پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصّہ اوّل: ولادت سے ازدواج تك

 ولادت سے ازدواج تک

 

ہر انسان کى شخصیت ایک حد تک اس کے خاندان او راپنے ماں، باپ کے اخلاق اور جس ماحول میں وہ نشو و نما پاتا ہے اس سے اس کى زندگى وابستہ ہوا کرتى ہے، ماں، باپ ہى ہوتے ہیں کہ جو کسى انسان کى شخصیت کى داغ بیل ڈالتے ہیں اور اسے اپنے روحى قالب اور اخلاق میں ڈھال کر معاشرہ کے سپرد کرتے ہیں کہ در حقیقت کہا جاسکتا ہے کہ ہر ایک فرزند اپنے ماں باپ کے اسوہ کا پورا آئینہ دار ہوتا ہے_

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے باپ کى تعریف و توصیف وضاحت اور تشریح کى محتاج نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کا فوق العادہ شخصیت کا مالک ہونا اور آپ کى عظمت روحى اور پسندیدہ اخلاق اور بلند ہمت اور فداکارى کسى مسلمان فرد پر بلکہ کسى بھى با اطلاع انسان پر مخفى نہیں ہے آپ کى عظمت کے لئے اتنا ہى کافى ہے کہ خداوند عالم نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے محمد(ص) آپ تو خلق عظیم کے مالک ہیں_

اگر ہم یہاں پیغمبر اسلام(ص) کى تعریف اور توصیف اور اخلاق کا ذکر کرنا شروع کردیں تو اصل مطلب سے دور ہٹ جائیں گے_

 

فاطمہ (ع) کى ماں

آپ کى والدہ ماجدہ جناب خدیجہ بنت خویلد تھیں، جناب خدیجہ قریش کے ایک شریف او رمعزز خاندان میں پیدا ہوئی اور اسى ماحول میں پرورش پائی_ آپ کے خاندان کے سارے افراد دانشمند اور اہل علم تھے اور وہ خانہ کعبہ کى حمایت کرنے والوں میں شمار ہوتے تھے_

جس زمانے میں یمن کے بادشاہ تبّع نامى نے حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اکھاڑ کر یمن لے جانے کا ارادہ کیا تھا تو جناب خدیجہ کے والد ہى تھے جو ان کے دفاع کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور آپ کى فداکارى اور مبارزہ کے نتیجے میں تبّع نے اپنے ارادے کو ترک کردیا اور حجر اسود سے معترض نہ ہوا_(1)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب خدیجہ کے خاندان والے صاحب فکر، گہرى سوچ کے مالک اور جناب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے گرویدہ تھے_

 

خدیجہ کى تجارت

گرچہ تاریخ نے جناب خدیجہ کى زندگى کے جزئیات محفوظ نہیں کہے لیکن جو کچھ بعض تاریخوں سے ملتا ہے اس سے آپ کى شخصیت واضح ہوجاتى ہے_

ملتا ہے کہ جناب خدیجہ نے جوانى کى ابتداء میں عتیق بن عامر نامى شخص سے شادى کى لیکن تھوڑے ہى عرصہ کے بعد عتیق فوت ہوگیا اور جناب خدیجہ کے لئے بہت زیادہ ماں و دولت چھوڑ گیا_ آپ نے ایک مدت تک شوہر نہیں کیا لیکن بنى تمیم کے ایک بڑے آدمى ہند بن بناس سے آپ نے بعد میں شادى کرلی، لیکن یہ مند بھى جوانى کے عالم میں فوت ہوگیا اور جناب خدیجہ کے لئے کافى ثروت چھوڑ گیا_

ایک ایسى بات کہ جس سے جناب خدیجہ کى بزرگى اور بلند ہمتى اور آزادى اور استقلال نفس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جناب خدیجہ کو پہلے شوہر اور دوسرے شوہر سے جو بے پناہ دولت ملى تھى اسے آپ نے یوں ہى روک نہیں رکھا تھا اور نہ ہى اسے ربا، اور سود پر اٹھا دیا تھا کہ جو اس زمانے میں مروج اور عام کار و ربار شمار ہوتا تھا بلکہ آپ نے اسے تجازت میں لگا دیا اور اس کے لئے آپ نے دیانت دار افراد کو ملازم رکھا اور ان کے ذریعہ سے تجارت کرنى شروع کردی_ آپ نے جائز تجازت کے ذریعے بہت زیادہ دولت کمائی، لکھا ہے کہ ہزاروں اونٹ آپ کے نوکروں کے ہاتھوں میں تھے کہ جن سے وہ مصر، شام، حبشہ میں تجارت کرتے تھے_ (2)

ابن ہشام لکھتے ہیں کہ جناب خدیجہ ایک شریف اور مالدار عورت تھیں وہ ایسى سرمایہ دار تھیں کہ جو تجارت کیا کرتى تھیں، بہت سے افراد ان کے یہاں ملازمت کرتے تھے، جو آپ کے لئے تجارت کیا کرتے تھے_ (3)

یہ واضح رہے کہ اتنے بڑے کار و بار کو چلانا اور وہ بھى اس زمانے میں اور بالخصوص جریرہ العرب میں کوئی معمولى کام نہ تھا اور وہ بھى ایک عورت کے لئے اور اس زمانے میں جب کہ عورتیں تمام اجتماعى حقوق سے محروم تھیں اور بہت سنگدل مرد اپنى بے گناہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، لامحالہ یہ بزرگوار عورت ایک غیرعادى ذہن اور شخصیت اور استقلال نفسانى کى مالک ہونى چاہیئے کہ جس کے پاس کافى معلومات ہوں گے تا کہ وہ اتنى بڑى وسیع و عریض تجارت کو چلاسکے_

 


مستقل مزاج عورت

جناب خدیجہ کى روشنى زندگى کا برجستہ نکتہ آپ کا جناب رسول خدا(ص) سے ازدواج کا قصّہ ہے، جب آپ کے پہلے اور دوسرے شوہر وفات پاگئے تو آپ میں ایک مستقل مزاجى اور مخصوص قسم کى آزادى پیدا ہوگئی، آپ عاقل ترین اور رشید ترین مردوں سے جو تجارت میں ماہر تھے شادى کرنے پر بھى حاضر نہیں ہوتى تھیں حالانکہ آپ سے شادى کرنے کے خواشمندوں میں خاندانى لحاظ سے نجیب اور بہت زیادہ سرمایہ دار ہوتے تھے اور اس بات پر تیار تھے کہ آپ کے لئے بہت زیادہ گراں مہر ادا کر کے بھى شادى کرلیں لیکن آپ بہت سختى سے شادى کى مخالفت کیا کرتى تھیں_ لیکن دلچسپ و جاذب نظر نکتہ یہ ہے کہ یہى خدیجہ جو اشراف عرب اور سرمایہ داروں سے شادى کرنے پر تیار نہ ہوتى تھیں، کمال شوق اور فراخ دلى سے جناب محمد(ص) کے ساتھ جو یتیم اور تہى دست تھے شادى کرلیتى ہیں_

جناب خدیجہ ان عورتوں میں سے نہ تھى کہ جس کا چاہنے والا کوئی نہ ہو بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خواستگار بڑى شخصیت کے مالک اور معزز لوگ تھے بلکہ بادشاہ اور سرمایہ دار آپ کے پاس شادى کرنے کى خواہش لے کر آتے اور آپ ان سے شادى کرنے پر راضى نہ ہوتى تھیں، لیکن پیغمبر اسلام علیہ اسلام کے ساتھ ازدواج کرنے پر نہ فقط راضى ہوئیں بلکہ خود انہوں نے بہت زیادہ اصرار اور علاقہ مندى سے اس کى پیش کش کى اور حق مہر کو بھى اپنے مال سے ہى قرار دیا جاب کہ یہى چیز آپ کے لئے استہزاء اور سرزنش کا باعث بھى بنی_

جب کہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ عورتیں اکثر مال اور زندگى کى آرائشے اور تجملات سے بہت زیادہ دلچسپى رکھتى ہیں اور ان کى انتہائی خواہش ہوتى ہے کہ مال دار اور آبرومند شوہر انہیں نصیب ہوتا کہ اس کے گھر میں آرام اور عیش اور نوش کى زندگى کى بسر کریں تو یہ چیز واضح ہوجاتى ہے کہ جناب خدیجہ شادى کرنے میں کوئی اعلى فکر اور سوچ رکھتى تھیں اور کسى غیر معمولى برجستہ شوہر کے انتظار میں تھیں، معلوم ہوتا ہے کہ جناب خدیجہ مال دار شوہر نہیں چاہتى تھیں بلکہ وہ کسى روحانى لحاظ سے برجستہ شخصیت کى تلاش میں تھیں کہ جو اس جہاں کو بدبختى اور جہالت کے گرداب سے نجابت دینے والا ہو_

