پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حضرت زہراء (ع) كے تين مبارزے

حضرت زہراء (ع) کے تین مبارزے

اگر ہم سقیفہ کى طولانى اور وسیع کہانى اور جناب ابوبکر کے انتخاب کے بارے میں بحث شروع کردیں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائیں گے اور بات بہت طویل ہوجائے گی، لیکن مختصر رودادیوں ہے کہ جب حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دفن اور کفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ایک تمام شدہ کام کے روبرو ہوئے انہوں نے دیکھا کہ جناب ابوبکر خلافت کے لئے منصوب کئے جاچکے ہیں اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے ان کى بیعت بھى کرلى ہے_

اس حالت میں حضرت على علیہ السلام کے لئے ان طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کرنا چاہیئے تھا_

پہلا: یہ کہ حضرت على (ع) ایک سخت قدم اٹھائیں اور رسماً جناب ابوبکر کى حکومت کے خلاف اقدام کریں اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کائیں اور برانگیختہ کریں_

دوسرا: جب وہ دیکھ چکے کہ کام ختم ہوچکا ہے تو اپنے شخصى مفاد اور مستقبل کى زندگى کے لئے جناب ابوبکر کى بیعت کرلیں اس صورت میں آپ کے شخصى منافع بھى محفوظ ہوجائیں گے اور حکومت کے نزدیک قابل احترام میں قرار پائیں گے، لیکن دونوں طریقوں میں سے کوئی بھى طریقہ حضرت على کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ اگر چاہتے کہ کھلم کھلا حکومت سے ٹکر لیں اور میدان مبارزہ میں وارد ہوجائیں تو ان کا یہ اقدام اسلام کے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام کے وہ دشمن جو کمین گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممکن تھا کہ ''اسلام جو ابھى جوان ہوا ہے'' کلى طور پر ختم کردیا جاتا اسى لئے حضرت على (ع) نے اسلام کے اعلى اور ارفع منافع کو ترجیح دى اور سخت کاروائی کرنے سے گریز گیا_

آپ کے دوسرے طریقے پر عمل کرنے میں بھى مصلحت نہ تھى کیونکہ جانتے تھے کہ اگر ابتداء ہى سے جناب ابوبکر کى بیعت کرلیں تو اس کى وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبکر کى کاروائی جو انجام پاچکى تھى اس کا تائید ہوجائے گى اور پیغمبر(ص) کى خلافت اور امامت کا مسئلہ اپنے حقیقى محور سے منحرف ہو جائے اور پیغمبر(ص) اور ان کى اپنى تمام تر زحمات اور فداکاریاں بالکل ختم ہوکر رہ جائیں گی_ اس کے علاوہ جو کام بھى جناب ابوبکر اور عمر اپنے دور خلافت میں انجام دیں گے وہ پیغمبر(ص) اور دین کے حساب میں شمار کئے جائیں گے حالانکہ وہ دونوں معصوم نہیں ہیں اور ان سے خلاف شرع اعمال کا صادر ہونا بعید نہیں_

تیسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طریقے میں مصلحت نہ دیکھى تو سوائے ایک معتدل روش کے انتخاب کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا_ حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ کیا کہ ایک وسیع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام کیا جائے تا کہ اسلام کو ختم ہونے اور متغیر ہونے سے نجات دلاسکیں گرچہ اس عاقلانہ اقدام کا نتیجہ مستقبل بعید میں ہى ظاہر ہوگا آپ کے اس اقدام اور مبارزے کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

 

پہلا مرحلہ:

حضرت على (ع) اور جناب فاطمہ (ع) امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑتے اور رات کے وقت مدینہ کے بڑے لوگوں کے گھر جاتے اور انہیں اپنى مدد کے لئے دعوت دیتے_ پیغمبر اکرم(ص) کے وصایا اور سفارشات کا تذکرہ کرتے (1)_

