پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تہذيب نفس كے مراحل

تہذیب نفس کے مراحل

حفاظت قبلی: اخلاقى اصول صحت کا لحاظ اور گناہوں اور برے اخلاق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا نفس کو پاک کرنے کا آسان ترین اور بہترین مرحلہ ہوا کرتا ہے جب تک نفس انسان گناہ میں آلودہ نہیں ہوا اور اس کا ارتکاب نہیں کیا تب فطرى نورانیت اور صفا قطب رکھتا ہے_ اچھے کاموں کے بجالانے اور اچھے اخلاق سے متصف ہونے کى زیادہ قابلیت رکھتا ہے_

ابھى تک اس کا نفس تاریک اور سیاہ نہیں ہوا اور شیطن نے وہاں راستہ نہیں پایا اور برائیوں کى عادت نہیں ڈالى اسى وجہ سے گناہ کے ترک کردینے پر زیادہ آمادگى رکھتا ہے_ جوان اور نوجوان اگر ارادہ کرلیں کہ اپنے نفس کو پاک رکھیں گے اور گناہ کے ارتکاب اور برے اخلاق سے پرہیز کریں گے تو ان کے لئے ایسا کرنا کافى حد تک آسان ہوتا ہے_ کیونکہ ان کا یہ اقدام حفظ نفس میں آتا ہے اور حفظ نفس عادت کے ترک کرنے کى نسبت بہت زیادہ آسان ہوتا ہے لہذا جوانى اور نوجوانى بلکہ بچپن کا زمانہ نفس کے پاک رکھنے کا بہترین زمانہ ہوا کرتا ہے انسان جب تک خاص گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا وہ گناہ کے ترک پر زیادہ آمادگى رکھتا ہے لہذا جوانوں نوجوانوں اور وہ لوگ جنہوں نے ابھى تک کسى گناہ کا ارتکاب نہیں کیا انہیں ایسى حالت کى فرصت کو غنیمت شمار کرنا چاہئے اور کوشش کریں کہ بالکل گناہ کا ارتکاب نہ کریں اور اپنے نفس کو اسى پاکیزگى اور طہارت کى حالت میں محفوظ رکھیں_ حفاظت کرنا گناہ کے ترک کرنے سے زیادہ آسان ہوا کرتا ہے اور ضرورى ہے کہ اس نقطے کى طرف متوجہہ رہیں کہ اگر گناہ کا ارتکاب کر لیا اور برے اخلاق کو اپنا لیا ور شیطن کو اپنے نفس کى طرف راستہ دے دیا تو پھر ان کے لئے گناہ کا ترک کرنا بہت مشکل ہوجائیگا_

شیطن اور نفس امارہ کى کوشش ہوگى کہ ایک دفعہ اور دو گناہ کے انجام دینے کو اس کے لئے معمولى اور بے اہمیت قرار دے تا کہ اس حیلہ سے اپنا اثر رسوخ اس میں جمالے اور نفس کو گناہ کرنے کا عادى بنا دے لہذا جو انسان اپنى سعادت ا ور خوشبختى کى فکر میں ہے اسے چاہئے کہ حتمى طور سے نفس کى خواہشات کے سامنے مقابلہ کرے اور گناہ کے بجالانے میں گرچہ ایک ہى مرتبہ کیوں نہ ہو اپنے آپ کو روکے رکھے_

امیر المومنین نے فرمایا ہے کہ '' کسى برے کام یا کلام کو اپنے نفس کو بجالانے کى اجازت نہ دو_[1]

آپ نے فرمایا کہ '' اپنے نفس کى خواہشات پر اس سے پہلے کہ وہ طاقتور ہوجائے غلبہ حاصل کرو کیونکہ اگر وہ طاقتور ہوگیا تو پھر وہ تجھے اپنا قیدى بنالے گا اور جس طرف چاہے گا تجھے لے جائیگا اس وقت تو اس کے سامنے مقابلہ نہیں کر سکے گا_[2]

آپ نے فرمایا کہ '' عادت چھاجانے والا دشمن ہے_[3]

آپ نے فرمایا کہ'' عادت انسان کى ثانوى طبیعت ہوجاتى ہے_[4]

آپ نے فرمایا کہ '' اپنى خواہشات پر اس طرح غلبہ حاصل کرو جس طرح ایک دشمن دوسرے دشمن پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح جنگ کرو کہ جس طرح دشمن دشمن کے ساتھ جنگ کرتا ہے_ شاید کہ اس ذریعہ سے اپنے نفس کو رام اور مغلوب کر سکو_[5]

