے ساتھ کس طرح عمل کیا جائے یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے_ وہ انسان جو با تقوى ہے اور اپنے نفس کى حفاظت کے لئے پورى طرح تسلط رکھتا ہے اور دنیا کے مشکلات اور خود دنیا کو فانى اور ختم خونے والا سمجھتا ہے اور آخرت کى زندگى کو حقیقى اور باقى رہنے والى زندگى سمجھتا ہے_

اور اللہ تعالى کى ذات لایزال کى قدرت پر اعتماد کرتا ہے_ دنیا کے واقعات اور مشکلات کو معمولى اور وقتى جانتا ہے اور ان پر جزع اور فزع نہیں کرتا تو ایسا انسان اللہ تعالى کى مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا_ تقوى والا انسان آخرت کے جہان اور خدا سے مانوس اور عشق کرتا ہے ایسے انسان کے لئے گذر جانے والے مشکلات اور واقعات اس کى روح اور دل کے سکون کو مضطرب اور پریشان نہیں کر سکیں گے کیونکہ خود مشکلات اور حوادث اور مصائب درد نہیں لاتیں بلکہ نفس کا انہیں برداشت اور تحمل نہ کر سکنا_ انسان کیلئے ناراحتى اور نا آرامى کو فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے تقوى انسان کے لئے زیادہ مدد کر سکتا ہے_

دوسرا گروہ_ اکثر مشکلات اور سختیاں کہ جو انسان کى زندگى کو تلخ کردیتى ہیں ہمارى برى عادات اور انسانى ہوى اور ہوس اور خواہشات کى وجہ سے ہم پر وارد ہوتى ہیں اور یہى برى صفات ان کا سبب بنتى ہیں_ گھریلو زندگى کے اکثر مشکلات کو شوہر یا بیوى یا دونوں خواہشات نفسانى پر مسلط نہ ہونے کى وجہ سے وجود میں لاتے ہیں اور اس آگ میں جلتے رہتے ہیں_

جسے خود انہوں نے جلایا ہے اور پھر داد و قیل جزع اور فزع زد خورد کرتے ہیں_ دوسرى مشکلات بھى اکثر اسى وجہ سے وجود میں آتى ہیں_ برا اخلاق جیسے حسد _ کینہ پروری، انتقام لینا، ضدبازی، تعصب، خودپسندی، خودبینى ، طمع، بلندپروازی، تکبر و غیرہ وہ برى صفات ہیں کہ انسان کے لئے مشکلات اور مصائب غم اور غصہ وجود میں لاتى ہیں اور بہترین اور شیرین زندگى کو تلخ اور بے مزہ کر دیتى ہیں _ ایسا شخص اتنا خواہشات نفسانى کا قیدى ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اپنے درد اور اس کى دواء کے پہچاننے سے عاجز ہوجاتا ہے_ سب سے بہتر چیز جو ان حوادث کے واقع ہونے کو روک سکتى ہے وہى تقوى ہے اور اپنے نفس پر کنٹرول کرنا اور اس کى حفاظت کرنا ہے_ متقى انسان کے لئے اس طرح کے دردناک واقعات بالکل پیش ہى نہیں آتے وہ سکون قلب اور آرامش سے اپنے زندگى کو ادامہ دیتا ہے اور آخرت کے لئے توشہ ور زاد راہ حاصل کرتا ہے _ دنیا کى محبت ان تمام مصائب اور گرفتاریوں کا سرچشمہ ہوتى ہے لیکن متقى انسان دنیا اور مافیہا کا عاشق اور فریفتہ نہیں ہوتا تا کہ اس کے نہ ہونے سے رنج اور تکلیف کو محسوس کرے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دنیا کى محبت سے پرہیز کر کیونکہ یہ دنیا کى ہر مصیبت کى جڑ اور ہر تکلیف کى کان ہے_[41]

 


تقوى اور آزادی

ممکن ہے کہ کوئی گمان کرے کہ تقوى تو آزادى کو سلب کر لیتا ہے اور ایک محدودیت اور قید و بند وجود میں لے آتا ہے اور زندگى کو سخت اور مشکل بنا دیتا ہے لیکن اسلام اس گمان اور عقیدہ کو قبول نہیں کرتا اور رد کر دیتا ہے بلکہ اس کے بر عکس تقوى کو آزادى اور آرام اور عزت اور بزرگوارى کا سبب قرار دیتا ہے اور انسان بغیر تقوى والے کو قید اور غلام شمار کرتا ہے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تقوى ہدایت اور استقامت اور آخرت کے زاد راہ اور توشہ کى چابى ہے_ تقوى غلامى سے آزادى اور ہلاکت سے نجات پانے کا وسیلہ ہے_[42]

 