تاریخ ہمیں بتلاتى ہے کہ جناب خدیجہ نے بعض دانشمندوں سے سن رکھا تھا کہ جناب محمد (ص) پیغمبر آخرالزمان ہوں گے اور آپ کو اس مطلب سے عقیدت بھى ہوچکى تھى جب آپ نے جناب محمد(ص) کو اپنى تجارت کا امین منتخب کیا اور شاید ایسا بھى امتحان لینے کے لئے کیا ہو تا کہ دانشمندوں کى پیش گوئی کو اس ذریعے سے آزما سکیں تو اپنے غلام میرہ کو تجارت کے سفر کا ناظر قرار دیا اور اس غلام نے آکر اس سفر کے دوران جنا ب محمد(ص) کے واقعات اور حوادث عجیبہ کو جناب خدیجہ کے سامنے نقل کیا تب اس نجیب اور شریف عورت نے اپنى مطلوب کو گمشدہ شخصیت اور متاع کو پالیا تھا اسى لئے جناب خدیجہ نے خود آنحضور(ص) کے سامنے اظہار کردیا کہ اے محمد(ص) میں نے تجھے شریف اور امین اور خوش خلق اور سچا پایا ہے میرى خواہش ہے کہ میں آپ سے شادى کروں_

جناب محمد(ص) نے اس واقعہ کا ذکر اپنے چچاوں سے کیا وہ خواستگارى کى غرض سے جناب خدیجہ کے چچا کے پاس گئے اور اپنے مقصد کا ایک خطبے کے درمیان اظہار کیا، جناب خدیجہ کے چچا ایک دانشمند انسان تھے چاہتے تھے کہ اس کا جواب دیں، لیکن اچھى طرح بات نہ کرسکے تو خود جناب خدیجہ فرط شوق سے فصیح زبان سے گویا ہوئیں اور کہا اے چچا گرچہ آپ گفتگو کرنے میں مجھ سے سزاوارتر ہیں لیکن آپ مجھ سے زیادہ صاحب اختیار نہیں ہیں اس کے بعد کہنے لگیں:

اے محمد(ص) میں اپنى تزویج آپ سے کر رہى ہوں اور اپنا حق مہر میں نے اپنے ماں میں قرار دیا ہے آپ اپنے چچا سے کہہ دیں کہ عروسى کے ولیمہ کے لئے اونٹ ذبح کریں _ (4)

تاریخ کہتى ہے کہ جناب خدیجہ نے اپنے چچازاد بھائی ورقہ ابن نوفل کو واسطہ قرار دیا تا کہ وہ آپ کى شادى جناب محمد(ص) سے کرادیں_ جب ورقہ نے جناب خدیجہ کو یہ بشارت سنائی کہ میں نے جناب محمد(ص) اور ان کے رشتہ داروں کو آپ سے شادى کرنے پر راضى کرلیا ہے تو جناب خدیجہ نے اس کى اس بہت بڑى خدمت پر اسے ایک خلعت عطا کیا کہ جس کى قیمت پانچ سوا شرفى تھی_

جب جناب محمد(ص) آپ کے گھر سے باہر نکلنے لگے تو جناب خدیجہ نے عرض کى کہ میرا گھر آپ کا گھر ہے اور میں آپ کى کنیز ہوں، آپ جس وقت چاہیں اس گھر میں تشریف لائیں _(5)

پیغمبر علیہ السلام کے لئے یہ شادى بہت اہمیت کے حال تھى کیونکہ ایک طرف تو آپ خود فقیر اور خالى ہاتھ تھے ، اسى وجہ سے، اور دوسرى بعض وجوہ سے آپ بچپن سال کى عمر تک شادى نہ کرسکے تھے، اور دوسرى طرف آپ کے پاس کوئی گھر نہ تھا اور تنہا تھا اور تنہائی کا آپ کو احساس ہوا کرتا تھا، اس مبارک شادى سے آپ کا فقر دور ہوگیا اور آپ کو ایک بہترین مشیر و غمگسار بھى مل گیا_

 

فداکار عورت

جى ہاں جناب محمد صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جناب خدیجہ نے باصفا اور گرم زندگى کى بنیاد ڈالی_

پہلى عورت جو جناب رسول خدا(ص) پر ایمان لائیں جناب خدیجہ تھیں، اس باعظمت خاتون نے تمام مال اور بے حساب ثروت کو بغیر کسى قید اور شرط کے جناب رسولخدا(ص) کے اختیار میں دے دیا، جناب خدیجہ ان کوتاہ فکر عورتوں میں سے نہ تھیں جو معمولى مال اور استقلال کے دیکھنے سے اپنے شوہر کى پر واہ نہیں کرتیں اور اپنے مال کو شوہر پر خرچ کرنے سے دریغ کرتى ہیں_ جناب خدیجہ پیغمبر علیہ السلام کے عالى مقصد سے باخبر تھیں اور آپ سے عقیدت بھى رکھتى تھیں لہذا اپنے تمام مال کو آنحضرت(ص) کے اختیار میں دے دیا اور کہا کہ آپ جس طرح مصلحت دیکھیں اس کو خدا کے دین کى ترویج اور اشاعت میں خرچ کریں_

ہشام نے لکھا ہے کہ جناب رسول خدا(ص) کو جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت تھى آور آپ ان کااحترام کرتے تھے اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ لیتے تھے وہ اور رشید اور روشن فکر خاتون آپ کے لئے ایک اچھا وزیر اور مشیر تھیں پہلى عورت جو آپ پر ایمان لائیں جناب خدیجہ تھیں، جب تک آپ زندہ رہیں جناب رسول خدا(ص) نے دوسرى شادى نہیں کی_ (6)

جناب رسول خدا(ص) فرمایا کرتے تھے کہ جناب خدیجہ اس امت کى عورتوں میں سے بہترین عورت ہیں_ (7)

 


جناب عائشےہ فرماتى ہیں کہ جناب پیغمبر علیہ السلام جناب خدیجہ کا اتنى اچھائی سے ذکر کرتے تھے کہ ایک دن میں نے عرض کر ہى دیا کہ یا رسول اللہ (ص) خدیجہ ایک بوڑھى عورت تھیں اللہ تعالى نے اس سے بہتر آپ کو عطا کى ہے_ پیغمبر اسلام(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا خدا کى قسم اللہ نے اس سے بہتر مجھے عطا نہیں کی، خدیجہ اس وقت ایمان لائیں جب دوسرے کفر پر تھے، اس نے میرى اس وقت تصدیق کى جب دوسرے میرى تکذیب کرتے تھے اس نے بلاعوض اپنا مال میرے اختیار میں دے د یا جب کہ میرے مجھے محروم رکھتے تھے، خدا نے میرى نسل اس سے چلائی _ __جناب عائشےہ کہتى ہیں کہ میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس کے بعد خدیجہ کى کوئی بر ائی نہیں کروں گى _(8)

روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب جبرئیل پیغمبر(ص) پر نازل ہوتے تھے تو عوض کرتے تھے کہ خدا کا پیغام جناب خدیجہ کو پہنچا دیجئے اور ان سے کہہ دیجئے کہ بہت خوبصورت قصر بہشت میں تمہارے لئے بنایا گیا ہے_ (9)

 

اسلام کا پہلا خانوادہ

اسلام میں پہلا گھر اور کنبہ کہ جس کى بنیاد پڑى وہ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہ کا گھر تھا، اس گھر کا خانوادہ تین افراد پر مشتمل تھا_ جناب رسول خدا(ص) ، جناب خدیجہ اور حضرت على علیہ السلام، یہ گھر انقلاب اسلامى کہ جو عالمى انقلاب کامرکز تھا اس پر بہت زیادہ ذمہ دارى عاید ہوتى تھى اس کے وظائف بہت زیادہ سخت تھے کیونکہ اسے کفر اور بت پرستى سے نبرد آزما ہونا تھا_

 

توحید کے دین کو دنیا میں پھیلانا تھا، تمام عالم میں ایک گھر سے سوا اور کوئی اسلامى گھر موجود نہ تھا، لیکن توحید کى پہلى چھاونى کے فداکار سپاہیوں کا مصمم یہ ارادہ تھا کہ دینا (والوں) کے دلوں کو فتح کر کے ان پر عقیدہ توحید کا پرچم لہرائیں گے_ یہ طاقتور چھاؤنى ہر قسم سے لیس اور مسلح تھی، جناب رسول خدا(ص) ان کے سردار تھے کہ جن کے متعلق اللہ تعالى فرماتا ہے کہ اے محمد (ص) تو خلق عظیم کا مالک ہے _(10)

آپ جناب خدیجہ کو بہت چاہتے تھے اور ان کااحترام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان سہیلیوں کو معزز سمجھتے تھے_

انس کہتے ہیں کہ جب کبھى آپ(ص) کے لئے ہدیہ لایا جاتا تھا تو آپ(ص) فرماتے کہ اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ جناب خدیجہ کى سہیلى تھیں_ (11)