آپ نے فرمایا کہ '' گناہ کا نہ کرنا توبہ کرنے سے زیادہ آسان ہے ہو سکتا ہے کہ ایک گھڑى کى شہوت رانى طولانى غم کا باعث ہوجائے_ موت انسان کے لئے دنیا کى پستى اور فضاحت کو واضح اور کشف کرنے کا سبب ہوتى ہے_ اور عقلمند انسان کے لئے کسى خوشى اور سرور کو نہیں چھوڑتى _[6]

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ '' اپنے نفس کو ان چیزوں سے جو نفس کے لئے ضرر رساں ہیں روح کے نکلنے سے پہلے روکے رکھ اور اپنے نفس کے لئے آزادى اس طرح آزادى کى کوشش کر کہ جس طرح زندگى کے اسباب کے طلب کرنے میں کوشش کرتا ہے_ تیرا نفس تیرے اعمال کے عوض گروى رکھا جا چکا ہے_[7]

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو شخص اللہ تعالى کے مقام و مرتبت سے خوف کھائے اور اپنے نفس کو اس کى خواہشات سے روکے رکھے اس کى جگہ اور مقام بہشت میں ہے_[8]

بہر حال حفاظت قبلى سب سے آسان راستہ ہے اور جتنا انسان اس راستے کى تلاش اور عمل کرنے میں کوشش کرے گا یہ اس کے لئے پر ارزش اور قیمتى ہوگا_ اس جوان کو مبارک ہو جو زندگى کے آغاز سے ہى اپنے نفس امارہ پر قابو پائے رکھتا ہو اور اسے گناہ کرنے کى اجازت نہ دے اور آخرى عمر تک اسے پاک و پاکیزہ اور اللہ کے تقرب کے لئے سیر و سلوک میں ڈالے رکھے تا کہ قرب الہى کے مرتبے تک پہنچ جائے_

 


