پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تہذيب نفس

تہذیب نفس

اس مرحلے میں ہمیں تین کام انجام دینے ہونگے_

1_ باطل عقائد اور غلط افکار اور خرافات سے نفس کو پاک کرنا_

2_ برے اخلاق اور رذائل سے نفس کو پاک کرنا_

3_ گناہوں اور معاصى کا ترک کرنا_

خرافات اور عقائد باطل عین جہالت اور نادانى ہوتے ہیں اور انسان کى رو ح کو تاریک کر دیتے ہیں اور صراط مستقیم اور قرب الہى اور تکامل سے منحرف کر دیتے ہیں باطل عقائد رکھنے والے تکامل کے راستے کو نہیں بچانتے اسى واسطے گمراہى اور ضلالت کى وادى میں قدم رکھتے ہیں اور یقینا مقصد تک نہیں پہنچتے جو روح تاریک ہو کس طرح وہ انوار الہى کى تابش کا مرکز قرار پا سکتى ہے؟ اسى طرح برے اخلاق اور ان کے ملکات حیوانى عادات کو تقویت پہچانتے ہیں اور انسانى روح کو آہستہ آہستہ خاموش اور تنہا ہو جانے کى طرف لے جاتے ہیں ایسا انسان انسانى غرض خلقت جو قرب الہى اور کمال تک پہنچنا ہوتا ہے کبھى نہیں پہنچے گا اسى طرح گناہوں اور معصیت کو بجالانا انسان کى روح کو تاریک اور آلودہ کر دیتا ہے کہ جس کى وجہ سے وہ تکامل اور قرب الہى سے دور ہو جاتا ہے اور اس طرح انسان آخرى غرض اور غایت تک نہیں پہنچنے پاتا_ اسی واسطے نفس کا پاک و پاکیزہ کرنا ہمارے لئے انتہائی اہم اور ضرورى کام شمار ہوتا ہے لہذا ضرورى ہے کہ پہلے برے اخلاق اور گناہوں کو پہچانیں اور پھر عمل کے مرحلے میں قدم رکھیں اور اپنى روح کو پاک و پاکیزہ بنائیں_ اتفاق سے ہمیں پہلے مرحلے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتى اس واسطے کہ ارواح کے اطباء اور خدا کے بھیجے ہوئے انسان شناسى یعنى پیغمبروں اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے برے اخلاق کو بطور کامل ہمارے لئے بیان کر دیا ہے اور ان کا علاج کرنا بھى بتلا دیا ہے_ معصیت اور نافرمانیوں کو ہمارے لئے شمار کر کے انکا علاج بھى بیان کر دیا ہے ہم تمام برے اخلاق کو جانتے اور پہچانتے ہیں اور ان کى برائیوں سے آگاہ ہیں _ ہم جانتے ہیں کہ نفاق ،تکبر ،حسد ،کینہ پروری، غضب چغلخورى خیانت ،خودپسندى ،برا چاہنا، شکایت کرنا، تہمت لگانا، برا بھلا کہنا، بد زبان ہونا، تندخوئی_ ظلم بے اعتمادى خوف، بخل، حرص، عیب جوئی، جھوٹ بولنا، حب دنیا اور مقام اور ریاست کى محبت ریاکاری، دھوکا دینا، حیلہ باز ہونا، براگمان، قسى القلب ہونا، ضعف نفس اور اس طرح کى دوسرى صفات برى اور زشت ہیں_ اس کے علاوہ ہم فطرت کى رو سے ان کى برائیوں کو سمجھ پاتے ہیں_ سینکڑوں روایات اور آیات ان کى برائیوں اور قبیح ہونے کى گوہى دے رہى ہیں ہمارى احادیث اس کے متعلق اتنى زیادہ ہیں کہ ان میں کسى کمى کا احساس نہیں ہوتا_ اسى طرح تمام محرمات اور گناہوں کى وضاحت قرآن مجید اور انکى تشریح اور ان کا عذاب اور سزا احادیث میں موجود ہے_ غالبا ہم تمام کو جانتے ہیں لہذا برے اخلاق اور صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کى پہچان میں ہمیں کوئی مشکل نہیں آتى اس کے باوجود ہم غالبا شیطن اور نفس امارہ کے قیدى ہیں اور توفیق حاصل نہیںکرتے کہ اپنى نفس گناہوں اور برے اخلاق سے پاک کریں اور یہى اساسى مشکل ہے کہ جس کا علاج ہمیں سوچنا چاہئے_ میرى نگاہ میں اس کا مہم ترین سبب دو چیزیں ہیں_ پہلى کہ ہم اپنى اخلاقى بیماریوں کو نہیں پہچانتے اور اپنے بیمار ہونے کا اقرار نہیں کرتے اور دوسرے اخلاقى بیمارى کو معمولى قرار دیتے ہیں اور اس کے برے اور دردناک انجام سے غافل ہیں اسى لئے تو اس کے علاج کرنے میں

کو شش نہیں کرتے یہى وہ دو مہم سبب ہیں کہ جنہوں نے ہمیں اپنى اصلاح اور تہذیب نفس سے غافل کر رکھا ہے ہمارے لئے ضرورى ہے کہ اس میں بحث کریں اور اس کا علاج بتلائیں_

 


بیمارى سے غفلت

ہم غالبا اخلاقى بیماریوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے برے ہونے کو بھى جانتے ہیں لیکن یہ صرف دوسروں میں نہ اپنے وجود میں_ اگر ہم کسى دوسرے میں برے اخلاق اور برے رفتار کو دیکھیں تو اس کى برائی کو اچھى طرح جان لیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہى برى صفت بلکہ اس سے بدتر ہم میں موجود ہو تو اس کى طرف ہم بالکل متوجہ نہیں ہوتے مثلا دوسرے کے حقوق کو ضائع کرنا برا سمجھتے ہیں اور اس کے بجا لانے والے سے نفرت کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہم خود دوسروں کے حقوق ضائع کر رہے ہوں لیکن اسے بالکل نہیں سمجھتے بلکہ اپنے کام کو تو دوسرے کے حقوق کو ضائع کرنا ہى نہیں جانتے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اپنے ایسے کام کو ایک اپنى نگاہ میں بہت عمدہ اور اخلاقى قدر والا گر دانتا ہو اسى طریقے سے اپنے نفس کو مطمئن کر دیتے ہیں یہى حال دوسرے برى صفات کا بھى ہو سکتا ہے یہى تو وجہ ہوتى ہے کہ ہم اپنى کبھى اصلاح کرنے کى فکر میں نہیں جاتے کیونکہ اگر بیمار اپنے آپ کو بیمار نہ سمجھے تو وہ علاج کرنے کى فکر میں نہیں جاتا اور چونکہ ہم اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتے لہذا اس کے علاج کرنے کے درپے بھى نہیں ہوتے ہمارى سب سے بڑے مصیبت اور مشکل یہى ہے_ لہذا اگر ہم اپنى سعادت کى فکر میں جائیں تو اس مشکل کا حل ہمیں تلاش کرنا ہوگا اور جس ذریعے سے بھى ممکن ہو ہمیں اپنى نفسانى بیماریوں کے پہچاننے میں کوشش کرنى چاہئے_

 

نفس کى بیماریوں کے تشخیص کے راستے

بہتر ہوگا کہ نفس کى مختلف بیماریوں کى پہچان میں ان وسائل سے کہ جن سے ممکن ہے استفادہ کیا جائے یہاں چند ایک کى طرف اشارہ کیا جاتا ہے_