جناب فاطمہ (ع) فرماتیں، لوگو کیا میرے باپ نے حضرت على (ع) کو خلافت کے لئے معین نہیں فرمایا؟ کیا ان کى فداکاریوں کو فراموش کرگئے ہو؟ اگر میرے والد کے دستورات پر عمل کرو اور على (ع) کو رہبرى کے لئے معین کردو تو تم میرے والد کے ہدف پر عمل کروگے اور وہ تمہیں اچھى طرح ہدایت کریں گے_ لوگو مگر میرے باپ نے نہیں فرمایا تھا کہ میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسک رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کى کتاب دوسرے میرے اہلبیت (ع) _ لوگو کیا یہ مناسب ہے کہ ہمیں تنہا چھوڑ دو اور ہمارى مدد سے ہاتھ کھینچ لو حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اپنى مدد کے لئے دعوت دیتے تھے کہ شاید وہ اپنے کرتوت پر پشیمان ہوجائیں اور خلافت کو اس کے اصلى مرکز طرف لوٹا دیں_

اس رویے سے بہت تھوڑا گروہ اس تبلیغ سے متاثر ہوا اور مدد کرنے کا وعدہ کیا، لیکن ان تھوڑے سے آدمیوں نے بھى اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا اور انہوں نے حکومت کى مخالفت کى جرات نہیں کی_

حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) بغیر شور و غل اور تظاہر کے جناب ابوبکر_ سے اپنى مخالفت ظاہر کرتے تھے اور انہوں نے ملّت اسلامى کو ایک حد تک بیدار بھى کیا اور اسى رویے سے مسلمانوں کا ایک گروہ باطنى طور سے ان کا ہم عقیدہ ہوگیا_ لیکن صرف یہى نتیجہ معتدل اقدام سے برآمد ہوا اور اس سے زیادہ کوئی اور نتیجہ نہ نکل سکا_


دوسرا مرحلہ:

حضرت على (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ جناب ابوبکر کى بیعت نہیں کریں گے تا کہ اس رویہ سے جناب ابوبکر کى انتخابى حکومت سے اپنى مخالفت ظاہر کرسکیں اور عملى طور سے تمام جہاں کو سمجھا دیں کہ على (ع) ابن ابیطالب اور ان کا خاندان جو پیغمبر اسلام کے نزدیکى ہیں جناب ابوبکر کى خلافت سے ناراض ہیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اس خلافت کى بنیاد اسلام کے مذاق کے خلاف ہے، حضرت زہراء (ع) نے بھى حضرت على کے اس نظریئےى تائید کى اور ارادہ کرلیا کہ احتمالى خطرات اور حوادث کے ظاہر ہونے میں اپنے شوہر کى حتمى مدد کریں گى اور عملى لحاظ سے جہان کو سمجھائیں گى کہ میں پیغمبر اسلام(ص) کى دختر جناب ابوبکر کى خلافت کے موافق نہیں ہوں، لہذا حضرت على (ع) اس غرض کى تکمیل کے لئے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور قرآن مجید کے جمع کرنے میں مشغول ہوگئے اور یہ ایک قسم کا منفى مبارزہ تھا جو آپ نے شروع کیا تھا_

چند دن اسى حالت میں گزر گئے، ایک دن جناب عمر نے جناب ابوبکر سے اظہار کیا کہ تم لوگوں نے سوائے على (ع) اور ان کے رشتہ داروں کے تمہاری بیعت کرلى ہے، لیکن تمہارى حکومت کا استحکام بغیر على (ع) کى بیعت کے ممکن نہیں ہے، على (ع) کو حاضر کیا جائے اور انہیں بیعت پر مجبور کیا جائے، حضرات ابوبکر نے جناب عمر کى اس رائے کو پسند کیا اور قنفذ سے کہا کہ على (ع) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول (ص) کے خلیفہ چاہتے ہیں کہ تم بیعت کے لئے مسجد میں حاضر ہوجاؤ_

