پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جناب زہراء (ع) كا رد عمل

جناب زہراء (ع) کا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) کو اطلاع ملى کہ آپ کے کارکنوں کو فدک سے نکال دیاگیا ہے تو آپ بہت غمگین ہوئیں اور  اپنے آپ کو ایک نئی مشکل اور مصیبت میں دیکھا کیونکہ حکومت کا نقشہ حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفى نہ تھا اور ان کے اصلى اقدام کى غرض و غایت سے بھى بے خبر نہ تھے_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا تھے_

پہلا راستہ یہ تھا کہ جناب ابوبکر کے سامنے ساکت ہوجائیں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشى کرلیں اور کہیں کہ ہمیں تو دنیا کے مال و متاع سے کوئی محبت اور علاقہ نہیں چھوڑو فدک بھى جناب ابوبکر لے جائیں اس کے ساتھ یہ بھى اس کے لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جناب خلیفہ کو خوش کرنے کى غرض سے پیغام دالواتیں کہ تم میرے ولى امر ہو میں ناچیز فدک کو آپ کى خدمت میں پیش کرتى ہوں_

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنى پورى قدرت سے رکھتى ہیں اپنے حق کا دفاع کریں_

پہلا راستہ اختیار کرنا حضرت زہراء (ع) کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت کے پوشیدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھیں جانتى تھیں کہ وہ اقتصادى دباؤ اور آمدنى کے ذریعے قطع کردینے سے اسلام کے حقیقى خلیفہ حضرت على (ع) کے اثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے حضرت على (ع) کا ہاتھ حکومت سے کوتاہ ہوجائے اور وہ کسى قسم کا خلافت کے خلاف اقدام کرنے سے مایوس ہوجائیں اور یہ بھى جانتى تھیں کہ فدک کو زور سے لے لینے سے على (ع) کے گھر کا دروازہ بند کرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اب بہت اچھى فرصت اور مدرک ہاتھ آگیا ہے اس وسیلہ سے جناب ابوبکر کى انتخابى خلافت سے مبارزہ کر کے  اسے بدنام اور رسوا کیا جائے اور عمومى افکار کو بیدار کیا جائے اور اس قسم کى فرصت ہمیشہ ہاتھ نہیں آیا کرتی_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اگر میں جناب ابوبکر کے دباؤ میں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ کروں تو جناب ابوبکر کى حکومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے کى عادى ہوجائے گى اور پھر لوگوں کے حقوق کى مراعات نہ ہوسکے گی_

جناب فاطمہ (ع) نے فکر کى کہ اگر میں نے اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ خیال کریں گے اپنے حق سے صرف نظر کرنا اور ظلم و ستم کے زیر بار ہونا اچھا کام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر میں نے ابوبکر کو بدنام نہ کیا تو دوسرے خلفاء کے درمیان عوام فریبى رواج پاجائے گی_

حضرت فاطمہ (ع) نے فکر کى کہ پیغمبر(ص) کى دختر ہوکر اپنے صحیح حق سے صرف نظر کرلوں تو مسلمانوں خیال کریں گے کہ عورت تمام اجتماعى حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے حق کے احقاق کے لئے مبارزہ کرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ میں جو وحى کے دامن اور ولایت کے گھر کى تربیت یافتہ ہوں اور میں اسلام کى خواتین کے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ایک اسلام کى تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے میرے اعمال اور رفتار کو ایک اسلام کى نمونہ عورت کى رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر میں اس مقام میں سستى کروں اور اپنے حق کے لینے میں عاجزى کا اظہار کروں تو پھر اسلام میں عورت عضو معطل سمجھى جائے گی_ جى ہاں یہ اور اس قسم کے دیگر عمدہ افکار تھے جو جناب فاطمہ (ع) کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پہلا راستہ اختیار کرتیں یہى وجہ تھى کہ آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ توانائی اور قدرت کى حد تک اپنے حق سے دفاع کریں گی_

