پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پانچواں حصّہ اسلام اور اس كے سياسى و اجتماعى اور اخلاقى امور

اسلام کى عظیم امّت


قرآن مجید تمام مسلمانوں کو ایک امّت قرار دیتا ہے کیونکہ سبھى ایک خدا کى پرستش کرتے ہیں اور ایک پیغمبر (ص) و معاد کو قبول کرتے ہیں اور حضرت محمد صلّى اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو اللہ تعالى کا آخرى پیغمبر مانتے ہیں ، قرآن کو آسمانى اور عملى آئین تسلیم کرتے ہیں، سبھى کا ایک ہدف ہے اور وہ ہے احکام الہى کا تمام جہاں میں جارى کرنا اورنظام توحیدى کو عمل میں لانا_ نظام توحیدى اس نظام کو کہا جانتا ہے جو خداپرستی، اللہ تعالى کى رہبرى اور احکام الہى کے اجرا پر مبنى ہو_
کیا تم مسلمانوں کى تعداد کو جانتے ہو؟ کیا کبھى اتنى کثیر جمعیت کى طاقت کا اندازہ لگایا ہے؟ مسلمانوں کى تعداد پورى دنیا میں بہت زیادہ ہے (جو تقریباً ایک ارب ہے) مسلمان مختلف شہروں، قصبوں، صوبوں، ملکوں اور برّا عظموں میں رہتے ہیں، مختلف اقوام پر مشتمل ہیں، مختلف زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں، مختلف جگہوں پر مختلف گروہوں پر حکومت کرتے ہیں اور انھوں نے اپنى حکومت کے لئے سرحدین بنا رکھى ہیں_
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یہ تمام کے تمام اپنے ملک کے افراد کے حالات کو نظر رکھتے ہیں اور بقیہ مسلمانوں کے لئے جوان ممالک کے باہر دوسرے ممالک میں زندگى گذارتے ہیں کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ انھیں اجنبى و بیگانہ سمجھتے ہیں لیکن اسلام اور قرآن اس کوتاہ فکرى کو قبول نہیں کرتا بلکہ تمام جہاں کے مسلمانوں کو خواہ وہ کہیں بھى ہوں اور کسی زبان میں بھى باتیں کریں ایک امّت قرار دیتا ہے_ خیالى اور وہمى سرحدیں تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتیں اگر چہ مسلمانوں کى سرزمینیں مختلف حکومتوں سے ہى کیوں نہ چلائی جارہى ہوں_ مسلمان ایک دوسرے سے اجنبى اور بیگانہ نہیں ہیں بلکہ تمام کے تمام اسلام، مسلمان اور اس عظیم اسلامى معاشرے میں مشترک ذمہ دار ہیں_
اسلامى حکومت کے سر براہوں کو نہیں چاہیئے اور نہ ہى وہ کرسکتے ہیں کہ اسلامى حکومتوں کو ایک دوسرے سے اجنبى قرار دیں اور وہ بے خبر رہیں حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:
'' جو بھى مسلمانوں کے امور کى صلاح کى فکر میں نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے''_
پیغمبر اسلام (ص) کے اس فرمان کے بعد کیا وہى سرحدیں اور خطوط مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اجنبى قرار دے سکتى ہیں؟ کیا جغرافى حدود اسلامى برادرى اور تمام مسلمانوں کى ذمہ داریوں کو محدود کرسکتى ہیں؟ کیا ایک ثروت مند ملک کہ جس کى آمدنى بہت زیادہ ہو دوسرى اسلامى حکومتوں سے جو فقیر ہو بے پروا رہ سکتا ہے؟ کیاایک اسلامى آزاد اور ترقى یافتہ ملک دوسرے اسلامى ملک سے جو دوسروں کے زیر تسلط ہو بے توجہ رہ سکتا ہے، کیا حکم نہیں ہے کہ ہر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمانوں کے امور کى اصلاح کى فکر کرنى چاہیئے؟

 

اسلامى سرزمین سے د فاع کرنا:


اگر کسى مسلمان حکومت پر کوئی ظالم حملہ کردے تو جانتے ہو کہ دوسرے اسلامى ممالک کى کیا ذمہ دارى ہے؟ تمام ممالک اسلامى پر واجب اور لازم ہے کہ اپنى تمام قوت اور فوج کو لے کر اس ظالم حملہ آور پر حملہ کردیں اور اس متجاوز ظلم کو پورى طاقت سے اس ملک سے دور کریں کہ جس پر اس نے حملہ کیا تھا اس لئے کہ ایک اسلامى حکومت پر حملہ کرنا پورى دنیائے اسلام اور پیغمبر اسلامی(ص) کى عظیم امت پر حملہ کرنا ہوتا ہے_
اگر پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامى ملک کے کسى گوشہ پر حملہ کیا جاتا تو پیغمبر اسلام (ص) کیا کرتے اور اپنا اس کے متعلق کیا ردّ عمل ظاہر کرتے؟ کیا یہ ہوسکتا تھا کہ آپ خاموش رہتے اور کوئی عملى اقدام نہ کرتے؟
ہرگز نہیں یہ ممکن ہى نہیں تھا بلکہ پیغمبر اسلام (ص) مسلمانوں کے عظیم لشکر کو اسلام کى سرزمین کے دفاع کے لئے روانہ کرتے اور جب تک دشمن کو وہاں سے نہ ہٹا دیتے آرام سے نہ بیٹھتے_ پیغمبر اکرم(ص) نے اس عظیم ذمہ دارى کى بجا آورى موجودہ زمانہ میں اسلامى معاشرہ کے رہبران الہى پر ڈال رکھى ہے اور اس کى بجاآورى انھیں کى ذمہ دارى ہے_
تمام مسلمانوں سے اور بالخصوص ان مذہبى رہبروں سے امید ہے کہ وہ اسلامى ممالک کى سرزمین کى اور اسلام کى اعلى و ارفع قدر و قیمت کى پورى طاقت و قوت سے حفاظت کریں اور اجنبیوں کے مظالم کو اسلامى مملک سے دور رکھیں_

 

مشترک دشمن کے مقابل مسلمانوں کا اتحاد:


مسلمانوں کو یہ حقیقت ماننى چاہیئے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کى برادرى اور خلوص سے زندگى کرنى چاہیئے اور کفر و مادى گرى جو تمام مسلمانوں کامشترک دشمن ہے اس کے مقابل متحد ہونا چاہیئے_
اسلام کے دشمن ہى نے تو مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر یہ ملک اور وہ ملک یہ قوم اور وہ قوم یہ برا عظم اور وہ برّا عظم بنا رکھا ہے حالانکہ تمام مسلمان ایک اور صرف ایک ملّت ہیں اور انھیں مشترک دشمن کے مقابل یعنى کفرو مادّى گرى و جہان خوار اور استکبار کے سامنے متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہیئے اس صورت میں دشمن کبھى جرات نہ کرسکے گا کہ اسلامى سرزمین کے کسى گوشہ پر تجاوز کرسکے اور ان کى دولت و ثروت کو لوٹ لے جائے اور مسلمانوں کى عزت و شرف اور صحیح فرہنگ کو نابود کرسکے_

 

جہان اسلام کى وحدت اور استقلال کى حفاظت:


مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ کفر سے چشم پوشى کرتے ہوئے جہان اسلام کى وحدت اور ان کى داخلى طاقت کى تقویت اور اس کے کامل استقلال کے لئے کوشش کریں تا کہ وہ شرق و غرب کے شدید و خطرناک طوفان کے مقابل آزاد اور باوقار زندگى بسر کرسکیں_
مسلمان تب ہى فتحیابى سے ہمکنار ہوسکتا ہے جب وہ اپنى عظیم طاقت پر انحصار کرے اور اسلام کے دشمن پر سہارا نہ کرے اسلام کے دشمن کبھى مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے_ اسلام کے دشمنى دوستى کا اظہار بھى کریں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں اور سوائے مکر و حیلہ اور ثروت کو لوٹنے کے اور کوئی ان کى غرض نہیں ہوتى اور ان کے عہد و پیمان پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا_
خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:
''کافروں کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ ان کے عہد و پیمان بے اعتبار اور بے فائدہ ہوا کرتے ہیں''_
مسلمانوں کو متحد ہونا چاہیئے اور کسى بھى حکومت کو اجازت نہ دیں کہ اسلامى ممالک میں معمولى مداخلت بھى کرسکیں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے:
'' و الّذین معہ اشدّاء على الکفّار رحماء بینہم (سورہ فتح آیت 29)
'' یعنى مومنین کو کافروں کے مقابل میں سخت ہونا چاہیئے اور آپس میں بہت مہربان اور ہمدرد''
لہذا سارى دنیا کے مسلمانوں اور اسلامى ممالک کے سر براہوں کى ذمّہ دارى ہے کہ وہ ایک اسلامى وسیع نظرى کى بناپر تمام عالم اسلام کو ایک جانیں اور آپس میں ہمدردی، تعاون و برادرى اور اتحاد کا معاہدہ کریں اور اسلامى کى اعلى ترین مصالح کى خاطر معمولى اختلافات سے صرف نظر کریں، اختلاف پیدا کرنے والے عوامل و اسباب کا مقابلہ کریں اور اپنے معمولى اختلاف و کدورتوں کو حسن نیت اور حسن اخلاق سے ححل کریں اور اپنى پورى طاقت سے کوشش کریں کہ عالم اسلام اورمسلمانوں کى صفوں میں اختلاف پیدا نہ ہو_

متجاوز سے نمٹنے کا طریقہ:
اگر مسلمانوں کى حکومت میں سے کوئی حکومت دوسروں کے ایماء پر کسى دوسرى مسلمان حکومت پر حملہ کرے تو سارے مسلمانوں بالخصوص ممالک اسلامى کے سر براہوں کى ذمہ دارى ہوگى کہ فوراً ان کے اختلاف کو حل کریں، ان میں صلح و صفائی کرادیں اور عالم اسلام کو بہت بڑے خطرے یعنى اختلاف و تفرقہ سے نجات دلائیں اور پورى غیر جانبدارى سے متجاوز کو پہچانیں اس کا اعلان کریں اور اس کو حکم دین کہ وہ اپنے تجاوز سے دست بردار ہوجائے اور اگر اس


کے باوجود بھى وہ اپنى ضد پر باقى رہے اور اپنے تجاوز سے دست بردار نہ ہو پھر فریضہ کیا ہوگا؟
تمام مسلمانوں کا فریضہ ہوگا کہ متجاوز سے اعلان جنگ کریں اور پورى طاقت سے یہاں تک کہ خونریزى و جنگ سے اسے سرکوب کریں اسے اپنى پہلى حالت کى طرف لوٹادیں اور پھر ان دو جنگ کرنے والے ملکوں میں مصالحت کرائیں اور انھیں، پہلى والى حسن نیت اور خوش بینى کى طرف لوٹادیں_
اس طریقہ سے عالم اسلام کو اختلاف و تفرقہ سے محفوظ رکھیں تا کہ کافر خود اپنے منھ کى کھائے اور اسے اجازت نہ دیں کہ وہ مسلمانوں کے امو رمیں اگر چہ ان میں صلح کرانا ہى کیوں نہ ہو مداخلت کرے_ قرآن مجید نے مسلمانوں کى یہى ذمہ دارى بیان کى ہے_
قرآن مجید کى آیت:
و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینہما فان بغت احدیہما على الاخرى فقاتلوا الّتى تبغى حتّى تفییء الى امر اللہ فان فانت فاصلحوا بینہما بالعدل و اقسطو انّ اللہ یحبّ المقسطین * انّما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم و اتّقوا اللہ لعلکم ترحمون (سورہ حجرات آیات 9_ 10)
'' اور اگر مومنین میں سے دو فرقے آپس میں لڑپڑیں تو ان دونوں میں صلح کرادو پھر اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے پر زیادتى کرے تو جو فرقہ زیادتى کرے تم بھى اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کى طرف رجوع کرے پھر جب رجوع کرے تو فریقین میں مساوات کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف سے کام لو بیشک خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے مومنین تو آپس میں بس بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرادیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے''_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے


1)___ مسلمان کن عقائد میں مشترک ہیں؟
2)___ امّت واحدہ سے کیا مراد ہے؟ قرآن اور اسلام کا مسلمانوں کے متعلق کیا نظریہ ہے؟
3)___ کیا جغرافیائی حدود مسلمانوں کى ذمّہ داریوں کو محدود کرسکتى ہیں، کیوں اور کس طرح؟
4)___ اگر کسى مسلمانو ملک پر غیر حملہ کردے تو دوسرے اسلامى ممالک کا اور مسلمانوں عالم کا فریضہ کیا ہے؟
5)___ تمام مسلمانوں کے مشترک دشمن کون ہیں، ان دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کى کیا ذمّہ دارى ہے؟
6)___ قرآں، کافروں سے کس قسم کا معاملہ انجام دینے کو کہتا ہے، کیا اس کى وضاحت کرسکتے ہو؟
7)___ مسلمانوں کا آپس میں کیسا سلوک ہونا چاہیئے؟
8)___ کافروں اور تجاوز کرنے والوں سے کیسا معاملہ کرنا چاہیئے اور ان سے کس قسم کا ربط رکھنا چاہیئے؟
9)___ اگر اسلامى ممالک میں سے کوئی ملک کسى دوسرے ملک پر حملہ کردے تو اس وقت تمام مسلمانوں کى کیا ذمہ دارى ہے؟
10)___ اگر حملہ آور حق کو قبول نہ کرے تو پھر مسلمانوں کا کیا فریضہ ہے؟

 