قنفذ کئی بار حضرت على (ع) کے پاس آئے اور گئے لیکن حضرت على (ع) نے جناب ابوبکر کے پاس آنے سے انکار کردیا_ جناب عمر خشمناک ہوئے اور خالد بن ولید اور قنفذ اور ایک گروہ کے ساتھ حضرت زہراء (ع) کے گھر کى طرف روانہ ہوئے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا یا على (ع) دروازہ کھولو_ فاطمہ (ع) سر پر پٹى باندھے اور بیمارى کى حالت میں دروازے کے پیچھے آئیں اور فرمایا_ اے عمر ہم سے تمہیں کیا کام ہے؟ تم ہمیں اپنى حالت پر کیوں نہیں رہنے دیتے؟ جناب عمر نے زور سے آواز دى کہ دروازہ کھولو ورنہ گھر میں آگ لگا دوں گا (2)_

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا اے عمر خدا سے نہیں ڈرتے، میرے گھر میں داخل ہونا چاہتے ہو؟ آپ کى گفتگو سے عمر اپنے ارادے سے منحرف نہ ہوئے، جب جناب عمر نے دیکھا کہ دروازہ نہیں کھولتے تو حکم دیا کہ لکڑیاں لے آؤتا کہ میں گھر کو آگ لگادوں (3)_

دروازہ کھل گیا جناب عمر نے گھر کے اندر داخل ہونا چاہا، حضرت زہراء (ع) نے جب دروازہ کھلا دیکھا اور خطرے کو نزدیک پایا تو مردانہ وار جناب عمر کے سامنے آکر مانع ہوئیں (4)_

 

اور یہ آواز بلند گریہ و بکا اور شیون کرنا شروع کردیا تا کہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور حضرت على (ع) کا دفاع کریں_ زہراء (ع) کے استغاثے اور گریہ و بکا نے صرف ان لوگوں پر اثر نہیں کیا بلکہ انہوں نے تلوار کا دستہ _ آپ کے پہلو پر مارا اور تازیانے سے آپ کے بازو کو بھى سیاہ کردیا تا کہ آپ اپنا ہاتھ على (ع) کے ہاتھ سے م ہٹالیں (5)_

آخر الامر حضرت على (ع) کو گرفتار کرلیا گیا اور آپ کو مسجد کى طرف لے گئے جناب زہراء (ع) على (ع) کى جان کو خطرے میںدیکھ رہى تھیں، مردانہ اور اٹھیں اور حضرت على (ع) کے دامن کو مضبوطى سے پکڑلیا اور کہا کہ میں اپنے شوہر کو نہ جانے دوں گى _ قنفذ نے دیکھا کہ زہرا (ع) اپنے ہاتھ سے على (ع) کو نہیں چھوڑتیں تو اس نے اتنے تازیانے آپ کے ہاتھ پر مارے کہ آپ کا بازو ورم کرگیا (6)_

حضرت زہرا (ع) سلام اللہ علیہا اس جمیعت میں دیوار اور دروازے کے درمیان ہوگئیں اور آپ پر دروازے کے ذریعہ اتنا زور پڑا کہ آپ کے پہلو کى ہڈى ٹوٹ گئی اور وہ بچہ جو آپ کے شکم مبارک  میں تھا ساقط ہوگیا (7)_