یکدم ترک کرنا

اگر قبلى حفاظت کے مرحلے سے روح نکل جائے اور گناہ سے آلودہ ہو جائے تو اس وقت روح اور نفس کے پاک کرنے کى نوبت آجائیگی_ روح کے پاک کرنے میں کئی ایک طریق استعمال کئے جا سکتے ہیں لیکن سب سے بہتریں طریقہ اندرونى انقلاب اور ایک دفعہ اور بالکل ترک کر دینا ہوا کرتا ہے_ جو انسان گناہ اور برے اخلاق میں آلودہ ہوچکا ہوا ہے اسے کیدم خدا کى طرف رجوع اور توبہ کرنى چاہئے اور اپنى روح کو گناہ کى کثافت اور آلودگى سے دھونا چاہئے اور اسے پاک و پاکیزہ کرے ایک حتمى اور یقینى ارادے سے شیطن کو روح سے دور کرے اور روح کے دروازوں کو شیطن کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردے اور دل کے گھر کو اللہ تعالى کے مقرب فرشتوں کے نازل ہونے اور انوار الہى کے مرکز قرار پانے کے لئے کھول دے اور ایک ہى حملہ میں نفس امارہ اور شیطن کو مغلوب کردے اور نفس کى لگام کو مضبوط اور ہمیشہ کے لئے اپنے ہاتھ میں لئے رکھے کتنے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس طریقے سے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کیا ہے اور اپنے نفس کو یکدم اور یک دفعى طریقہ سے پاک کرنے کى توفیق حاصل کر لى ہے اور پھر آخرى عمر تک اسى کے پابند رہے ہیں یہ اندرونى انقلاب کبھى واعظ او راخلاق کے پاک بنانے والے استاد کے ایک جملے یا اشارے سے پیدا ہوجاتا ہے یا ایک واقعہ غیر عادى سے کہ کسى دعا ذکر اور کى مجلس میں ایک آیت یا روایت یا چند دقیقہ فکر کرنے سے حاصل ہو جایا کرتا ہے_ کبھى ایک معمولى واقعہ مثل ایک چنگارى کے داخل ہونے سے دل کو بدل اور روشن کر دیتا ہے_ ایسے لوگ گذرے ہیں جنہیں اسى طرح سے اپنے نفس کو پاکیزہ بنانے کى توفیق حاصل ہوئی ہے اور وہ راہ خدا کے سالک قرار پائے ہیں جیسے بشر حافى کا واقعہ_ بشر حافى کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ ایک اشراف اور ثروتمند انسان کى اولاد میں سے تھا اور دن رات عیاشى اور فسق و فجور میں زندگى بسر کر رہا تھا اس کا گھر فساد رقص اور سرور عیش و نوش ارو غنا کامرکز تھا کہ غنا کى آواز اس کے گھر سے باہر بھى سنائی دیتى تھى لیکن اسى شخص نے بعد میں توبہ کر لى اور زاہد اور عابد لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگا_ اس کے توبہ کرنے کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ ایک دن اسى بشر کى لونڈى کوڑا کرکٹ کا ٹوکراے کر دروازے کے باہر پھینکے کے لئے آئی اسى وقت امام موسى کاظم علیہ السلام اس کے دروازے کے سامنے سے گزر رہے تھے اور گھر سے ناچنے گانے کى آواز آپ کے کان میں پڑى آپ نے اس لونڈى سے پوچھا کہ '' اس گھر کا مالک آزاد ہے یا غلام؟ اس نے جواب دیا کہ آزاد اور آقا زادہ ہے _ امام نے فرمایا تم نے سچ کہا ہے کیونکہ اگر یہ بندہ اور غلام ہوتا تو اپنے مالک اور مولى سے ڈرتا اور اس طرح اللہ تعالى کى معصیت میں غرق اور گستاخ نہ ہوتا_ وہ لونڈى گھر میں لوٹ گئی_ بشر جو شراب کے دسترخوان پر بیٹھا تھا اس نے لونڈی سے پوچھا کہ تم نے دیر کیوں کی؟ لونڈى نے اس غیر معروف آدمى کے سوال اور جواب کو اس کے سامنے نقل کیا_ بشر نے لونڈى سے پوچھا کہ آخرى بات اس آدمى نے کیا کہی؟ لونڈى نے کہا کہ اس کا آخرى جملہ یہ تھا کہ تم نے سچ کہا ہے کہ اگر وہ غلام ہوتا اور اپنے کو آزاد نہ سمجھتا یعنى اپنے آپ کو خدا کا بندہ اور غلام سمجھتا تو اپنے مولى اور آقا سے خوف کھاتا اور اللہ تعالى کى نافرمانى کرنے میں اتنا گستاخ اور جرى نہ ہوتا_ امام علیہ السلام کا یہ مختصر جملہ تیر کے طرح بشر کے دل پر لگا اور آگ کى چنگارى کى طرح اس کے دل کو نورانى اور دگرگون کر گیا _ شراب کے دسترخوان کو دور پھینکا اور ننگے پائوں باہر دڑا اور اپنے آپ کو اس غیر معروف آدمى تک جا پہنچایا اور دوڑتے دوڑتے امام موسى کاظم علیہ السلام تک جا پہنچا اور عرض کى اے میرے مولى میں اللہ تعالى اور آپ سے معذرت کرتا ہوں_ جى ہاں میں اللہ تعالى کا بندہ اور غلام تھا اور ہوں لیکن میں نے اپنے اللہ تعالى کى غلامى اور بندگى کو فراموش کردیا اسى وجہ سے اس طرح کى گستاخیاں کرنے لگا لیکن اب میں نے اپنے آپ کو بندہ سمجھ لیا اور اپنے گذرے ہوئے کردار سے توبہ کرتا ہوں کیا میرى توبہ قبول ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں_ اللہ تعالى تیرى توبہ قبول کرلے گا اور تو اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے_ بشر نے توبہ کی_ اور عبادت گذار اور زہاد اور اولیاء خدا میں داخل ہوگیا اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر اپنى سارى عمر ننگے پائوں چلتا رہا (جس کى وجہ سے اس کا نام بشر حافى یعنى ننگے پائوں والا ہوگیا_[9]