1_ تقویت عقل: ملکوتى انسان کا اعلى مرتبہ اور اس کے وجود کا کاملترین امتیاز جو انسان کے لئے تمام مخلوقات سے امتیاز دینے کا منشا اور مبدا ہے اسے قرآن اور احادیث میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے روح نفس قلب عقل یہ تمام نام ایک حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو مختلف جہات کیوجہ سے مختلف نام دیئے گئے ہیں_

اس لحاظ سے کہ وہ حقیقت موجب فکر اور سوچ اور سمجھنا اور تعقل ہے اسے عقل کا نام دیا گیا ہے احادیث کى کتابوں میں عقل کو ایک ممتاز مقام دیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کے لئے ایک علیحدہ فصل احادیث کے کتابوں میں مخصوص کى گئی ہے_ احادیث میں عقل کو موجودات سے شریف ترین موجود اور احکام اور ثواب اور عقاب کا منشاء بتلایا گیا ہے جیسے امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جب اللہ تعالى نے عقل کو پیدا کیا تو اسے بولنے پر قدرت دى اور پھر اسے کہا کہ اے عقل آگے آ؟ عقل نے اطاعت کى اور آگے آئی_ پھر اللہ تعالى نے فرمایا کہ لوٹ جا_ عقل نے پھر اطاعت کى اور لوٹ گئی اس وقت خداوند عالم نے فرمایا کہ'' مجھے اپنى عزت و جلال کى قسم کہ میں نے تجھ سے بہتر اور محبوب ترین مخلوق خلق نہیں کى تجھے کامل نہیں کرونگا مگر اس میں کہ جسے میں دوست رکھتا ہونگا_ جان لو کہ میرے اوامر اور نواہى تیرى طرف متوجہ ہونگے اور تجھى ہى سے ثواب اور عقاب دونگا_[1]

انسان عقل کے ذریعے فکر کرتا ہے اور حقائق کو معلوم کرتا ہے اچھائی اور برائی فائدہ مند اور ضرر رساں ذمہ داریوں کى تشخیص کرتا ہے اگر انسان کے پاس عقل نہ ہوتى تواس کے اور حیوانات کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا اسى لئے خداوند عالم نے قرآن کریم میں تعقل اور تفکر اور تامل اور تفقہ پر اعتماد کیا ہے اور انسان سے چاہتا ہے کہ اپنى عقل کو اپنے آپ میں کام میں لائے_

قرآن مجید میں آیا ہے کہ خداوند ایسى نشانیاں تمہارے لئے بیان کرتا ہے_ شاید تم تعقل کرو اور تفکر کرو_[2]

نیز خدا فرماتا ہے '' وہ زمین میں کیوں سیر نہیں کرتے تا کہ ان کے لئے دل ہو کہ فکر و غور کریں_[3]

نیز خدا فرماتا ہے کہ '' سب سے بدتر حرکت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بہرے گونگے اور سوچ نہیں کرتے_[4]

خداوند عالم ان لوگوں کو جوعقل کان اور زبان رکھتے ہیں لیکن حقائق کى پہچان میں ان سے کام نہیں لیتے انہیں حیوانات کے زمرے میں شمار کرتا ہے بلکہ حیوانات سے بھى بدتر قرار دیتا ہے کیونکہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے_

خدا فرماتا ہے '' خدا پلیدى کو ان پر قرار دیتا ہے جو تعقل نہیں کرتے_[5]

انسان میں جتنى اچھائی ہے وہ عقل سے ہے، عقل سے خدا کو پہچانتا ہے اور اس کى عبادت کرتا ہے اور قیامت کو قبول کرتا ہے اور اس کے لئے مہیا ہوتا ہے_ پیغمبروں کو قبول کرتا ہے اور ان کى اطاعت کرتا ہے_ اچھے اخلاق کو پہچانتا ہے اور اپنے آپ کو ان میں ڈھالتا ہے برائیوں کو پہچانتا ہے اور ان سے پرہیز کرتا ہے_ اسى درجہ سے قرآن اور احادیث میں عقل کى عظمت اور جلالت بیان کى گئی ہے_

امام صادق علیہ السلام ایک سوال کرنے والے کے جواب میں فرماتے ہیں کہ '' عقل وہ چیز ہے کہ جس وجہ سے خدا کى عبادت کى جاتى ہے اور اس کے ذریعے سے بہشت حاصل کى جاتى ہے_([6]

نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' جو شخص عاقل ہوگا دین رکھتا ہوگا اور جو شخص دین رکھتا ہوگا وہ بہشت میں داخل ہوگا_[7]

امام موسى کاظم علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا کہ '' خدا کى لوگوں پر حجت اور دلیلیں دو ہیں ایک ظاہرى اور دورسرى باطنی_ ظاہرى حجت انبیاء اور ائمہ علیہم السلام ہیں اور باطنى عقل ہے_[8]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماتا ہے _ '' عقل کے لحاظ سے کامل تر لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق تمام سے بہتر ہوں_[9]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کا راہنما عقل ہے_[10]

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر انسان کا دوست عقل ہے اور اس کا دشمن جہالت_[11]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' انسان کا خودپسند ہونا اس کے عقل کے ضعیف ہونے کى دلیل ہے_[12]

امام موسى بن جعفر علیہ السلام نے ہشام سے فرمایا کہ '' جو شخص بغیر مال کے بے نیازى اور روح کو حسد سے آرام اور اطمینان میں رکھے اور دین میں سالم رہے اسے تضرع اور زارى سے خدا سے دعا مانگى چاہئے کہ خدا اس کى عقل کو کامل کردے _ جو شخص عاقل ہوگا وہ قدر کفایت پر قناعت کرے گا اور جو شخص کفایت کى مقدر ارپر قناعت کرے گا وہ غنى اور بے نیاز ہوگا اور جس نے مقدار کفایت پر قناعت نہ کى وہ ہرگز بے نیاز نہ ہوگا_[13]

امام موسى کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں '' عقلمند انسان دنیا کے زائد امور کو ترک کرتے ہیں چہ جائیکہ گناہوں کو جب کہ ترک دینیا افضال ہے تو گناہوں کا ترک کرنا تو واجب ہے_[14]

آپ نے فرمایا کہ '' عقلمند انسان جھوٹ نہیں بولتا گر چہ اس کى روح اس کى طرف مائل ہى کیوں نہ ہو_[15]

آپ نے فرمایا کہ '' جو شخص مروت نہیںرکھتا اور جو شخص عقل نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا وہ مروت نہیں رکھتا سب سے قیمتى انسان وہ ہے جو دنیا کو اپنے نفس کی قیمت قرار نہ دے اور جان لو کہ تمہارے جسم کى قیمت سوائے بہشت کے اور کوئی نہیں ہے لہذا اسے بہشت کے عوض کسى اور چیز کے مقابلے فروخت نہ کرو_[16]

ان تمام احادیث سے عقل کے پردازش اور قیمتى ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس سے معارف اور علوم اور ایمان کا لانا عبادت خدا اور اس کى شناخت مکارم اخلاق سے استفادہ کرنا اور رذائل اور گناہوں سے اجتناب کرنا حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس نقطہ کى طرف متوجہہ ہونا چاہئے اور اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے_ عقل انسان کے بدن میں ایک عادل قاضى ہے اور حاکم ہے لیکن یہ اس صورت میں اچھا فیصلہ دیتا ہے جب اس کے لئے امن کا ماحول میسر ہو اور اس کے فیصلے کو مورد قبول قرار دیا جائے یہ اس دانا اور قدرت مند اور مدبر اور خیر اندیش حاکم کے قائم ہے لیکن بشرطیکہ اس کے فیصلے اور حکومت کى تائید کى جائے یہ ایک دانا مشورہ دینے والے اور مورد اعتماد اور خیر اندیش کے قائم ہے لیکن بشرطیکہ اس سے مشورہ طلب کیا جائے اور اس کے فرمان کو درست سنا جائے_