اس گھر کى داخلى مدیر اور سردار جناب خدیجہ تھیں وہ جناب رسول خدا(ص) کے مقصد اور مقدس ہدف پر پورا ایمان رکھتى تھیں اور اس مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے کسى بھى کوشش و فداکارى سے دریغ نہیں کرتى تھیں_ اپنى تمام دولت کو جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے رکھا تھا اور عرض کیا تھا کہ یہ گھر اور اس کا تمام مال آپ کا ہے اور میں آپ کى کنیز اور خدمت گزار ہوں مصیبت کے وقت جناب رسول خدا(ص) کو تسلى دیا کرتیں، اور ہدف تک پہنچنے کى امید دلایا کرتیں، اگر کفار آپ کو آزار اور تکالیف پہنچاتے اور آپ گھر میں داخل ہوتے تو آپ(ص) جناب خدیجہ کى محبت اور شفقت کى وجہ سے تمام پریشانیوں کو فراموش کردیتے تھے، سخت حوادث او رمشکلات میں اس باہوش اور رشید خاتون سے مشورہ کیا کرتے تھے_

 

جى ہاں اس مہر و محبت کے ماحول کے بعد پیغمبر(ص) کا ارادہ مستحکم ہوجاتا تھا، اس قسم کے فداکار ماں باپ کے باصفا گھر اور گرم خانوادگى میں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا متولد ہوئیں_

 

آسمانى دستور

ایک دن جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم ابطح میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کى کہ خداوند عالم نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن رات آپ جناب خدیجہ سے علیحدگى اختیار کرلیں اور عبادت اور تہجد میں مشغول رہیں، پیغمبر اسلام(ص) اللہ تعالى کے حکم کے مطابق چالیس دن تک جناب خدیجہ کے گھر نہ گئے اور اس مدت میں رات کو نماز اور عبادت میں مشغول رہتے تھے اور دن میں روزے رکھتے تھے_

آپ(ص) نے عمار کے توسط سے جناب خدیجہ کو پیغام بھیجا کہ اے معزز خاتون میرا تم سے کنارہ کشى کرنا کسى دشمنى اور کدورت کى وجہ سے نہیں ہے تم پہلے کى طرح میرے نزدیک معزز اور محترم ہو بلکہ اس علیحدگى اور کنارہ گیرى میں پروردگار کے حکم کى پیروى کر رہا ہوں، خدا مصالح سے آگاہ ہے اے خدیجہ تم بزرگوار خاتون ہو اللہ تعالى ہر روز کئی مرتبہ تیرے وجود سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، رات کو گھر کا دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر آرام کیا کرو میں اللہ کے حکم کا منتظر ہوں میں اس مدت میں فاطمہ بنت اسد کے گھر رہوں گا_

جناب خدیجہ پیغمبر اسلام(ص) کى ہدایات کے مطالق عمل کرتیں، لیکن اس مدت میں اپنے محبوب کى جدائی میں غمگین رہتے ہوئے رویا کرتیں_

جب اسى طرح چالیس دن مکمل ہوگئے تو اللہ تعالى کى طرف سے فرشتہ نازل ہوا اور بہشت سے غذا لایا او رعرض کى آج رات اس بہشتى غذا کو تناول کیجئے_ رسول خدا(ص) نے اس روحانى اور بہشتى غذا سے ا فطار کیا جب آپ نماز اور عبادت کے لئے کھڑے ہوئے تو جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کى اے رسول اکرم (ص) آج رات مستحبى نماز کو رہنے دیجئے اور جناب خدیجہ کے پاس تشریف لے جایئےیونکہ اللہ تعالى نے ارادہ کر رکھا ہے کہ آپ صلب سے ایک پاکیزہ بچہ خلق فرمائے_

پیغمبر اکرم(ص) جلدى میں جناب خدیجہ کے گھر کى طرف روانہ ہوے_ جناب خدیجہ فرماتى ہیں کہ اس رات بھى میں حسب معمول دروازہ بند کر کے اپنے بستر پر آرام کر رہى تھى کہ اچانک دروازہ کھٹکھٹائے ، پیغمبر علیہ السلام کى دلنشین آواز میرے کانوں میں آئی کہ آپ فرما رہے تھے کہ دروازہ کھولو، میں محمد(ص) ہوں، میں نے جلدى سے دروازہ کھولا آپ خندہ پیشانى کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نور باپ کے صلب سے ماں کے رحم میں منتقل ہوا _ (12)

 

حمل کا زمانہ

جناب خدیجہ میں آ ہستہ آہستہ حاملہ ہونے کے آثار نمودار ہونے لگے اور خدیجہ کو تنہائی کے درد و رنج سے نجات مل گئی اور آپ اس بچے سے جو آپ کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں_

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب سے جناب خدیجہ نے جناب رسولخدا(ص) سے شادى کى تھى تب سے مکّہ کى عورتوں نے آ پ سے روابط آمد و رفت اور سلام و دعا ختم کردیئے تھے اور ان کى یہ کوشش ہوتى تھى کہ آپ کے گھر میں کوئی بھى عورت نہ آنے پائے مکّہ کى بڑى شخصیت کى مالک خواتین نے جناب خدیجہ کو تنہا چھوڑ کر آپ سے الفت و محبت کو ختم کردى تھى اسى وجہ سے آپ اندوہناک اور غمناک رہتى تھیں اور آہستہ آہستہ آپ تنہائی کے غم سے نجات مل گئی تھى اور آپ اس بچے سے جو آپ کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں تھیں اور اسى سے راز و نیاز کر کے خوش وخرم رہتى تھیں_

جناب جبرئیل حضرت محمد(ص) اور جناب خدیجہ کو بشارت دینے کے لئے نازل ہوئے او رکہا یا رسول اللہ وہ بچہ کہ جو جناب خدیجہ کے شکم مبارک میں ہے وہ ایک با عظمت لڑکى ہے کہ جس سے تیرى نسل قائم رہے گى اور وہ دین کے ان پیشواؤں اور اماموں کى کہ جو وحى کے خاتمے کے بعد تیرے جانشین ہوں گے ماں ہوگی_ جناب رسول صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالى کى اس بشارت کو جناب خدیجہ سے بیان کیا اور اس خبر سے جو دل کو خوش کرنے والى تھى آپ کو خشنود کیا_(13)

جى ہاں وہ خدیجہ کہ جس نے توحید اور خداپرستى کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا اور ہر قسم کى محرومى اور سختى کو برداشت کر نے پر تیار ہوگئی تھیں اور اپنى بے پناہ دولت کو اسى مقدس غرض کے لئے وق کر رکھا تھا اپنے دوست اور غمگسار چھوڑ چکى تھیں، جناب محمد(ص) اور ان کے بزرگ مقدس ہدف کو سوائے اللہ کے ہر چیز پر ترجیح دیتى تھیں، جب آپ نے رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى مبارک زبان سے اس قسم کى بشارت سنى کہ جس سے اللہ تعالى نے اسے قسم کى بڑى سعادت سے نوازا کہ جس سے دین کے معصوم پیشوا پیدا ہوں گے تو آپ کا دل خوشى سے باغ باغ ہوگیا_ اور آپ کى فداکارى کى حس کو اس سے زیادہ تحریک ملى اور اپنے خدا اور اس بچے سے جو ان کے شکم مبارک میں تھا مانوس رہنے لگیں_

 

ولادت فاطمہ (ع)

جناب خدیجہ کى حاملگى کى مدت ختم ہوئی اور ولادت کا وقت آپہنچا، جناب خدیجہ دردز ہ میں تڑپ رہى تھیں اسى دوران کسى کو اپنى سابقہ سہیلیوں اور قریش کى عورتوں کے پاس روانہ کیا اور پیغام دیا کہ پرانے کینہ کو فراموشى کردو اور اس خطرناک موقع پر میرى فریاد رسى کرو اور بچے کى ولادت میں میرى مدد کو آو، تھوڑى دیر کے بعد وہ شخص روتے ہوئے جناب خدیجہ کے پاس واپس آیا اور کہا کہ جس کے گھر کا دروازہ میں نے کھٹکھٹایا اس نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اور تمہاى خواہش کو رد کرتے ہوئے سب نے یک زبان کہا کہ خدیجہ سے کہہ دو کہ تم نے ہمارى نصیحت قبول نہ کى تھى اور ہماى مرضى کے خلاف ایک فقیر یتیم سے شادى کرلى تھى اس لئے نہ ہم تمہارے گھر آسکتے ہیں اور نہ تمہارى مدد کرسکتے ہیں_

جب جناب خدیجہ نے کینہ پرور عورتوں کا یہ زبانى زخم لگانے والا پیغام سنا تو تمام سے چشم پوشى کرتے ہوئے اپنے خالق دو جہان خدا کى طرف متوجہ ہوگئیں اس وقت اللہ کے فرشتے اور جنت کى حوریں اور آسمانى عورتوں آپ کى مدد کے لئے آئیں اور آپ اللہ تعالى کى غیبى مدد سے بہرہ ور ہوئیں اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جو آسمانى نبوت کا چمکتا ہوا ستارہ تھا اس جہاں میں قدم رکھا اور اپنے نور ولایت سے مشرق و مغرب کو روشن اور منور کردیا _(14)