ابو بصیر کہتے ہیں کہ ایک آدمى جو ظالم بادشاہوں کا ملازم اور مددگار تھا میرى ہمسایگى میں رہتا تھا اس نے بہت کافى مال حرام طریقے سے جمع کیا ہوا تھا اور اس کا گھر فساد اور عیاشى لہو و لعب رقص اور غنا کا مرکز تھا میں اس کى ہمسایگى میں بہت ہى تکلیف اور دکھ میں تھا لیکن اس کے سوا کوئی راہ فرار بھى نہ تھى کئی دفعہ اسے نصیحت کى لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن ایک دن میں نے اس کے متعلق بہت زیادہ اصرار کیا_ اس نے کہا اے فلان _ میں شیطن کا قیدى اور اس کے پھندے میں آ چکار ہوں اور عیاشى اور شراب خورى کا عادى ہوچکا ہوں اور اسے نہیں چھوڑ سکتا_ بیمار ہوں لیکن میں اپنا علاج بھى نہیں کرتا چاہتا_ تو میرا اچھا ہمسایہ ہے لیکن میں تیرا برا ہمسایہ ہوں کیا کروں خواہشات نفس کا قیدى ہو گیا ہوں کوئی نجات کا راستہ نہیں دیکھ پاتا_ جب تو امام جعفر صادق علیہ السلام کى خدمت میں جائے تو آپ کے سامنے میرى حالت بیان کرنا شاید میرے لئے کوئی نجات کا راستہ نکال سکیں ابو بصیر کہتا ہے کہ میں اس کى اس گفتگو سے بہت زیادہ متاثر ہوا_ کئی دن کے بعد جب میں کوفہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کى زیارت کے مقصد سے مدینہ منورہ گیا اور جب آپ کى خدمت میں مشرف ہوا تو اپنے ہمسایہ کے حالات اور اس کى گفتگو کا تذکرہ آپ کى خدمت میں بیان کیا_ آپ نے فرمایا کہ جب تو کوفہ واپس جائے وہ آدمى تیرے ملنے کے لئے آئے گا_ اس سے کہنا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس حالت میں تو ہے یعنى گناہوں کو چھوڑ دے تو میں تیرے لئے جنت کا ضامن ہوں_

ابوبصیر کہتے ہیں کہ '' جب میں اپنے کا مدینہ میں پورے کر چکا تو کوفہ واپس لوٹ آیا_ لوگ میرے ملنے کے لئے آرہے تھے انہیں میں میرا وہ ہمسایہ بھى مجھے ملنے کے لئے آیا احوال پرسى کے بعد اس نے واپس جانا چاہا تو میں نے اسے اشارے سے کہا کہ بیٹھا رہ مجھے آپ سے کام ہے_ جب میرا گھر لوگوں کے چلے جانے سے خالى ہو گیا تو میں نے اس سے کہا_ کہ میں نے تیرى حالت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان کى تھى _ آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ جب تو کوفہ جائے تو میرا سلام اسے پہنچا دینا اور اسے کہنا کہ اس حالت یعنى گناہوں کو ترک کردے میں تیرى جنت کا ضامن ہوں_ اس تھورے سے امام کے پیغام نے اس شخص پر اتنا اثر کیا کہ وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگ گیا اور اس کے بعد مجھ سے کہا کہ اے ابو بصیر تجھے خدا کى قسم کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایسا فرمایا ہے؟ میں نے اس کے سامنے قسم اٹھائی کہ یہ پیغام بعینہ وہى ہے جو امام علیہ السلام نے دیا ہے_ وہ کہنے لگا بس یہى پیغام میرے لئے کافى ہے_ یہ کہا اور وہ میرے گھر سے باہر چلا گیا_ کافى دن تک مجھے اس کى کوئی خبر نہ ملی_ ایک دن اس نے میرے لئے پیغام بھیجا کہ میرے پاس آ مجھے تم سے کام ہے_ میں نے اس کى دعوت قبول کى اور اس کے گھر کے دروازے پر گیا_ دروازے کے پیچھے سے مجھے آواز دى اور کہا_ اے ابو بصیر _ جتنا مال میں نے حرام سے اکٹھا کیا ہوا تھا وہ سب کا سب میں نے لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے_ یہاں تک کہ میں نے اپنا لباس بھى دے دیا ہے_ اب ننگا اور بے لباس دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں_ اے ابوبصیر میں نے امام جعفر صادق کے حکم پر عمل کیا ہے اور تمام گناہوں کو چھوڑ دیا ہے یعنى توبہ کر لى ہے_ ابوبصیر کہتا ہے کہ میں اس ہمسائے کے گناہوں کے چھوڑ دینے اور توبہ کر لینے سے بہت خوشحال ہوا اور امام علیہ السلام کى کلام کے اس میں اثر کرنے سے حیرت زدہ ہوا_ گھر واپس لوٹ آیا تھورے سے کپڑے اور خوراک لى اور اس کے گھر لے گیا_ کئی دن کے بعد پھر مجھے بلایا_ میں اس کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیمار اور علیل ہے اور وہ کافى دن تک بیمار رہا میں اس کى برابر عیادت اور بیمار پرسى اور بیمار دارى کرتا رہا_ لیکن اس کے لئے کوئی علاج فائدہ مند واقع نہ ہوا_ ایک دن اس کى حالت بہت سخت ہوگئی اور جان کنى کے عالم میں ہوگیا_ میں اس کے سرہانے بیٹھا رہا جب کہ وہ جان سپرد کرنے کى حالت میں تھا یکدفعہ ہوش میں آیا اور کہا_ اے ابوبصیر امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے یہ جملہ کہا اور اس جہان فانى سے کوچ کر گیا_ میں کئی دنوں کے بعد حج کو گیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کى خدمت میں مشرف ہوا_ میرا ایک پائوں دروازے کے اندر اور ایک پائوں دروازے سے باہر تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا_ اے ابوبصیر ہم نے تیرے ہمسائے کہ بارے میں جو وعدہ کیا تھا_ ہم نے وہ پورا کردیا ہے ہم نے جو اس کے لئے بہشت کى تھى اسے دلوادى ہے_[10]