اگر بدن پر عقل کى حکومت ہو اور خواہشات اور غرائز نفسانى پر اس کا تسلط ہو تو وہ بدن کى مملکت پر بہترین طریقہ سے حکومت کرے گا_ غرائز اور قومى میں تعادل برقرار کرے گا_ اور تمام کو تکامل اور سیر و صعود الى اللہ پر برقرار رکھے گا لیکن اس سادگى سے حیوانى خواہشات اور تمایلات عقل کى حکومت کو قبول کرلیں گے اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے نہ بلکہ یہ اتنى فتنہ انگیزى اور خرابکارى کریں گے_ تا کہ وہ عقل کو میدان سے باہر نکال دیں اس کا علاج یہ ہے کہ عقل کو قوى کیا جاے کیونکہ عقل جتنا طاقت ور اور نافذ ہوگا وہ داخلى دشمنوں کو بہتر پہچانے گا اور ان پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں دبانے پر زیادہ قادر ہوگا_ یہ ہمارى ذمہ دارى ہے کہ ہم عقل کو مضبوط بنانے کى کوشش اور جہاد کریں_

2_ عمل سے پہلے فکر کرنا: عقل کے قوى کرنے میں ہمیں کوشش کرنى چاہئے کہ کسى کام کے انجام دینے سے پہلے سوچنا چاہئے اور اس کام کے نتائج اور آثار اور دنیاوى اخروى اثرات کو خوب دیکھناچاہئے اور یہ عہد کرلیں کہ کسى کام کو بھى اس کى عاقبت اندیشى سے پہلے انجام نہ دیں تا کہ آہستہ آہستہ سوچنے اور تفکر کے ذریعے اپنى روح کو آگاہ کیا کریں_

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' تفکر انسان کو اچھے کاموں اور ان پر عمل کرنے کى دعوت دیتا ہے_[17]

نیز حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' کام کرنے سے پہلے انجام کو سوچنا تجھے پشیمانى سے محفوظ کردے گا_[18]

ایک شخص رسول خدا کى خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کى '' یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے کسى کام کى فرمائشے کریں''_ آپ(ص) نے فرمایاکہ '' کیا تم میرے کہنے پر عمل گروگے؟'' اس نے کہا'' ہاں یا رسول اللہ (ص) ''_ اس سے یہ سوال اور آپ کا یہ جواب تین دفعہ رد و بدل ہوا_ اس وقت رسول خدا نے فرمایا کہ '' میرى فرمائشے یہ ہے کہ جب تم کسى کام کو انجام دینا چاہو تو اس کے انجام کے بارے میں پہلے خوب غور و فکر کرلو اگر اچھا ہوا تو اسے بجالائو اور اگر شک اور اشتباہ ہو تو اسے بجانہ لائو_[19]

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جلد بازى لوگوں کو ہلاکت میں ڈال دیتى ہے اگر لوگ اپنے کاموں میں تدبر کرتے تو کبھى ہلاک نہ ہوتے_[20]

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' انجام کو سوچنا اور جلد بازى نہ کرنا خدا کى طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازى کرنا شیطن کى طرف سے _[21]

معصوم کى حدیث میں یوں آیا ہے کہ '' غور و فکر شیشہ کى طرح ہے جو تمہیں اچھائی اور برائی ظاہر کردے گا_[22]

حیوانات اپنے کاموں میں غرائز اور حیوانى خواہشات کى پیروى کرتے ہیں اور غور اور فکر نہیں رکھتے لیکن انسان چونکہ اس کے پاس عقل ہے لہذا اسے پہلے کاموں میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اسے عاقبت اندیش ہونا چاہئے گرچہ انسان بھى وہى حیوانى غرائز اور خواہشات رکھتا ہے اسى وجہ سے جب کسى حیوانى خواہش کا طالب ہوتا ہے تو فورا اس کے بجالانے میں دوڑتا ہے اور اس کى حیوانى خواہش اور غریزہ اسے غور و فکر کى مہلت نہیں دیتا کہ کہیں عقل اس میدان میں نہ آجائے اور اس کى حیوانى خواہش کے لئے سد راہ نہ بن جائے لہذا اگر ہم سے ہو سکے کہ ہم اپنے آپ کو یوں عادت دیں کہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس میں خوب غور اور فکر کریں کے راستے کو کھول دیں اور اسے اس میدان میں کام کرنے دیں اور جب عقل اس میدان میں وارد ہوگا تو وہ اس اقدام کے واقعى مصالح اور مفاسد کو درک کرے گا اور حیوانى خواہش اور تمایلات میں اعتدال پیدا کرے گا اور ہمیں تکامل انسانى کے صراط مستقیم کى راہنمائی کرے گا اور جب عقل طاقت ور ہوگا اور جسم کى مملکت میں حاکم ہوجائے گا تو پھر وہ انسانیت کے داخلى دشمنوں اور نفسانى بیماریوں سے ہمیں آگاہ کردے گا اور اس کے علاج اور روکنے کى طرف متوجہ ہو جائیگا اسى لئے قرآن اور احادیث میں غور و فکر اور تعقل و تدبر کى بہت زیادہ تاکید اور سفارش کى گئی ہے_

3_ نفس کے بارے میں بدبینی: اگر انسان اپنے اندر کو دیکھے اور اپنى نفسانى صفات کو انصاف کى نگاہ سے تو لے تو پھر وہ اپنى نفسانى بیماریوں اور عیوب سے آگاہ ہوجائے گا کیونکہ انسان سب سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہے (یعنى اپنے اندر نیکى اور بدى کے وجود کو سب سے زیادہ سمجھتا ہے لیکن عذر لانے کے پردے اپنى بصیرت کى آنکھ پر ڈالنا رہتا ہے_[23]

لیکن ہم میں سب سے مشکل اور مصیبت یہ ہے کہ ہم فیصلے اور حکم دینے میں غیر جانبدار نہیں رہتے بلکہ اکثر اوقات ہم اپنے بارے میں خوش بین اور خودپسند ہوتے ہیں ہم اپنے آپ کو اور اپنے افعال اور صفات اور گفتار کو اچھا اور بلا عیب سمجھتے ہیں_ انسانى نفس امارہ ہمارے حیوانى کاموں کو ہمارے سامنے ایسا خوشنما بناتا ہے کہ ہم اپنے برے کاموں کو بھى اچھا سمجھنے لگ جاتے ہیں_ قرآن ارشاد فرماتا ہے کہ وہ شخص کہ جس کے کام اس کے سامنے خوشنما بنائے گئے ہیں اور انہیں نیک سمجھتا ہے ( آیا تو نے نہیں دیکھا؟)

' پس خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے_[24]

اسى لئے ہم اپنے عیبوں کو نہیں دیکھ پاتے تا کہ ان کى اصلاح کى کوشش کریں_ اس مشکل کا حل یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے نفس پر بد گمان اور بدبین رہیں اور یہ احتمال دیں بلکہ یقین کریں ہم بہت سى برائیوں اور بیماریوں میں گرفتار ہیں ایسى حالت میں ہم اپنے نفس کے بارے میں سوچیں_

امیر ا لمومنین علیہ السلام نے متقیوں کے صفات میں فرمایا ہے کہ '' انکا نفس ان کے نزدیک مورد تہمت اور بدگمانى میں قرار پایا ہے اور وہ اپنے کاموں میں خوف کھاتے ہیں جب بھى ان میں سے کوئی کسى کى تعریف کا مورد قرار پاتا ہے تو وہ اپنى تعریف کئے جانے میں ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے نفس سے زیادہ واقف ہیں اور خدا ہم سے بہت زیادہ آگاہ ہے_[25]