پیدائشے کى تاریخ

جناب فاطمہ (ع) کى پیدائشے کى تاریخ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن علماء شیعہ کے درمیان مشہور ہے کہ آپ جمعہ کے د ن بیس جمادى الثانى بعثت کے بعد پانچویں سال میں پیدا ہوئیں_

اگر چہ اکثر سنى علماء نے آپ کى پیدائشے کو بعثت کے پہلے بتلایا ہے جنانچہ عبدالرحمن بن جوزى تذکرة الخواص کے ص 306 پر رقمطراز ہے کہ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال قریش مسجدالحرام کى تعمیر میں مشغول تھے یعنى بعثت سے پانچ سال پہلے_

محمدبن یوسف حنفى نے اپنى کتاب درالسمطین کے ص 175 پر لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال قریش خانہ کعبہ کى تعمیر میں مشغول تھے اور اس وقت پیغمبر علیہ السلام کا سن مبارک پنتیس سال کا تھا_

ابوالفرج مقاتل الطالبین کے ص 30 پر لکھتے ہیں کہ فاطمہ (ع) بعثت سے پہلے اس سال متولد ہوئیں کہ جس سال خانہ کعبہ تعمیر ہوا_

مجلسی نے بحارالانوار کى جلد 43 کے ص 213 پر لکھا ہے کہ ایک دن عبداللہ بن حسن خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں گئے کہ جہاں پہلے سے اس دربار میں کلبى بھى موجود تھا ہشام نے عبداللہ سے کہا کہ فاطمہ (ع) کى کتنى عمر تھی؟ عبداللہ نے اس کے جواب میں کہا تیس سال، ہشام نے یہى سوال بعینہ کلبى سے کیا تو اس نے جواب میں کہا، پنتیس سال_ ہشام جناب عبداللہ کى طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ آپ نے کلبى کى بات سنی؟ کلبى کى معلومات نسب کے بارے میں خاصى ہیں___ جناب عبداللہ نے جواب دیا اے امیرالمومنین میرى ماں کا حال آپ مجھ سے پوچھیں اور کلبى کى ماں کے حالات اس سے لیکن شیعہ علماء کى اکثریت نے جیسے ابن شہر آشوب نے جلد 3 کے ص 397 پر کلینى نے کافى کى جلد 1 کے ص 149 پر، محدث قمى نے منتہى الامال کى جلد 1 کے ص 97پر، محمدتقى سپہر نے ناسخ التواریخ کے ص 17 پر، على ابن عیسى نے کشف الغمہ کى جلد 2 کے ص 75پر، طبرى نے دلائل الامامة کے ص 10 پر، فیض کاشانى نے وافى کے جلد1 کے ص 173 پر ان تمام علماء اور دوسرے دیگر علماء نے لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) بعثت کے پانچ سال بعد متولدئیں ان علماء کا مدرک و دلیل وہ روایات ہیں جوانہوں نے آئمہ اطہار سے نقل کى ہیں_

ابوبصیر نے روایت کى ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بیس جمادى الثانى کو جب کہ پیغمبر اکرم(ص) کى پنتالیس سلا کى عمر مبارک تھى اس دنیا میں تشریف لائیں، آٹھ سال تک باپ کے ساتھ مکہ میں رہیں، دس سال تک باپ کے ساتھ مدینہ میں زندگى گزارى باپ کے بعد پچہتر دن زندہ رہیں اور تین جمادى الثانى گیارہ ہجرى کو وفات پاگئیں_

لیکن قارئین پر یہ بات مخفى نہیں ہے کہ آپ کى وفات کا تین جمادى الثانى کو ہونا آپ کا پیغمبر(ص) کے بعد پچھتر دن زندہ رہنے کے ساتھ درست قرار نہیں پاتا بلکہ پیغمبر(ص) کے بعد 95 دن زندہ رہنا معلوم ہوتا ہے لہذا ہوسکتا ہے کہ سبعین عربى میںکہ جس کے معنى ستر کے ہیں لفظ تسعین سے کہ جس کے معنى نوے کے ہیں اشتباہ میں نقل کیا گیا ہو_

حبیب سجستانى کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) دختر پیغمبر اسلام(ص) ، رسول اللہ (ص) کى بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئیں اور آپ کى وفات کے وقت اٹھارہ سال پچہتر دن عمر مبارک کے گزرچکے تھے، یہ اصول کافى کى جلد 1 ص 457 پر موجود ہے_ ایک روایت کے مطابق آپ کى شادى نو سال کى عمر میں کى گئی_

سعید بن مسیب نے کہا ہے کہ میں نے زین العابدین علیہ السلام کى خدمت میں عرض کى کہ پیغمبر علیہ السلام نے جناب فاطمہ (ع) کى شادى حضرت على علیہ السلام کے ساتھ کس سن میں کى تھى آپ(ع) نے فرمایا ہجرت کے ایک سال بعد، اس وقت ہجرت فاطمہ (ع) نو سال کى تھیں، یہ روضہ کافى طبع نجف اشرف 1385 ہجرى کے ص 281 پر موجود ہے_

اس قسم کى احادیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کى بعثت کے بعد متولد ہوئیں_ صاحب کشف الغمہ___ نے ایک روایت نقل کى ہے کہ جس میں دو متضاد چیزوں کو جمع کردیا ہے کیونکہ انہوں نے نقل کیا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جناب فاطمہ (ع) رسول اللہ(ص) کى بعثت کے پانچ سال بعد متولد اور وہ دہ سال تھا کہ جس میں قریش خانہ کعبہ تعمیر کرنے میں مشغول تھے اور آپ کى عمر وفات کے وقت اٹھارہ سال پچھتر دن تھی_ یہ کشف ا لغمہ کى جلد 2 ص 75 پر موجود ہے_

آپ خود ملاحظہ کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں واضح تناقض موجود ہے کیوں کہ ایک طرف تو اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول کى بعثت کے پانچ سال بعد متولد ہوئیں اور وفات کے وقت آپ کى عمر اٹھارہ سال و پچھتر دن تھى اور دوسرى طرف اسى روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ کى ولادت کے وقت قریش خانہ کعبہ تعمیر کر رہے تھے_ یہ دونوں مطلب جمع نہیں ہوسکتے کیونکہ خانہ کعبہ کى تعمیر اور تجدید پیغمبر علیہ السلام کى بعثت کے پانچ سال پہلے ہوئی تھى نہ بعثت کے بعد_

بہرحال اس حدیث میں اشتباہ ہوا ہے لفظ قبل البعثہ کو بعد البعثہ نقل کیا گیا ہے یا ''قریش تنبى البیت'' یعنى قریش خانہ کى تعمیر کر رہے تھے کہ جملہ راوى نے اپنى طرف سے اضافہ کردیا ہے کہ جسے امام علیہ السلام نے نہیں فرمایا ہوگا_ کعفمى نے مصباح میں لکھا ہے کہ فاطمہ (ع) جمعہ کے دن بیس جمادى الثانى بعثت کے دوسرے سال دنیا میں تشریف لائیں یہ بحار الانوار جلد 43 کے ص 9 پر بھى موجود ہے_

ان اقوال کے نقل کرنے سے یہ واضح ہوگیا کہ علماء اسلام کے درمیان جناب فاطمہ (ع) کى ولادت کے سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن چونکہ اہلبیت کے افراد آپ کى ولادت بعثت کے پانچ سال بعد مانتے ہیں لہذا ان کا قول سنى تاریخ نویسوں پر مقدم ہوگا_ کیونکہ آئمہ اطہار اور پیغمبر کے اہلبیت اور حضرت زہرا(ع) کى اولاد دوسروں کى نسبت اپنى والدہ کے سن اور عمر مبارک سے زیادہ باخبر ہیں_

اگر کوئی یہاں یہ اعتراض اٹھائے کہ جناب خدیجہ نے بعثت کے دسویں سال میں وفات پائی ہے اور اس وقت آپ کى عمر پینسٹھ سال تھى لہذا جناب فاطمہ (ع) کى ولادت اگر بعثت کے پانچ سال بعد مانى جائے تو لازم آئے گا کہ جناب خدیجہ انسٹھ سال کى عمر میں جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہوئی ہوں جو قابل قبول نہیں ہے، کیا اس عمر میں حاملہ ہونا تسلیم کیا جاسکتا ہے؟

اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے، پہلے تو یہ کہ یہ قطعى ن ہیں کہ آپ کى عمر وفات کے وقت پینسٹھ سال کى تھى بلکہ ابن عباس کے قول کے مطابق آپ کى عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے کے وقت اڑتالیس سال کى بنتى ہے کیونکہ این عباس نے فرمایا ہے کہ جناب خدیجہ نے اٹھائیس سال کى عمر میں جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ شادى کى تھى جیسے کشف الغمہ کى جلد2 کے ص 139 پر مرقوم ہے، ابن عباس کا قول دوسروں پر مقدم ہے کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے رشتہ دار ہیں اور آپ کے داخلى ا مور کو دوسروں کى بہ نسبت بہتر جانتے ہیں_

