پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

زكوٰة

زکوٰة

اسلام کی واجب چیزوں میں سے زکواة ھے، حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی زکواة نہ دے وہ نہ مومن ھے اور نہ ھی مسلمان ھے (۷۵)

اور امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: خداوندعالم نے قرآن مجید میں زکواة کو نماز کے ساتھ ذکر کیا ھے، جو شخص نماز پڑھے مگر زکواة نہ دے اس کی نماز قبول نھیں ھے (۷۶)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ھیں: اگر تمام لوگ اپنے مال کی زکواة ادا کرتے تو (دنیا) میں کوئی فقیر نہ ھوتا (۷۷)


زکوٰة (۹) چیزوں پر واجب ھے

(۱) گیھوں (۲) جو (۳) کھجور (۴) کشمش (۵) گائے بھینس (۶) بھیڑ بکری (۷) اونٹ (۸) سونا (۹) چاندى ۔

دین اسلام نے ان چیزوں کے لئے ایک حد و مقدار بیان فرمائی ھے اگر اس حد تک پھنچ جائے تو اس میں زکوٰة دینا واجب ھوگی اگر اس مقدار تک نہ پھونچے تو اس پر زکوٰة واجب نہ ھوگی اس حد کو نصاب کھتے ھیں ۔

گیھوں، جو، کھجور اور کشمش: ان چار چیزوں کا نصاب ۲۸۸ من تبریزی ھے اگر اس مقدار سے کم ھوتو اس پر زکوٰة واجب نھیں ھے، زکوٰة نکالتے وقت یہ نکتہ بھی ذھن نشین رھے کہ جو زراعت پر اخراجات ھوئے ھیں ان سب کو نکال کر اگر نصاب کی حد تک پھنچے تو زکوٰة واجب ھو گى،
زکوٰة کی مقدار

گیھوں، جو، کھجور و کشمش کی آب پاشی اگر بارش، نھر، زمین کی تری سے ھوئیھو تو اس کی زکوٰة دسواں حصہ ھے اور اگر کنویں کے پانی یا ڈول وغیرہ سے کھینچ کر ھوئی ھے تو اس کی زکوٰة بیسواں حصہ ھوگی ۔


بھیڑ بکری کا نصاب:

اس کا پانچ نصاب ھے:

پھلا: ۴۰ بھیڑوں پر ایک بھیڑ کی زکوٰة ھوگی (اس سے کم پر زکوٰة واجب نھیں ھے)

دوسرا: ۱۲۱ بھیڑوں کی زکوٰة دو بھیڑ ھوگی ۔

تیسرا: ۲۰۱ بھیڑوں کی زکوٰة تین بھیڑ ھوگی

چوتھے: ۳۰۱ بھیڑوں کی زکوٰة چار بھیڑ ھوگی ۔

پانچویں: چار سو سے زیادہ بھیڑوں میں ھر سو پر ایک بھیڑ بطور زکوٰة ادا کرے ۔

نکتہ: کوئی گیارہ مھینے بھیڑوں کا مالک رھاھو تو اس کو بارھویں مھینے میں زکوٰة دینا واجب ھے بھیڑ بکریوں پر اس وقت زکوٰة واجب ھوتی ھے جب وہ پورے سال بیابانوں میں چری ھوں اگر تمام سال یا کچھ مھینہ چراگاہ کی گھانس یا خریدی ھوئی گھانس کھائے ھوں تو اس پر زکوٰة واجب نہ ھوگی ۔


گائے کا نصاب:

گائے کے دونصاب ھیں:

(پھلا) تیس گائے کی زکوٰة، گائے کا ایسا بچہ جو دوسرے سال میں داخل ھوا ھو۔

(دوسرا) چالیس گائے کی زکوٰة، گائے کا ایسا بچہ (جومادہ ھو) جو تیسرے سال میں داخل ھو۔

اگر چالیس سے زیادہ گائے ھوتو ان دو نصابوں میں سے جو حساب میں بھتر تطبیق ھو اس کی زکوٰة ادا کرنا چاھیے یا تو تیس تیس عدد کا حساب کرے یا چالیس چالیس عدد کا حساب کرے یا دونوں کو ملا کر حساب کرے مثلاً کسی کے پاس ساٹھ گائے ھے تو چاھیے کہ تیس کا حساب کرے اور اگر ستر گائے ھے تو ایک تیس اور ایک چالیس کا حساب کرے اور اگر اسّی گائے ھے تو چاھیے کہ دو چالیس کا حساب کرے ۔

نکتہ۱: گائے کی زکوٰة اس وقت واجب ھوتی ھے جب پورے سال بے کار رھی ھو بیابانوں میں چری ھو ۔(۷۸)


سونے کا نصاب:

سونے کا دو نصاب ھے:

پھلا ۔ بیس مثقال شرعی جو ۱۵ مثقال معمولی کے برابر ھوتا ھے اس مقدار کے برابر ھو اس کا چالیسواں حصہ بہ عنوان زکوٰة ادا کرے ۔

(دوسرا) چار مثقال شرعی جو تین مثقال معمولی کے برابر ھوتا ھے، یعنی اگر ۱۵ مثقال معمولی پر تین مثقال معمولی کا اضافہ ھوجائے تو پورے ۱۸ مثقال معمولی (یعنی ۲۴ مثقال شرعی) کی زکوٰة ڈھائی فیصد کے حساب سے دے اور اگر تین مثقال معمولی (چار مثقال شرعی) سے کم کا اضافہ ھوتو صرف ۱۵ مثقال معمولی کی زکواة ھوگی باقی پر زکوٰة واجب نہ ھوگی ۔

اسی حساب سے چاھے جس قدر اضافہ ھوتا جائے زکوٰة واجب ھوگى، اگر تین مثقال معمولی (۴مثقال شرعی) کا اضافہ ھوجائے تو پورے کی زکوٰة دے اور اگر تین مثقال معمولی سے کم اضافہ ھوتو اس اضافہ پر زکوٰة نہ ھوگی ۔


چاندی کا نصاب

چاندی کے دو نصاب ھیں:

پھلا نصاب: جب چاندى ۱۰۵ مثقال معمولی کے برابر ھوجائے تو ڈھائی فیصد کے حساب سے اس پر زکوٰة واجب ھوگی اور اگر ۱۰۵ مثقال سے کم ھے تو زکوٰة واجب نھیں ھوگی ۔

دوسرا نصاب: (۲۱مثقال پر ھے) اگر ۱۰۵ مثقال پر ۲۱ مثقال زیادہ ھوجائے تو پورے ۱۲۶ مثقال کی زکوٰة واجب ھوگی اور اگر ۲۱ سے کم کا اضافہ ھوتو صرف ۱۰۵ مثقال پر زکوٰة ھوگی اور باقی پر نھیںاسی طرح چاھے جسقدر اضافہ ھوجائے اسی حساب سے زکوٰة واجب ھوگی ۔

نکتہ۱: سونا چاندى سکہ دار، رائج الوقت، اور گیارہ مھینے مالک کے اختیار میں رھاھو، اس پر زکوٰة واجب ھوگی ۔

نکتہ۲:اگر سونا، چاندى حد نصاب سے خارج نہ ھوا ھو، تو ھر سال زکوٰة دینا چاھیے چاھیے اس سے پھلے سال زکوٰة ادا کی ھو ۔

نکتہ ۳: شاید زکوٰة میں اسلام کا فلسفہ یہ ھوکہ سونا چاندى سکہ دار ذخیرہ نہ ھو بلکہ اقتصادی حالات کو صحیح کرنے کے لئے اس کو مصرف اور خرچ میں لانا چاھیے ۔


زکواة کا مصرف

درج ذیل آٹھ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر زکوٰة صرف کرنا چاھیے:

1۔ فقیر: یعنی جو شخص اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے اخراجات نہ رکھتا ھو ۔

2۔ مسکین: یعنی جس شخص کی مالی حالت فقیر کی حالت سے بھی زیادہ بدتر ھو۔

3۔ فی سبیل اللہ: یعنی ایسے کاموں میں صرف کرنا جس سے عام طور سے دینی منفعت ھو جیسے مسجد و مدرسہ بنانے میں پل، ہاسپیٹل وغیرہ۔

4۔ ابن سبیل: یعنی جو شخص سفر میں درماندہ و محتاج ھوگیا ھو اس کو زکوٰة سے بقدر ضرورت دیا جائے گا کہ اپنے شھر پھونچ جائے ۔

5۔ جو مقروض اپنے قرض کو ادا نہ کر سکتے ھوں ان کے قرض کی ادائیگی میں صرف کریں گے ۔

6۔ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے میں ۔

7۔ اس کافر کو دیں گے کہ جس کیلئے امکان ھے احسان کے توسط سے اسلام کی طرف مائل ھوجائے گا ۔

8۔ جو شخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰة اصول کرنے پر مامور ھو ۔

نکتہ: اگر لوگ زکوٰة کا پیسہ ادا کریں تو حاکم شرع کو چاھیے کہ فقر و بےکاری کے ختم کرنے کی کوشش اور شھروں اور دیہاتوں کے آباد کرنے میں سعی کرے اور امور خیریہ کی بنیاد ڈالے ۔

 

 

75. وافى، ج۲، ص۵، جز ۶ ۔
76. وافى، ج۲، ص۵، جز ۶ ۔
77. وافى، ج۲، ص۶ ۔
78. چونکہ موجودہ صورت حال میں اونٹ کی زکواة کا اتفاق نھیں ھوتا ھے، اس لئے ھم نے اس کے نصاب کو بیان نھیں کیا ھے ۔