بزرگ موانع میں سے ایک مانع جو اجازت نہیں دیتا کہ انسان اپنى نفسانى بیماریوں سے آگاہ ہو اور اس کى اصلاح کرے یہى اپنے آپ کو اچھا سمجھتا اور اپنے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوتا ہے اگر یہ مانع دور کردیا جائے اور بطور انصاف اور یہ احتمال دیتے ہوئے کہ ہم میں عیب موجود ہیں اپنے آپ کو پایا جائے تو اس وقت ہم اپنى بیماریوں کو بھى پہچان لیں گے اور ان کى اصلاح بھى کریں گے_

4_ روحانى طبیب کى طرف رجوع: انسان کا اپنے عیبوں کو پہچاننے کے لئے ایک ایسا اخلاق کے عالم کى طرف کہ جس نے اپنے نفس کى تہذیب کر رکھى ہو اور اچھے اخلاق سے متصف ہوچکا ہو رجوع کرنا چاہئے اپنے اندرونى صفات اور احوال کو بطور کامل اس کے سامنے بیان کرنا چاہئے اور اس عالم سے خواہش کرے کہ وہ اس کے نفسانى عیوب اور برے صفات سے اسے آگاہ کرے_

ایک روحانى طبیب جو اسلامی، اخلاقى اور نفسیات کو جانتا ہو اور خودعامل اور مکارم اخلاق کا پابند ہو وہ تہذیب نفس اور سیر و سلوک کے راستے بتلانے کے لئے بہت ہى اہمیت رکھتا ہے اور موثر ہوا کرتا ہے اگر انسان اس قسم کا آدمى پیدا کرلے تو اسے خداوند عالم کا اس بزرگ نعمت پر شکریہ ادا کرنا چاہئے لیکن صد افسوس کہ اس قسم کے ادمى بہت کمیاب ہیں_ قابل توجہ یہ بات ہے کہ روح کى بیماریوں کى تشخیص کرنا بہت مشکل ہے لہذا بیمار پر فرض ہے کہ اپنى اندرونى صفات اور افعال کو بغیر چھپائے روحانى طبیب کے سامنے وضاحت سے بیان کردے تا کہ وہ اس کى بیمارى کى تشخیص کر سکے اور اگر بیمار نے اس بارے میں روحانى طبیب کى مدد نہ کى اور واقعات کے اظہار میں پس و پیش کیا تو وہ اس مطلوبہ نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے گا_

5_ دانا دوست کى طرف رجوع کرنا: اچھا اور دانا اور خیر خواہ ادوست اللہ تعالى کى ایک بہت بڑى نعمت ہوتا ہے جو تہذیب نفس اور برى صفات کے پہچان کے راستے میں انسان کى مدد کر سکتا ہے_ بشرطیکہ وہ دانا ہو اور برى اور اچھى صفات کو پہچانتا ہو اس کے علاوہ وہ خیر خواہ اور مورد اعتماد بھى ہو اس واسطے کہ اگر وہ اچھى اور برى صفات کو نہ پہچانتا ہو تو وہ اس کے متعلق اس کى مدد نہیں کر سکے گا اور اگر وہ مورد اعتماد اور خیر خواہ نہ ہوا تو ممکن ہے کہ وہ دوستى کى حفاظت اور ناراضگى کے مول نہ لینے کیوجہ سے اپنے دوست کے عیب کو چھپا لے بلکہ ممکن ہے کہ وہ خوشامد کرتے ہوئے اس کے عیب کو اس کے سامنے اچھا بیان کرے اور اس عیب پر اس کى تعریف اور تمجید شروع کردے اگر کوئی اس قسم کا دوست پیدا کرے اور اس سے خواہش کرے کہ جو نقص اور عیب اس میں دیکھے اسے اس کا تذکرہ کردے تو اسے اس کى یاد دھانى اور تذکر پر اس کى عزت اور قدردانى کرنى چاہئے_

اپنے نفس کى اصلاح کے لئے ایسے دوست سے استفادہ کرنا چاہئے اس کے تذکرات سے استفادہ اور اس کى عزت اور قدردانى پر اسے یہ باور کرائے کہ اس کے عیب بیان کرنے پر نہ صرف اسے برا معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس سے وہ خوشحال بھى ہو جاتا ہے_ اس دوست پر کہ جسے خیرخواہ قرار دیا گیا ہے ضرورى ہے کہ وہ بھى اپنے اخلاص اور صداقت کو عملى طور پر ثابت کرے_ بطور انصاف اور بغیر محبت اور بغض کے دوست کے صفات کو پر کھے اور دقت کرے اور اس بارے جو اس کا نظریہ ہوا سے وہ خیرخواہى اور دوستانہ زبان میں اسے بتلائے اور جہاں تک ہو سکے یہ اسے تنہائی اور مخفى طور سے بتلائے اور اس کے عیب کو لوگوں کے سامنے اظہار کرنے سے پرہیز کرے اس کى غرض واقع کا بتلانا ہو اور مبالغہ آمیزى سے پرہیز کرے کیونکہ وہ اپنے مومن بھائی کے لئے بطور آئینہ ہوتا ہے جو خوبیوں اور اچھائیوں کو بغیر کم اور زیادہ کے ظاہر کرتا ہے_ البتہ ایسے مہربان اور اصلاح طلب دوست جو انسان کے عیوب کو اصلاح کے لئے بیان کردیں بہت ہى کمیاب ہوتے ہیں_ لیکن اگر کسى کو ایسا دوست مل جائے تو وہ ایک بہت بڑى سعادت پر فائز ہوتا جائیگا اسے اس کى قدر پہچاننى چاہئے اور اس کى یاد دھانیوں پر خوشحال ہونا چاہئے اس کے شکریہ کا اظہار کرے اور اسے متوجہ ہونا چاہئے کہ جو دوست اصلاح کى غرض سے انسان کے عیب کى یاد دھانى کرا رہا ہے اور یاد دھانى سے رنجیدہ خاطر ہو اور اس کے دفاع یا انتقام لینے پر اتر آئے_ اگر کسى نے تجھے بتلایا کہ کئی ایک بچھو تیرے لباس پر موجود ہیں کیا اس کے اس بتلانے سے تو رنجیدہ خاطرہ ہوگا اور اس سے انتقام لینے پر اتر آئے گا اس کے اس کہنے سے خوشحال ہوگا اور اس کى قدردانى کرے گا؟

برے صفات بھى بچھو کى طرح ہوا کرتے ہیں بلکہ اس سے بدتر ہوتے ہیں اور انسان کے جسم پر ڈیگ مارتے ہیں اور ہمیشہ اس کے اندر چھپے رہتے ہیں جو ایسے بچھو سے بچانے میں ہمارى مدد کرے اس نے ہمارى بہت بڑى خدمت انجام دى ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' میرا بہترین بھائی وہ ہے جو میرے عیب کو میرے لئے بیان کرے_[26]

6_ دوسروں کے عیب سے نصیحت لینا: انسان غالبا اپنے عیب سے غافل ہوتا ہے لیکن دوسروں کے عیب کو دیکھتا ہے اور اس کى برائی کو خوب سمجھتا ہے اور مثال مشہور ہے کہ دوسروں کى آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اسے پہاڑ سمجھتا ہے لیکن پہاڑ کو اپنى آنکھ میں نہیں دیکھتا لہذا ایک راستہ اپنے نفسانى عیوب کى پہچان کا دوسروں کے عیوب کو دیکھتا ہے_ جب کسى عیب کو دوسروں میں دیکھے تو اس پر اعتراض کرنے سے پہلے اسے اپنے میں ڈھونڈے اور اپنے آپ میں اسے مورد تفتیش قرار دے اور اپنے آپ میں رجوع کرے اگر وہى عیب اس میں موجود ہو تو اس کى اصلاح کرنے کى سعى اور کوشش کرے_ لہذا ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے عیب سے نصیحت حاصل کرے اور اپنے نفس کو اس سے پاک کرلے رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ'' وہ سعادتمند انسان ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے_[27]