البتہ یہ کام بہت زیادہ سہل اور آسان نہ تھا کیوں کہ ایک عورت کا مقابلہ جناب خلیفہ ابوبکر سے بہت زیادہ خطرناک تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) ناى عورت کا کہ جو پہلے سے پہلو شکستہ بازو سیاہ شدہ اور جنین ساقط شدہ تھیں، ان میں سے ہر ایک حادثہ اور واقعہ عورت کے لئے کافى تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

لیکن فاطمہ (ع) نے فداکارى اور شجاعت اور بردبارى اور استقامت کى عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خدیجہ کبرى سے وراثت میں پائی تھى اور انہوں نے مبارزت اسلامى کے مرکز میں تربیت پائی تھى انہوں نے ان فداکاروں اور قربانى دینے والوں کے گھر میں زندگى گزارى تھى کہ جہاں کئی دفعہ وہ شوہر کے خون آلود کپڑے دھوچکى تھیں اور ان کے زخمى بدن کى مرہم پٹى کرچکى تھیں وہ ان جزئی حوادث سے خوف نہیں کھاتى تھیں اور جناب ابوبکر کى حکومت سے مرعوب نہیں ہوتى تھیں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے کو کئی ایک مراحل میں انجام دیا_

 

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میرى ملکیت سے باہر نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنى زندگى میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگر چہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھى اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت على (ع) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کى قسم دیتى ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے میرے بارے میںفرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتى ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہى دیتى ہوں کہ جب یہ آیت ''و آت ذى القربى حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا_

حضرت على علیہ السلام نے بھى اس قسم کى گواہى دى جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھى اور وہ حضرت زہراء (ع) کو دے دی_

اچانک اسى وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (ع) فدک کا دعوى کر رہى تھیں اور اس پر گواہ بھى پیش کردیئےیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لى اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبکر نے بھى جناب عمر کى تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ على (ع) کے علاوہ کوئی اور آدمى گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسرى عورت بھى گواہى دے جناب فاطمہ (ع) روتى ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں_

ایک اور روایت کى بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہى دی کہ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فدک کى آمدنى کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے (1)_

ایک دن حضرت على (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو دیاتھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیاانہیں اپنے دعوى پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے_ حضرت على (ع) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں_ حضرت على (ع) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسى کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوى کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسى دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ(ص) کى ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سوکت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہایا على ایسى باتین چھوڑو (2)_

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء کے ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسى لئے تو حضرت على (ع) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے_ جى ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھى بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضى تھا (3) _

قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسرى طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کى مخالفت کی، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنى حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھى لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت کى منطق کو میدان میں لائے اور لکھى ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا_


پھر بھى استدلال

ایک دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور باپ کى وراثت کے متعلق بحث اور احتجاج کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر، میرے باپ کا ارث مجھے کیوں نہیں دیتے ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے_ آپ نے فرمایا مگر خداوند عالم قرآن میں نہیں فرماتا:

''و ورث سلیمان داؤد'' (4)

کیا جناب سلیمان جناب داؤد کے وارث نہیں بنے؟ جناب ابوبکر غضبناک ہوئے اور کہا تم سے کہا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا زکریا نبى نے خدا سے عرض نہیں کیا تھا_

''فہب لى من لدنک وَلیاً یرثنى وَ یرث من آل یعقوب'' (5)

جناب ابوبکر نے پھر بھى وہى جواب دیا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا:

''یوصیکم اللہ فى اولادکم للذکر حظ الانثیین'' (6)

کیا میں رسول اللہ (ص) کى اولاد نہیں ہوں؟ چونکہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے محکم دلائل کا سامنا کر رہے تھے اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اسى سابقہ کلام کى تکرار کریں اور کہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_

جناب ابوبکر نے اپنى روش اور غیر شرعى عمل کے لئے ایک حدیث نقل کى کہ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھى جناب ابوبکر کى اس حدیث کى تائید کردى (7 )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھى حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوى کر رہے ہو وہ صریح قرآنى نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھى قرآن کى صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتى جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسى سابقہ جواب کى تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہى جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کى بیان کردہ وضعى حدیث کى تائید کى ہے جناب عثمان کى خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کى وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہى نہیں دى تھى کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسى سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کى وراثت کا مطالبہ کر رہى ہیں (8)_


خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنى منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم کردیا قرآن مجید کى آیات سے اپنى حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنى روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتى کہ حدیث بناکر پیش کرنے کى بھى پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کى خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسى قسم کى حکومت ہے اور یہ کسى قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کى جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامى ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپى نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھى تحمل نہیں کرسکتى بالکل چپ نہ رہوں گى اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنى حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنى مرضى سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جى ہان مسجد جاؤں گى اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلى کى طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کى طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کى نشانى ہیں چاہتى ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کى تاریخى تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کى جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنى ہاشم کى عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کى بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنى ہاشم کى عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کى طرح قدم اٹھا رہى تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کى جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والى آواز نے مجمع پر بھى اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑى دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کى آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھى طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:


جناب فاطمہ (ع) کى دہلا اور جلادینے والى تقریر

میں خدا کى اس کى نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتى ہوں اور اس کى توفیقات پر شکر ادا کرتى ہوں اس کى بے شمار نعمتوں پر اس کى حمد و ثنا بجالاتى ہوں وہ نعمتیں کہ جن کى کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ ان کى تلافى اور تدارک کیا جاسکے ان کى انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کى نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالى نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کى نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالى مقامى نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنى نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کى توحید اور یگانگى گواہى دیتى ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کى روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کى گواہى دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کى وصف اور توصیف نہیں کى جاسکتى وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنى مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسى فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنى حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنى اطاعت کى یاد دہانى کرے، اور اپنى قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنى دعوت کو وسعت دے، اپنى اطاعت کے لئے جزاء مقرر کى اور نافرمانى کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کى طرف لے جائے_

میں گواہى دیتى ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبرى کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپى ہوئی تھى اور عدم کى سرحد سے ملى ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالى ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جارى کردے، اور اپنے مقصد کو عملى قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کى آگ میں جل رہے تھے، بتوں کى پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کى طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانى دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانى اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کى ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہى سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کى طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کى طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کى مہربانى اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کى روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کى سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالى کے فرشتوں اور پروردگار کى رضایت کے ساتھ اللہ تعالى کے قرب میں زندگى بسر کر رہے ہیں، امین اور وحى کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالى کے امر اور نہى کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقى اقوام تک دین کى تبلیغ کرنى ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقى جانشین موجود ہے اللہ تعالى نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کى چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کى پیروى کرنا انسان کو بہشت رضوان کى طرف ہدایت کرتا ہے اس کى باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کى برکت سے اللہ تعالى کے نورانى دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالى نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کى تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کى بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگى کے نظم اور دلوں کى نزدیکى کے لئے ضرورى قرار دیا، اہلبیت کى اطاعت کو ملت اسلامى کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومى مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکى کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کى زیادتى کے لئے صلہ رحمى کا دستور دیا_