اس طرح کے لوگ تھے اور اب بھى ہیں کہ حتمى ارادے اور شجاعانہ اقدام سے اپنے نفس امارہ کو مغلوب کر لیتے ہیں اور اس کى مہار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں_ ایک اندرونى اور باطنى انقلاب سے نفس کو پاک کردیتے ہیں اور تمام برائیوں کو چھوڑ کر اسے صاف اور شفاف بنا دیتے ہیں_ معلوم ہوا کہ اس طرح کا راستہ اختیار کر لینا ہمارے لئے بھى ممکن ہے_

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا کہ '' عادت کے ترک کرنے کے لئے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرو اور ہوى اور ہوس اور خواہشات کے ساتھ جہاد کرو شاید تم اپنے نفس کو اپنا قیدى بنا سکو_[11]

نیز امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''سب سے بہتر عبادت اپنى عادات پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے_[12]

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے_ '' قیامت کے دن تمام آنکھیں سوائے تین آنکھوں کے رو رہى ہوں گی_

1_آنکھ جو خدا کے راستے کے لئے بیدار رہى ہو_

2_ وہ آنکھ جو خدا کے خوف سے روتى رہى ہو_

3_ وہ آنکھ جس نے محرمات الہى سے چشم پوشى کى ہو_[13]

جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ'' خداوند عالم نے جناب موسى علیہ السلام کو وحى کى کہ کوئی انسان میرا قرب محرمات سے پرہیز کر کے کسى اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا یقینا میں بہشت عدن کو اس کے لئے مباح کر دوں گا اور کسى دوسرے کو وہاں نہیں جانے دوں گا_[14]

یہ بھى مانا جاتا ہے کہ نفس امارہ کو مطیع بنانا اور بطور کلى گناہ کا انجام نہ دینا اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن اگر انسان ملتفت ہو اور فکر اور عاقبت اندیشى رکھتا ہو اور ارادہ اور ہمت کر لے تو پھر اتنا یہ مشکل بھى نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالى کى تائید بھى اسے شامل حال ہوگى اور خدا فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ہمارے راستے کے لئے جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ہدایت کردیتے ہیں اور اللہ ہے ہى احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے_ وَ الَّذِینَ جاهَدُوا فِینا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنا وَ إِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ_[15]

 

