پروردگارا تیرے سوا شہید کے حقیقى مرتبے سے کوئی واقف نہیں کہ انہوں نے اپنى ستى کو تیرى راہ میں قربان کردیا، ان کا انسانیت پر عظیم احسان ہے کہ جس کا صحیح عوض تو ہى دے سکتا ہے_
خداوندا اگر اس معمولى کوشش کا تیرے نزدیک کوئی ثواب ہو تو میں اسے اسلام کے پاکیزہ شہداء اور بالاخص ایران کے انقلاب اسلامى کے شہداء اور انقلاب کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ العظمى نائب امام زمان آقا خمینى کے ایثارگر رفقا کو ہدیہ کرتا ہوں اور یہ معمولى ہدیہ پیش کرتے ہوئے امیدوار ہوں کہ وہ پروردگار کے سامنے نگاہ لطف کریں گے، معذرت خواہ_
مولّف
مترجم کى تمنا بھى وہى ہے جو کو مولّف کى ہے_
مترجم
پیش لفظ
جن لوگوں کو تاریخ سے لگاؤ رہا ہے اور جنہوں نے اپنى عمر کا کچھ حصّہ مردوں اور مشہور عورتوں کے حالات زندگى کے مطالعہ میں صرف کیا ہے_ ہوسکتا ہے کہ اس میں ان کے مختلف اغراض ہوں_
بعض لوگوں کى تاریخى کتابوں کے مطالعے سے غرض وقت کا کاٹنا ہوتا ہے اور وہ فراغت کا وقت تاریخى کتابوں کے مطالعے میں صرف کرتے ہیں وہ تاریخ اس غرض سے پڑھتے ہیں کہ وقت گزارى کے ساتھ تعجب آور اور جاذب نظر کہانیاں یادکریں اور پھر انہیں دوستوں کى محفل میں آب و تاب سے بیان کریں لیکن ایک گروہ کى غرض تاریخ کے مطالعے سے اس سے بالاتر اور قیمتى ہوا کرتى ہے_ وہ بزرگوں کے حالات کا اس غرض سے مطالعہ کرتے ہیں کہ اس سے زندگى کا درس حاصل کریں، وہ تاریخ میں ان کى عظمت اور کامیابى کا راز معلوم کرتے ہیں تا کہ ان کے اعمال او رافعال کو اپنى زندگى کے لئے مشعل راہ قرار دیں اسى طرح قوموں کى اور افراد کى شکست اور انحطاط کے عوامل و اسباب معلوم کرتے ہیں تا کہ خود ان میں گرفتار نہ ہوں اور اپنے معاشرے کو اس سے محفوظ رکھیں، اسى طرح جو عظیم پیغمبروں کے مفصل حالات اور آئمہ اطہار(ع) اور دوسرے دینى افراد کى زندگى کا مطالعہ کرتے ہیں دو قسم کے ہوتے ہیں_
ایک گروہ کا مقصد سوائے وقت گزارى اور مشغول رہنے کے اور کچھ نہیں ہوتا وہ پیغمبروں اور اماموں کے مناقب اس لئے پڑھتے ہیں کہ تعجب اور قصّے حفظ کریں اوران کا مجالس میں تذکرہ اور ساتھ ساتھ وقت بھى کٹتا جائے وہ عجیب و غریب واقعات کے پڑھنے سے لذت اندوز ہوتے ہیں اور تذکرہ اہل بیت کے مراثى اور فضائل کے سننے کے ثواب پرہى قناعت کرتے ہیں_
لیکن دوسرا گروہ ایک ایسے انسانوں کا ہے جو اللہ تعالى کى برگزیدہ ہستیوں کے حالات کا مطالعہ اس غرض کے لئے کرتے ہیں تا کہ ان کى عظمت او رمحبوبیت کے راز کو معلوم کریں اور ان کى زندگى اور روش کے راستے ''جو در حقیقت دین کا صراط مستقیم ہے'' حاصل کریں اور ان کے اعمال اور کردار سے زندگى کا درس حاصل کریں_
افسوس اس بات پر ہے کہ اکثر لوگ جو آئمہ علیہم السلام کى تاریخ کى طرف رجوع کرتے ہیں وہ پہلى قسم کے لوگ ہوتے ہیں_