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدى سے محفوظ رہنے کى غرض سے شراب خورى پر پابندى لگائی، بہتان اور زنا کى نسبت دینے کى لغت سے روکا، چورى نہ کرنے کو پاکى اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالى کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوى اور پرہیزگارى کو اپناؤ اور اسلام کى حفاظت کرو اور اللہ تعالى کے اوامر و نواحى کى اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندى خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتى ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتى اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالى نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہارى تکلیف سے اسے تکلیف ہوتى تھى اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہارى عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنى عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنى رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کى پشت پر سخت ضرب وارد کى ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کى طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کى زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کى وجہ سے شہادت کا کلمہ جارى کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کى تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانى پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگى بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کى برکت سے تمہیں نجات دى حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کى آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھى کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی على (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت على (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنى طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کى روشن کى ہوئی آگ کو اپنى تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کى رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کى راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ على (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشى میں خوش و خرم زندگى گزار رہے تھے اور کسى خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کى جگہ کى طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونى کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنى دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنى طرف دعوت دى اور تم نے بغیر سوچے اس کى دعوت قبول کرلى اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کى جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھى پیغمبر(ص) کى موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھى تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھى پیغمبر(ص) کو دفن بھى نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کى کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہى ظاہر ہیں تم نے قرآن کى مخالفت کى اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسى اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھى اسلام کے علاوہ کسى دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھى نہ کرسکے کہ وہ فتنے کى آگ کو خاموش کرے اور اس کى قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کى دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھرى کے زخم اور نیزے کے زخم کى مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کى بیٹى ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کى طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کى میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کى کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کى میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیى علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کى پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث قرار پائے او آل یعقوب کا بھى وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضى ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والى آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد على (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گى کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالى کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کى طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کى مدد کرنے والو کیوں حق کے ثابت کرنے میں سستى کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسى کا احترام اس کى اولاد میں بھى محفوظ ہوتا ہے یعنى اس کے احترام کى وجہ سے اس کى اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدى فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنى جلدى ہوى اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جى ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑى مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کى غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کى مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کى رعایت نہیں کى گئی، قسم خدا کى یہ ایک بہت بڑى مصیبت تھى کہ جس کى مثال ابھى تگ دیکھى نہیں گئی اللہ کى کتاب جو صبح اور شام کو پڑھى جا رہى ہے آپ کى اس مصیبت کى خبر دیتى ہے کہ پیغمبر(ص) بھى عام لوگوں کى طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھى گزشتہ پیغمبروں کى طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھى دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے (9)_

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کى میراث سے محروم رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میرى پکار تم تک پہنچ چکى ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہارى تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کى آواز تم تک پہنچتى ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میرى فریاد کو سنتے ہو لیکن میرى فریاد رسى نہیں کرتے تم بہادرى میں معروف اور نیکى اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کى اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کى ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھى اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہى کہ تم پستى کى طرف جارہے ہو، اس آدمى کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش میں مشغول ہوگئے ہو زندگى اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبى کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پى چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتى ہوں کہ تم میرى مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتى کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطى سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گا، اللہ تعالى کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کى جزا جہنم کى آگ ہوگى اللہ تعالى تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبى کى بیٹى ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھى تم سے انتقام لیں گے تم بھى انتظار کرو ہم بھى منتظر ہیں(10)_

 

 

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنى مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کى وضاحت طلب کى اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقى خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کى بات تسلیم کرلى گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گى اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گى اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابى الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے على بن فاروقى سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کى آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچى تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچى قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(11)_

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کى تصدیق کردیتے تو انہیں اپنى غلطى کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہى اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنى جلدى میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کى پہلے سے پیشین گوئی کر رکھى تھى آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومى افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنى تقرى سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختى سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومى افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہى سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنى تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کى حمایت اور ظاہرى دین سے دلسوزى کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھى نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جى ہاں دین سے ہمدردى کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

 

1) احتجاج طبرسی، ج 1 ص 121، اور کشف الغمہ ج 2 ص 104_ اور شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 274_
2) احتجاج طبرسی، ج 1 ص 121_ کشف الغمہ ج 2 ص 104_
3) نہج البلاغہ، ج 3 ص 45_
4) سورہ نحل آیت 16_
5) سورہ مریم آیت 6_
6) سورہ نساء آیت 11_
7) کشف الغمہ، ج 2 س 104_
8) کشف الغمہ، ج 2 ص 105_
9) سورہ آل عمران_
10) احتجاج طبرسی، طبع نجف 1386 ھ ج 1 131_141 _ شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 211_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد 204 ہجرى ص 12_ کشف الغمہ، ج 2 ص 106_
11) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 284_