7_ اعتراض کئے جانے سے نصیحت حاصل کرے: دوست اکثر عیب کے ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اس کے بر عکس دشمن اکثر عیب پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں گرچہ وہ اعتراض کرنے میں مخلص نہیں ہوتے بلکہ حسد بغض انتقام لینے کى غرض انہیں تنقید کرنے پر ابھارتى ہے بہر حال انسان اپنے دشمنوں کے اعتراض اور تنقید اور عیب جوئی سے استفادہ کر سکتا ہے انسان اپنے دشمنوں کے اعتراض سے دو طریق میں سے کسى ایک سے روبرو ہو سکتا ہے پہلے یا تو وہ اپنے آپ کو ان اعتراضات سے دفاع کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ عیب جوئی دشمن سے ظاہر ہوتى ہے اور وہ اس کے بیان کرنے میں اچھائی کى نیت نہیں رکھتا لہذا جس طرح سے بھى ہو وہ اپنے لئے دفاع کى حالت پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس کى اس طرح کى آواز کو خاموش کرنے کے در پے ہوتا ہے اس طرح کا انسان نہ فقط اپنے عیب کى اصلاح نہیں کرتا بلکہ اس سے بڑھ کر دوسرى غلطى اور خطا اور اشتباہ میں اپنے آپ کو گرفتار کر لیتا ہے دوسرے وہ دشمنوں کے اعتراضات کو اچھى طرح سے سنتا ہے اور پھر حقیقت شناسى کى نیت سے اپنے آپ میں رجوع کرتا ہے اور بطور انصاف اس اعتراض کى تحقیق کرتا ہے اگر اس نے دیکھا کہ دشمن کا اعتراض درست ہے اور اس کا نفس معیوب ہے تو فورا اس کى اصلاح کرنے کى کوشش کرتا ہے بلکہ اگر مصلحت کا تقاضا ہو کہ ایسے دشمن سے کہ جس نے اس کا عیب بیان کیا ہے اور وہ اس کے نفس کے پاک کرنے کا وسیلہ بنا ہے شکریہ ادا کرے ایسا دشمن اس لحاظ کرنے والے دوست سے کہ جو اس کے عیب کو چھپاتا ہے اور اس کى اس عیب پر تعریف کرتے ہوئے چاپلوسى کر کے اسے جہالت اور نادانى میں رکھے رہتا ہے بہت زیادہ بہتر اور مفید ہوگا اور اگر اس نے سوچ و بچار کے بعد دیکھا کہ دشمن کا بیان کردہ عیب اس میں موجود نہیں ہے تو پھر خدا کا شکریہ ادا کرے اور اپنے نفس کى حفاظت کرے کہ کہیں اس برے عیب میں بعد میں مبتلا نہ ہوجائے اس صورت میں انسان ایسے دشمن سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس کا اس طرح کرنا اس سے مانع نہیں ہوگا کہ وہ عقلدئی اور شرعى طریقے سے دشمن کى سازش اور خیانت کے نقشے کو ناکام بنادے_

8_ روح کى بیماریوں کى علامتیں: بیمارى کى پہچان کا ایک بہترین طریقہ اس کى علامتوں سے ہوا کرتا ہے_ جسم کى بیمارى دو میں سے ایک طریقے سے پہچانى جاتى ہے یا تو درد کے محسوس کرنے سے اور یا کسى عضو کے اس کام کے انجام دینے سے کمزور پڑ جانے سے جو اس کے ذمہ قرار پایا ہے کیونکہ بدن کے نظام کے برقرار رہنے میں اس کے ہر عضو کا مخصوص عمل ہوا کرتا ہے اگر کوئی عضو اس کام کے انجام دینے میں کمزور ہو جائے تو معلوم ہوجائیگا کہ وہ عضو مریض ہوگیا ہے مثلا آنکھ اگر سالم ہو تو وہ خاص شرائط کے ساتھ دیکھتى ہے پس اگر شرائط کے ہوتے ہوئے یا تو بالکل نہ دیکھے یا اچھى طرح نہ دیکھے تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ بیمار ہے اسى طرح بدن کے بقیہ تمام اعضاء اور جوارح مثل کان ، زبان، ہاتھ، پائوں، دل ، جگر، گردے و غیرہ ان میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص کام ہوا کرتا ہے کہ جسے وہ سلامتى کى حالت میں انجام دیتے ہیں اگر انہوں نے وہ مخصوص کام انجام نہ دیئے تو معلوم ہوجائیگا کہ وہ بیمار ہیں انسان کى روح اور نفس بھى اسى طرح ہے کہ اس کے لئے فطرت اور خلقت کے لحاظ سے مخصوص کام قرار دیئے گئے ہیں جنہیں اس کو بجالانے ہوتے ہیں_ روح عالم ملکوت سے آئی ہے علم اور رحمت قوت احسان انصاف پسندى محبت معرفت نورانیت اور دوسرے کمالات اور مکارم اخلاق سے اسے سنخیت حاصل ہے اور ان سے مربوط ہے یہ فطرت کے لحاظ سے علت کو معلوم کرتى ہے اور خدا طلب ہے ایمان اور خدا کى طرف توجہ اور اس ذات سے محبت اور علاقمندى اس کى عبادت اور اس سے دعا اور راز و نیاز روح کى سلامتى اور صحت کى علامتیں ہیں_ اسى طرح علم و دانش اور اللہ کے بندوں کى رضا الہى کے لئے خدمت_ قربانى اور ایثار، عدالت خواہى اور دوسرے مکارم اخلاق روح کى صحت اور سلامتى کى علامتیں شمار ہوتى ہیں اگر انسان اس قسم کى صفات اپنے میں موجود پائے تو معلوم ہوجائیگا کہ اس کى روح سالم اور صحیح ہے اور اگر اسے حاصل ہو کہ وہ خدا کى طرف توجہہ نہیں رکھتا اور عبادت اور دعا اور مناجات سے لذت حاصل نہیں کرتا اور اس سے بھاگتا ہے خدا کو دوست نہیں رکھتا اور صرف مقام اور مرتبہ جاہ و جلال دولت اور ثروت اور اولاد اور بیوى شہوترانى اور لذات حیوانى کو اللہ کى رضا پر ترجیح دیتا ہے اور زندگى سے صرف منافع شخصى کا ہدف رکھتا ہے اور فداکارى اور قربانى اور ایثار اور احسان اور خدمت خلق سے لذت حاصل نہیں کرتا اور دوسروں کے درد اور مصیبت سے دردناک نہیں ہوتا_ ایسے شخص کو جان لینا چاہئے کہ اس کى روح واقعا بیمار ہے اگر وہ اپنى سعادت کو چاہتا ہے تو اسے بہت جلدى اپنى روح کى اصلاح اور علاج کرنا چاہئے_