اس روایت کى روسے جناب خدیجہ جناب رسول خدا کى بعثت کے وقت تینتالیس سال کى عمر میں ہوں گى اور جب جناب فاطمہ (ع) کا تولد پانچویں بعثت میں ہو تو جناب خدیجہ کى عمر اس وقت اڑتالیس سال کى ہوگى کہ جس میں عورت کا حاملہ ہونا عا دى ہوا کرتا ہے_

اگر ہم ابن عباس کے قول کو تسلیم نہ کریں تب بھى جواب دیا جاسکتا ہے کہ اگر جناب خدیجہ نے جیسے کہ مشہور ہے چالیس سال کى عمر میں جناب رسول خدا(ص) کے ساتھ شادى کى تھى اور آپ کى عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے کے وقت انسٹھ سال کى ہو گى تو بھى یہ عمر قریش کى عورتوں کے لئے حاملہ ہونے کى عادت کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ تمام فقہاء نے لکھا ہے کہ قریش کى عورتوں ساٹھ سال تک صاحب عادت رہتى ہیں اور اس وقت تک حاملہ ہوسکتى ہیں اور یہ بھى واضح ہے کہ جناب خدیجہ قریش خاندان کى ایک اعلى فرد تھیں_

اگر چہ یہ ٹھیک ہے کہ عورت کا اس سن میں حاملہ ہونا بہت نادر اور کم ہوا کرتا ہے لیکن___ محال نہیں ہے بلکہ اس کى مثال اس دنیا میں بھى موجود ہے، جیسے ایک عورت کہ جس کا نام اکرم موسوى تھا، بندر عباس کے سرخون نامى جگہ پر اس نے توام دو بچے جنے اور اس کى عمر اس وقت پینسٹھ سال کى تھى اور اس کے شوہر کى عمر چوہتر سال تھی_

روزنامہ اطلاعات کو ایک ڈاکٹر نے بتلایا کہ ہمیں پیدائشے کى عمر کى ڈاکٹرى لحاظ سے جو کم سے کم عمر بتلائی جاتى ہے وہ یہ ہے کہ عورت چار سال اور ساتھ مہینے کى حاملہ ہوئی ہے اور سب سے زیادہ عمر کى ماں اس دنیا میں سرسٹھ سال کى ہوچکى ہے_ یہ مطلب ایران کے اخبار اطلاعات کے 28 بہمن 1351 شمسى میں موجود ہے_

ایک عورت جس کا نام شوشنا ہے جو اصفہان کى رہنے والى تھى چھیاسٹھ سال کى عمر میں حاملہ ہوئی اور ایک لڑکے کو جنم دیا اس کے شوہر یحیى نامى نے اخبار نویسوں کو بتلایا کہ میرے اس عورت سے آٹھ بچے ہیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں، سب سے چھوٹا پچیس سال کا ہے اور سب بڑا لڑکا پچاس سال کا ہے _ اسے اخبار اطلاعات نے 20 اردیبہشت 1351، شمسى کے پرچے میں نقل کیا ہے_

اس کے بعد کیا مانع ہوسکتا ہے کہ جناب خدیجہ بھى انہیں کمیاب اور نادر افراد میں سے ایک ہوں کہ جو اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہیں_

آخر میں ایک اور نکتہ طرف متوجہ ہونا بھى ضرورى ہے کہ جو اختلاف جناب فاطمہ زہرا(ع) کى ولادت کے سال میں موجود ہے اس کا اثر آپ(ع) کى عمر پر بھى پڑے گا اور آپ کى عمر میں شادى اور وفات کے وقت میں بھى قہراً اختلاف ہوجائے گا اسى واسطے اگر آپ کى پیدائشے بعثت کے پانچ سال پہلے تسلیم کى جائے تو آپ کى عمر شادى کے وقت تقریباً اٹھارہ سال اور وفات کے وقت اٹھائیس سال ہوگى اور اگر آپ کى پیدائشے بعثت کے پانچ سال بعد مانى جائے تو پھر آپ کى عمر شادى کے وقت نو سال اور وفات کے و قت اٹھارہ سال کى ہوگی_

 

جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کى آرزو

خلقت کے اسرار میں سے ایک راز یہ ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کى اولاد اور لڑکا ہوتا تا کہ اسے اپنى حسب منشاء تربیت کرے اور اپنى یادگار چھوڑ جائے_ انسان فرزند کو اپنے وجود کا باقى رہنا شمار کرتا ہے اور مرنے کے وقت آپ کو فناء اور ختم ہوجانا نہیں جانتا، لیکن وہ آدمى جس کا کوئی فرزند نہ ہو تو وہ اپنى زندگى کو مختصر اور موت کے آپہنچنے سے اپنے آپ کو ختم سمجھتا ہے شاید پیدائشے کو یوں سلسلہ نسل انسانى کى بقاء کا وسیلہ قرار دیا گیا ہوتا کہ نسل انسانى نابودى اور منقرض ہوجانے سے محفوظ رہ جائے_

جى ہاں پیغمبر(ص) اور جناب خدیجہ بھى اس قسم کى تمنا رکھتے تھے، وہ خدیجہ جو خداپرستی اور بشریت کى نجات کے لئے کسى قربانى سے دریغ نہ کرتى تھیں اور پیغمبر کے مقدس ہدف کو آگے بڑھانے میں مال اور دولت اور رشتہ داروں اور دوستوں سے بھى قطع تعلقى سے گریز نہ کرتى تھی، بغیر کسى قید و شرط کے جناب رسول خدا(ص) کى خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کرچکى تھیں یقینا ان کى بھى یہ خواہش ہوگى کہ جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صاحب فرزند ہوں تا کہ وہ دین اسلام کا حامى اور اس کى اشاعت اور ترویج میں اور اسے آنحضرت کے عالى ہدف تک پہنچانے میں کوشاں ہو_

پیغمبر اسلام(ص) جانتے تھے کہ انسان کے لئے موت یقینى ہے آپ تھوڑى اور مختصر مدت میں اتنے بڑے ہدف کو بطور کامل جارى نہیں کرسکتے اور تمام جہان کے بشر کو گمراہى کے گرداب سے نہیں نکال سکتے فطرى بات ہے کہ آپ کا دل بھى چاہتا ہو گا کہ ایسے ایثار کرنے والے افراد جو ان کى اپنى نسل سے ہوں موجود ہو جائیں_

جناب محمد مصطفى (ص) اور جناب خدیجہ اس قسم کى ضرور تمنا اور خواہش رکھتے ہوں گے ، لیکن افسوس کہ جو لڑکے آپ کے پیدا ہوئے تھے کہ جنہیں عبداللہ اور قاسم کے نام سے موسوم کیا گیا تھا وہ بچپن ہى میں فوت ہوگئے جتنا دکھ جناب رسول خدا(ص) اور جناب خدیجہ کو ان کى وفات سے ہوا تھا اتنا ہى ان کے دشمن خوش اور شاد ہوئے تھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کى نسل کو ختم ہوتا دیکھ رہے تھے، کبھى دشمن آپ کو ابتر یعنى لاولد کے نام سے پکارتے تھے_

جب آپ کے فرزند عبداللہ فوت ہوئے تو عاص بن وائل بجائے اس کے کہ آپ کو آپ کے فرزند کى موت پر تسلى دیتا مجمع عام میں آپ کو ابتر اور لاولد کہتا تھا اور کہتا تھا کہ جب محمد(ص) مرجائیں گے تو ان کا کوئی وارث نہ ہوگا_ وہ زبان کے زخم سے جناب پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جناب خدیجہ کا دل زخمى کیا کرتا تھا_ (15)


کوثر

خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کو بشارت دى کہ ہم آپ کو خیر کثیر عطا کریں گے_ اللہ تعالى نے دشمنوں کے جواب میں سورہ کوثر کو نازل فرمایا اور اس میں فرمایا کہ اے محمد(ص) ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا پس تم خدا کے لئے نماز پڑھو اور قربانى دو، آپ کا دشمن ہى لاولد ہے نہ کہ آپ_ (16)

پیغمبر اسلام(ص) کو یقین تھا کہ اللہ کا وعدہ کبھى غلط نہیں ہوتا مجھ سے پاکیزہ نسل اور اولاد وجود میں آئے گا جو تمام جہان کى نیکیوں کا سرچشمہ اور منبع ہوگی_ جب اللہ تعالى کا وعدہ پورا ہوا اور جناب فاطمہ زہرا(ع) دنیا میں تشریف لائیں اور آپ کے نور ولایت سے جہان روشن ہوا تو جناب رسول خدا(ص) کو اطلاع دى گئی کہ خداوند عالم نے جناب خدیجہ کو ایک لڑکى عنایت فرمائی ہے، آپ کا دل اس بشارت سے خوشى اور شادمانى سے لبریز ہوگیا، آپ لڑکی___ ہونے سے نہ صرف غمگین نہ ہوئے بلکہ اس وسیلے سے آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور اللہ تعالى کى خوشخبرى کے آثار کا مشاہدہ فرمانے لگے_