آہستہ آہستہ ترک کرنا

اگر ہم اتنى اپنے آپ میں طاقت اور ہمت نہیں رکھتے کہ یکدم تمام گناہوں کو ترک کر دیں تو اتنا تو مصمم ارادہ کر لیں کہ گناہوں کو آہستہ آہستہ انجام دے دیں پہلى دفعہ امتحان کے طور پر ایک گناہ یا کئی ایک گناہ کو ترک کرنا شروع کردیں اور مصمم ارادہ کرلیں_ اس کام کو دوام دیں کہ اس کے ترک پر اپنے نفس کو کامیاب قرار دے دیں اور ان گناہوں کا بالکل ختم کردیں پھر یہى کام دوسرے چند ایک گناہوں کے بارے میں انجم دینا شروع کردیں اور اس پر کامیابى حاصل کرلیں اور اسى حالت میں خوب ملتفت رہیں کہ کہیں اس ترک کئے ہوئے گناہ کو پھر سے انجام نہ دے دیں اور یہ واضح ہے کہ ہر گناہ یا چند گناہوں کے ترک کرنے پر نفس امارہ اور شیطن کمزور ہوتا جائیگا اور جتنا شیطن نفس سے باہر نکلے گا اس کى جگہ اللہ تعالى کا فرشتہ لے لے گا_ جس گناہ کا سیاہ نقطہ نفس سے دور ہوگا اتنى مقدار وہاں نورانیت اور سفیدى زیادہ ہوجائے گی_ اسى طریقے سے گناہوں کے ترک کو برابر انجام دیتے جائیں تو پھر بطور کامل نفس پاک ہوجائیگا اور نفس کو اس کے نفسانى خواہشات پر قابو پانے اور فتح حاصل کرنے کى پورى طرح کامیابى حاصل ہوجائیگى اور ممکن ہے کہ اسى دوران ایک ایسے مرتبے تک پہنچ جائیں کہ تمام گناہوں کو یکدم ترک کرنے کى طاقت اور قدرت پیدا کرلیں ایسى صورت میں ایسى قیمتى اور پر ارزش فرصت سے استفادہ کرنا چاہئے اور یکدم تمام گناہوں کو ترک کر دینا چاہئے اور شیطن اور نفس امارہ کو باہر پھینک ڈالنے پر قابو پالینا چاہئے اور نفس کے گھر کو خدا اور اس کے فرشتوں کے لئے مخصوص کر لینا چاہئے اگر اس کے لئے کوشش اور جہاد کریں تو یقینا اس پر کامیاب ہوجائیں گے_ نفس کے ساتھ جہاد بعینہ دشمن کے ساتھ جہاد کرنے جیسا ہوتا ہے _ دشمن سے جہاد کرنے والا ہر وقت دشمن پر نگاہ رکھے اپنى طاقت کو دشمن کى طاقت سے موازنہ کرے اور اپنى طاقت کو قوى کرنے میں لگا رہے اور فرصت ملتے ہى ممکن طریقے سے دشمن پر حملہ کردے اور اس کى فوج کو ہلاک کردے یا اپنے ملک سے باہر نکال دے_

 

[1]- قال على علیه السّلام: لا ترخص لنفسک فى شى‏ء من سیّى‏ء الاقوال و الافعال- غرر الحکم/ ج 2 ص 801.
[2]- قال على علیه السّلام: غالب الشهوة قوة ضراوتها فانها ان قویت ملکتک و استقادتک و لم تقدر على مقاومتها- غرر الحکم/ ص 511.
[3]- قال على علیه السّلام: العادة عدوّ متملک- غرر الحکم/ ص 33.
[4]- قال على علیه السّلام: العادة طبع ثان- غرر الحکم/ ص 26.
[5]- قال على علیه السّلام: غالب الهوى مغالبة الخصم خصمه و حاربه محاربة العدوّ عدوه لعلک تملکه- غرر الحکم/ ص 509.
[6]- قال امیر المؤمنین علیه السّلام: ترک الخطیئة ایسر من طلب التوبه و کم من شهوة ساعة اورثت حزنا طویلا و الموت فضح الدنیا فلم یترک لذى لب فرحا- کافى/ ج 2 ص 451.
[7]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: اقصر نفسک عما یضرّها من قبل ان تفارقک واسع فى فکاکها کما تسعى فى طلب معیشتک فان نفسک رهینة بعملک- کافى/ ج 2 ص 455.
[8]- وَ أَمَّا مَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوى‏ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَأْوى‏- نازعات/ 40.
[9]- منتهى الامال/ ج 2 ص 126.
[10]- منتهى الآمال/ ج 2 ص 86.
[11]- قال على علیه السّلام: غالبوا نفسکم على ترک العادات و جاهدوا اهوائکم تملکوها- غرر الحکم/ ص 508.
[12]- قال على علیه السّلام: افضل العبادة ترک العادة- غرر الحکم/ ص 176.
[13]- عن ابى جعفر علیه السّلام قال: کل عین باکیة یوم القیامة غیر ثلاث: عین سهرت فى سبیل اللّه و عین فاضت من خشیة اللّه و عین غضت عن محارم اللّه- کافى/ ج 2 ص 80.
[14]- عن ابى عبد اللّه( ع) قال: فیما ناجى اللّه عز و جل موسى( ع): یا موسى! ما تقرب الىّ المتقربون بمثل الورع عن محارمى. فانى ابیحهم جنات عدن لا اشرک معهم احدا- کافى/ ج 2 ص 80.
[15]- عنکبوت/ 69.