پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اپنا طبيب خود انسان

اپنا طبیب خود انسان

یہ کسى حد تک ٹھیک ہے کہ پیغمبر اور ائمہ اطہار انسانى نفوس کے طبیب اور معالج ہیں لیکن علاج کرانے اور نفس کے پاک بنانے اور اس کى اصلاح کرنے کى ذمہ دار ى خود انسان پر ہے_ پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار انسان کو علاج کرنے کا درس دیتے ہیں اور نفس کى بیماریوں اور ان کى علامتیں اور برے نتائیج اور علاج کرنے کا طریقہ اور دواء سے آگاہى پیدا کرے اور اپنے نفس کى اصلاح کى ذمہ دارى سنبھال لے کیونکہ خود انسان سے کوئی بھى بیمارى کى تشخیص بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا اور اس کے علاج کرنے کے درپے نہیں ہو سکتا_ انسان نفسانى بیماریوں اور اس کے علاج کو واعظین سے سنتا یا کتابوں میں پڑھتا ہے لیکن بالاخر جو اپنى بیمارى کو آخرى پہچاننے والا ہوگا اور اس کا علاج کرے گا وہ خود انسان ہى ہوگا_ انسان دوسروں کى نسبت درد کا بہتر احساس کرتا ہے اور اپنى مخفى صفات سے آگاہ اور عالم ہے اگر انسان اپنے نفس کى خود حفاظت نہ کرے تو دوسروں کے وعظ اور نصیحت اس میں کس طرح اثر انداز اور مفید واقع ہو سکتے ہیں؟ اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ اصلاح نفس انسان داخلى حالت سے شروع کرے اور اپنے نفس کو پاک کرنے اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے رعایت کرتے ہوئے اسے اس کے لئے آمادہ کرے اور اسلام نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کى خود حفاظت کرئے اور یہى بہت بڑا تربیتى قاعدہ اور ضابطہ ہے_ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنى نیکى اور برائی سے خود آگاہ اور عالم ہے گرچہ وہ عذر گھڑتا رہتا ہے_[1]

حضرت صادق علیہ السلام نے ایک آدمى سے فرمایا کہ ''تمہیں اپنے نفس کا طبیب اور معالج قرار دیا گیا ہے تجھے درد بتلایا جا چکا ہے اور صحت و سلامتى کى علامت بھى بتلائی گئی ہے اور تجھے دواء بھى بیان کردى گئی ہے پس خوب فکر کر کہ تو اپنے نفس کا کس طرح علاج کرتا ہے_[2]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' شخص کو وعظ کرنے والا خود اس کا اپنا نفس نہ ہو تو دوسروں کى نصیحت اور وعظ اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں دے گا_[3]

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا '' اے آدم کے بیٹے تو ہمیشہ خوبى اور اچھائی پر ہوگا جب تک تو اپنے نفس کو اپنا واعظ اور نصیحت کرنے والا بنائے رکھے گا_[4]

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کمزور ترین وہ انسان ہے جو اپنے نفس کى اصلاح کرنے سے عاجز اور ناتواں ہو_[5]

نیز امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان کے لئے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کى سرپرستى کو اپنے ذمہ قرار دے _ ہمیشہ اپنى روح کى اور زبان کى حفاظت کرتا رہے_[6]

 

[1]- بَلِ الْإِنْسانُ عَلى‏ نَفْسِهِ بَصِیرَةٌ وَ لَوْ أَلْقى‏ مَعاذِیرَهُ- قیامة/ 15.
[2]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام لرجل: انک قد جعلت طبیب نفسک و بیّن لک الداء و عرّفت آیة الصحة و دلّلت على الدواء فانظر کیف قیامک على نفسک- کافى/ ج 2 ص 454.
[3]- قال ابو عبد اللّه علیه السّلام: من لم یجعل له من نفسه واعظا فان مواعظ الناس لن تغنى عنه شیئا- بحار/ ج 70 ص 70.
[4]- قال سجاد علیه السّلام یقول: ابن آدم! لا تزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک- بحار الانوار/ ج 70 ص 64.
[5]- قال على علیه السّلام: اعجز الناس من عجز عن اصلاح نفسه- غرر الحکم/ ج 1 ص 196.
[6]- قال على علیه السّلام: ینبغى ان یکون الرجل مهیمنا على نفسه مراقبا قلبه حافظا لسانه- غرر الحکم/ ج 2 ص 862.