جى ہاں پیغمبر اکرم(ص) ان کوتاہ فکر اور جاہلیت کے زمانے کے ان نادانوں میں سے نہ تھے جو لڑکى کے وجود پر شرمندہ ہوتے تھے، او رغصے کو فرو کرنے کے لئے اس کى بے گناہ ماں کو گالیاں اور ظلم کا نشانہ بناتے تھے لوگوں سے منھ چھپانے تھے _(17)

پیغمبر اسلام(ص) اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ لوگوں کے غلط رسم و رواج اور بیہودہ افکار ''کہ جس کى وجہ سے عورتوں کى قدر و قیمت کے قائل نہ تھے اور انہیں معاشرے کافر و حساب نہ کرتے تھے اور بے گناہ لڑکیوں کو زندہ در گور کردیتے تھے'' سے مقابلہ اور مبارزہ کریں اور لوگوں کو بتادیں کہ عورت بھى معاشرہ کى حساس فرد ہے اس پر بہت بڑا وظیفہ اور مسئولیت عائد ہوتى ہے وہ بھى معاشرہ کى عظمت اور ترقى کے لئے کوشش کرے اور ان وظائف کو جو اس کى خلقت کى مناسب سے اس پر عائد کئے گئے بجالائے_

جى ہاں اللہ تعالى نے عملى طور سے عالم کى عورت کى قدر و قیمت سمجھائی ہے_ یہى وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کى ذریت اور پاک نسل کو ایک لڑکى میں قرار دیا اور اس طرح مقدر فرمایا کہ امام اور دین اسلام کے رہبر اور پیشوا تمام کے تمام جناب فاطمہ اطہر کى نسل سے وجود میں آئیں اللہ تعالى نے اس طرح ان نادان لوگوں کے منھ پر جو لڑکى کو اپنى اولاد شمار نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے وجود کو موجب عار اور رننگ سمجھتے تھے مضبوط طمانچہ مارا_

 

ماں کا دودھ

جب جناب فاطمہ زہرا(ع) کو ایک پارچہ میں لیپٹ کر جناب خدیجہ کے دامن میں رکھا گیا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور اپنے پستانوں کو اس تازہ مولود کے چھوٹے سے منھ میں دے کر اپنے عمدہ اور بہترین دودھ سے سیراب کیا اور یہ ایک ایسا رویہ تھا کہ جس سے جناب فاطمہ (ع) نے اچھى طرح نمو اور رشد پایا_ (18)

جى ہاں جناب خدیجہ ان خودپسند اور نادان عورتوں میں سے نہ تھیں کہ جو بغیر کسى عذر اور بہانے کے اپنے نو مولود کو ماں کے دودھ سے (کہ جسے اللہ تعالى نے مہیا کیا ہے) محروم کردیتى ہیں_ جناب خدیجہ کو خود علم تھا یا پیغمبر اسلام(ص) سے سن رکھا تھا کہ بچوں کى غذا اور صحت کے لئے کوئی غذا بھى ماں کے دودھ کے برابر نہیں ہوسکتى کیونکہ ماں کا دودھ ہى اس کے ہاضمہ کى مشیزى اور اس کے خاص مزاج کے لئے کاملاً مناسب اور سازگار ہوا کرتا ہے جو بچے میں اللہ نے ودیعت کر رکھى ہے، بچہ نو مہینے تک ماں کے رحم میں ماں کى غذا اور ہوا اور خون میں شریک رہتا ہے اور بلاواسطہ ماں سے رزق حاصل کرتا ہے اسى لئے ماں کے دودھ کے اجزائے ترکیبى بچے کے مزاج سے کاملاً مناسب ہوتے ہیں اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں کسى قسم کى ملاوٹ کا شائبہ نہیں ہوسکتا اور اس میں زچگى کے جراثیم جو بیمارى کا موجب ہوسکتے ہیں نہیں ہوا کرتے _(19)

جناب خدیجہ کو علم تھا کہ ماں کا پر محبت دامن او رمہر مادرى اور بچے کا ماں کے پستانوں سے دودھ پینا کون سے نقوش بچے کى آئندہ زندگى پر چھوڑتے ہیں سعادت او رنیک بختى میں کتنے قابل توجہ اثرات نقش بناتے ہیں اسى لئے آپ نے یہ اختیار کیا کہ جناب فاطمہ زہرا(ع) کو اپنى آغوش محبت میں پرورش اور تربیت کرے اور اپنے پاک دودھ ''جو شرافت، نجابت، علم، فضیلت، بردباری، فداکاری، شجاعت کا منبع اور سرچشمہ ہے'' سے غذا دے_ سچ ہے مگر جناب خدیجہ کے دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ اس قسم کا پاک عنصر اور شجاعت اور مزاج معرفت کى تربیت کرسکتا تھا کہ باغ نبوت کے پر برکت میوہ کو ثمردار بنادیا؟
دودھ پینے کا زمانہ

جناب فاطمہ زہرا(ع) کے دودھ پینے کا زمانہ اور آپ کا بچپن بہت خطرناک ماحول اور اسلام کے انقلابى زمانے میں گزرا کہ جس نے بلاشک آپ کى حساس روح پر بہت شاندار اثرات چھوڑے اس واسطے کہ دانشمندوں کے ایک گروہ کے نزدیک یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ بچے کى تربیت کا ماحول اور محیط اور اس کے ماں باپ کے افکار اس کى روح اور شخصیت پر کاملاً اثر انداز ہوتے ہیں اسى لئے ہم مجبور ہیں کہ ابتداء اسلام کے اوضاع او رحوادث کا بطور اجمال ذکر کریں تا کہ قارئین فوق العادہ اوضاع اور بحرانى دور کو ملاحظہ کرسکیں کہ جس میں پیغمبر اسلام(ص) کى دختر گرامى قدر نے نشو و نما اور تربیت حاصل کى ہے_

پیغمبر اسلام(ص) چالیس سال کى عمر میں پیغمبرى کے لئے مبعوث بر رسالت ہوئے ابتدا دعوت میں آپ کو بہت مشکلات اور خطرناک اور سخت حوادث کا سامنا کرنا پڑا آپ نے یک و تنہا عالم کفر اور بت پرستى سے مقابلہ کیا آپ نے کئی سال تک خفیہ تبلیغ کى اور دشمنوں کے خوف سے اپنى دعوت اور تبلیغ کو على الاعلان کرنے کى جرات نہ کرسکتے تھے بعد میں آپ کو خداوند عالم سے حکم ملاکہ لوگوں کو دین کى طرف بلانے کى کھلى دعوت دو اور مشرکین کى پرواہ مت کرو اور ان سے مت ڈرو _(20)

پیغمبر اکرم(ص) نے اللہ تعالى کے اس حکم کے بعد اپنى دعوت کو عام کردیا اور اجتماع عام میں لوگوں کو اسلام کے مقدس آئین کى طرف دعوت دینى شروع کى دن بدن مسلمانوں کى تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا_

جب پیغمبر اکرم(ص) کى تبلیغ على الاعلان ہونے لگى تو دشمنوں کے آزار و اذیت میں بھى شدت آگئی، وہ مسلمان کو شکنجے کرتے اور ان پر ظلم و ستم ڈھاتے بعض مسلمانوں کو حجاز کے سورج کى تپتى دھوپ میں ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بہت بھارى پتھر رکھ دیتے اور بعض مسلمانوں کو قتل کردیتے تھے_

مسلمانوں پر اتنا سخت عذاب اور سختى کى گئی کہ وہ بہت تنگ آچکے تھے اور مجبور ہوگئے تھے کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسى دوسرے ملک کى طرف ہجرت کرجائیں چنانچہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے جناب رسول خدا سے اجازت لى اور حبشہ کى طرف روانہ ہوگیا_(21)

جب کفار اپنى سختى اور ظلم اور آزار و اذیت سے اسلام کى پیشرفت اور وسعت کو نہ روک سکے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں تکالیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن اسلام کے عقیدے سے دست بردار نہیں ہوتے تو انہوں نے ایک مشاورتى اجتماع کیا اور تمام نے انفاق سے طے کیا کہ جناب محمد(ص) کو قتل کردیا جائے_

جب جناب ابوطالب(ع) کو ان کے خطرناک منصوبے کا علم ہوا تو آپ نے جناب رسول خدا(ص) کى جان کى حفاظت کى مختصر یہ کہ بنى ہاشم کے ایک گروہ کے ساتھ ایک درہ میں کہ جس کا نام شعب ابوطالب ہے منتقل ہوگئے_