  
اجتہاد اور رہبری


کسى بیمارى تشخیص اور اس کے علاج میں کس کى طرف رجوع کیا جاتا ہے؟ کسى لوہار یا زمیندار کى طرف جو علم طب سے واقفیت نہیں رکھتا یا ایک طبیب اور ڈاکٹر کى طرف؟
یقینا ایک ڈاکٹر کى طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹر ہى بیمارى کى تشخیص اور اس کے علاج کى صلاحیت رکھتا ہے جب کہ لوہار اور زمیندار ایسى صلاحیت نہیں رکھتا_
کسى بلڈنگ یا مکان کا نقشہ بنوانے اور پھر مکان و بلڈنگ تیار کرنے میں کس کى طرف رجوع کیا جاتا ہے؟
کیا کسى مدرسہ کے معلم یا نفسیاتى ماہر کى طرف؟ یا کسى انجینڑ اور معمارى کى طرف؟ یقینا انجینئر اور معمار اس کام کو جانتے ہیں_ کسى کام کے سلسلہ میں اس کے ماہر کى طرف رجوع کرنا ایک ضرورى اور فطرى چیز ہے_ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تمام فنون اورکاموں میں اس کے ماہر ہوجائیں؟ کیا ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہو؟
احکام و قوانین اسلام اور دین واقعى معلوم کرنے کے لئے کس کى طرف رجوع کرنا چاہیئے؟
کیا دین واقعى معلوم کرنے کے لئے ہم ایک سائنسداں یا نفسیاتى ماہر یا ڈاکٹر کى طرف رجوع کرسکتے ہیں؟
نہیں کیونکہ ان لوگوں کو دین کے قوانین اور احکام سے پورى طرح واقفیت نہیں ہوتى لہذا دوسرے علوم و فنون کى طرح علم دین کى شناخت کے لئے بھى کسى ماہر و متخصّص کى ضرورت ہے دین کے احکام کے استنباط کا ماہر و متخصّص مجتہد اور فقیہ ہوا کرتا ہے ہم قوانین اسلام اور احکام دین کے معلوم کرنے کے لئے مجتہدین کى طرف رجوع کرتے ہیں اور انھیں کو مراجع تقلید کہتے ہیں_
ایک فقیہ اور مجتہد احام اسلامى کے استنباط کرنے کے لئے کئی سالوں تک درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے اور اپنى محنت و کوشش سے تمام احادیث اور قرآنى آیات سے پورى طرح آگاہى حاصل کرتا ہے_ احادیث اور آیات قرآنى کے سمجھنے کے لئے مختلف علوم کى ضرورت ہوتى ہے فقیہہ ان تمام علوم کو حاصل کرتا ہے، عربى زبان و ادب سے اچھى طرح آگاہ ہوتا ہے، عربى زبان کے قواعد اور دستور کو بخوبى جانتا ہے، عربى زبان کے جملے اور کلمات سے مطالب کو اخذ کرتا ہے_


علم اصول فقہ کہ جس پر اجتہاد موقوف ہوتا ہے اس میں پورى طرح دسترس رکھتا ہے علم حدیث اور روایت میں وہ مجتہد ہوتا ہے وہ حدیث اور قرآن شناس ہوتا ہے وہ معتبر حدیث کو غیر معتبر حدیث سے اور حدیث صحیح کو حدیث ضعیف سے تمیز دیتا ہے کیونکہ ہر حدیث معتبر اور قابل اعتماد نہیں ہوا کرتى کتب احادیث میں ایسى حدیثیں جو مجہول اور جھوٹى ہیں کہ جنھیں پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے نہیں فرمایا موجود ہیں ایسى جھوٹى اور مجہول احادیث کو واقعى اور صحیح احادیث سے تمیز دینا ایک اہم کام ہے کہ جسے صرف مجتہد انجام دے سکتا ہے_
ہر حدیث کو قرآن اور دوسرے احادیث کى روشنى میں دیکھا جاتا ہے اور اس کام کو ہر شخص نہیں کرسکتا صرف مجتہد اور فقیہہ ہى اسلام کے واقعى احکام اور قوانین کو آیات اور سیکٹروں احادیث کى کتابوں میں تلاش کرتا ہے لیکن وہ شخص جو احکام اسلامى کے استنباط کى صلاحیت نہیں رکھتا اگر چہ وہ دوسرے علوم کا ماہر ہى کیوں نہ ہو اسے حق نہیں پہونچتا کہ وہ قوانین اور احکام اسلامى کو استنباط کرے_
فقیہہ اور مجتہد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو اچھى طرح جانتا ہو اور احکام و قوانین کا خواہ وہ فردى ہوں یا اجتماعی، سیاسى ہوں یا اخلاقى اچھى طرح علم رکھتا ہو_ معاشرہ کى مختلف ضروریات سے آگاہ ہو، دنیا میں رونما ہونے والے حوادث خاص طور سے عالم اسلام کے حالات سے بخوبى واقف ہو اور معاشرہ کى مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنى اجتہادى قوت سے اس کامل سوچے اور شجاعت و تدبّرى سے اس کى رہبرى کر سکے اور اس سلسلہ میں باخبر افراد سے مشورہ بھى لے_


اجتہادى طاقت اس عظیم اسلامى معاشرہ کو حرکت میں رکھتى ہے اور مسلمانوں کى عظیم طاقت و قدرت کى رہبرى کرتى ہے_ مجتہد اور فقیہہ کج فکری، تعدى و سستى اور غلط قسم کى جاہلوں کى تاویلات اور اہل باطل کى بدعات کو روکتا ہے اور مسلمانوں کو اسلام کے صحیح راستہ پر چلا کردینا و آخرت کى سعادت اور سربلندى تک پہونچاتا ہے_


پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:
'' فقہائ، پیغمبر(ص) کى طرف سے اس امّت کے امین ہوا کرتے ہیں''_
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
''دین کے قوانین اور امور کا اجر ان علماء کے ہاتھ سے ہوا کرتا ہے کہ جو دین کے حلال اور حرام کے امین ہوتے ہیں''
پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے کہ:
'' ہمیشہ لوگوں میں ایسے علماء اور متقى پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کى حمایت کریں گے، جاہلوں کى غلط تعریفوں اور تفسیروں کو روکیں گے، الہ باطل کى بدعتوں کا مقابلہ کریں گے اور جذباتى انسانوں کى غلط تاویلات میں حائل ہوں گے''_
اس فقیہہ کى تقلید کرنى چاہیئے جو عادل، متقی، بقیہ تمام مجتہدوں سے زیادہ آگاہ ہو اور رہبرى کى ذمہ داریوں کو ادا کرسکتا ہو_ اس قسم کا فقیہ اور مجتہد احکام دین کے استنباط کے علاوہ بارہویں امام حضرت مہدى علیہ السلام کى غیبت کے زمانہ میں رہبرى اور حکومت کو بھى اپنے ذمہ لے سکتا ہے اور مسلمان ایسے اسلام شناس فقیہہ کى حکومت اور رہبرى کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کى عاقلانہ رہبرى سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اسلام کے سیدھے راستہ کو اسى سے حاصل کرتے ہیں اس کے اوامر کى اطاعت اور اس کى رہبرى و حکومت کو قبول کر کے حقیقى کامیابى حاصل کرتے ہیں_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجیئے
1)___ دین اسلام کے قوانین اور احکام معلوم کرنے کے لئے کس شخص کى طرف رجوع کرنا چاہیئے؟
2)___ مجتہد کو دین کے احکام استنباط کرنے میں کن کن علوم کو جاننا چاہیئے؟
3)___ کیا ہر حدیث پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور کیوں؟
4)___ احادیث کو کن علوم کى روشنى میں قبول کیا جاتا ہے؟
5)___ پیغمبر اسلام (ص) نے فقہاء کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟
6)___ کس فقیہہ کى تقلید کرنى چاہیئے؟
7)___ اسلام کى رہبرى اور حکومت کس کے پاس ہونى چاہیئے اس کى اور لوگوں کى کیا ذمّہ دارى ہوتى ہے؟
 

قانون میں سب مساوى ہیں


حضرت على علیہ السلام کوفہ کے بازار سے گذر رہے تھے ایک زرہ ایک عیسائی کے ہاتھ میں دیکھى کہ وہ اسے فروخت کر رہا ہے حضرت على علیہ السلام اس زمانہ میں تمام اسلامى مملکت کے ولى اور خلیفہ تھے آپ اس عیسائی کے نزدیک گئے اور اس زرہ کو غور سے دیکھا پھر اس بیچنے والے عیسائی سے کہا کہ:
'' زرہ تو میرى ہے کافى دن ہوگئے ہیں کہ یہ گم ہوگئی تھى اب چونکہ یہ تمھارے پاس ہے لہذا یہ مجھے واپس کردو''_
عیسائی نے واپس دینے سے انکار کیا اور کہا کہ:
'' یہ زرہ میرى ہے آپ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے''
زرہ کو آپ سے جھٹکے سے واپس لے لیا_ لوگ اکٹھے ہوگئے تا کہ دیکھیں کہ اتنى بڑى شخصیت کا مالک کیا کردار ادا کرتا ہے اور یہ دیکھیں کہ حضرت على علیہ السلام اس عیسائی آدمى سے کیا کہتے ہیں اور کس طرح اپنے حق کو لیتے ہیں_ شاید چند آدمى آپ کى حمایت بھى کرنا چاہتے تھے اور اس عیسائی سے زرہ واپس لے کر حضرت على علیہ السلام کو دینا چاہتے تھے لیکن حضرت على علیہ السلام نے فرمایا کہ:
'' نہیں تمھیں اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے اسلام حق اور عدالت کا دین ہے اس سلسلہ میں قانون موجود ہے اور میں قانون اور قاضى کے فیصلہ کو تسلیم کروں گا''_

آپ نے اس وقت بہت نرم دلى اور خندہ پیشانى سے اس عیسائی سے فرمایا کہ:
'' مجھے یقین ہے کہ یہ زرہ میرى ہے یہ مجھے دے دو ورنہ آؤ ہم قاضى کے پاس چلتے ہیں تا کہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے''_
عیسائی نے امام علیہ السلام کى خواہش کو مانا اور آنحضرت کے ساتھ اپنے جگھڑے کے ختم کرنے کے لئے قاضى کے پاس گیا اور جو نہى قاضى نے امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھا تو وہ آپ کے احترام میں کھڑا ہوگیا لیکن حضرت على علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ
''ہم فیصلہ کرانے کے لئے یہاں آئے ہیں اور قاضى کو چاہیئے کہ طرفین کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے تمھیں ایک قاضى کى حیثیت سے میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے_ قاضى کو نگاہ کرنے اور توجہ کرنے میں بھى طرفین کے ساتھ مساوات سے کام لینا چاہیئے_ آؤ اور ہمارے درمیان فیصلہ کرو''_
قاضى اپنى قضاوت کى مخصوص جگہ پر بیٹھا حضرت على (ع) اور وہ عیسائی بھى قاضى کے سامنے بیٹھے_ قاضى نے اختلاف کے متعلق پوچھا_
امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ:
'' یہ زرہ جو اس کے پاس ہے یہ میرى ہے میں نے اسے نہ کسى کو بخشا ہے اور نہ کسى کو فروخت کیا ہے چند دین پہلے گم ہوگئی تھى اور اب یہ اس کے پاس ہے''
قاضى نے اس عیسائی سے کہا کہ:
''على ابن ابیطالب (ع) ادعا کر رہے ہیں کہ زرہ ان کى ہے تم اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟ کیا یہ زرہ تمھارى ہے؟ لیکن مسلمانوں کے

خلیفہ کو بھى نہیں جھٹلاتا ہوں''
قاضى نے حضرت على علیہ السلام سے کہا:
'' یا على (ع) آپ مدّعى ہیں اور مدّعى کو ایسے دو گواہ کو جو قابل قبول ہوں لانے چاہئیں اگر آپ کے پاس گواہ ہیں تو انھیں عدال میں لائیں تا کہ وہ گواہى دیں''
امیرالمومنین (ع) قاضى کو اچھى طرح پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ گواہى کے قبول کئے جانے کے کیا شرائط ہیں آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ:
'' میں اس طرح کے گواہ نہیں رکھتا''
قاضى نے کہا:
'' جب آپ کے پاس گواہ نہیں ہیں تو شریعت کى رو سے آپ کا حق ثابت نہیں ہوتا''_
چنانچہ وہ عیسائی زرہ لے کر عدالت سے باہر گیا اور تھوڑى دور چلنے کے بعد سوچنے لگا کہ کتنا بہترین دین اور کتنى عادلانہ حکومت ہے کہ ایک مسلمانوں کے پیشوا اور ایک عیسائی آدمى کو قاضى کے سامنے برابر اور مساوى قرار دیتا ہے_ مسلمانوں کا پیشوا قاضى سے کہتا ہے کہ '' بیٹھ جاؤ تمھیں ایک قاضى کى حیثیت سے قضاوت کے وقت میرا زیادہ احترام نہیں کرنا چاہیئے، قاضى کو نگاہ کرنے میں بھى طرفین میں عدالت اور مساوات برتنى چاہیئے کتنى عادلانہ قضاوت ہے کہ بغیر ثبوت کے کسى کے حق میں اگر چہ وہ مسلمانوں کا پیشوا ہى کیوں نہ ہو فیصلہ صادر نہیں کرتی_
وہ تھوڑى دیر کھڑا سوچتا رہا پھر واپس لوٹا لیکن خوشحال ہوکر نہیں بلکہ پریشانى کے عالم میں لوگوں کے سامنے قاضى سے کہتا ہے:

''مسلمانو میں اس فیصلہ سے حیرت زدہ ہوں اور یقین نہیں ہوتا کہ قاضى نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے اور مسلمانوں کے پیشوا کے خلاف حکم سنایا ہے، اس عدالت کا حکم بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور اس طرح کا فیصلہ صرف پیغمبروں (ع) کے دین میں ہى دیکھا جاسکتا ہے_
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) و رسول خدا(ص) کا خلیفہ اور میں ایک عیسائی عدالت میں قانون کى رو سے مساوى ہیں، جہاں اسلام کا پیشوا عدالت میں حاضر ہوتا ہے اور اپنے اجتماعى مقام اور رتبہ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا
کیسے یہ ہوگیا کہ وہ قاضى کہ جسے وہى پیشوا معین کرتا ہے اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا؟ کس طرح مانا جائے کہ قاضى اسلام کے رہبر و امیرالمومنین کے خلاف حکم صادر کردیتا ہے اور قضاوت کے قوانین کو ہر حیثیت سے ترجیح دیتا ہے_
یہ عدالت اور یوں فیصلہ کرنا تمھارے دین و مذہب کے حق ہونے کى نشانى ہے میں تمھارے دین کو قبول کرتا ہوں اور مسلمان ہوتا ہوں''_
اس وقت اس نے کلمہ شہادتین: اشہد ان لا الہ الّا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ''
زبان پر جارى کیا اس کے بعد حضرت على علیہ السلام کى طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ:
'' خدا کى قسم حق آپ کے ساتھ ہے اور آپ اپنے دعوى میں سچے ہیں یہ زرہ آپ کى ہے جب آپ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ صفین کى جنگ میں جا رہے تھے تو یہ زرہ اونٹ سے گرپڑى تھى اور آپ اس سے آگے نکل گئے تھے میں نے اسے اٹھایا تھا اور اسے گھر لے آیا تھا یقینا یہ زرہ آپ ہى کى ہے اور میں معافى چاہتا ہوں''_
امیرالمومنین (ع) لوگوں کو ہدایت کرنا بہت پسند کرتے تھے اس کے مسلمان ہونے سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
'' تمھارے مسلمان ہوجانے کى وجہ سے یہ زرہ میں تمھیں بخشتا ہوں اور یہ گھوڑا بھى تمھیں دیتا ہوں''
اس مرد نے اسلامى عالت کى عادلانہ رفتار کى وجہ سے اسلام کو محبت اور عشق سے قبول کیا اور امیرالمومنین (ع) کے خاص پیرو کاروں میں سے ہوگیا اور وہ دین اسلام کا اتنا شیفتہ ہوگیا کہ اسلامى فوج سے منسلک ہوگیا اور بہت بہادرى سے نہروان کى جنگ میں شرکت کى ا ور اسلام کى حفاظت کى یہاں تک کہ اپنے کو اسلام اور انسانى آزادى کے لئے قربان کردیا اور شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہوگیا_

 

توضیح اور تحقیق:


معاشرہ میں عادلانہ قوانین کا ہونا اور اس پر عمل کرانا اللہ تعالى کى بہت بڑى نعمت ہے اگر معاشرہ میں قانون کى حکومت ہو تو لوگ امن میں رہیں گے مطمئن ہوکر کاموں میں مشغول رہیں گے اپنى اور دوسرے لوگوں کى زندگى بہتر بنانے میں کوشا رہیں گے کیونکہ صحیح قانون کے اجراء سے ہى اختلاف اور بد نظمى کو روکا جاسکتا ہے_ لوگوں کى جان و مال اور عزت و آبرو کى حفاظت کى جاسکتى ہے_ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور سبھى کو اللہ تعالى کے قوانین کا احترام کرنا چاہیئے اور اپنى مشکلات کو قانون کے دائرہ میں حل کرنا چاہیئےور عدالت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اگر چہ وہ حکم ان کے خلاف ہى کیوں نہ ہو_ قاضى اور قانون جارى کرنے والوں کا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیئے حق و عدالت کى پیروى کرنا چاہیئے اور کسى بھى موقع پر غلط حمایت نہیں کرنا چاہیئے بلکہ دوستى اور دشمنى کو مدّ نظر رکھے بغیر قضاوت کرنا چاہیئے_


قرآن کى آیت:
یا ایّہا الّذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء اللہ و لو على انفسکم او الوالدین و الاقربین ان یکن غنیا او فقیرا فاللہ اولى بہما فلا تتّبعوا الہوى ان تعدلوا و ان تلوا او تعرضوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا (سورہ نساء آیت 135)
'' اے ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ قیامت کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاہے اپنى ذات یا اپنے والدین اور قرباء ہى کے خلاف کیوں نہ ہو جس کے لئے گواہى دینا ہے وہ غنى ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولى ہے لہذا خبردار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کرسکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشى کرلى تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے''_



سوالات
یہ سوالات اس لئے ہیں تا کہ زیادہ غور و فکر کرسکو
1)___ جب حضرت على علیہ السلام نے اپنى زرہ عیسائی کے ہاتھ میں دیکھى تھى تو اس سے کیا کہا تھا؟
2)___ کیا اس عیسائی نے حضرت على (ع) کى بات کو مانا تھا او رجواب میں کیا کہا تھا؟
3)___ جب اس عیسائی نے امیرالمومنین (ع) کو زرہ واپس نہ کى تھى تو امیرالمومنین (ع) نے اس سے کیا کہا تھا؟
4)___ قاضى نے امیرالمومنین (ع) کے ساتھ کون سا سلوک کیا اور حضرت على (ع) نے اس سے بیٹھنے کے لئے کیون کہا تھا؟
5)___ قاضى نے آپ کے جھگڑے میں کس طرح قضاوت کى اور کس کے حق میں فیصلہ دیا اور کیوں؟
6)___ وہ عیسائی کیوں مسلمان ہوگیا تھا؟ اس کے مسلمان ہونے کا سبب کیا تھا؟
7)___ اس تازہ عیسائی مسلمان کا انجام کیا ہوا تھا؟ تمھارى نظر میں وہ اس مرتبہ تک کیسے پہونچا تھا؟
9)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ صحیح قانون کے اجر اسے امن کا کیون احساس ہوتا ہے؟
10)___ صحیح قانون کے اجرا سے ظلم و جور کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟
11)____ قاضیوں کو طرفین سے کیسا سلوک کرنا چاہیئے؟
12)___ دو نزاع کرنے والوں میں سے ایک کو مدّعى کہا جاتا ہے اور جانتے ہو کہ دوسرے کو کیا کہا جاتا ہے؟
13)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں عدالت و انصاف کے بارے میں مومنین کا کیا فریضہ معین کیا ہے؟
14)___ عیسائی کے سا تھ امیرالمومنین علیہ السلام کے سلوک کو وضاحت سے بیان کرو_
15)___ کبھى تم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ہے؟ کیا عدالت و مساوات کى رعایت کى ہے؟ کیا تم میں فیصلہ کرنے کے شرائط موجود ہیں؟


اسلام میں برادری


ہم ساتویں امام حضرت امام کاظم علیہ السلام کى خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے میرے دوستوں میں سے محمد نام کا ایک دوست بھى وہاں بیٹھا ہوا تھا_ امام موسى کاظم علیہ السلام میرے تبسم اور اس کى طرف دیکھنے سے سمجھ رہے تھے کہ میں محمد کو بہت چاہتا ہوں آپ کافى دیر تک ہم دونوں کو دیکھتے رہے اور پھر فرمایا:
'' محمد کو تم بہت دوست رکھتے ہو''
میں نے غرض کی:
''جى ہاں اے فرزند پیغمبر(ص) چونکہ محمد ایک متقى و با ایمان انسان ہے اور آپ کے دوستوں میں سے ہے لہذا میں اسے دوست رکھتا ہوں''_
امام علیہ السلام نے فرمایا:
'' ضرور تمھں اسے دوست رکھنا چاہیئے محمد ایک مرد مومن ہے اور تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لہذا ضرورى ہے کہ ان کا آپس میں سلوک دو بھائیوں جیسا ہو_
کیا جانتے ہے؟ کیا جانتے ہو کہ جو مسلمان بھائی کے ساتھ خیانت کرے اور اسے دوھوکہ دے خداوند عالم اسے اپنى رحمت

سے دور کردیتا ہے؟ جانتے ہو کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے اور ایک دوسرے کى اصلاح کرنے کى کوشش کرنا چاہیئے؟
دیکھو کسى بھائی کو اس کى ضرورت کى چیز سے محروم نہ کرنا کیونکہ ایسا شخص خدا کى رحمت سے دور رہتا ہے_ دیکھو کبھى کسى بھائی کى غیر حاضرى میں اس کى غیبت اور بدگوئی نہ کرنا یا اس کو اپنے سے دور نہ کرنا کہ خداوند عالم بھى تمھیں اپنى رحمت سے دور کردے گا_
اسلام کى رو سے مسلمان مرد اور عورت ایک دوسرے کے بھائی بہن ہیں اور اسلام نہ یہ کہ ایک دوسرے کو بھائی بہن کہہ کہ بلانے کو کہتا ہے بلکہ ان سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے سے بھائیوں اور بہنوں کى طرح مہربانى و صمیمیت سے مددگار ہوں_ سچّے بہن بھائی کبھى بھى ایک دوسرے سے بے تفاوت نہیں رہ سکتے اور وہ ایک دوسے کے اعضاء کى طرح ہوتے ہیں کہ اگر بدن کا ایک عضو و رد کرے تو دوسرا عضو بھى درد کرتا ہے _ مومنین بھى ایسے ہوا کرتے ہیں کہ اگر کسى مومن کو کوئی تکلیف پہونچتى ہے تو دوسرے بھى درد و رنج کا احساس کرتے ہیں اور اس مومن بھائی یا بہت کى مدد کے لئے پہونچ جاتے ہیں اور اس کے درد و رنج کو دور کرنے کى کوشش کرتے ہیں''_
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرما ہے کہ:

'' مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر برادرى کا حق رکھتے ہیں اگر ایک بھائی بھوکا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنے پیٹ کو مختلف رنگ برنگ غذا سے پر کرسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی پیاسا ہو تو دوسرا بھائی سیراب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک بھائی لباس نہ رکھتا ہو تو کیا دوسرا بھائی اپنى پسند کا لباس پہن سکتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کافى حق رکھتا ہے کہ وہ اسے بجالائے''
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کى چند ذمّہ داریاں میں:
1)___ '' ملاقات کے وقت اسے سلام کرے_
2)___ اگر بیمار ہوجائے تو اس کى عیادت کرے_
3)___ اگر مرجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے_
4)___ اگر اسے دعوت دے تو اس کى دعوت کو قبول کردے_
5)___ اور سب سے اہم یہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہى دوسرے مسلمان اور مومن کے لئے بھى پسند کرے اور جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتا وہ دوسرے کے لئے بھى پسند نہ کرے''_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے
1)___ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو فرائض ہیں انھیں بتاؤ_
2)___ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کى فرمائشے کو بیان کرو اور بتاؤ کہ مومن واقعى ایک دوسرے سے کس طرح کى رفتار کرے اور جب کوئی مومن مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے تو دوسرے مومن کو کیا کرنا چاہیئے؟
3)___ امام موسى کاظم علیہ السلام نے محمّد کے دوست سے جو آپ کے اصحاب میں سے تھا مومنین کے ایک دوسرے کے فرائض کے سلسلہ میں کیا فرمایا تھا؟