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اسلام سے بالاتر کوئی شرافت نہیں ہے_ تقوى سے کوئی بالاتر عزت نہیں ہے_ اور سب سے زیادہ قوى تقوى سے اور کوئی پناہ گاہ نہیں_[43]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جو شخص تقوى کو وسیلہ بنائے تو وہ سختیاں اور دشواریاں جو نزدیک آچکى ہوں گى اس سے دور ہوجائیں گى تلخ کام اس کے لئے شیریں ہوجائیں گے_ گرفتاریوں کى سخت لہریں اس سے دور ہوجائیں گى اور سختیاں اس کے لئے آسان ہوجائیں گی_[44]

ان احادیث میں تقوى کو مشکلات کے حل کرنے اور انسان کى عزت اور آزادى کا سبب مصائب اور گرفتاریوں سے نجات زندگى کى دشواریوں اور تلخیوں کے لئے بہترین پناہ گاہ بتلایا گیا ہے_ لہذا تقوى انسان کے لئے محدودیت اور آزادى سلب کرنے کا موجب نہیں ہوتى بلکہ انسان کى شخصیت کو زندہ کرتا ہے اور تقوی، شہوت ، غضب، انتقام جوئی، کینہ پروری، خودخواہی، خودپسندی، تعصب، لج بازی، طمع، دولت پرستى ، خودپرستی، شہوت پرستی، مقام و منصب پرستی، شکم پرستی، شہرت پرستى سے آزاد کرتا ہے انسان کى شخصیت اور عقل کو قوى کرتا ہے تا کہ وہ غرائز اور طغیان کرنے والى قوتوں پر غالب آجائے اور انہیں اعتدال پر رکھے اور واقعى مصلحتوں کے لحاظ سے ہدایت اور رہبرى کرے اور افراط اور تفریط کے کاموں سے رکاوٹ بنے_

قرآن ان لوگوں کو و نفس کی خواہشات کے مطیع اور فرمانبردار ہوں اور خواہشات نفسانی کی تلاش مین لگے رہیں اور خواہشات نفس کے حاصل کرنے میں کسی حدود شرعی کے قائل نه ہوں بت پرست اور خواہش پرست جانتا هے -

قرآن مجید فرماتا ہے'' ان لوگوں کو دیکھتا ہے کہ جنہوں نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے اس کے باوجود جانتا ہے کہ خدا نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادى ہے اور اس کى آنکھوں پر تاریکى کے پردے ڈالے گئے ہیں پس کون اسے خدا کے بعد ہدایت کرے گا؟ کیا وہ نصیحت حاصل نہیں کرتا؟ [45]

 

درست ہے کہ جو شخص اپنى نفس خواہشات کے سامنے سر تسلیم کر چکا ہے اور ان کے حاصل کرنے میں کسى برائی اور قباحت کى پروا نہیں کرتا اور دیوانوں کى طرح اس کى تلاش اور کوشش کرتا ہے اور عقل کى بھلائی آواز کو نہیں سنتا اور پیغمبروں کى راہنمائی پر کان نہیں رھرتا ایسا شخص یقینا خواہشات نفس کا قیدى اور غلام اور نوکر اور مطیع ہے_ نفس کى خواہشات نے انسان کى شخصیت اور گوہر نایاب کو جو عقل ہے اسے مغلوب کر رکھا ہے اور اپنے دام میں پھنسا لیا ہے ایسے شخص کے لئے آزاد ہونے طور آزادى حاصل کرنے کے لئے تقوى کے اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے لہذا تقوى محدود نہیں کرتابلکہ انسان کو آزاد بخشتا ہے_


تقوى اور بیماریوں کا علاج

یہ مطلب پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ برے اخلاق جیسے حسد ، بغض، انتقام جوئی، عیب جوئی، غضب، تعصب، طمع، خودبینی، تکبر، خوف، بے آرادگی، وسوسہ و غیرہ یہ تمام نفسانى بیماریاں ہیں ان مرضوں میں مبتلا انسان مجازى طور سے نہیں بلکہ حقیقى لحاظ سے بیمار ہے اور یہ مطلب بھى علوم میں ثابت ہوچکا ہے کہ نفس اور جسم میں فقط مضبوط ربط اور اتصال ہى برقرار نہیں ہے بلکہ یہ دونوں متحد ہیں اور اسى ربط اور اتصال سے ایک دوسرے پر اثر انداز اور متاثر ہوتے ہیں_ جسمانى بیماریاں نفس انسان کو ناراحت اور پریشان کرتى ہیں اس کے بر عکس روحانى اور نفسانى بیماریاں جیسے معدے اور انتڑیوں میں زخم اور ورم اور بد ہضمى اور غذا کا کھٹا پن ہوجانا سر اور دل کا درد ممکن ہے کہ وہ بھى برے اخلاق جیسے حسد_ بغض اور کینہ طمع اور خودخواہى اور بلند پروازى سے ہى وجود میں آجائیں_ مشاہدہ میں آیا ہے کہ مضر اشیاء کى عادت شہوات رانى میں افراط اور زیادہ روى کتنى خطرناک بیماریوں کو موجود کر دیتى ہیں جیسے کہ پہلے گذر چکا ہے کہ نفسانى بیماریوں کا صرف ایک ہى علاج ہے اور وہ ہے تقوى لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانى کى جسمانى اور نفسیاتى بیماریوں اور ان سے سلامتى اور صحت میں تقوى بہت ہى زیادہ تاثیر کرتا ہے_