جناب ابوطالب(ع) اور باقى تمام بنى ہاشم جناب رسول خدا(ص) کى جان کى حفاظت کرتے تھے_ جناب حمزہ جو رسول خدا(ص) کے چچا تھے رات بھر تلوار کھینچے آپ کى حفاظت کیا کرتے تھے، آپ(ص) کے دشمن پیغمبر خدا(ص) کے قتل کرنے سے ناامید ہوگئے تو انہوں نے شعب ابوطالب میں نظر بند افراد پر اقتصادى باؤ ڈالنا شروع کردیا ا ور ان سے خرید و فروخت پر پابندى عائد کردی_ مسلمانوں تین سال تک اس درہ میں قید رہے اس میں بھوک اور تکالیف اور سخت جلادینے والى گرمى برداشت کرتے رہے اور مختصر خوارک پر جو انہیں چورى چھپے حاصل ہوتى تھى گزر اوقات کرتے رہے اور بسا اوقات بچوں کى بھوک سے فریادیں بلند ہوجایا کرتى تھیں_

جناب فاطمہ زہرا(ع) اس قسم کے خطرناک ماحول اور وحشت ناک و محیط اور اس قسم کے بحرانى حالات میں دنیا میں آئیں اور اس قسم کے حالات میں تربیت پائی، جناب خدیجہ کبرى نے اس قسم کے حالات اور شرائط میں اپنے پیارے نو مولود کو دودھ پلایا کافى مدت جناب زہرا(ع) کے دودھ پینے کى اسى درے میں گزرى اور اسى جگہ آپ کا دودھ بھى چھڑایا گیا، آپ نے اسى جلانے والے ریگستان میں راہ چلنا سیکھا جب آپ نے بولنا سیکھا تو بچوں کا بھوک سے آہ و فغاں کرنا اسى جگہ سنا اسى گھٹے ہوئے ماحول میں غذا کے قحط کو دیکھا جب آپ آدھى رات کو جاگ اٹھتیں تو دیکھتیں کہ آپ کے رشتہ دار برہنہ شمشیر لئے ہوئے آپ کے باپ کى حفاظت کر رہے ہیں_

تین سال تک جناب زہرا(ع) نے اس جلادینے والى وادى کے سوا اور کچھ نہ دیکھا اور خارجى دنیا سے بے خبر رہیں_

جناب زہرا(ع) کى عمر پانچ سال کى تھى جب پیغمبر اکرم(ص) اور بنى ہاشم کو اس درے ''شعب ابوطالب'' سے نجات ملى اور یہ سب اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے، نئی زندگى کے نظارے اور آزادى کى نعمت اور کھانے پینے میں وسعت اور اپنے مکان میں رہنا جناب زہرا(ع) کے لئے نئے ماحول کى حیثیت رکھتا تھا اور آپ کے لئے باعث مسرت تھا_


ماں کى وفات

افسوس صد افسوس کہ جناب فاطمہ (ع) کے خوشى کے دن زیادہ دیر تک نہ رہ سکے آپ نے آزاد ما حول میں سانس لینا چاہا تھا کہ آپ کى مہربان ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوگیا_

ابھى ایک سال بھى نہ گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) اور آپ کے اصحاب شعب کى قید سے آزاد ہوئے تھے کہ جناب خدیجہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں _(22)

اس جانگداز حادثہ نے کس قدر جناب فاطمہ (ع) کے دل پر اثر کیا اور آپ کے امید کے پودہ کو پمردہ کردیا اور آپ کى روح کو شدید صدمہ پہنچا، جناب فاطمہ ز ہرا(ع) ایسے ناقبل برداشت حادثہ کا ہرگز احتمال بھى نہ دیتى تھیں_

نتیجہ

بچپن کے غیر معمولى واقعات اور تلخ حوادث نے بغیر کسى شک و شبہ کے جناب زہرا(ع) کى حساس روح پر اثر چھوڑا اور آپ کى آئندہ زندگى اور نفسیات اور افعال کا ربط نہیں واقعات سے مرتبط ہے جو آپ کو بچپن میں پیش آئے اور آپ کى شخصیت نے اسى سرچشمہ سے آغاز کیا، مندرجہ ذیل اثرات انہیں واقعات سے بطور نتیجہ اخذ کئے جاسکتے ہیں_

1_ جو شخص اس قسم کے پمردہ ماحول میں نشو و نما پائے اور زندگى کے آغاز میں ہى اتنے پڑے واقعات سے دوچار ہو تو لامحالہ وہ افسردہ خاطر اور غمگین ہى رہا کرتا ہوگا اسى لئے جناب فاطمہ (ع) کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ محزون اور غمگین رہا کرتى تھیں_

2_ جو شخص اس قسم کے بحرانى ماحول میں پروان چڑھا ہو، یہاں تک کہ دودھ پینے اور بچپن کى عمر قید خانے میں گزارى ہو اور جب سے آپ نے اپنے آپ کو پہچاننا شروع کیا ہو اپنے آپ کو قید خانے میں دیکھے اور یہ دیکھے کہ اس کے ماں باپ کس فداکارى اور ایثار سے اپنے ہدف اور مقصد کا دفاع کر رہے ہیں اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے ہر سختى اور تکلیف کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن اپنے مقصد کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے تو لامحالہ اس قسم کى شخصیت سخت جان، مبارز اور صاحب مقصد ہى ابھر کر سامنے آئے گى اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے قید اور تکالیف اور مظالم کى پرواہ نہیں کرے گى اور میدان نہیں چھوڑے گی_

3_ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دیکھ رہى تھیں کہ اس کے ماں باپ دین کى اشاعت اور خداپرستى کے لئے کتنے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں، انسانیت کى نجات اور ہدایت کے لئے کتنى قربانیاں دے رہے ہیں آپ کو مسلمان سے یہى امید ہوگى کہ وہ اس کى وفات کے بعد ان کى قدر کریں اور آپ کے ہدف اور مقصد کو آگے بڑھانے میں سعى اور کوشش سے کام لیں اور جو راستہ آپ ان کے لئے معین کرگئے اس سے منحرف نہ ہوں_

ماں کى وفات کے بعد

بعثت کے دسویں سال بہت تھوڑے فاصلے پر جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کى یکے بعد دیگرے وفات ہوجاتى ہے_(23)

 

ان دو غم انگیز واقعات نے جناب پیغمبر خدا(ص) کى روح کو صدمہ پہنچایا اور آپ نے اس سال کا نام عام الحزن رکھا_(24)

کیونکہ ایک طرف تو آپ کا ایک غم گسار اور داخلى و خارجى امور میں مشیر اور آپ کى اولاد کى ماں جناب خدیجہ کا انتقال ہوجاتا ہے اور دوسرى طرف آپ کا ایک بہت بڑا حامى اور مددگار اور مدافع جناب ابوطالب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، جس سے آپ کى یکدم داخلى اور خارجى اوضاع دگرگوں ہوجاتى ہیں_

ان دو حامیوں کے فوت ہوجانے سے دشمنوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس طرح آپ کو تکالیف دینا شروع کردیں کبھى آپ کو پتھر مارتے اور کبھى آپ کے سر و صورت پر خاک ڈالتے اور کبھى برا بھلا کہتے او رکبھى آپ کے جسم مبارک کو زخمى کرتے اکثر اوقات آپ غمگین اور پمردہ گھر میں داخل ہوتے اور اپنى بیٹى سے ملاقات کرتے، جب کہ جناب فاطمہ (ع) اپنى ماں کے فراق میں مرجھائے ہوئے چہرے سے اشکبار ہوتیں، جناب فاطمہ (ع) جب کبھى گھر سے باہر جاتیں تو ناگوار حوادث سے دوچار ہوتیں کبھى دیکھتیں کہ لوگ آپ کے باپ کو اذیت دے رہے ہیں اور آپ کو برا بھلاکہہ رہے ہیں_ ایک دن دیکھا کہ دشمن مسجدالحرام میں بیٹھے آپ کے والد کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں_ روتے ہوئے گھر واپس آئیں اور دشمنوں کے منصوبے سے باپ کو آگاہ کیا_(25)

ایک دن مشرکین میں سے ایک آدمى نے جناب رسول خدا (ص) کو گلى میں دیکھا تو کوڑا کرکٹ اٹھا کر آپ کے چہرے اور سر پر ڈال دیا_ پیغمبر(ص) نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر چلے گئے_ آپ کى دختر جناب فاطمہ (ع) جلدى سے آئیں اور پانى لاکر اشک بار آنکھوں سے آپ کے سر مبارک کو دھویا_ پیغمبر خدا(ص) نے فرمایا: بیٹى روو مت، مطمئن رہو خدا تیرے باپ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، اور کامیابى عطا فرمائے گا_(26)

ایک دن پیغمبر خدا(ص) مسجد میں نماز میں مشغول تھے، مشرکین کا ایک گروہ آپ کا مذاق اڑا رہا تھا اور آپ کو اذیت دینا چاہتا تھا، ان مشرکین میں سے ایک نے اونٹ ذبح کیا تھا، اس کى اوجھڑى اٹھاکر ''جو کثافت اور خون سے پر تھی'' آپ کى پشت مبارک پر جب آپ سجدے میں تھے ڈال دیا_ جناب فاطمہ (ع) اس وقت مسجد میں موجود تھیں جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ کو بہت قلق ہوا اور آپ کى پشت مبارک سے اوجھڑى کو ہٹا کر دور پھینک دیا_ پیغمبر اسلام(ص) نے سجدہ سے سر اٹھایا اور نماز کے بعد اس گروہ پر نفرین کی_(27)