حضرت على (ع) کو پکڑا اور مسجد کى طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھلیں تو دیکھا کہ على (ع) کو مسجد لے گئے ہیں فوراً اپنى جگہ سے ا ٹھیں چونکہ حضرت على (ع) کى جان کو خطرے میں دیکھ رہى تھیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتى تھیں لہذا نحیف جسم پہلو شکستہ کے باوجود گھر سے باہر نکلیں اور بنى ہاشم کى مستورات کے ساتھ مسجد کى طرف روانہ ہوگئیں دیکھا کہ على (ع) کو پکڑے ہوئے ہیں آپ لوگوں کى طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا میرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا کى قسم اپنے سر کے بال پریشان کردوں گى اور پیغمبر اسلام(ص) کا پیراہن سر پر رکھ کر اللہ تعالى کى درگاہ میں نالہ کروں گى اور تم پر نفرین اور بدعا کروں گی_ اس کے بعد جناب ابوبکر کى طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا کیا تم نے میرے شوہر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہیں نہ چھوڑا تو اپنے بال پریشان کردوں گى اور پیغمبر(ص) کى قبر پر اللہ کى درگاہ میں استغاثہ کروں گى یہ کہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا(ص) کى قبر کى طرف روانہ ہوگئیں آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس جمعیت پر نفرین کریں اور اپنے دل ہلادینے والے گریہ سے حکومت کو الٹ کر رکھ دیں_

حضرت على (ع) نے دیکھا کہ وضع بہت خطرناک ہے اور کسى صورت میں ممکن نہیں کہ حضرت زہرا (ع) کو اپنے ارادے سے روکا جائے تو آپ نے سلمان فارسى سے فرمایا کہ پیغمبر(ص) کى دختر کے پاس جاؤ اور انہیں بددعا کرنے سے منع کردو_

جناب سلمان جناب زہرا (ع) کى خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کى اے پیغمبر(ص) کى دختر آپ کے والد دنیا کے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرین نہ کیجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمایا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو میں ان متجاوزین سے دادخواہى کروں_ سلمان نے عرض کیا کہ مجھے حضرت على (ع) نے آپ کى خدمت میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ اپنے گھر لوٹ جائیں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت على (ع) کا حکم دریافت کیا تو آپ نے کہا جب انہوں نے حکم دیا ہے تو میں اپنے گھر لوٹ جاتى ہوں اور صبر کا آغاز کروں گی_ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ نے حضرت على (ع) کا ہاتھ پکڑ اور گھر لوٹ آئیں (8)_


مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) کے زمانہ جہاد اور مبارزہ کى مدت گرچہ تھوڑى اور آپ کى حیات کا زمانہ بہت ہى مختصر تھا، لیکن آپ کى حیات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھی_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے دیکھا کہ حکومت کے حامیوں نے حضرت على (ع) کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے تو آپ عام عورتوں کى روش سے ہٹ کر جو معمولاً ایسے مواقع میں کنارہ گیرى کرلیتى ہیں گھر کے دروازے کے پیچھے آگئیں اور استقامت کا مظاہرہ کیا_

دوسرے: جب دروازہ کھول لیا گیا تب بھى جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹیں

بلکہ اپنے آپ کو میدان کارزار میں بر قرار رکھا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اتنى مضبوطى سے کھڑى رہیں کہ تلوار کے نیام سے آپ کے پہلو کو مارا گیا اور تازیانے سے آپ کے بازو سیاہ کردیئےئے_

تیسرے: جب على (ع) گرفتار کرلئے گئے اور چاہتے تھے کہ آپ کو وہاں سے لے جائیں تب بھى آپ میدان میں آگئیں اور على (ع) کے دامن کو پکڑلیا اور وہاں سے لے جانے میں مانع ہوئیں اور جب تک آپ کا بازو تازیانے سے سیاہ نہ کردیا گیا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخرى مورچہ گھر کو بنایا اور گھر میں آکر على (ع) کو باہر لے جانے سے ممانعت کی، اس مورچہ میں اتنى پائیدارى سے کام لیا کہ دروازے اور دیوار کے درمیان آپ کا پہلو ٹوٹ گیا اور بچہ ساقط ہوگیا_