علاج کرنے کا عزم

جب ہم نے نفس اور روح کى بیماریوں کو پہچان لیا اور یقین کر لیا کہ ہم بیمار ہیں تو ہمیں فورا علاج شروع کرنا چاہئے اور سب سے اہم اس مرحلہ میں انسان کا ارادہ اور عزم ہے اگر واقعا ہم چاہئیں اور حتمى ارادہ کرلیں کہ ہم اپنے آپ کو برائیوں اور برے اخلاق سے اپنى روح کو پاک کریں گے تو یسا کر سکتے ہیں لیکن اگر اس کو معمولى شمار کریں اور ارادہ اور عزم نہ کریں تو پھر روح کى سلامتى اور اس کام صحیح ہوجانا غیر ممکن ہوگا یہ وہ وقت ہے کہ شیطن اور نفس امارہ اپنا کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور مختلف بہانوں کو سامنے لاتا ہو تا کہ ہمیں روح کى اصلاح کرنے سے روکے رکھے لیکن ہمیں بہت زیادہ ہوشیار ہونا چاہئے تا کہ اس کے حیلے اور بہانوں کا فریب نہ کھائیں_ ممکن ہے کہ ہمارى برى عادت کو یوں بتلایا جائے کہ تم نے لوگوں کے ساتھ زندگى بسر کرنى ہے دوسرے بھى ایسى صفت رکھتے ہیں_ فلان فلان فلان کو دیکھو اسى صفت بلکہ اس سے بدتر صفت رکھتا ہے کیا تم تنہا زندگى گذار سکتے ہو؟ اگر تو چاہتا ہے کہ رسوائے زمانہ نہ ہو تو زمانے کى طرح چال چلو_ لیکن انسان کو اس فریب اور دھوکے کے سامنے ڈٹ جانا ہوگا_ اگر دوسرے اس مرض میں مبتلا ہیں تو ان کا مجھ سے کیا ربط ہے کسى دوسروں کا اس بیمارى میں گرفتار ہوجانا میرے اس کے ارتکاب کا جواز نہیں بنتا_ اسے یوں کہنا ہوگا کہ یہ عیب اور بیمارى تو مجھ میں موجود ہے اگر میں اس بیمارى کے ساتھ مرگیا تو ہمیشہ بدبختى اور شقاوت میں جا پڑوں گا_ لہذا مجھے اس کا علاج کرنا چاہئے اور اپنے نفس کو اس سے پاک کرنا ہوگا_

ممکن ہے کبھى اور حیلے کے ذریعے سے کہ جس سے وقت گذرتا جائے اور تاخیر ہوجائے شیطن میدان میں آجائے اور ہمارے ارادہ کو منصرف کردے اور یوں خیال میں لائے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ یہ عیب تو تجھ میں موجود ہے اور اس کى اصلاح بھى کرنى چاہئے لیکن اتنى جلدى کیا ہے اور کیا دیر ہوگئی ہے؟ رہنے دو میں فلان کام انجام دے لوں_ اس وقت فارغ البال ہو کر نفس کے پاک کرنے میں مشغول ہو جائونگا_ ابھى تو میں جوان ہوں اور عیش کرنے کا زمانہ ہے جب بوڑھا پے میں جائونگا تو پھر توبہ کر لونگا اور نفس کے پاک کرنے میں مشغول ہوجائونگا_ انسان کو متوجہ رہنا چاہئے کہ یہ بھى شیطن کا ایک فریب اور حیلہ ہے_ کیا معلوم کہ اس وقت تک انسان زندہ رہے گا؟ شاید اس سے پہلے مرجائے اور انہیں نفسانى بیماریوں میں فوت ہوجائے اس وقت ہمارا انجام کیا ہوگا؟ اور بالغرض اس وقت تک ز ندہ بھى رہ جائے تو کیا اس وقت شیطن اپنى حیلہ گرى اور فریب دینے کو چھوڑ دے گا_ اور ہمیں آزاد چھوڑ دے گا تا کہ اپنے نفس کو پاک کر سکیں اس وقت شیطن کوئی اور فریب دے کر نفس کے پاک کرنے سے ہمیں روک دے گا لہذا کتنا ہى اچھا ہے کہ ابھى سے نفس کے پاک کرنے میں شروع ہوا جائے اور نفس امارہ پر قابو پایا جائے_ ممکن ہے کہ نفس امارہ ہمیں کہے کہ تم نے فلاں صفت کى عادت کر رکھى ہے اور عادت کا چھوڑنا تیرے لئے ممکن نہیں ہو گا تو خواہشات نفس کا قیدى ہے کس طرح تو اپنے آپ کو اس قید سے رہائی دلا سکتا ہے؟ تیرى روح گناہ اور معصیت کى وجہ سے تاریک ہوچکى ہے ابھى اسے گلو خلاصى ممکن نہیں ہے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بھى شیطن کى ایک فریب کارى اور دھوکا دہى ہے تجھے اپنے نفس کو کہہ دینا چاہئے کہ عادت کا چھوڑنا غیر ممکن نہیں ہوتا بلکہ یہ ممکن ہے گرچہ یہ مشکل تو ہے لیکن اصلاح کرنے کے عمل میں شروع ہو جانا چاہئے اور اپنے نفس کو پاک کرنے میں کوشش کرنے چاہئے اگر گناہ اور برى عادت کا چھوڑنا ممکن نہ ہوتاتو یہ سارے حکم جو پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار کے اس بارے میں آئے ہیں تو ان سے صادر نہ ہوتے اور توبہ کے دروازے کسى وقت بند نہ ہوتے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے لہذا حتمى ارادہ کر لینا چاہئے اور روح کے پاک کرنے میں مشغول ہو جانا چاہئے_ ہو سکتا ہے کہ شیطان نفسانى بیماریوں اور برى صفات کو معمولى اور کم بتلائے اور کہے کہ تم واجبات کے بجالانے کے تو پابند ہو اور فلان فلان مستحب کام بھى بجالاتے ہو خدا تمہیں بخش دے گا اور تیرى جگہ بہشت ہے اور یہ کئی ایک برى صفات جو تم میں موجود ہیں یہ اتنى اہم نہیں ہیں تیرے مستحبات کے بجالانے کى وجہ سے ان کا تدارک ہو جائیگا اور وہ بخش دى جائیں گى اس صورت میں بھى ملتفت رہنا چاہئے کہ اس قسم کے خیالات اور امیدیں دلانا بھى شیطن کا ایک مکر اور فریب ہوتا ہے اور ہمیں اپنے نفس ا مارہ سے کہنا چاہئے کہ نیک اعمال تو صرف متقیوں سے قبول ہوتے ہیں اور تقوى کا حاصل کرنا نفس کو پاک کئے بغیر حاصل نہیں ہوتا اگر ہمارا نفس برائیوں سے پاک نہ ہوا تو نفس میں اچھائیوں کى نشو و نما نہیں ہو سکے گى اور اگر نفس سے شیطن باہر نہ گیا تو فرشتہ رحمت اس میں داخل نہیں ہو سکے گا اگر گناہ اور برے اخلاق سے نفس آلودہ ہوا تو آخرت کے جہان میں اس کے لئے نور نہ ہوگا_

ہمیں ہمیشہ ان بیماریوں کے انجام کى طرف جو پہلے بیان کى جاچکى ہیں متوجہ رہنا چاہئے اس کے ساتھ احادیث اور اخلاق کى کتابوں کے مطالعہ سے ان نفسانى بیماریوں اور ان کى اخروى سزا اور عقاب کو مورد توجہ قرار دینا چاہئے اس ذریعے سے ہمیں نفس امارہ کے حیلے اور بہانے اور نفس امارہ کے توہمات کا مقابلہ کرنا چاہئے اور نفس کى اصلاح اور اسے پاک کرنے میں حتمى اور جزمى ارادہ کر لینا چاہئے اگر ہم نے ارادے کا مرحلہ طے کر لیا تو پھر عمل کرنے کا مرحلہ قریب تر ہوجائیگا_


نفس پس غلبہ کرنا

 