جى ہاں جناب زہرا(ع) نے اپنے بچپن میں اس قسم کے ناگوار واقعات دیکھے اور اپنے باپ کى ان میں مدد کی، اور اپنے کے لئے مادرى سلوک کیا کرتى تھیں_

جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد بہت سے گھر کے کام کاج کى ذمہ دارى جناب فاطمہ (ع) کے کندھے پر آن پڑى تھی_ کیونکہ یہ توحید کا وہ پہلا گھر تھا جس کا سردار مرچکا تھا، اس گھر میں جناب فاطمہ (ع) کے علاوہ اور کوئی مددگار موجود نہ تھا، تاریخ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس زمانے میں پیغمبر خدا(ص) کے گھر کى حالت کیسى رہى اور ان کى زندگى کس طرح گزری_ لیکن بصیرت کى آنکھوں سے اس گھر کى رقت بار حالت کو دیکھا جاسکتا ہے_ پیغمبر اسلام(ص) نے جناب خدیجہ کے بعد سورہ سے شادى کرلی_ اس کے علاوہ اور کئی عورتیں تھیں_ جو تمام کى تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت کیا کرتى تھیں، لیکن پھر بھى ایک یتیم بچے کے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنى ماں کى جگہ کو خالى دیکھے اور اس کى جگہ کسى اور عورت کو رہتا دیکھے_ سوکن خواہ کتنى ہى مہربان اور اچھى کیوں نہ ہو پھر بھى وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں کى طرف سے ہوتى ہے وہ اس بچے کو نہیں دے سکتی_ صرف ماں ہى ہے کہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے کے دل کو تسکین دے سکتى ہے_

جناب فاطمہ (ع) کو جس شدت سے محرومى کا احساس ہو رہا تھا اسى شدت سے پیغمبر(ص) بھى آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، کیونکہ پیغمبر خدا(ص) جانتے تھے کہ فاطمہ (ع) کو ماں کى کمى کا احساس ہے اور اس کمى کو پورا ہوتا چاہیئے، اس وجہ سے اور دوسرى کئی وجوہ کى بناء پر روایت میں وارد ہوا کہ پیغمبر(ص) جب تک اپنى بیٹى کو نہ چوم لیتے رات کو نہیں سوتے تھے_(28)

یہ تھوڑے سے آٹھ سال کے واقعات ہیں جو پیغمبر(ص) کى بیٹى جناب فاطمہ (ع) پر مکہ معظمہ میں وارد ہوئے ہیں_

واضح رہے اگر چہ اس قسم کے واقعات اور حوادث جو کسى بچے کى روح پر وارد ہوں تو اس کے اعصاب کو مختل کردیتے ہیں اور اس کى فکر صلاحیت اور جسمى قوت کو کم کردینے کے لئے کافى ہوا کرتے ہیں لیکن اس قسم کا حکم ہر ایک انسان کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے_

کیونکہ یہى ناگوار واقعات اور دائمى گرفتاریاں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں کى روح کو تقویت پہنچاتے ہیں اور اس کى اندرونى استعداد اور پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے مشکلات کے مقابلے کے لئے ثابت قدم بنا دیتے ہیں_ جب تک پتھر پر غیر معمولى حرارت معدن میں وارد نہ ہو وہ خالص اور بیش بہا قیمت سونا بن کر نہیں نکلتا_

جى ہاں جناب زہرہ(ع) کى زندگى کے دوران خطرناک حوادث اور بحرانى اوضاع نے آنجناب کى روح کو نہ صرف ضعیف نہیں کیا بلکہ الٹا اپنے وجود کے گوہر کو صیقل کر کے تابناک و درخشان بنادیا اور آپ کو ہر قسم کے حالات سے مبارزہ کرنے کے لئے آمادہ اور طاقتور بنادیا تھا_

 

فاطمہ (ع) مدینہ کى طرف

پیغمبر خدا(ص) بعثت کے تیرھویں سال جان کے خطرے کى وجہ سے مجبور ہوگئے کہ مکّہ کو چھوڑ دیں اور مدینہ کى طرف ہجرت کرجائیں_ چنانچہ آپ نے جاتے وقت حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) کو خداحافظ کہا اور حضرت على (ع) سے فرمایا کہ لوگوں کى امانتیں واپس کر کے میرى دختر فاطمہ (ع) اور اپنى ماں فاطمہ بنت اسد اور چچا حمزہ کى بیٹى فاطمہ کو اور دوسرى مستورات کو ساتھ لے کر مدینہ کى طرف جلد از جلد چلے آنا، میں تمہارا انتظار کروں گا آپ(ص) نے یہ فرمایا اور مدینہ کى طرف روانہ ہوگئے_

حضرت على (ع) بھى پیغمبر کے دستور کے مطابق جناب فاطمہ (ع) اور دوسرى مستورات کو سوار کر کے مدینہ کى طرف روانہ ہوگئے_ راستہ میں ابو واقد اونٹوں کو چلانے والے_ اونٹوں کو تیزى کے ساتھ چلا رہے تھے_ حضرت على علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ نرمى کرو اور اونٹوں کو آہستہ چلاؤ، کیونکہ عورتیں کمزور ہوا کرتى ہیں جو سختى کو برداشت نہیں کرسکتیں، ابو واقد نے عرض کى کہ میں دشمنوں سے ڈرتا ہوں کوئی ہمارا تعاقب نہ کر رہا ہو جو ہم تک آپہنچے حضرت على علیہ السلام نے جواب دیا پیغمبر(ص) نے مجھ

فرمایا کے تجھے دشمن کى طرف سے کوئی اذیت نہ پہنچے گی_

جب آپ ''ضجنان'' کے قریب پہنچے تو آٹھ سوار پیچھے سے آئے حضرت على علیہ السلام نے عورتوں کو محفوظ اور امن کى جگہ کردیا اور تلوار لے کر ان دشمنوں پر حملہ کردیا اور ان کو پراگندہ و متفق کردیا پھر عورتوں کو سوار کیا اور مدینہ کى طرف روانہ ہوگئے_ پیغمبر اسلام(ص) جب ''قبا'' پہنچے تو وہاں بارہ دن تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ حضرت على علیہ السلام جناب فاطمہ (ع) اور دوسرى مستورات کو لے کر آنحضرت کى خدمت با برکت سورہ سے شادى کى اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے گھر لے گئے اس کے بعد آپ نے جناب ام سلمہ سے نکاح کیا اور جناب فاطمہ (ع) کو ان کے سپرد کیا تا کہ آپ ان کى سرپرستى اور نگاہ دارى کریں جناب ام سلمہ کہتى ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو میرے سپرد کیا تا کہ میں ان کى تربیت میں کوشش کروں، میں بھى آپ کى تربیت اور راہنمائی میں کوتاہى نہیں کرتى تھى لیکن خدا کى قسم آپ مجھ سے زیادہ با ادب اور سمجھدار تھیں_(30)

 

 

 

1) الروض الانف_ ج 2 _ ص 213_
2) بحار الانوار_ 16_ ص 22_
3) سیرة بن ہشام_ ج1 _ ص 199_
4) تذکرة الخواص_ ص 202_ بحارالانوار _ ج16 ص 14_
5) بحارالانوار_ ج 16_ ص 65_
6), 7) تذکرة الخواص سبط ابن جوزی_ چھاپ نجف 1382_ ص 302_
8) تذکرة الخواص_ ص 303_
9) تذکرة الخواص_ ص 302_
10) سورہ قلم آیت 4_
11) سفینة البحار_ ج 1_ ص 380_
12) بحارالانوار_ ج 16 ص 78_
13) دلائل الامامہ_ ص 8_
14) دلائل الامامہ_ ص 5_ بحارالانوار_ ج 43 _ ص 2 اور ج 16_ ص 80_
15) سیرہ ابن ہشام_ ج 2 _ ص 34_ تفسیر جوامع الجامع_ مولفہ طبرسی_ ص 529_
16) سورہ کوثر_
17) سورہ نحل آیتہ 58_
18) دلائل الامامہ_ ص 9_
19) وافی_ ج 2_ ص 207_
20) سورہ حجر آیت 94_
21) سیرہ ابن ہشام_ ج 1 ص 244_ تاریخ کامل ج 2_ ص 51_
22) مناقب ابن شہر آشوب_ ج1_ ص 174_
23) مناقب شہر ابن آشوب_ ج1_ ص 174_
24) مناقب شہر ابن آشوب_ ج 1_ ص 174_
25) مناقب شہر ابن آشوب_ ج1_ ص 71_
26) تاریخ طبری_ ج 2_ ص 344_
27)مناقب شہر ابن آشوب_ ج1_ ص 60_
28) کشف الغمہ_ ج2_ ص 93_
29) مناقب شہر ابن آشوب_ ج 1_ ص175، 183_
30) دلائل الامامہ_ ص 11_