غالباً پیغمبروں اور آئمہ اطہار کے مناقب کى کتابیں تعجب خیز بلکہ بسا اوقات مبالغہ آمیز واقعات سے مملو پائی جاتى ہیں_ لیکن ان کى اجتماعى اور سیاسى اور اخلاقى زندگى کو اور ان کى رفتار اور کردار اور گفتار کو بطور اختصار بیان کردیا جاتا ہے، ہر ایک مسلمان نے پیغمبر اور ہر ایک امام کى کئی او رتعجب انگیز داستانیں تو یاد کر رکھى ہوں گى لیکن ان کى اجتماعى زندگى اور ان کے انفرادى اعمال و کردار اور ان کا ظالموں اور اسلام دشمن حکومت کے برتاؤ سے مطلع تک نہ ہوں گے_
اس کتاب کے لکھنے کى وجہ یہ ہے کہ حضرت زہرا علیہا السلام کى زندگى کے دوسرے پہلو کى تحقیق کى جائے اور اسے مورد تجزیہ اور تحلیل قرار دیا جائے اسى وجہ سے اگر بعض مناقب یا قصے یہاں ذکر نہیں کئے گئے تو اس پر اعتراض نہ کیا جائے، کیوں کہ اصلى غرض یہ ہے کہ آنحضرت کى شخصیت کو زندگى اور اخلاق اور رفتار کے لحاظ سے واضح کیا جائے_
افسوس ہوتا ہے کہ اس بزرگوار کى زندگى اس قدر مبہم رکھى گئی ہے کہ جس کا ذکراسلام کے ابتدائی مدارک میں بہت کم ملتا ہے_ آپ کى زندگى کو ابہام میں رکھنے کى کئی ایک وجوہ ہیں_
پہلى وجہ: آپ کى زندگى مختصر تھى اور اٹھارہ سال سے متجاوز نہ تھى آپ کى آدھى زندگى بلوغ سے پہلے کى بہت زیادہ مورد توجہ قرار نہیں پائی ، بلوغ سے موت تک کا فاصلہ بہت زیادہ نہ تھا_
دوسرى وجہ: چونکہ آپ کا تعلق صنف نازک سے تھا اور آپ کى اکثر زندگى گھر کى چہار دیوارى کے اندر بیت کئی لہذا بہت تھوڑے لوگ تھے جو آپ کى داخل زندگى کے صحیح طور پر واقف تھے_
تیسرى وجہ: اس زمانے کے لوگوں کے افکار اتنے بلند نہ تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کى دختر جو اسلام کى مثالى خاتون تھى کى قدر و قیمت کے اتنے قائل ہوتے کہ ان کى زندگى کے جزئیات کو محفوظ کر لینے کو اہمیت دیتے_
بہرحال گرچہ آپ کى زندگى کے جزئیات کو کامل طور پر اور آپ کے رفتار و کردار پر جو اسلام کى خاتون کا نمونہ تھے، مکمل طور پر محفوظ نہیں کیا گیا لیکن ہم نے اس مقدار پر جو اس وقت تاریخ میں موجود ہیں ان سے آپ کى شخصیت کا تجزیہ کر کے بیان کیا ہے_ اسى لئے بعض اوقات مجبور ہوکر بعض معمولى تاریخ نویسوں کے حوالے اور نقل پر اکتفا کر کے نتیجہ اخذ کیا ہے اور اسے مورد تجزیہ اور تحلیل قرار دیا ہے_
مثالى خاتون
اسلام نے عورتوں کے حقوق اور ترقى کے لئے خاص احکام اور قوانین وضع کئے ہیں ایک دستور ہے کہ جس سے اسلام کى شائستہ خاتون اور اس کى اسلامى تربیت کے آثار اور نتائج کو دیکھا جاسکتا ہے یہ ہے کہ صدر اسلام کى ان خاتون کى زندگى کو کامل طور پر معلوم کیا جائے کہ جن کى تربیت وحى کے مالک نے کى ہو اور ان کى زندگى کے تمام جزئیات کا دقیق نظر سے مطالعہ کیا جائے_
حضرت زہراء (ع) تمام اسلامى خواتین میں درجہ اول پر فائز ہیں کیونکہ صرف یہى وہ ایک خاتون ہیں کہ جن کا باپ معصوم ہے اور شوہر معصوم اور خود بھى معصوم ہیں آپ کى زندگى اور تربیت کا ماحول عصمت و طہارت کا ماحول تھا، آپ(ع) کا عہد طفلى اس ذات کے زیر سایہ گزرا جس کى تربیت بلاواسطہ پروردگار عالم نے کى تھی_
