پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تعجب اور تبسم

تعجب اور تبسم

پیغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى حالت سخت ہوگئی آپ نے  اپنا سر مبارک حضرت على (ع) کے زانو پر رکھا اور بے ہوش ہوگئے، حضرت زہراء (ع) اپنے باپ کے نازنین چہرے کو دیکھتیں اور رونے لگتیں اور فرماتیں_ آہ، میرے باپ کى برکت سے رحمت کى بارش ہوا کرتى تھى آپ یتیموں کى خبر لینے والے اور بیواؤں کے لئے پناہ گاہ تھے_ آپ کے رونے کى آواز پیغمبر(ص) کے کانوں تک پہنچى آپ نے آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں فرمایا بیٹى یہ آیت پڑھو_

''و ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اور قتل انقلبتم على اعقابکم'' (1)

موت سے گریز نہیں جیسے سابقہ پیغمبر(ص) مرگئے ہیں میں بھى مروں گا کیوں ملت اسلامى میرے ہدف کا پیچھا نہیں کرتى اور اس کے ختم کرنے اور لوٹ جانے کا قصد رکھتى ہے_

اس گفتگو کے سننے سے حضرت زہراء (ع) کے رونے میں شدت پیدا ہوگئی رسول خدا کى حالت اپنى بیٹى کو روتے اور پریشان دیکھ دگرگوں ہوگئی_ آپ نے انہیں تسلى دینا چاہى مگر کیا آپ کو آسانى سے آرام میں لایا جاسکتا تھا؟ اچانک آپ کى فکر میں ایک چیز آئی، جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا میرے پاس آؤ جب جناب فاطمہ (ع) اپنا چہرہ اپنے باپ کے نزدیک لے گئیں تو آپ نے جناب فاطمہ (ع) کے کان میں کچھ کہا_ حاضرین نے دیکھا کہ جناب فاطمہ (ع) کا چہرہ روشن ہوگیا اور آپ مسکرانے لگیں، اس بے جا ہنسى اور تبسم پر حاضرین نے تعجب کیا تبسم کى علت آپ سے دریافت کى تو آپ نے فرمایا کہ جب تک میرے باپ زندہ ہیں میں یہ راز فاش نہیں کروں گى آپ نے آن جناب کے فوت ہونے کے بعد اس راز سے پردہ اٹھایا اور فرمایا کہ میرے باپ نے میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ فاطمہ (ع) تمہارى موت نزدیک ہے تو پہلى فرد ہوگى جو مجھ سے ملحق ہوگى (2)_

انس نے کہا ہے کہ اس زمانے میں جب پیغمبر(ص) بیمار تھے جناب فاطمہ (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور باپ کے گھر آئیں اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے جسم مبارک پر گرادیا اور پیغمبر(ص) کے سینے سے لگ کر رونے لگیں_ پیغمبر(ص) نے فرمایا، فاطمہ (ع) روو مت، میرى موت پر منھ پر طمانچے نہ مارتا، بالوں کو پریشان نہ کرنا، میرے لئے رونے اور نوحہ سرائی کى مجلس منعقد کرنا اس کے بعد پیغمبر خدا(ص) کے آنسو جارى ہوگئے اور فرمایا اے میرے خدا میں اپنے اہلبیت کو تیرے اور مومنین کے سپرد کرتا ہوں (3)_

1) سورہ آل عمران، آیت ص 144_
2) الکامل فى التاریخ، ج 2 ص 219 و بحار الانوار، ج 22 ص 470_ ارشاد مفید، ص 88 طبقات ابن سعد، ج 2 قسمت دوم ص 39، 40_ صحیح مسلم، ج 4 ص 1095_
3) بحار الانوار، ص 22 ص 460_