تمام اعمال اور افعال اور برائیاں اور اچھائیوں کو بجالانے والى در حقیقت روح ہوا کرتى ہے اگر روح سالم اور صحیح ہو تو انسان کى دنیا اور آخرت آباد ہوگى اور اگر روح فاسد ہوئی تو پھر وہ برائیوں کے بجالانے کا موجب ہوگى اور دنیا اور آخرت کى ہلاکت اسے لاحق ہوجائیگى اگر انسان نے انسانیت کے راستے پر قدم رکھا تو اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھى بالاتر ہوجائیگا اور اگر اسے نے انسانى شرافت کو نظر انداز کیا اور حیوانیت کے راستے پر گامزن ہوا تو حیوانات سے بھى بدتر ہوجائیگا بلکہ وہ شیطنت کے مقام تک پہنچ جائیگا ان دونوں راستوں کے طے کرنے کے اسباب اور عوامل انسان کى فطرت میں رکھ دیئے گئے ہیں_

وہ عقل بھى رکھتا ہے اور فطرت کے ما تحت انسانى فضائل اور کمالات کا چاہنے والا بھى ہوتا ہے اور یہ حیوان بھى ہے اور حیوانى غرائز اور خواہشات بھى رکھتا ہے اور یوں بھى نہیں کہا جا سکتا کہ حیوانى خواہشات اور غرائز بالکل اور نقصان وہ ہوتى ہیں اور انسان کو پستى کى طرف دکھیل دیتى ہیں نہ بلکہ ان کا ہونا بھى انسان کى زندگى کے لئے ضرورى ہے_ اگر ان سے صحیح اور تھیک استفادہ کیا جائے تو انہیں انسانى تکامل اور اللہ کى طرف سیر و سلوک کے لئے کام میں لایا جا سکتا ہے لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ حیوانى خواہشات اور تمنیک ایک معین حد تک نہیں تھہر تیں اور دوسروں کا لحاظ نہیں کرتیں اور نہ ہى انسانى خصوصیات کى طرف متوجہ ہوتى ہیں اور نہ ہى دوسرے غرائز کا لحاظ کرتى ہیں بلکہ ان کى غرض اور غایت صرف اپنے آپ کو آخر تک پہچانا ہوتا ہے_

حیوانى غریزہ کى غرض صرف اسى غریزہ کو بطور کامل حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کى کوئی غرض نہیں ہوتى تمام حیوانى خواہشات اور غرائز جیسے کھانے پینے کى چیزوں سے لذت حاصل کرنا مقام اور منصب کى محبت حکومت اور شہرت مال اور دولت سے وابستگى زندگى کے تجملات اسى طرح غصہ انتقام لینا اور تمام وہ صفات جو ان سے پھوٹتى ہیں یہ تمام کى تمام کسى ایک معین حد تک نہیں تھہرتیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کو آخر تک حاصل کرنا مقصود ہوجاتا ہے_

اسى وجہ سے انسان کا نفس اور روح مختلف خواہشات اور غرائز کے لئے میدان جنگ اور شکست و ریخت کا میدان بنا رہتا ہے اور کبھى آرام اور سکون میں نہیں رہتا جو بھى اس جنگ میں کامیاب ہو جاتا ہے وہى روح اور نفس کو پورى طرح اپنا اسیر اور قیدى بنا لیتا ہے لیکن ان کے درمیان عقل بہت قدرت اور بہت زیادہ اہمیت رکھتى ہے_ عقل شرعیت کى راہنمائی میں حیوان خواہشات اور تمینات پر کنتڑل کر سکتى ہے اور انہیں اعتدال کى حالت میں قرار دے سکتى ہے اور افراط اور تفریط سے مانع بن سکتى ہے عقل اپنى حکومت کو کام میں لا سکتى ہے_ خواہشات کے درمیان اعتدال برقرار کر سکتى ہے_ عقل اس وسیلے سے نفس اور روح کى مملکت کو گڑ بڑ اور نا آرامى اور زیادہ طلبى سے نجات دلا سکتى ہے اور انسانیت کے سیدھے راستے اور سیر اور سلوک کى راہ نمائی کر سکتى ہے_

لیکن عقل کا اسپر حاکم اور مسلط ہوجانا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ وہ باقى طاقت ور قوتوں اور خواہشات کے روبرو ہوتى ہے اور دھوکے باز دشمن کہ جس کا نام نفس امارہ ہے اور اس کے بہت زیادہ مددگار اور ساتھى ہیں جو اس کى حمایت کرتے ہیں_ اسے اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ'' نفس ہمیشہ برے کاموں کا حکم دیتا ہے مگر خدا رحم کردےں_[28]

رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ '' تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دو پہلو میں موجود دہے_[29]

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' عقل اور شہوت ایک دوسرے کى ضد ہیں علم عقل کى مدد کرتا ہے اور ہوى اور ہوس شہوت کى تائید کرتے ہیں_ انسانى نفس دو قوتوں کى لڑائی کا میدان ہوتا ہے ان میں سے جو دوسرى قوت پر غلبہ حاصل کر لے انسانى نفس کو اپنى گرفت میں لے لیتا ہے_[30]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' برائی اور شر ہر ایک نفس میں موجود ہیں اگر نفس کے مالک نے اس پر غلبہ حاصل کر لیا تو وہ مخفى ہوجاتا ہے اور اگر اس پر غلبہ نہ کیا تو وہ ظاہر ہوجاتا ہے_ [31]

لہذا عقل بہت اچھا حاکم ہے لیکن مدد کئے جانے کا محتاج ہے اگر اس جنگ میں عقل کى مدد کریں اور نفسانى خواہشات اور شہوات اور ہوى و ہوس پر شورش کریں اور جسم کى مملکت کے انتظام کا کاکم عقل کے سپرد کردیں تو ایک بہت بڑى فتح اور کامرانى کو حاصل کر لیں گے_

یہى دو چیز ہے کہ جو دین کے پیشوائوں اور رہبروں اور شریعت اور طریقت پر چلنے والوں نے ہم سے طلب کى ہوئی ہے اور اس کے متعلق بہت زیادہ تاکید کر رکھى ہے_

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہوشیار رہنا کہ کہیں شہوات تمہارے دلوں پر غالب نہ آجائیں کیونکہ پہلے وہ تمہیں اپنى ملکیت میں لیں گى اور آخر میں تجھے ہلاک کردیں گی_[32]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جس نے اپنى خواہشات کو اپنى ملکیت میں قرار نہ دیا تو وہ اپنى عقل کا مالک بھى نہیں رہے گا_[33]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' جو شخص خوف اور رغبت اور شہوت اور غضب کے وقت اپنے نفس پر مسلط ہوا تو خدا اس کے بدن کو جہنم کى آگ پر حرام قرار دے دے گا_[34]

حضرت على علیہ السلام نے فرمایاہے کہ'' تم اپنے نفس پر مسلط ہوجائو اور اسے گناہوں سے روکو تا کہ تم اسے اللہ کى اطاعت کى طرف آسان کردو_[35]

روح انسانى کو پاکیز بنانے کے لئے نفس اور اس کى خواہشات اور ھوى اور ہوس پر کنتڑل کرنا ایک ضرورى اور زندگى ساز کام ہے_ انسان کا نفس اور روح مثل ایک سرکش گھوڑے کى طرح ہے اگر وہ ریاضت کے ذریعے مطیع اور آرام میں ہوا اور اس کى لگام اپنے ہاتھ میں رکھى اور اس کى پشت پر سوار ہوا تو پھر اس سے فائدہ حاصل کر سکے گا اور اگر وہ مطیع اور فرمانبردار نہ ہوا اور جس طرف چاہے وہ جانے لگا تو وہ تجھے اپنى پشت سے تہہ غار میں گرا دے گا لیکن سرکش نفس کو مطیع اور فرمانبردار بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے وہ ابتداء ہى میں تجھ سے مقابلہ کرے گا_ لیکن اگر تو مقاومت کرے اور مضبوط بنے تو وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائے گا_