اس مرحلہ کے بعد آپ نے سوچا کہ چونکہ میرا یہ مبارزہ گھر کے اندر واقع ہوا ہے شاید اس کى خبر باہر نہ ہوئی ہو لہذا ضرورى ہوگیا ہے کہ مجمع عام گریہ و بکا اور آہ و زارى شروع کردى اور جب تمام طریقوں سے نا امید ہوگئیں تو مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا کریں، لیکن حضرت على (ع) کے پیغام پہنچنے پر ہى آپ کے حکم کى اطاعت کى اور واپس گھر لوٹ آئیں_

جى ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ آخرى لحظہ اور قدرت تک على (ع) سے دفاع کرتى رہوں گى اور یہ سوچا تھا کہ جب میدان مبارزہ میں وارد ہوگئی ہوں تو مجھے اس سے کامیاب اور فتحیاب ہوکر نکلنا ہوگا اور حضرت على (ع) کو بیعت کے لئے لے جانے میں ممانعت کرنى ہوگی، اس طرح عمل کر کے اپنے شوہر کے نظریئے اور عمل اور رفتار کى تائید کروں گى اور جناب ابوبکر کى خلافت سے اپنى ناراضگى کا اظہار کروں گى اور اگر مجھے مارا پیٹا گیا تب بھى شکستہ پہلو اور سیاہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے کے باوجود جناب ابوبکر کى خلافت کو بدنام اور رسوا کردوں ى اور اپنے عمل سے جہان کو سمجھاؤں گى کہ حق کى حکومت سے روگردانى کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اپنى حکومت کو دوام دینے کے لئے پیغمبر (ص) کى دختر کا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) کے فرزند کو ماں کے پیٹ میں شہید کرنے پر بھى تیار ہوجاتے ہیں اور ابھى سے تمام عالم کے مسلمانوں کى بتلا دینا چاہتى ہوں کہ بیدارى اور ہوش میں آجاؤ کہ انتخابى حکومت کا ایک زندہ اور واضح فاسد نمونہ یہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولایت کے مکتب کى تربیت شدہ تھیں، فداکارى اور شجاعت کا درس ان دو گھروں میں پڑھا تھا اپنے پہلو کے شکستہ ہونے اور مار پیٹ کھانے سے نہ ڈریں اور اپنے ہدف کے دفاع کے معاملے میں کسى بھى طاقت کے استعمال کى پرواہ نہ کی_


تیسرا مرحلہ فدک (9)

جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کى حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسى وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کى طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمى کو رسول خدا(ص) کى خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کى پیش کش کى پیغمبر اسلام(ص) نے ان کى صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کى روسے فدک آدھى زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دى گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا (10)_

کیونکہ اسلامى قانون کى رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کى ہوا کرتى ہے اور باقى مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا_

فدک کى زمینیں پیغمبر(ص) کى ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنى ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی_ ''وات ذا القربى حقہ'' (11)_ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالى کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافى روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند _ یہ ہیں_

ابوسعید خدرى فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت ''وات ذاالقربى حقہ'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے (12)_

عطیّہ کہتے ہیں کہ جب آیت ''و آت ذاالقربى حقہ'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(13)_

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا (14)_

فدک کا علاقہ معمولى اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کى کافى آمدنى تھى ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنى ہوا کرتى تھى (15)_

اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنى فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگى آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنى کو خدا کى راہ میں خرچ کرتے تھے (16)_


دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا (17)_

ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کى آمدنى سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کى راہ میںخرچ کیا کرتے تھے_

اگر فدک معمولى ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیا تقسیم نہ کرتا_

 

 