امور خانہ دارى اور بچوں کى پرورش کا زمانہ اسلام کى دوسرى عظیم شخصیت یعنى على بن ابى طالب علیہ السلام کے گھر میں گزارا اسى زمانے میں آپ نے دو معصوم ''امام حسن اور امام حسین علیہم السلام'' کى تربیت فرمائی اور دو جرات مند و شیر دل اور فداکاربیٹیوں جناب زینب اور جناب ام کلثوم کو اسلامى معاشرہ کے سپرد کیا_ ایسے گھر میں واضح طور سے احکام اسلامى اور تہذیب اسلامى کى رواج کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں اسلام کى پاکیزہ او رمثالى خاتون کو تلاش کیا جاسکتا ہے_
ہمارى روش:
لکھنے و ا لے کئی قسم کے ہوتے ہیں_
ایک گروہ ہے کہ جو ان مطالب کو معتبر اور پر ارزش شمار کرتا ہے جو اہلسنت کى کتابوں اور مدارک میں موجود ہوں اور ان مطالب کو کہ جو صرف شیعوں کى کتابوں میں پائے جاتے ہوں نقل کرنے سے بالکل پرہیز کرتا ہے بلکہ ان کو برى نگاہ سے دیکھتا ہے_
ایک گروہ، وہ ہے جو صرف ان مطالب کو صحیح اور معتبر قرار دیتا ہے جو شیعوں کى کتابوں میں موجود ہوں اور ان مطالب کے نقل کرنے سے گریز کرتا ہے جو صرف اہل سنت کى کتابوں میں پائے جاتے ہوں_
لیکن ہمارى نگاہ میں دونوں افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں_ بہت سے حقائق کو نظرانداز کرجاتے ہیں، چونکہ وہ صرف اہلسنت کى کتابوں میں پائے جاتے ہیں، ایسے حقائق بھى پیدا کئے جاسکتے ہیں جو شیعوں کى کتابوں میں موجود نہیں ہوتے اور شیعوں کى کتابوں میں ایسے حقائق بھى معلوم کئے جاسکتے ہیں جو اہلسنت کى کتابوں میں موجود نہیں ہوتے، شیعوں نے بھى کتابیں لکھى ہیں اور بہت سے مطالب کو آئمہ طاہرین(ع) اور پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) سے چونکہ یہى حضرات علم کے لئے مرجع بتلائے گئے ہیں'' نقل کیا ہے_
زمانہ کے لحاظ سے شیعہ مولف سنّى مؤلفین سے مقدم ہیں یہ انصاف سے دور نظر آتا ہے کہ بعض سنّى مؤلفین، شیعوں کى کتابوں اور مدارک سے قطع نظر کرتے ہوئے ان مطالب کے نقل سے گریز کریں جو سنّى کتابوں اور ماخذ میں نہ پائے جاتے ہوں یہ حضرات حد سے زیادہ اہلسنت کى کتابوں کے متعلق حسن ظن رکھتے ہیں_ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کتابوں کے تمام لکھنے والے حقیقت کے عاشق اور ہر قسم کے تعصب سے خالى ہیں اور مبراء تھے اور انہوں نے تمام حقائق او رواقعات کو لکھ ہى دیا ہے، جب ان کتابوں میں کوئی مطلب نہ پایا جاتا ہو تو وہ لازماً مطلب بے بنیاد ہوگا حالانکہ ایسى سوچ صحیح نہیں ہے کیونکہ جو شخص بھى غیر جانبدار ہو کر اہلسنت کى کتابوں اور مدارک کا وقت سے مطالعہ کرے بلکہ ایک ہى کتاب کى متعدد طباعت دیکھ لے تو اس کا یہ حسن ظن اور خوشبینى بے بنیاد نظر آئے گا_ اور اس طرح نظر نہیں آئے گا کہ تمام لکھنے والے تعصب اور خود غرضى سے خالى تھے_
بنابراین، ہم نے اس کتاب میں اہل سنت کى کتابوں سے بھى استفادہ کیا ہے اور شیعوں کى کتابوں اور مدارک سے بھی، بعض ایسے مطالب کہ جن کے نقل کرنے سے سنى مؤلفین نے احتراز کیا ے یابطور اجمال اور اشارہ کے نقل کیا ہے ہم نے انہیں شیعوں کى کتابوں اور مدارک سے نقل کیا ہے_
ابراہیم امینی