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اگر تیرا نفس تیرے سامنے سختى سے پیش ائے اور مطیع اور فرمانبردار نہ ہو تو بھى اس پر سختى کر تا کہ وہ تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوجائے تو اس کے ساتھ حیلے اور بہانے سے پیش آتا کہ وہ تیرى اطاعت میں آ جائے _ [36]

نیز حضرت على علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان خواہشات اور شہوات مار دینے والى بیماریاں ہیں اور انکا بہترین علاج اور دوا، صبر اور استقامت اور اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے_ [37]

 

[1]- عن ابى جعفر علیه السّلام قال: لما خلق اللّه العقل استنطقه. ثم قال له: اقبل، فاقبل. ثم قال له: ادبر. فأدبر ثم قال: و عزتى و جلالى! ما خلقت خلقا احبّ الىّ منک و لا اکملتک الّا فیمن احب. اما انّى ایّاک آمر و ایّاک انهى و ایّاک اثیب- کافى/ ج 1 ص 10.
[2]- کَذلِکَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَکُمْ آیاتِهِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ- بقره/ 242.
[3]- أَ فَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِها- حج/ 46.
[4]- إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِینَ لا یَعْقِلُونَ- انفال/ 22.
[5]- وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِینَ لا یَعْقِلُونَ- یونس/ 100.
[6]- بعض اصحابنا رفعه الى ابى عبد اللّه علیه السّلام قال: قلت له ما العقل؟ قال: ما عبد به الرحمان و اکتسب به الجنان- کافى/ ج 1 ص 11.
[7]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: من کان عاقلا کان له دین و من کان له دین دخل الجنة- کافى/ ج 1 ص 11.
[8]- قال ابو الحسن موسى بن جعفر علیه السّلام( فى حدیث): یا هشام! ان اللّه على الناس حجتین: حجة ظاهرة و حجة باطنة فاما الظاهرة فالرسل و الانبیاء و الائمه. و اما الباطنة فالعقول کافى/ ج 1 ص 16.
[9]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: اکمل الناس عقلا احسنهم خلقا- کافى/ ج 1 ص 23.
[10]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: العقل دلیل المؤمن- کافى/ ج 1 ص 25.
[11]- قال الرضا علیه السّلام: صدیق کل امرء عقله و عدوه جهله- کافى/ ج 1 ص 11.
[12]- قال امیر المؤمنین( ع): اعجاب المرء بنفسه دلیل على ضعف عقله- کافى/ ج 1 ص 27.
[13]- قال موسى بن جعفر علیه السّلام: یا هشام! من اراد الغنى بلا مال و راحة القلب من الحسد و السلامة فى الدین فلیتضرع الى اللّه فى مسألته بان یکمّل عقله. فمن عقل قنع بما یکفیه و من قنع بما یکفیه استغنى و من لم یقنع بما یکفیه لم یدرک الغنى ابدا- کافى/ ج 1 ص 18.
[14]- قال موسى بن جعفر علیه السّلام: یا هشام! ان العقلاء ترکوا فضول الدنیا، فکیف الذنوب، و ترک الدنیا من الفضل و ترک الذنوب من الفرض- کافى/ ج 1 ص 17.
[15]- قال موسى بن جعفر( ع): یا هشام! ان العاقل لا یکذب و ان کان فیه هواه- کافى/ ج 1 ص 19.
[16]- قال موسى بن جعفر علیه السّلام: یا هشام! لا دین لمن لا مروة له و لا مروة لمن لا عقل له و ان اعظم الناس قدرا الذى لا یرى الدنیا لنفسه خطرا. اما ان ابدانکم لیس لها ثمن الّا الجنة فلا تبیعوها بغیرها- کافى/ ج 1 ص 19.
[17]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: ان التفکر یدعو الى البرّ و العمل به- کافى/ ج 2 ص 55.
[18]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: التدبیر قبل العمل یؤمنک من الندم- بحار/ ج 71 ص 338.
[19]- ان رجلا اتى رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله فقال: یا رسول اللّه اوصنى. فقال له: فهل انت مستوص ان اوصیتک؟ حتى قال ذالک ثلاثا فى کلها یقول الرجل: نعم یا رسول اللّه، فقال له رسول اللّه: فانى اوصیک اذا هممت بامر فتدبر عاقبته، فان یک رشدا فامضه و ان یک غیا فانته عنه- بحار الانوار/ ج 71 ص 339.
[20]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: انّما اهلک الناس العجلة و لو ان الناس تثبتوا لم یهلک احد- بحار/ ج 71 ص 340.
[21]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: الاناة من اللّه و العجلة من الشیطان- بحار/ ج 71 ص 340.
[22]- و اروى: التفکر مرآتک ترایک سیئاتک و حسناتک- بحار/ ج 71 ص 325.
[23]- بَلِ الْإِنْسانُ عَلى‏ نَفْسِهِ بَصِیرَةٌ، وَ لَوْ أَلْقى‏ مَعاذِیرَهُ- قیامت/ 14 و 15.
[24]- أَ فَمَنْ زُیِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَناً فَإِنَّ اللَّهَ یُضِلُّ مَنْ یَشاءُ وَ یَهْدِی مَنْ یَشاءُ- فاطر/ 8.
[25]- قال على( ع): فهم لانفسهم متهمون و من اعمالهم مشفقون و اذا زکّى احد منهم خاف مما یقال له فیقول: انا اعلم بنفسى من غیرى و ربى اعلم منى بنفسى- نهج البلاغه/ خطبه 193.
[26]- قال الصادق علیه السّلام: احب اخوانى الىّ من اهدى الىّ عیوبى- تحف العقول/ ص 385.
[27]- قال رسول اللّه صلّى اللّه علیه و آله: السعید من وعظ بغیره- بحار الانوار/ ج 71 ص 324.
[28]- إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا ما رَحِمَ رَبِّی- یوسف/ 53.
[29]- قال النبى صلّى اللّه علیه و آله: اعدى عدوک نفسک التى بین جنبیک- بحار/ ج 70 ص 64.
[30]- قال على علیه السّلام: العقل و الشهوة ضدان، و مؤید العقل العلم و مؤیّد الشهوة الهوى، و النفس متنازعة بینهما. فایّهما قهر کانت فى جانبه- غرر الحکم/ ج 1 ص 96.
[31]- قال على علیه السّلام: الشرّ کامن فى طبیعة کل احد فان غلبه صاحبه بطن و ان لم یغلبه ظهر- غرر الحکم/ ج 1 ص 105.
[32]- قال على علیه السّلام: ایّاکم و غلبة الشهوات على قلوبکم فان بدایتها ملکة و نهایتها هلکة- غرر الحکم/ ص 16.
[33]- قال على علیه السّلام: من لم یملک شهوته لم یملک عقله- غرر الحکم/ ج 2 ص 702.
[34]- قال الصادق علیه السّلام: من ملک نفسه اذا رغب و اذا رهب و اذا اشتهى و اذا غضب و اذا رضى حرّم اللّه جسده على النار- وسائل الشیعه/ ج 6 ص 123.
[35]- قال على علیه السّلام: غالبوا انفسکم على ترک المعاصى یسهل علیکم مقادتها الى الطاعات غرر الحکم/ ج 2 ص 508.
[36]- قال على علیه السّلام: اذا صعب علیک نفسک فاصعب لها تذلّ لک و خادع نفسک عن نفسک تنقد لک- غرر الحکم/ ج 1 ص 319.
[37]- قال على علیه السّلام: الشهوات اعلال قاتلات و افضل دوائها اقتناء الصبر عنها- غرر الحکم/ ج 1 ص 72.