1) الامامہ والسیاستہ، ج 1 ص 12 _
2) شرح ابن ابى الحدید، الحدید، ج 2 ص 56 اور، ج 6 ص 48_
3) اثبات الوصیتہ، ص 110_ بحار الانوار، ج 43 ص 197_ الامامہ السیاسہ، ج 1 ص 12_
4) سنى شیعہ تاریخ اور مدارک اس پر متفق ہیں کہ جناب ابوبکر کے سپاہیوں نے حضرت زہراء (ع) کے گھر پر حملہ کردیا اور جناب عمر نے لکڑیاں طلب کى اور گھرواروں کو گھر جلادینے کى دھمکى دى بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ جناب عمر سے کہا گیا کہ اس گھر میں فاطمہ (ع) موجود ہیں آپ نے جواب دیا کہ اگر بیعت کے لئے حاضر نہ ہوں گے تو میں اس گھر کو آگ لگادوں گا گرچہ اس میں فاطمہ (ع) ہى موجود ہوں_ جیسے کہ یہ مطلب ابوالفداء ابن ابى الحدید ابن قیتبہ نے امامہ و السیاسہ میں، انساب الاشرف یعقوبى اور دوسروں نے گھر پر حملہ کرنے اور جلانے کى دھمکى کو تحریر کیا ہے، خود حضرت ابوبکر نے اپنى موت کے وقت حضرت زہراء (ع) گے گھر پر حملے پر ندامت کا اظہار کیا ہے_ چنانچہ ابن ابى الحدید جلد 2 ص 46 پر اور ج 12 ص 194 پر لکھتے ہیں کہ جس وقت جناب زینب پیغمبر کى (4-1) لڑکى مکّہ سے مدینہ آرہى تھیں تو راستے میں دشمنوں نے اس پر حملہ کردیا اور حصار بن الود نے آک کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کردیا اور حصار بن الود نے آپ کے کجا دے پر حملہ کردیا اور نیزے سے آپ کو تحدید کى اس وجہ سے جناب زینب کا بچہ سقط ہوگیا، رسول اللہ(ص) اس مطلب سے اس قدر ناراحت ہوئے کہ آپ نے فتح مکہ کے دن ہبار کے خون کو مباح قرار دے دیا_ اس کے بعد ابن ابى الحدید لکھتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ نقیب ابى جعفر کے سامنے پڑھا تو اس نے کہ کہ جب رسول خدا(ص) نے ہبار کے خون مباح کردیا تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا(ص) زندہ ہوتے تو اس شخص کے خون کو جس نے فاطمہ (ع) کو تحدید کى تھى کہ جس سے فاطمہ (ع) کا بچہ ساقط ہوگیا تھا مباح کردیتے_اہلسنت کى کتابیں تہدید کے بعد کے واقعات کے بیان کرنے میں ساکت ہیں، لیکن شیعوں کى تواریخ اور احادیث نے بیان کیا ہے کہ بالاخر آپ کے گھر کے دروازے کو آگ لگادى گئی اور پیغمبر(ص) کى دختر کو اتنا زد و کوب کیا گیا کہ بچہ ساکت ہوگیا ''مولف''

4-1) ضعیف روایات کى بناء پر مولّف نے حاشیہ لگایا ہے ورنہ رسول (ص) کى بیٹى فقط جناب فاطمہ (ع) ہیں کے علاوہ کوئی بیٹى تاریخ سے اگر ثابت ہے تو ضعیف روایات کى رو ہے_
5) بحار الانوار ج 43 ص 197_
6) بحار الانوار، ج 43 ص 198_
7) بحار الانوار، ج 43 ص 198_
8) بحار الانوار، ج 43 ص 47 و روضہ کافی، ص 199_
9) فدک کا موضوع اور اس میں حضرت فاطمہ (ع) کا ادعا مفصل اور عمیق اس کتاب کے آخر میں بیان کیا گیا ہے_
10) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 210_
11) سورہ اسراء آیت ص 26_
12) کشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور تفسیر در منثور، ج 4 ص 177_
13) کشف الغمہ، ج 2 ص 102
14) کشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور کتاب در منثور، ج 4 ص 177 ور غایة المرام ص 323 میں اس موضوع کى احادیث کا مطالعہ کیجئے_
15) سفینة البحار، ج 2 ص 251_
16) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 216_
17) شرح ابن ابى الحدید، ج16 ص 216_