حضرت على علیہ السلام نے تقوى کے بارے میں فرمایا ہے کہ '' تقوى تمہارے جسموں کى بیماریوں کى دواء ہے اور تمہارے فاسد دلوں کى اصلاح کرتا ہے اور تمہارے نفوس کى کثافتوں کو پاک کرتا ہے؟[46]

 


[1]- إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاکُمْ- حجرات/ 13.
[2]- قال على علیه السلام: فانّ تقوى اللّه ... شفاء مرض اجسادکم و صلاح فساد صدورکم و طهور دنس انفسکم- نهج البلاغه/ خطبه 198.
[3]- لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِیمٌ- آل عمران/ 172.
[4]- فَمَنِ اتَّقى‏ وَ أَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لا هُمْ یَحْزَنُونَ- اعراف/ 35.
[5]- وَ سارِعُوا إِلى‏ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّماواتُ وَ الْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ- آل عمران/ 133.
[6]- إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَ نَعِیمٍ فاکِهِینَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ- طور/ 18.
[7]- قال على علیه السّلام: التقى رئیس الاخلاق- نهج البلاغه/ کلمات قصار 41.
[8]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: خصلة من لزمها اطاعته الدنیا و الاخرة و ربح الفوز بالجنة قیل و ماهى یا رسول اللّه؟ قال: التقوى، من اراد ان یکون اعز الناس فلیتق اللّه عز و جل ثم تلا: و من یتق اللّه یجعل له مخرجا و یرزقه من حیث لا یحتسب- بحار الانوار/ ج 70 ص 285.
[9]- قال على علیه السّلام: علیکم بتقوى اللّه فانها تجمع الخیر و لا خیر غیرها و یدرک بها من الخیر ما لا یدرک بغیرها من خیر الدنیا و الاخرة- بحار الانوار/ ج 70 ص 285.
[10]- قال السجاد علیه السّلام: شرف کل عمل بالتقوى و فاز من فاز من المتقین، قال اللّه تبارک و تعالى: إِنَّ لِلْمُتَّقِینَ مَفازاً- بحار الانوار/ ج 77 ص 386.
[11]- قال على علیه السّلام: و اعلموا عباد اللّه انّ المتقین ذهبوا بعاجل الدنیا و آجل الاخرة فشارکوا اهل الدنیا فى دنیا هم و لم یشارکهم اهل الدنیا فى آخرتهم. سکنوا الدنیا بافضل ما سکنت و اکلوها بافضل ما اکلت، فحظوا من الدنیا بما حظى به المترفون و اخذوا منها ما اخذه الجبابرة المتکبرون. ثم انقلبوا عنها بالزاد المبلغ و المتجر الرابح اصابوا لذة زهد الدنیا فى دنیاهم و تیقّنوا انّهم جیران اللّه غدا فى آخرتهم لا تردّ لهم دعوة و لا ینقص لهم نصیب من لذة- نهج البلاغه/ کتاب 27.
[12]- قال على علیه السّلام: فانّ تقوى اللّه دواء داء قلوبکم و بصر عمى افئدتکم و شفاء مرض اجسادکم و صلاح فساد صدورکم و طهور دنس انفسکم و جلاء غشاء ابصارکم و امن فزع جأشکم و ضیاء سواد ظلمتکم- نهج البلاغه/ خطبه 198.
[13]- یا أَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ- بقره/ 21.
[14]- کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَما کُتِبَ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ- بقره/ 183.
[15]- لَنْ یَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَ لا دِماؤُها وَ لکِنْ یَنالُهُ التَّقْوى‏ مِنْکُمْ- حج/ 38.
[16]- وَ تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوى‏- بقره/ 197.
[17]- إِنَّما یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ- مائده/ 27.
[18]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: یا ابا ذر! کن بالعمل بالتقوا اشدّ اهتماما منک بالعمل، فانّه لا یقلّ عمل بالتقوا و کیف یقلّ ما یتقبّل بقول اللّه انما یتقبّل اللّه من المتقین- بحار/ ج 77 ص 89.
[19]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: لا یغّرنک بکائهم انّما التقوى فى القلب- بحار/ ج 70 ص 286.
[20]- وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ- آل عمران/ 186.
[21]- قال على( ع): اوصیکم عباد اللّه بتقوى اللّه فانّها الزمام و القوام فتمسّکوا بوثائقها و اعتصموا بحقائقها تؤول بکم الى اکنان الدعة و اوطان السعة و معاقل الحرز و منازل العزّ- نهج البلاغه/ خ 195.