اسلام اور مساوات


ایک دن پیغمبر اسلام(ص) اپنے چند اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے اسى وقت جناب سلمان فارسى جو پیغمبر اسلام (ص) کى نظر میں محترم تھے آگئے آنحضرت (ص) نے اپنى گفتگوختم کرتے ہوئے سلمان فارسى کو بڑے احترام اور خندہ پیشانى سے اپنے پہلو میں بٹھایا_ آپ کى اس محبت آمیز رفتار اور بہت زیادہ احترام سے آپ کے ایک صحابى کو غصہ آیا اور گستاخانہ انداز میں کہا کہ:
'' سلمان کو ہمارے درمیان ہم سے بلند جگہ نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم سے نیچے بیٹھنا چاہیئے کیونکہ وہ فارسى زبان ہیں اور ہم عربى زبان'' _
پیغمبر اسلام(ص) اس صحابى کى گفتگو سے غضبناک ہوئے اور فرمایا:
'' نہیں ایسا نہیں ہے فارسى یا عربى ہونا قابل امتیاز اور فخر نہیں ہوا کرتا، رنگ اور قبیلہ فضیلت کاموجب نہیں ہوا کرتا، سفید کو سیاہ پر برترى نہیں ہے بلکہ جو چیز خداوند عالم کے نزدیک برترى کا موجب ہے وہ ''تقوی'' ہے_
جو بھى تقوى میں زیادہ ہوگا وہ اللہ کے نزدیک معزز ہوگا،
اسلام برابرى کا دین ہے اور دین اسلام بے اساس و خیالى امتیازات کى مخالفت کرتا ہے_ اسلام کى نگاہ میں سلمان فارسى ، صہیب رومی، حمزہ، جعفر ابن ابیطالب اور دوسرے مسلمان سب کے سب برابر ہیں_ برترى اور فضیلت کا معیار صرف تقوى اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ کرنے میں ہے_ اللہ تعالى کے نزدیک ایمان اور عمل صالح کى وجہ سے ہى برترى ہوا کرتى ہے کیونکہ سب کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور خداوند عالم نے تقوى کو فضیلت و برترى کا معیار قرار دیا ہے''_
خداوند عالم انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کى ضروریات کو پہلے سے مہیا کیا ہے اور انھیں اس کے اختیار میں دیا ہے اسى طرح خدا نے زمین کو پیدا کیا ہے تا کہ انسان اس پر زندگى بسر کرے اپنى کوشش سے اسے آباد کرے اللہ کى نعمتوں سے بہرہ مند ہو اپنے اور دوسروں کے لئے روزى حاصل کرے_
انسان اللہ تعالى کى نعمتوں سے استفادہ کئے بغیر اور خاص طور سے پانى کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا_ خداوند عالم نے پانى کو انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ اسے پیئں اور اس سے زراعت کریں اور حیوانوں کو پالیں_ زمین کے معاون اور اس کى اندرونى دولت کو انسانوں کے فائدے کے لئے خلق کیا ہے تا کہ انسان غور و فکر کے ذریعہ دنیا کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان نعمتوں سے کہ جو زمین کے اندر ہیں بہرہ مند ہو اور انھیں مخلوق خدا کى سعادت و آرام اور رفاہ کے لئے استعمال میں لائے ( زمین یا پانی، ہوا اور زمین کى دوسرى دولت سارے انسانوں سے متعلق ہے اور سبھى اس سے فائدہ حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں_
سارے انسان اللہ کے بندے ہیں اور وہ زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں سفید، سیاہ، زرد، سرخ، عورت، مرد، دیہاتی، شہری، عرب اور عجم سب کے سب انسان ہیں اور سب کو حق پہونچتا ہے کہ کھانے پینے اور زندگ کے دوسرے وسائل سے بہرہ مند ہوں_ سبھى کو محنت کرنا چاہیئے اور اسلام کے قوانین کى رعایت کرتے ہوئے غیر آباد زمین کو آباد کرنا چاہیئے اور زمین کے اندر چھپى ہوئی دولت کو نکال کر اپنے معاشرہ کے فائدے کے لئے استعمال کرنا چاہیئے_
کسى انسان کو حق نہیں پہونچتا کہ وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے اور زندگى کے وسائل سے محروم کردے جس طرح خدا کے نزدیک سارے انسان برابر ہیں اسى طرح ایک اسلامى مملکت کى نظر میں بھى برابر ہیں_ اسلامى مملک کو عوام کى ضروریات کو فراہم کرنا چاہیئے اورا ن کى خوراک و پوشاک اورمسکن کا بغیر کسى جانبدارى کے انتظام کرنا چاہیئے_
اسلامى حکومت کو چاہیئے کہ جہالت کو ختم کردے اور سبھى کو اسلامى تعلیم سے بہرہ مند کرے اور عوام کے علاج کے لئے ڈاکٹروں کا انتظام کرے_ اسلامى مملکت کا یہ وظیفہ ہے کہ تمام رعایا کى مدد سے مجبور اور بوڑھوں کے لئے سامان زندگى کو مہیا کرے_ اسلامى حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ کرنے والوں کے ظلم و تعدى کو روکے اور ان کے درمیان عدل او نصاف سے کام لے اور ان لوگوں پر زیادہ توجہ دے جو محروم و ضعیف اور سر حد و دیہات کے رہنے والے ہیں تا کہ ان کى زندگى دوسرے افراد کى زندگى کے برابر آجائے_
خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام عدل و انصاف، برابرى اور برادرى کا دین ہے_ کسى کو دوسرے پر سوائے تقوى کے کوئی امتیاز نہیں حاصل ہے صرف مومن اور پرہیزگار اپنے ایمان اورتقوى کے مراتب کے لحاظ سے ''اللہ کے نزدیک معزّز ترین وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار اور زیادہ متقى ہے''_

قرآن مجید کى آیات:
و الارض وضعہا للانام (سورہ رحمن آیت 10)
'' اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے قرار دیا ہے''
ہو الّذى خلق لکم ما فى الارض جمیعا (سورہ بقرہ آیت 29)
'' اللہ ہى تو وہ ہے کہ جس نے زمین کى سارى چیزیں تمھارے لئے خلق کى ہیں''
انّ اکرمکم عند اللہ اتقیکم (سورہ حجرات آیت 13)
'' معزز ترین تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو''_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے
1) ___پیغمبر اسلام(ص) ، جناب سلمان فارسى کا کیوں زیادہ احترام کرتے تھے؟
2)____ پیغمبر اسلام (ص) کى نظر میں انسان کے لئے کون سى چیز باعث فضیلت ہے؟ اور کیوں؟
3)___ لارث زمین، معاون (کانیں) اور زمین میں موجود ثروت کس کى ملکیّت ہے؟ اوران کس کى اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
4)___ حکومت اسلامى کو مسلمانوں کى مدد کے لئے کون سا اقدام کرنا چاہیئے؟
5)____ اسلامى حکومت کو اپنى منصوبہ بندیوں میں کس کو ترجیح دینى چاہیئے؟

 

ظالموں کى مدد مت کرو


'' بنى امیہ کى حکومت ایک غاصب اور ظالم حکومت ہے میں تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ ظالم حکومت کى خدمت کرو اور اپنے عمل سے ان کى تائید کرو''
( امام صادق علیہ السلام)
یہ بات امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے جواب میں کہى تھى کہ جس نے آپ سے سوال کیا تھا '' کیا میں بنى امیہ کے خلفاء کى خدمت کرسکتا ہوں؟ کیونکہ میں ایک مدت سے بنى امیہ کے دربار میں کرتا ہوں اور بہت کافى مال میں نے حاصل کیا ہے اور اس کے حصول میں بہت زیادہ احتیاط و دقّت سے بھى کام نہیں لیا ہے لہذا اب کیا کروں؟
اس مال کا جو میرے پاس موجود ہے کیا حکم ہے حلال ہے یا حرام؟ کیا میں اس کام میں مشغول رہ سکتا ہوں؟ میرا ہونا یا نہ ہونا ان کى حکومت میں کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا؟ اگر میں نے وہ کام انجام نہ دیا تو دوسرے موجود ہیں جو اس کام کو انجام دے دیں گے''
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا:
'' اگر بنى امیہ کو مدد گار نہ ملتے تو وہ لوگوں پر ظلم نہ کرتے کیونکہ حکومت خودبخود تو نہیں چلتى بلکہ اس کے لئے وزیر، معاون، مدیر و کام کرنے والے ضرورى ہوتے ہیں یہى لوگ حکوت کو چلاتے ہیں اگر تم اور تم جیسے دوسرے لوگ بنى امیہ کى مدد نہ کرتے تو وہ کس طرح لوگوں کو ہمارى الہى حکومت سے محروم کرسکتے تھے؟ کس طرح وہ فتنہ اور فساد برپا کرسکتے تھے؟ اگر لوگ ظالموں کى تائید نہ کریں اور ان کے اجتماعات و محافل میں شریک نہ ہوں تو وہ کس طرح اپنے مقاصد تک پہونچ سکتے ہیں؟
نہیں ہرگز نہیں میں کسى مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ظالموں کى حکومت میں نوکرى کرے اور اپنے کام سے ان کى مدد کرے''
سائل نے چونکہ امام علیہ السلام کے حکم کى اطاعت کرنے کا مصمّم ارادہ کیا تھا سوچنے لگا اور اپنے سے کہا کہ کیا میں اس گناہ سے اپنے آپ کو نجات دے سکتا ہوں؟ کاش میں ظالموں کى مدد نہ کرتا اب کس طرح توبہ کروں؟
امام جعفر صادق علیہ السلام توبہ کے آثار کو اس کے چہرہ پر مشاہدہ کر رہے تھے آپ نے فرمایا:
' ' ہاں تم اس سے توبہ کرسکتے ہو اور خداوند عالم تیرى توبہ قبول بھى کرے گا لیکن یہ کام بہت مشکل ہے کیا اسے انجام دے سکوگے؟
جوان نے کہا کہ:
'' ہاں میں حاضر ہوں اور خداوند عالم سے اپنے ارادہ کى تکمیل میں مدد چاہتا ہوں''
امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑا سا روئے اور پھر فرمایا:
'' جو مال تو نے بنى امیہ کى غاصب و ظالم حکومت سے غیر شرعى طریقہ سے حاصل کیا ہے وہ تیرا مال نہیں ہے اور اس میں تیرا تصرف کرنا حرام ہے وہ تمام کا تمام اس کے مالکوں کو واپس کردو_
اگر مالکوں کو پہچانتے ہو تو خود انھیں کو واپس کرو اور اگر انھیں نہیں پہچانتے تو ان کى طرف سے صدقہ دے دو تو میں تمھارے لئے بہشت کى ضمانت لیتا ہوں''
وہ سوچنے لگا کیونکہ سارى دولت فقراء کو دینى ہوگى لیکن اس نے سوچا کہ دنیا کى سختیوں کو برداشت کیاجاسکتا ہے اس لئے کہ یہ ختم ہوجانے والى ہیں لیکن آخرت کى سختى اور عذاب دائمى ہے لامحالہ ان دو میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوگا لہذا بہتر ہے دنیا کى تکلیف و رنج کو قبول کرلوں اور اپنے آپ کو آخرت کے دائمى عذاب سے چھٹکارا دے دوں اس نے اپنا سرا اوپر اٹھایا اور امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ:
'' میں آپ کے حکم کى تعمیل کروں گا''
اس کے بعد وہ وہاں سے اٹھا اور امام (ع) سے رخصت ہوکر چلاگیا_ على بن حمزہ جو اس کا دوست اور ہمسفر بھى تھا وہ کہتا ہے کہ:
'' جب ہم کوفہ پہونچے تو میرا یہ دوست سیدھا گھر گیا مجھے کئی دن تک اس کى خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ مجھے اطلاع ملى کہ اس نے اپنى سارى دولت کو لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے_ جس کو پہچانتا تھا اس کا مال اسے واپس کردیا ہے اور جسے نہیں پہچانتا تھا تو اس کى طرف سے فقراء اور ناداروں کو صدقہ دے دیا ہے یہاں تک کہ اس نے اپنے بدن کے لباس کو بھى دے دیا ہے اور پہننے کے لئے کسى سے لباس عاریة لیا ہے اب تو اس کے پاس لباس ہے اور نہ خوراک_

میںنے تھوڑى خوراک و لباس اس کے لئے مہیا کیا اور اس کى ملاقات کے لئے اس کے پاس گیا اس سے مل کر بہت خوش ہو اور اس کے اس عمدہ عمل کى تعریف کی_ میرى ملاقات کو تقریباً ایک مہینہ گزرا تھا کہ مجھے خبر ملى کہ وہ جوا ن بیمار ہوگیا ہے میں اس کى عیادت کے لئے گیا اور وہ جب تک بیمار رہا اس کى عیادت کو جاتا تھا اور اس کے نورانى چہرہ کو دیکھ کر خوشحال ہوتا تھا_
ایک دن میں اس کے سر ہانے بیٹھا تھا کہ اس نے میرى طرف نگاہ کى اور بلند آواز میں کہا: '' بھائی امام (ع) نے اپنے عمدہ کو پورا کردیا ہے میں ابھى سے بہشت میں اپنى جگہ دیکھ رہا ہوں''
اس کے بعد اس نے کلمہ شہادتین پڑھا اوردنیا سے رخصت ہوگیا''

توضیح اور تحقیق:


خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
'' ظالم ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہوتے ہیں اور ان کے بعض دوسرے کى مدد کرتے ہیں لیکن اللہ پرہیزگاروں کا یار و مددگار ہے''_
نیز ارشاد ہوتا ہے:
'' جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کى طرف ہرگز میلان نہ کرو اور ان پر ہرگز اعتماد نہ کرو کہ وہ بالآخر دوزخ کى آگ میں ڈالے جائیں گے''_
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:
'' قیامت کے دن اللہ تعالى کى طرف سے منادى ندا دے گا; ظالم کہاں ہیں؟ ظالموں کے مددگارکہاں ہیں؟ تمام ظالموں اور ان کے مددگاروں کو حاضر کرو یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھى کہ جنھوں نے ظالموں کى حکومت میں سیاہى اور قلم سے ان کى مد کى ہے یا ان کے لئے خطوط لکھے ہیں یہ تمام لوگ حاضر ہوں گے اور خداوند عالم کے حکم سے انھیں ظالموں کے ساتھ دوزخ میں ڈالا جائے گا'' _
کیونکہ ظالم اکیلے قادر نہیںہوتا کہ وہ لوگوں کے حقوق کو غصب کرے اور ان پر ظلم و ستم کرے اپنے غیر انسانى اور پلید اہداف و اغراض تک پہونچنے کے لئے دوسروں سے مدد لیتا ہے کسى کو رشتہ اور عہدہ دے کر دھوکہ دیتا ہے اور کسى کو ما ل و دولت دے کر اپنے اردگرد اکٹھا کرتا ہے اور کسى کو ڈرا دھمکا کر اپنى طرف لاتا ہے اس طرح سے اپنى طاغوتى طاقت کو محکم و مضبوط بناتا ہے پھر خون پسینہ سے جمع کى ہوئی دولت کو غصب کرتا ہے اور دوسروں پر تجاوز کرتا ہے_
ظالم حکومت کے مامورین، طاغوت انسانوں کے لئے دوسرے لوگوں پر تجاوز اور خیانت کا راستہ ہموار کرتے ہیں وہ اس طرح سے محروم و زحمت کش افراد پر ظلم کرنے کا دروازہ کھول دیتے ہیں_ مدّاح قسم کے لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور طاغوت کے مکروہ چہرے کو محبوب اور پسندیدہ ظاہر کرتے ہیں، روشن فکر قسم کے خائن لوگ ان طاغوتى قوانى کو مرتب کرتے ہیں اور خائن قسم کے وزیر، طاغوتى قوانین جو لوگوں کے ضرر کے لئے بنائے جاتے ہیں ان پر عمل کراتے ہیں اور مسلّح فوج کے حاکم و کمانڈر افراد اس قسم کے طاغوتوں کى حکومت سے دفاع کرتے ہیں_
ان کى مدد کرنے والوں کى حمایت و مدد کے بغیر ظالم طاغوت کس طرح لوگوں کے حقوق کو ضائع اور ان پر ظلم کرسکتے ہیں؟ پس جتنے لوگ ظلم و ستم کى حکومت میں ان کى مدد کرتے ہیں وہ خود بھى ظالم ہوتے ہیں اور ظلم و خیانت میں شریک ہوتے ہیں اور اخروى عذاب و سزا میں بھى ان کے شریک ہوں گے_
برخلاف ان لوگوں کے جو اسلامى حکومت اور اسلام کے قوانین جارى کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے اور محروم طبقے کے حقوق سے دفاع کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالى کے ثواب کى جزاء میں شریک ہوں گے_
قرآن کى آیات:
و انّ الظّالمین بعضہم اولیاء بعض و اللہ ولیّ المتّقین (سورہ جاثیہ آیت 19)
'' ظالم ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ پرہیز گاروں کا ولى ہے''
و لا ترکنوا الى الّذین ظلموا فتمسّکم النّار (سورہ ہود آیت 113)
'' خبردار تم لوگ ظالموں کى طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہنم کى آگ تمھیں چھوئے گى ''_

سوالات
یہ سوالات سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں
1)___ جب اس جوان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے (حکومت بنى امیہ میں) کام کرنے کے متعلق پوچھا تھا تو امام (ع) نے اس کا کیا جواب دیا تھا اور امام (ع) نے اس کے لئے کیا دلیل دى تھی؟
2)___ امام (ع) نے اس جوان کو نجات کا راستہ کیا بتایا تھا اور اسے کس چیز کى ضمانت دى تھی؟
3)___ وہ جوان توبہ کرنے سے پہلے کیا سوچ رہا تھا اور اس مدت میں اس نے کیا سوچا؟
4)___ اس جوان نے کس طرح توبہ کى اور کس طرح اپنے آپ کو اس گناہ سے نجات دى ؟
5)___ اس بیمارى جوان نے آخرى وقت میں اپنے دوست سے کیا کہا تھا؟
6)___ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ظالموں کى مدد نہ کرنے کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟
7)___ قیامت کے دن منادى کیا ندا دے گا اور خداوند عالم کى طرف سے کیا حکم ملے گا؟ کون لوگ ظالموں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے؟

 

اسلام میں جہاد اوردفاع


جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ انسان کو آزادى دلاتا ہے_
جہاد کرنے والا آخرت میں بلند درجہ اور خدا کى خاص رحمت و مغفرت کا مستحق ہوتا ہے_
جہاد کرنے والا میدان جنگ میں آکر اپنى جان کو جنّت کے عوض فروخت کرتا ہے_
یہ معاملہ بہت سودمند ہوتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالى کى رضا ہر جزا سے زیادہ قیمتى ہوتى ہے_
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے کہ:
'' جو لوگ خدا کى راہ میں اس کے بندوں کى آزادى کے لئے قیام و جہاد کرتے ہیں وہ قیامت میں جنّت کے اس دروازہ سے داخل ہوں گے جس کا نام '' باب مجاہدین'' ہے اور یہ دروازہ صرف مجاہد مومنین کے لئے ہى کھولا جائے گا_ مجاہدین بہت شان و شوکت اور عزّت و وقار سے ہتھار اٹھائے تمام لوگوں کے سامنے اور سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے_
اللہ تعالى کے خاص مقرّب فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور دوسرے جنّتى ان کے مقام کو دیکھ کر غبطہ کریں گے اور جو شخص اللہ کى راہ میں جنگ و جہاد کو ترک کردے تو خداوند عالم سے ذلّت و خوارى کا لباس پہنائے گا وہ زندگى میں فقیر و نادار ہوگا اور اپنے بدن سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہوگا_ خداوند عالم امت اسلامى کو اسلحہ پر تکیہ کرنے اور گھوڑوںو سواریوں کى رعبدار آواز کى جہ سے عزّت و بے نیازى تک پہونچاتا ہے''_
جو مومن مجاہدین ایسے جہاد میں جو نجات دینے والا ہوتا ہے جنگ کے میدان میں متّحد ہوکر صفین باندھتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کر کھڑے ہوجاتے ہیں انھیں چاہیئے کہ حدود الہى کى رعایت کریں اور اس گروہ سے جس سے جنگ کر رہے ہیں پہلے یہ کہیں کہ وہ طاغوت و ظالم کى اطاعت سے دست بردار ہوجائیں اورا للہ کے بندوں کو طاغوتوں کى قیدو بند سے آزاد کرائیں اور خود بھى وہ اللہ تعالى کى اطاعت کریں، اللہ کى حکومت کو تسلیم کریں اگر وہ تسلیم نہ ہوں اور اللہ تعال کى حکومت کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان سے امام علیہ السلام یا امّت اسلامى کے رہبر نائب امام (ع) کے اذن و اجازت سے جنگ کریں اور مستکبر و طاغوت کو نیست و نابود کردیں اور اللہ کے بندوں کو اپنى تمام قوت و طاقت سے دوسروں کى بندگى اور غلامى سے آزاد کرائیں_ اس راہ میں قتل کرنے اور قتل کئے جانے سے خوف نہ کریں کہ جس کے متعلق امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
'' سب سے بہترین موت شہادت کى موت ہے اس ذات کى قسم جس کے قبضہ قدرت میں میرى جان ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے ہزار دفعہ تلوار کى ضرب سے مارا جاؤں تو یہ مرنا میرے لئے اس موت سے زیادہ پسند ہے کہ اپنے بستروں پر مروں''_

وہ جہاد جو آزادى دلاتا ہے وہ امام (ع) یا نائب امام (ع) کے اذن سے ہوتا ہے اور اس طرح کا جہاد کرنا صرف طاقتور، توانا اور رشید مردوں کا وظیفہ ہے لیکن کس اسلامى سرزمین اور ان کى شرافت و عزّت پر کوئی دشمن حملہ کردے تو پھر تمام زن و مرد پر واجب ہے کہ جو چیز ان کے قبضہ میں ہوا سے لے کر اس کا دفاع کریں_


اس صورت میں جوانوں کو بھى دشمن پر گولہ بار کرنى ہوگى اور لڑکیوں پر بھى ضرورى ہوگا کہ وہ دشمن پر گولیاں چلائیں تمام لوگ اسلحے اٹھائیں حملہ آور کو اپنى سرزمین سے باہر نکال دیں اور اگر ان کے پاس سنگین اسلحہ نہ ہو تو پھر پتھر اور لاٹھیوں سے د شمن پر ٹوٹ پڑیں اپنى جان کوقربان کردیں، پورى طاقت سے جنگ کریں اور خود شہادت کے رتبہ پر فائز ہوجائیں اور اپنى آنے والى نسلوں و جوانوں کے لئے شرافت و عزّت کو میراث میں چھوڑ جائیں_
اس قسم کا جہاد کہ جس کا نام دفاع ہے اس میں امام (ع) یا نائب امام (ع) کى اجازت ضرورى نہیں ہوتى اس لئے کہ اسلامى معاشرے کى عزّت و شرافت اتنى اہم ہوتى ہے کہ اسلام نے ہر مسلمان پر واجب کیا ہے کہ بغیر امام (ع) یاا س کے نائب کى اجازت کے دفاع کرے
مندرجہ ذیل واقعہ میں کس طرح مسلمانوں نے بالخصوص عورتوں نے کفّار کے حملہ و اسلام کى عزّت اور اسلامى سرزمین کا دفاع کیا ہے مشاہدہ کرسکتے ہیں:

فداکار اور جرى خاتون:


مدینہ میں یہ خبر پہونچى کہ کفّار مکہ حملہ کى غرض سے چل چکے ہیں اور وہ انقلاب اسلامى کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکیں گے، انصار و مہاجرین کے گھروں کو تباہ کردیں گے_


پیغمبر اسلام(ص) نے فوراً جہاد کا اعلان کرادیا اور مسلمان گروہ در گروہ ان کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے دشمن مدینہ کے نزدیک پہونچ چکے تھے اور مسلمان ان کے مقابلہ کے لئے صف آرا ہوگئے ان کا راستہ روک کر ان کى پیش قدمى کو روک دیا_
عورتوں کا ایک فداکار اور با ایمان گروہ بھى اپنے شوہروں اور اولاد کے ساتھ ایمان و شرف اور اپنى سرزمین کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں پہونچ گیا_ یہ اکثر افواج اسلام کى مدد کیا کرتى تھیں فوجیوں کے لئے غذا و پانى مہیا کرتیں اور زخمیوں کى دیکھ بھال کیا کرتى تھیں اور اپنى تقریروں سے اسلام کى سپاہ کو جہاد و جاں نثارى کے لئے تشویق دلاتى تھیں_
انھیں فداکار خواتین میں سے ایک ''نسیبہ'' تھیں جواپنے شوہر اور دو جوان بیٹوں کے ساتھ احد کے میدان میں جنگ کے لئے آئی تھیں انھوں نے بہت محبت و شوق سے پانى کى ایک بڑى مشک پر کر کے اپنے کندھے پر ڈالى اور تھکے ماندہ لڑنے والے سپاہیوں کو پانى پلا رہى تھیں، دوا اور صاف ستھرے کپڑے بھى ساتھ رکھے ہوئے تھیں اور ضرورت کے وقت زخمیوں کے زخم کو اس سے باندھتى تھیں، اپنى پر جوش اور امید دلانے والى گفتگو سے اپنے شوہر، دو بیٹوں، تمام فوجیوں اور مجاہدین کو دشمن پر سخت و تابڑ توڑ حملے کرنے کى تشویق دلا رہى تھیں_
جنگ اچھے مرحلے میں تھیں اور فتح، اسلام کے سپاہیوں کے نزدیک تھى لیکن افسوس کہ پہاڑ کے درّے پر معیّن سپاہیوں کے چند آدمى کى غفلت و نافرمانى کى وجہ سے جنگ کو نوعیت بدل گئی تھى اورمسلمانوں کے سپاہى دشمن کے سخت گھیرے میں آگئے تھے مسلمانوں کى کافى تعداد شہید ہوگئی تھى اور ان کے چند افراد جن کا ایمان قوى نہ تھا اپنے لئے ننگ و عار کو برداشت کرتے ہوئے پیغمبر (ص) کو اکیلا چھوڑ کر میدان سے فرار کر گئے تھے _


پیغمبر اسلام(ص) کے پاس صرف تھوڑے سے مومن اور فداکار سپاہى رہ گئے تھے آپ (ص) کى جان خطرے میں پڑگئی تھی_ دشمن نے اپنا پورا زور پیغمبر اسلام(ص) کے قتل کرنے پر لگادیا تھا_ حضرت على علیہ السلام اور چند دلیر سپاہى آپ کے اردگرد حلقہ باندھے ہر طرف سے حملہ کادفاع کر رہے تھے_
جنگ بہت شدید و خطرناک صورت اختیار کرچکى تھی، اسلام کے سپاہى ایک دوسرے کے بعد کینہ ور دشمن کى تلوار سے زخمى ہوکر زمین پر گر رہے تھے_ اس حالت کو دیکھنے سے جناب نسیبہ نے مشک کا تسمہ اپنے کندھے سے اتارا اور جلدى سے ایک شہید کى تلوار و ڈھال اٹھائی پیغمبر اسلام (ص) کى طرف دوڑیں اور بپھرے ہوئے شیر کى طرح دشمنوں کے گھیرے کو برق رفتارى سے اپنى تلوار کے حملے سے توڑا اپنے آپ کو پیغمبر اسلام (ص) تک پہونچا دیا اپنى تلوار کو دشمنوں کے سر اور ہاتھوں پر چلا کر انھیں پیغمبر(ص) سے دور ہٹادیا_
اسى دوران میں انھوں نے دیکھا کہ دشمن کے ایک سپاہى کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ تیزى سے آگے بڑھ رہا ہے تا کہ پیغمبر اسلام (ص) پروار کرے_ نسیبہ اس کى طرف بڑھتى ہیں اور اس پر حملہ کرتى ہیں_ دشمن جو چاہتا تھا کہ اپنا وار پیغمبر اسلام (ص) کے سرپر کرے اس نے جلدى سے وہ وار نسیبہ پر کردیا جس سے نسیبہ کا کندھا زخمى ہوجاتا ہے اس سے خون نکلنے لگا ہے اور پورا جسم خون سے رنگین ہوجاتا ہے ایک سپاہى اس نیم مردہ خاتون کو میدان جنگ سے باہر لے جاتا ہے_
جب جنگ ختم ہوگئی تو پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں زخمیوں اور مجروحین کى ملاقات کے لئے گئے اور آپ (ص) نے اس فداکار خاتون کے بارے میں فرمایا کہ:
'' اس خوفناک ماحول میں جس طرف بھى میں دیکھتا تھا نسیبہ کو دیکھتا تھا کہ وہ اپنى تلوار سے میرا دفاع کر رہى ہے''

اس کے بعد نسیبہ جنگ احد کى داستان اورمسلمانوں کى فداکارى کو اپنے دوستوں سے بیان کرتى تھیں اور ان کے دلوں میں ایثار و قربانى کے جذبات کو ابھارتیں اور ان میں جنگ کے شوق کو پیدا کرتى تھیں اور کبھى اپنى قمیص اپنے کندھے سے ہٹا کر اس زخم کے نشان دوسرى عورتوں کو دکھلاتى تھیں_ جنگ احد میں اور بھى بہت سى چیزیں پیش آئیں جن کا ذکر ہمارے لئے مفید ہے_
قرآن کى آیت:
انّ اللہ یحب الّذین یقاتلون فى سبیلہ صفّا کانّہم بنیان مرصوص (سورہ صف آیت 4)
'' خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کى راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کى طرح جنگ کرتے ہیں''



سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے
1)___ مرد مجاہدین میں اپنى جان کو کس کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اور اس معاملہ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟
2)___ مجاہدین کس طرح جنّت میں وارد ہوں گے؟
3)__ _ جو لوگ راہ خدا میں جہاد نہین کرتے ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟
4)___ خداوند عالم امّت اسلامى کو کس چیز سے عزّت بخشتا ہے؟
5)___ میدان جنگ میں ایک مجاہد دوسرے مجاہد کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟
6)___ شہادت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟
8)___ دفاع کسے کہا جاتا ہے؟ مسلمانوں کى سرزمین، شرف و عزّت سے دفاع کرنا کس کا فریضہ ہے؟
9)___ نسیبہ، میدان احد میں پہلے کیا کام کرتى تھیں اور پھر کیوں انھوں نے لڑائی میں شرکت کی؟
10)___ پیغمبر اسلام (ص) نے نسیبہ کے بارے میں کیا فرمایا؟

 

شہادت کا ایک عاشق بوڑھا اور ایک خاتون جو شہید پرور تھی


موت سے کون ڈرتا ہے اور کون نہیں ڈرتا ؟
جو موت کو فنا سمجھتا ہے اور آخرت پر اعتقاد نہیں رکھتا وہ موت سے ضرور ڈرے گا اور موت سے بچنے کے لئے ہر قسم کى ذلّت و عار کو برداشت کرے گا_ اس قسم کے لوگ دنیا کى محدود زندگى کو سوچتے ہیں اور اپنى پورى کوشش کو مادّى و زود گذر خواہشات کے لئے صرف کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنے شخصى منافع کے بارے میں سوچتے ہیں اور حیوانوں کى طرح دن رات گذارتے ہیں پھر ذلّت و خوارى سے مرجاتے ہیں اور وہ اپنى غفلتوں، کوتاہ نظریوں و برے کردار کى سزا پاتے ہیں_
لیکن جو انسان خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ موت نیست و نابود ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ بلند ہمّتى و بے نظیر بہادرى کے ساتھ اپنى ا ور اپنے معاشرہ کى شرافت و عزّت کے لئے جنگ کرتا ہے راہ خدا اور اپنے ایمان و عقیدہ کى حفاظت کے لئے جان و مال دینے سے دریغ نہیں کرتا اپنى پورى توانائی کو خدا کى رضا اور بندگان خدا کى فلاح میں صرف کر کے با عزّت زندگى بسر کرتا ہے اور آخرت میں الطاف الہى سے بہر ہ مند ہوتا ہے_
قبیلہ عمر و ایسے ہى مومن انسان کا ایک مجسم نمونہ تھا جو شہادت و ایثار سے عشق رکھتا تھا چنانچہ اللہ تعالى کى ذات و آخرت پر ایمان لانے کى قدر و قیمت کو پہچاننے کے لئے اس پر افتخار گھرانے کى داستان کے ایک گوشہ بالخصوص عمرو کى داستان کو ذکر کیا جاتا ہے_
مدینہ کے مسلمانوں کو پتہ چلا کہ کفّار مکہ، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آر ہے ہیں، مسلمان پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے بعد دفاع کے لئے آمادہ ہوچکے تھے، مدینہ کى حالت بدل چکى تھى ہر جگہ جہاد و شہادت کى گفتگو ہو رہى تھى صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے پایا کہ سب شہر کے باہر جائیں اور قبل اس کے کہ دشمن میں پہونچیں شہر کے باہر ہى ان کا مقابلہ کیا جائے ج ان سپاہى اپنى ماؤں کے ہاتھ چومتے اور ان سے رخصت ہو رہے تھے اور گروہ گروہ میدان جنگ کى طرف روانہ ہو رہے تھے_
مرد اپنے بچوں اور بیویوں سے رخصت ہو کر احد کے پہاڑ کى طرف روانہ ہو رہے تھے_ عمرو بن جموح کے چار بہادر بیٹے جہاد کے لئے آمادہ ہوچکے تھے یہ چاروں بہادر اس سے پہلے بھى جنگوں میں شرکت کیا کرتے تھے اور قرآن و اسلام سے دفاع کرنے میں ہر قسم کى فداکارى کے لئے تیاررہتے تھے_


عمرو دیکھ رہا تھا کہ اس کے فرزند کس شوق و محبّت سے اسلحوں سے آراستہ ہوکر میدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہو رہے ہیں اور مسلمان پیادہ و سوار، لباس جنگ زیب تن کئے تکبیر کہتے دمشن کى طرف چلے جا رہے ہیں اسے یقین ہوگیا تھا کہ ان اسلام کے سپاہیوں کو کبھى شکست نہیں ہوسکتی، وہ جنگ کے میدان میں دلیرانہ جنگ کریں گے اپنى عزّت و شرف کا دفاع کریں گے_
اس کے نتیجہ میں یا دشمن پر فتح پالیں گے یا شہادت کے درجہ پر فائز ہوں گے التہ اگر شہید ہوگئے تو اللہ تعالى کے فرشتے ان کى پاک روح کو بہشت تک لے جائیں گے اور وہ بہشت کى نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے اور جوار الہى میں خوش و خرّم زندگى بسر کریں گے_
اس منظر کو دیکھ کر عمرو کى آنکھوں میں آنسو بھر آیا او ردل میں کہا:


'' کاش میرا پاؤں لنگڑا نہ ہوتا اور میں بھى اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد کرنے جاتا''_
اسى حالت میں اس کے چاروں نوجوان بیٹے اس سے رخصت ہونے کے لئے آئے انھوں نے باپ کا ہاتھ چو ما عمرو نے ان کى پیشانى اور چہروں کو بوسہ دیا_ اسلام کے فداکاروں کے گرم خون کو اس نے نزدیک سے محسوس کیا اور اس کى حالت دگرگوں ہوگئی
'' صبر کرو صبر کرو میں بھى تمھارے ساتھ جہاد کے لئے آتا ہوں''
اس کے بیٹے حیرت زدہ ہوکر سوچنے لگے کہ کس طرح ہمارا با ہمارے ساتھ جہاد کرے گا؟ حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہے اور اس کا ایک پاؤں بھى لنگڑا ہے ایسے انسان پر اسلامى قانون کے رو سے تو جہاد واجب ہى نہیں ہوا کرتا_
بیٹے اسى فکر میں کھڑے تھے کہ باپ نے لباس جنگ زیب تن کیا تلوار ہاتھ میں لى اور چلنے کے لئے تیار ہوگیا_ بیٹوں نے باپ کو منع کیا لیکن وہ اپنے ارادہ سے باز نہ آیا مجبوزا انھوں اپنى ماں اور بعض رشتہ داروں سے باپ کو روکنے کے لئے کہا بچّوں کے اصرار پر انھوں نے عمرو سے کہا کہ:
'' تم بڑھاپے و لنگڑا پن کى وجہ سے دشمن پر حملہ نہیں کرسکتے ہو نہ ہى اپنے سے دفاع کرسکتے ہو اور خداوند عالم نے بھى تم پر

جہاد واجب نہیں کیا ہے لہذا بہتر یہى ہے کہ تم مدینہ میں رہ جاؤ اور یہ چار جوان بیٹے ہیں جو میدان جنگ میں جا رہے ہیں کافى ہیں''
عمرون نے جواب دیا کہ:
'' تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ کافروں کى فوج نے ہم پر حملہ کردیا ہے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کو خطرے میں ڈال دیا ہے، کیا اسلام و پیغمبر اسلام (ص) کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے؟
کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ اسلام کے جانباز سپاہى کس شوق سے جہاد کے لئے جا رہے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں یہ سارى شان و شوکت، شوق کو دیکھتا رہوں اور چپ ہوکر بیٹھ جاؤں؟
کیا تم یہ کہتے ہو کہ میں بیٹھ جاؤں اور دوسرے لوگ میدان میں جائیں کافروں کے ساتھ جنگ کریں، شہادت کے فیض اور پروردگار کے دیدار سے شرف یاب ہوں اور میں محروم رہ جاؤں؟
نہیں اور ہرگز نہیں میں پسند نہیں کرتا کہ بستر پر مروں، میں باوجودیکہ بوڑھا و لنگڑا ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ شہید ہوجاؤں''_
چنانچہ انھوں نے کوشش کى کہ اس بوڑھے اور ارادے کے پکّے انسان کو جنگ سے روک دیں لیکن اس میں انھیں کامیابى نہ ملى او ربات اس پر ٹھہرى کہ پیغمبر اسلام(ص) کى خدمت میں جائیں اور آپ سے اس کے متعلق تکلیف معلوم کریں وہ لوگ حضور کے پاس گئے اور عرض کیا:
'' یا رسول اللہ (ص) میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں تا کہ اسلام و مسلمانوں کى مدد کرسکوں اور آخر میں

شہا دت کے فیض سے نوازا جاؤں لیکن میرا خاندان مجھے ادھر نہیں جانے دیتا''
پیغمبر اسلام (ص) نے جواب دیا:
'' اے عمرو جانتے ہو کہ بڑھاپے اور عضو کے ناقص ہونے کى وجہ سے تم پر جہاد واجب نہیں ہے''
عمرو نے کہا:
'' یا رسول اللہ (ص) کیا میرے عضو کا یہ نقص مجھے اتنے بڑے فیض اور نیکى سے محروم کرسکتا ہے؟''
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
'' جہاد تو تم پر واجب نہیں لیکن اگر تیرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں شرکت کرے تو اس سے کوئی مانع نہیں ہے''
اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے اس کے رشتہ داروں کى طرف نگا کى اور فرمایا کہ:
'' اس پر جہاد تو واجب نہیں ہے لیکن تم پر ضرورى نہیں کہ اصرار کرو اور اسے اس نیکى سے روکو اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دو اگر وہ چاہے تو جہاد میں شرکت کرے اور اس کے عظیم ثواب سے بہرہ مند ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسے شہادت نصیب ہوجائے''
عمرو نے خوش ہوتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کا شکریہ ادا کیا اور اپنى بیوى (ہند) اور دوسرے رشتہ داروں سے رخصت ہوکر میدان جنگ کى طرف روانہ ہوگیا_ اس نے میدان جنگ میں بڑى بہادرى سے جنگ لڑى اپنے بیٹوں کے ساتھ داد شجاعت لى دشمنوں کى کافى تعداد کو بلاک کیا اور آخر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوگیا_

اس جنگ میں چند لوگوں کى دنیا ظلم و کم صبرى اور نافرمانى کى وجہ سے شہداء کى تعداد زیادہ تھى جنگ کے خاتمہ پر شہر مدینہ کى عورتیں اپنے فرزندوں اور رشتہ داروں کے لئے میدان جنگ میں آئیں تا کہ اپنے رشتہ داروں کا حال معلوم کریں_ ہند سب سے پہلے میدان میں پہونچى اپنے شوہر، بھائی اور ایک فرزند کى لاش کو اونٹ پر رکھ کر مدینہ کى طرف روانہ ہوگئی تا کہ وہاں ان کو دفن کردے لیکن جتنى وہ کوشش کرتى تھى اس کا وہ اونٹ مدینہ کى طرف نہیں جاتا تھا بہت مشکل سے کئی قدم اٹھاتا پھر ٹھہر جاتا اور واپس لوٹ جاتا گویا وہ چاہتا تھا کہ احد کى طرف ہى لوٹ جائے اسى حالت میں چند عورتوں سے اس کى ملاقات ہوگئی جو میدان جنگ کى طرف جا رہى تھیں_ ان میں پیغمبر اسلام (ص) کى ایک زوجہ بھى تھیں آپ نے ہند سے احوال پرسى کى اور سلام کیا:
کہاں سے آرہى ہو؟
احد کے میدان سے
کیا خبر ہے؟
الحمد اللہ کہ پیغمبر اسلام (ص) صحیح و سالم ہیںمسلمانوں کا ایک گروہ شہید ہوگیا ہے اور چونکہ ہمارے پیغمبر(ص) سالم ہیں لہذا دوسرى مصیبتوں کو تحمّل کیا جاسکتا ہے خدا کا شکر ہے_
اونٹ پر کیا لادا ہے؟
تین شہیدوں کے جسم کو ایک میرا شوہر، ایک بیٹا اور ایک میرا بھائی ہے انھیں ہمیں لے جا رہى ہوں تا کہ مدینہ میں سپرد خاک کروں نہ جانے کیا بات ہے کہ جتنى کوشش کرتى ہوں کہ اونٹ کو مدینہ کى طرف لے چلوں اونٹ مدینہ کى طرف نہیں جاتا گویا اونٹ احد کى طرف واپس لوٹنا چاہتا ہے لہذا بہتر ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے پاس جائیں اور اس واقعہ کو آپ سے بیان کریں اور اس کا سبب پوچھیں_

240
پیغمبر اسلام (ص) کى خدمت میں گئیں اور پورے واقعہ کو آپ (ص) سے بیان کیا_ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ:
'' شاید جب تیرا شوہر جہاد میں جانے کے لئے رخصت ہو رہا تھا تو آخرى کوئی بات کہى تھى اس نے کوئی دعا کى تھی؟ یا رسول اللہ (ص) کیوں نہیں آخرى وقت اس نے اپنا سر آسمان کى طرف بلند کیا تھا اور کہا تھا: '' اے خدا مجھے شہادت کے فیض سے شرفیاب فرما اور پھر مجھے مدینہ واپس نہ لے آنا''
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
''خداوند عالم نے اس کى دعا کو قبول کرلیا ہے رہنے دو کیونکہ ہم تمھارے شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ یہیں دفن کردیں گے''
ہند نے قبول کیا پیغمبر اسلام (ص) نے ان تین شہیدوں کو دوسرے شہداء کے ساتھ وہیں دفن کردیا اور فرمایا کہ:
'' یہ بہشت میں ابھى اکھٹے ہوں گے''
ہند نے رسول خدا (ص) سے دعا کرنے کى خواہش کى اور کہا:
'' یا رسول اللہ (ص) دعا کیجئے کہ خداوند عالم مجھے بھى ان تینوں شہیدوں کے ساتھ محشور کرے''
پیغمبر اسلام (ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس صابرہ اور شہید پرور خاتون کے لئے دعا فرمائی_ خدا کرے کہ پیغمبر اسلام (ص) کى یہ دعا تمام شہید پرور ماؤں کےپیغمبر اسلام (ص) کى حدیث شریف:

 و فوق کل بر بر حتّى یقتل الرّجل فى سبیل اللہ فاذا قتل فى سبیل اللہ فلیس فوقہ بر
'' اور ہر نیکى کے اوپر ایک نیکى ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں قتل کردیا جائے اور جب کوئی راہ خدا میں قتل کردیا جائے تو پھر اس کے اوپر کوئی نیکى نہیں ہے''


سوالات
سوچیئےور جواب دیجئے
1)___ کیا مسلمان ننگ و عار اورذلّت کو قبول کرسکتا ہے؟ کیا کسى ظالم سے صلح کرسکتا ہے؟
2)___ مومن، وعدہ الہى کو پیش نظر رکھتے ہوئے کس امید پر میدان جنگ میں شرکت کرتا ہے؟ آخرت میں اس کى جزاء کیا ہے؟
3)___ دو میں سے ایک کون ہے؟
4)___ کس چیز نے عمرو کو میدان جنگ میں شریک ہونے پر ا بھارا تھا؟
5)___ عمرو نے میدان جنگ میں شریک ہونے کے لئے کون سے دلائل دیئےھے؟
6)___ عمرو نے جناب رسول خدا (ص) سے کیا گفتگو کى اور آخرى میں اس نے کیا ارادہ کیا تھا؟
7)___ ہند کى گفتگو ان عورتوں سے جو میدان احدم یں جا رہى تھیں کیا تھی؟
8)____ پیغمبر اسلام (ص) نے ہند سے کیا پوچھا تھا اور اس کے جواب دینے کے بعد اس سے کیا کہا تھا؟


شہیدوں کے پیغام


'' شہاد'' کتنى اچھى چیز ہے پورے شوق اور ایثار کى دنیا اس لفظ شہادت میں مخفى ہے_ جانتے ہو ''شہید'' کون ہے؟
شہید وہ بلند پایہ انسان ہے جو اللہ پر ایمان و عشق اور انسانى قدر و قیمت کے زندہ کرنے کے لئے اپنى عزیز جان کو قربان کرے_ یہ مادّى دنیا شہید کى بزرگ روح کے لئے چھوٹى اور تنگ ہے_
شہید اپنى فداکارى و بہادرى سے اپنے آپ کو دنیاوى قفس سے رہا کرتا ہے اور آخرت کى نورانى وسیع دنیا کى طرف پرواز کرجاتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اپنے رب سے رزق پاتا ہے_
شہید کا نام، اس کى فداکاری، اس کا اپنى جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور اس کى خلق خدا کى خدمات کا سننا یہ تمام کے تمام ایک مفید درس ہیں_
شہید کى قبر کى زیارت ، اس کے پیغام کا سننا اور اس کى وصیت کو سننا کتنا جوش و خروس لاتا ہے_
شہید کے آثار کا مشاہدہ کرنا انسان کے لئے کتنا ہى بیدار انسان کى جان میں جوش پیدا کردیتا ہے اور شہید کى یاد ایک آگاہ انسان کے لئے کتنى گرمائشے پیدا کردیتى ہے یہاں تک کہ شہید پر رونا آسمانى اور روحانى گریہ ہوتا ہے_
ذلّت و خوارى کا گریہ نہیں ہوا کرتا بلکہ عشق و شوق کے آنسو ہوا کرتے ہیں_ واقعا کوئی بھى نیک عمل، شہادت سے بالاتر اور قیمتى نہیں ہوا کرتا_ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کى عظمت کو کس خوبصورتى سے بیان کیا ہے آپ(ص) نے فرمایا ہے:
'' ہر نیک عمل کے اوپر کوئی نہ کوئی نیک عمل موجود ہوتا ہے مگر خدا کى راہ میں شہادت کہ جو ہر عمل سے بالاتر و قیمتى تر ہے اور کوئی عمل بھى اس سے بہتر و بالاتر نہیں ہے''
اسى عظیم مرتبہ و مقام تک پہونچنے کى علت تھى کہ جب حضرت على علیہ السلام کے سر مبارک پر تلوار لگى تو آپ (ع) نے فرمایا کہ:
' ' مجھے ربّ کعبہ کى قسم کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں''
اب جب کہ تمھیں شہادت و شہید کے مقام و رتبہ سے کچھ آگاہى ہوگئی ہے ہو تو بہتر ہوگا کہ چند شہیدوں کے پیغام کو یہاں نقل کردیں کہ جن سے عشق اور آزادگى کا درس ملتا ہے_
1)__ _ حضرت على علیہ السلام جو ہمیشہ شہادت کى تمنّا رکھتے تھے جب آپ کى پیشانى تلوار سے زخمى کردى گوئی اور آپ اپنى عمر کے آخرى لمحات کو طے کر رہے تھے تو آپ نے اس وقت یہ وصیّت فرمائی:
'' متقى و پرہیزگار بنو، دنیا کو اپنا مطمع نظر و ہدف قرار نہ دینا، دنیا کى دولت کى تلاش میں مت رہنا، دنیا کى دولت اور مقام تک نہ پہونچنے پر غمگین نہ ہونا، ہمیشہ حق کے طلبگار بنو، حق کہا کرو، یتیموں پر مہربان رہو، احکام الہى کے جارى کرنے میں مستعد رہنا اورکبھى کسى ملامت کرنے والے کى ملامت سے متاثر نہ ہونا''
2)___ جب امام حسین علیہ السلام شہادت کے لئے تیار ہوگئے تو اپنے اصحاب سے یوں فرمایا:
'' کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا ہے کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل سے نہیں روکا جا رہا ہے_ اس حالت میں مومن کو چاہیئے کہ اللہ تعالى کى ملاقات اور شہادت کے لئے آمادہ ہوجائے کیونکہ میرے نزدیک راہ خدا میں مرنا سوائے سعادت و کامیابى کے کچھ نہیں ہے اور ظالموں کے ساتھ زندگى سوائے افسردگی، دل تنگی، رنج اور مشقت کے کچھ نہیں ہے''
کیا ان دو پیغاموں میں خوف اور ڈرکى کوئی جھلک ہے؟ کیا ظالموں کے سامنے سر نہ جھکانے میں ذلّت و خوارى ہے؟ نہیں ہرگز نہیں جو شخص شہادت کو سعادت جانتا ہوگا وہ کبھى بھى ظلم و ستم کے سامنے سر نہ جھکائے گا_ نہ صرف ہمارے ائمہ علیہم السلام اس طرح کے تھے بلکہ ان کے صحیح پیروکار اور شاگرد بھى اسى طرح کے تھے ان صحیح پیروکاروں کى بعض اہم وصیتوں کى طرف توجہ کرو_
( یہ ان لوگوں کى وصیتیں نقل ہو رہى ہیں جو عراق و ایران جنگ میں ایران کى طرف سے شہید ہوئے ہیں)
1)___ ان میں سے ایک حوزہ علمیہ قم کے طالب علم محمود صادقى کاشانى ہیں؟
اپنے وصیّت نامہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
'' بسم رب الشّہداء اشہد ان لا الہ الّا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشہد انّ محمدا عبدہ و رسولہ''


خدا کا شکر ہے کہ میں نے حق کى جنگ میں جو باطل کے خلاف ہو رہى ہے شرکت کرنے کى سعادت حاصل کى ہے میرے پاس جو کچھ ہے میں نے مخلصانہ طور پر اللہ کے سامنے پیش کردیا ہے جس چیز کے اردگرد امام حسین علیہ السلام، ان کے یاران وفادار اور صدر اسلام کے شہید، پروانہ کى طرح چکّر لگا رہے تھے میں نے ھى اسے پالیا ہے یعنى وہ ہے ''شہادت''
آیا کوئی شخص یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کى آنکھوں کے سامنے ظالم و متجاوز اس کے اسلام و عزّت اور وطن کى طرف ہاتھ بڑھائے اور وہ خاموش دیکھتا رہے؟


اب میں جا رہا ہوں تا کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں اس آگ کو جو میرے اندر جل رہى ہے اسے بجھا سکوں_ میں بھى اب اس باصفا جنگ کے آشیانہ کى طرف پرواز کر کے اپنے جنگجو بھائیوں کے خالى مورچوں (محاذوں) کى طرف جا رہا ہوں لیکن مجھے اپنے رہبر زمانہ، حجّت عصر نائب امام آیت اللہ خمینى ( رضوان اللہ تعالى علیہ) جو آج کے بت شکن ہیں کى قدر دانى کرنى چاہیئے کیونکہ انھوں نے مجھے دنیا کے گرداب اور تاریکیوں سے کہ جن میں گر کرہیں تباہ ہونے کے قریب تھا اور وہ میرے ہادى و رہنما ہیں_
اے میرے جنگجو ساتھیو اور دوستو تم بہتر جانتے ہو کہ یہ انقلاب جو ایران میں لایا گیا ہے کس طرح کامیاب ہوا ہے
کتنے على اکبر (ع) ، على اصغر (ع) اور حبیب ابن مظاہر (ع) ... کے نقش قدم پر چلنے والوں کے قتل کئے جانے سے کامیباب ہوا ہے خدا نہ کرے کہ تم اس انقلاب سے بے توجہ ہوکر بیٹھ جاؤ اوردنیا کو آخرت پر ترجیح دو_ کسى غم و اندوہ کو اپنے پا سنہ آنے دو کیونکہ ہم ہى کامیاب ہیں_
اے میرے ماں باپ میرى سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں؟ ابّا جان مجھے یاد ہے کہ جب آپ قم آئے تھے تو میںنے دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ باپ کى رضا (جنگ میں جانے کے لئے) ضرورى ہے لہذا آپ بغیر کسى دریغ کے دفتر میں گئے اور اپنے راضى نامہ پردستخط کردیا_
اے میرى ماں مجھے یاد ہے کہ تونے میرے بڑا کرنے میں بڑى زحمتیں اٹھائی ہیںاور آخرى وقت جب میں تم سے جدا ہو رہا تھا تو یوں کہا تھا کہ:
'' محمود ہوشیار رہنا اور بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''
میرى پیارى ماںمیں محاذ جنگ پر تھا تو مجھے برابر تمھارا یہ جملہ یاد آتا تھا کہ بلاوجہ قتل نہ ہوجانا''_ امّاں میرى موت پر کہیں بے قرار نہ ہونا، لباس نہ پھاڑنا اور آخرى عمر تک ناراضگى کى آگ میں نہ جلاتے رہنا کیونکہ یہ دشمن کے طعن و تشنیع کا موجب ہوجائے گا_ میں اپنے گھروالوں اور رشتہ داروں کو وصیّت کرتا ہوں کہ اس انقلاب سے اور تمام جہان کے محروم طبقے کے رہبر انقلاب سے کنارہ کشى نہ کرنا_ خدا تمھارا یار و مددگار ہو''


2)___ تہران کے شہید سیّد على اکبر میر کوزہ گرنے اپنے بہترین اورپر مغز وصیت نامہ میں یوں تحریر کیا ہے:
'' حقیقت کے ترازو میں اللہ تعالى کے نزدیک کوئی قطرہ اس خون کے قطرہ سے کہ جو راہ خدا میں بہایا جائے بہتر نہیں ہوتا اور میں چاہتا ہوں کہ اس خون کے قطرے سے اپنے معشوق تک پہونچوں کہ جو خدا ہے_
میں وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد گریہ و زارى نہ کرنا میرے تمام دوستوں کومبارکباد دینا اور کہنا کہ وہ اس امّت اسلامى کے رہبر اور نائب امام کا ہدیہ خدا کى راہ میںہے اسى وجہ سے سیّد، جہاد کے لئے گیا ہے اور جام شہادت نوش کیا ہے''
اس شہید کے پیغام کو سنو کو ''جہاد'' دو چیزیں چاہتا ہے:
ایک وہ خون جو شہید دیتا ہے_
دوسرے شہید کا پیغام جو سب تک پہونچنا چاہیئے_
''میر باپ سے کہدینا کہ اب ہم اپنے جدّ بزرگوار کے سامنے شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ ان کا فرزند اس راستہ پرگیا ہے کہ جس پر امام حسین علیہ السلام اوران کى اولاد گئی تھی_ ابّا جان میرى وصیت آپ کو یہ ہے کہ میرے مشن کو آگے بڑھائیں''
3)___ خرّم شہر (جسے خونین شہر بھى کہا جاتا ہے) کے ایک فداکار پاسدار شہید حسین حمزہ کہ جنھوں نے صحیح طور سے قرآن اور وطن کى شجاعانہ و فداکارانہ پاسداری کى تھى وہ اپنى ماں کو آخرى خط مں یوں لکھتے ہیں:
'' اب جب کہ تیس دنوں سے کفّار کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں اور ہر دن اس امید پر دیکھتا ہوں کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اتنى طویل مدّت تک کیوں شہادت کا افتخار مجھے نصیب نہیں ہوا
میرى پیارى ماں
میں نے تم کو بہت ڈھونڈا تا کہ تمھارى وصیت کو سنوں لیکن تمھیں نہیں پایا_ جنگ کى ابتداء سے آج تک (یعنى 23/7/ 59 شمسی) ہمیشہ تمھارى ملاقات کى فکر میں تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا_