[22]- قال على علیه السّلام: فان التقوا فى الیوم الحرز و الجنّة و فى غد الطریق الى الجنّة مسلکها واضح و سالکها رابح و مستودعها حافظ- نهج البلاغه/ 191.
[23]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: اعلموا عباد اللّه انّ التقوى دار حصن عزیز و الفجور دار حصن ذلیل لا یمنع اهله و لا یحرز من لجأ الیه الا و بالتقوى تقطع حمة الخطایا- نهج البلاغه/ خ 157.
[24]- قال على علیه السّلام: فان تقوى اللّه حمت اولیاء اللّه محارمه و الزمت قلوبهم مخافته حیث اسهرت لیالیهم و اضمأت هواجرهم- نهج البلاغه/ خطبه 114.
[25]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: ان التقوى عصمة لک فى حیاتک و زلفى بعد مماتک- غرر الحکم/ ص 222.
[26]- اعراف/ 26.
[27]- یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقاناً- انفال/ 29.
[28]- وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللَّهُ وَ اللَّهُ بِکُلِّ شَیْ‏ءٍ عَلِیمٌ- بقرة/ 282.
[29]- هذا بَیانٌ لِلنَّاسِ وَ هُدىً وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ- آل عمران/ 138.
[30]- قال على( ع): فان تقوى اللّه دواء داء قلوبکم و بصر عمى افئدتکم- نهج البلاغه/ خ 198.
[31]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: لو لا انّ الشیاطین یحومون على قلوب بنى آدم لنظروا الى الملکوت- بحار الانوار/ ج 70 ص 59.
[32]- عن ابیعبد اللّه علیه السّلام قال: کان ابى یقول: ما من شى‏ء افسد للقلب من الخطیئة انّ القلب لیواقع الخطیئة فما تزال به حتى تغلب علیه فیصیر اسفله اعلاه و اعلاه اسفله- بحار/ ج 70 ص 54
[33]- قال على علیه السّلام: العقل رسول الحق- غرر الحکم/ ج 1 ص 13.
[34]- قال على علیه السّلام: الهوى عدوّ العقل- غرر الحکم/ ص 13.
[35]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: من لم یملک شهوته لم یملک عقله- غرر الحکم/ ص 702.
[36]- قال على علیه السّلام: العجب یقسد العقل- غرر الحکم/ ص 26.
[37]- قال على علیه السّلام: اللجوج لا راى له- غرر الحکم/ ص 31.
[38]- وَ مَنْ یَتَّقِ اللَّهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً وَ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لا یَحْتَسِبُ- طلاق/ 2.
[39]- وَ مَنْ یَتَّقِ اللَّهَ یَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ یُسْراً- طلاق/ 4.
[40]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: فمن اخذ بالتقوى عزبت عنه الشدائد بعد دنوها و احلولت له الامور بعد مرارتها و انفرجت عنه الامواج بعد تراکمها و اسهلت له الصعاب بعد انصابها- نهج البلاغه/ خطبه 198.
[41]- قال على علیه السّلام: ایّاک و حبّ الدنیا فانها اصل کل خطیئة و معدن کل بلیّة- غرر الحکم/ ص 150.
[42]- قال على علیه السّلام: فانّ تقوى اللّه مفتاح سداد و ذخیرة معاد و عتق من کل ملکة و نجاة من کل هلکة- نهج البلاغه/ خطبه 230.
[43]- قال على علیه السّلام: لا شرف اعلى من الاسلام و لا عزّ اعزّ من التقوى و لا معقل احسن من الورع- نهج البلاغه/ باب المختار من الحکم، 371.
[44]- قال على علیه السّلام: فمن اخذ بالتقوى عزبت عنه الشدائد بعدد نوها و احلولت له الامور بعد مرارتها و انفرجت عنه الامواج بعد تراکمها و اسهلت له الصعاب بعد انصابها- نهج البلاغه/ خطبه 193.
[45]- أَ فَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ وَ أَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى‏ عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلى‏ سَمْعِهِ وَ قَلْبِهِ وَ جَعَلَ عَلى‏ بَصَرِهِ غِشاوَةً فَمَنْ یَهْدِیهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَ فَلا تَذَکَّرُونَ- جاثیه/ 23.
[46]- قال على علیه السّلام: فانّ تقوى اللّه ... شفاء مرض اجسادکم و صلاح فساد صدورکم و طهور دنس انفسکم- نهج البلاغه/ خطبه 198.

*امینى، ابراهیم، خودسازى (تزکیه و تهذیب نفس)، 1جلد، شفق - قم، چاپ: هشتم.