امّا جان
اگر تم مجھے نہ دیکھ سکى تو مجھے بخش دینا، تم بہتر جانتى ہو کہ میں اس انقلاب کى ابتداء سے ہمیشہ چاہتا تھا کہ اس مین میرا حصّہ رہے_ مادر جان میرى موت کى خبر سننے کے بعد اشک نہ بہانا اور میرى بہنون سے بھى کہنا کہ میرى موت پر اشک نہ بہائیں کیونکہ ہمارے موالا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے فرزند کى موت پر اشک نہیں بہائے تھے چونکہ حضرت جانتے تھے کہ اللہ کى رضا اسى میں ہے_


مادر گرامی
شائد میرا قرآن و اسلام کى راہ میں مرنا جوانوں میں جوش پیدا کردے نہ صرف میرى موت پر بلکہ تمام شہداء کى موت پر کہ جو اللہ کى راہ میں اسلام کے مقدس ہدف کے لئے ہوتى ہے، تم بھى خوش ہونا کہ اپنے فرزند کو راہ اسلام میں قربان کیا ہے_ آخرت میں حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام تم سے کوئی گلہ اور شکوہ نہ کریں گی_
یہ خط ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں کہ دشمن کے توپوں اور گولیوں کى آواز ہر طرف سے آرہى ہے_ میں اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے تو پوں کے گولے پھٹنے سے شہید ہو رہے ہیں_
اے میرے خدا تجھے تیرى وحدانیّت کى قسم دیتا ہوں اسلام کى راہ میں مجھے شہادت نصیبت کر اور میرے گناہوں کو بخش دے مجھے شہداء کى صف میں قرار دے_
خدایا مجھے طاقت و قدرت عنایت فرما اور مجھ پر لطف کر کہ عمر کے آخرى لمحے تک تیرا نام میرى زبان پر جارى رہے_ شکر ہے اس خدائے بزرگ کا کہ جس نے مجھ پر عنایت فرمائی ہے کہ میں اپنى جان اسلام پر قربان کروں، اسلام کامیاب ہو اور اسلام و قرآن کے دشمن نابود ہوں_ سلام ہو اس امت اسلامى کے رہبر انقلاب آقائے خمینى پر_ خداحافظ''
ان شہیدوں کے پیغام کا متن دوسرے ہزاروں شہیدوں کے پیغام کى طرف انقلاب اسلامى کى کتابوں کے بہترین صفحات پر لکھا جائے گا ہمیشہ کے لئے رہ جائے گا اور یہ آزادى و جاودانى کا درس ہوگا_ اے پڑھنے والے طالب علمو تم اس ا بدى پیغام کو دوبار پڑھنا، شہیدوں و آزاد منشوں کے پیغام سے زندگی، آزادی، شجاعت، دلیری، ایثار، مہربانی، عشق، خداپرستی، اخلاص و ایمان کا درس حاصل کرنا_

 

سوالات
سوچویے اور جواب دیجئے
1)___ پیغمبر اسلام (ص) نے شہید کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
2)____ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنى عمر کے آخرى لمحہ میں کیا کہا تھا؟ اس وصیّت میں کن کن چیزوں کو بیان کیا ہے؟
3)___ امام حسین علیہ السلام نے راہ خدا میں قتل ہوجانے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ مومن کوکب شہادت اور فداکارى کے لئے تیّار ہوجانا چاہیئے؟
4)___ طالب علم کاشانى نے اپنے وصیت نامہ کو کن جملوں سے شروع کیا ہے؟ درج ذیل جملوں کو اس کى وصیّت کے مطالعہ کے بعد پورا کیجئے:
1)__ '' خدا کا شکر کہ مجھے توفیق ملی ...
2)__ کیا کوئی برداشت کرسکتا ہے کہ ...
3)__ میں اب اپنے ساتھیوں کے خالى مورچے ...
4)__ اپنے رہبر، حجّت زمان، نائب امام (ع) ...
5)__ خدا کرے کہ تم کفّار ...
6)__ ابّا جان آپ کو یاد ہے جب آپ قم آئے تھے تو ...
7)__ امّا جان مجھے یاد ہے ...
8) میرے خاندان او ردوستوں کو ...


بہادر فوجیوں اور لڑنے والوں کے لئے دعا


امام زین العابدین علیہ السلام نے ''صحیفہ سجّادیہ'' میں اسلامى سرزمین کے محافظ فوجیوں کے لئے دعا فرمائی ہے کہ جس کے بعض جملوں کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے،
''بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
خدایا محمد اور آل محمد علیہم الصّلوة والسّلام کى پاک روح پر رحمت نازل کر اور مسلمانوں کے ممالک کى سرحدوں کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھ، سرحدوں کے قریب رہنے والوں کى حفاظت کر اور اپنے لطف و کرم کو ان پر زیادہ کر_
خدایا محمّد و آل محمّد علیہم السلام کى پاک روح پر درود بھیج سربازوں و پاسداروں کى تعداد میں اضافہ فرما اور ان کے ہتھیاروں کو دشمنوں کے خلاف تیزو کارگر، ان کے مورچوں کو شکست سے محفوظ رکھ_
اے میرے اللہ اسلام کے سپاہیوں کے حملوں کو دشمن کے ضرر سے محفوظ رکھ، لڑنے والوں میں اتحاد، برادرى و ہمکارى کے رشتے کو مضبوط کر اور انھیں ان کے کاموں کو منظم طور سے بجالانے کى توفیق عنایت فرما_
خدایا اپنے لطف سے ان کے خرچ کو پورا کر اور لڑائی کے وقت ان کا یار و مدددگار بن، اے میرے اللہ صبر و استقامت کے سائے میں انھیں کامیاب فرما، فوجى نقشے اور منصوبے میں ان کى راہنمائی فرما_
یا اللہ محمّد و آل محمد علیہم السلام کى پاک روح پر درود و رحمت بھیج ، خدایا ہمارے لڑنے والے فوجیوں کے دلوں کو جب وہ دشمن سے لڑ رہے ہوں دنیا کى فکر سے بے نیاز کردے ، ان کى توجہ زر و جواہر اور مال دنیا سے دور کر، انھیں اس طرح کردے کہ جنّت بریں کو اپنى آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بہشت کى عمدہ منازل و بہشتى فرشتوں کو دیکھ رہے ہوں، بہشت میوے، بلند درخت اور نہروں کو اپنى آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں، اولیائ، ابرار و شہداء کى صحبت میں رہنے کے مشتاق ہوں تا کہ وہ ان ذرائع سے خوف کو اپن دل میں نہ آنے دیں، ان کى قوّت میں استحکام پیدا ہو وہ باقوت ہوکر بہتر جنگ کرسکیں اور ہرگز ان کے دل میں فرار کا خیال نہ پیدا ہو_
خدایا ان سربازوں کے وسیلے سے کہ جنھوںنے اپنى جان اپنى ہتھیلى پر رکھى ہے دشمن کى طاقت کو شکست دے، دشمن کے درمان اختلاف پیدا کر، ان کے دلوں سے سکون و آرام کو ختم کر، ان کے ہاتھوں کو کھانے پینے کى چیزوں سے خالى کر، حیرت و پریشانى میں مبتلا کر،انھیں مدد و حمایت کرنے والوں سے محروم کر، ہمیشہ ان کى تعداد میں کمى کر اور ان کے دلوں کو خوف و ہراس سے پر کر_
اے میرے اللہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں کو تجاوز سے روک دے اور ان کى زبان کو گنگ کردے_ خدایا اس طرح ظالموں پر ہلاکت کو مسلّط کر کہ دوسروں کے لئے عبرت کا درس ہوجائے تا کہ دوسرے جرات نہ کرسکیں کہ وہ ہمارى سرحدوں پر حملہ کرسکیں اور اسلامى مملکت پر تجاوز کرسکیں_

پروردگار
وہ فوجى جو اسلام کى عظمت اور مسلمانوں کى فتح کے لئے لڑ رہے ہیں ان کى تائید فرما، لڑائی کى مشکلات کو ان پر آسان کر، اور انھیں فتح نصیب کر_ خدایا جنگجو ساتھیوں کے ذریعہ انھیں قوى کر اور اپى نعمتوں کو ان کے لئے زیادہ کر، خدایا شوق و ذوق کے اسباب ان کے لئے فراہم کر اور اپنے رشتہ داروں کے دیدار کو ان کے دلوں سے ختم کر اور وحشت و تنہائی کے غم کو ان کے دلوں سے دور کر_
خدایا فوجیوں کے دلوں کو بیوى اور اولاد کے احساس فراق کو ختم کر، انھیں حسن نیت، سلامتى و عافیّت عنایت فرما، دشمن کا خوف ان کے دلوں سے نکال دے اور انھیں عزّ و شہادت الہی
دشمن کے ساتھ لڑائی میں انھیں سخت مقابلہ اور مقاومت کى صلاحیّت عطا کر_ خدایا ہمارے سپاہیوں کو عمل و دیندارى کا جذبہ عطا کر اور فیصلہ کرنے میں ان کى صحیح راہنمائی فرما_ پروردگارا اپنے لطف سے ان کو ریاء اور خودپسندى سے دور رکھ_ الہى انھیں اس طرح کردے کہ ان کى فکر، رفتار و گفتار اور حضر و سفر فقط تیرے راستے اور تیرے لئے ہو_

خداوندا
لڑائی کے وقت دشمنوں کو ان کى نگاہ میں ضعیف دکھا، ان کو دشمنوں کے اسرار اور بھیدوں سے مطلع کردے اور خود ان کے بھیدوں کو دشمنوں سے مخفى کر_ الہی اگر وہ شہادت کے درجہ پر فائز نہ ہوئے ہوں تو انھیں اس طرح کردے کہ وہ دشمن کى ہلاکت ، اسارت اور فتح و کامیابى کے بعد یقینا مسلمان ہوں_

خدایا
جو مسلمان بھى لڑنے والوں کى غیر حاضرى میںان کے اہل و عیال کو پناہ میں لے لے اور ان کى ضرورتوں کو پورى کرتا رہے یا لڑنے والوں کے لئے جنگى ہتھیار و قوّت مہیا کرے یا وہ ان کى حوصلہ افزائی کرے تو اس قسم کے مسلمانوں کو اسلام کے سربازوں کا ثواب عطا فرما_ خدایا جو مسلمان، پاسداروں کے سامنے ان کى تعریف و ستائشے کرے یا ان کا شکریہ ادا کرے اور انکى غیر حاضریمیں ان کى تعریف کرے تو اس قسم کے مسلمان کو جو زبان سے دین کے محافظین کى تعریف اور شکریہ ادا کرے لڑنے والوں کا ثاب و جزاء عنایت فرما اور آخرت کے ثواب و جزاء سے پہلے اسى دنیا میں اسے جزائ، خوشى و شادمانى اور نشاط بخش دے_


پروردگارا
جو مسلمان، اسلام کى سربلندى کے لئے کوشاں ہے اور مسلمانوں کے مصائب سے رنجیدہ ہوتا ہے، راہ خدا میں جہاد کو دوست رکھتا ہے لیکن جسمى ناتوانى و کمزورى یا مالى فقر یا کسى دوسرے شرعى عذر کى وجہ سے خود جہاد میں شرکت نہیں کرسکتا اس کا نام بھى عبادت کرنے والوں میں درج کر، جہاد کا ثواب اس کا نامہ اعمال میں لکھ دے اور اسے شہداء و صالحین میں شمار کر''

آمین با ربّ العالمین

مندرجہ ذیل کلمات کو ملا کر ایک دعائیہ جملہ بنایئے
1)___ خدایا اسلامى مملکت کى سرحدوں کو_ دشمن _ حملے_ پناہ میں رکھ _
2)___ خدایا _ محافظین_ میں اضافہ فرما_
3)___ فوجیوں_ مورچوں_ بے آسیب_ دے_
4)___ اتحاد کو_ میں_ محکم_ دے_
5)___ سربازان اسلام_ کو نور_ روشن کردے_
6)___ فوجیوں کو_ کردے کہ وہ_ آنکھوں_ کو دیکھیں_
7)___ خدایا _ ہتھیلی_ جان_ رکھنے والوں کى وجہ _ کى طاقت کو ختم کردے_
8)___ خدایا _ جو مسلمان مجاہد_ میں_ مدد_ ہے_
9)____ خدایا _ آخرت کى جزاء سے_ دنیاوى _ فرما_

سوالات
ان سوالات کے جوابات دیجیئے
1)___ امام زین العابدین علیہ السلام دعا کے ضمن میں کن صفات کى اسلام کے فوجیوں کے لئے تمنّا کر رہے ہیں؟ ان میں سے پانچ صفتوں کو بیان کرو_
2)___ امام علیہ السلام نے ''خدایا دشمن کى طاقت کو ختم کردے'' کے جملے کے بعد کون سى چیز کو دشمن کى شکست کا سبب قرار دیا ہے؟
3)___ تین گرہوں کو بیان کر و جو مجاہدین کے ساتھ کے ثواب میں شریک ہوتے ہیں؟

 

اگر ماں ناراض ہو


ایک جوان بہت سخت بیمار ہوگیا اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا_ اس خبر کے سنتے ہى اس کے رشتے دار کى عیادت کے لئے گئے_ جوان موت و حیات کے عالم میں زندگى گذار رہا تھا درد و تکلیف سے نالہ و زارى کر رہا تھا، کبھى اسے آرام آتا اور کبھى تڑپنے لگتا اس کى حالت ، غیر تھی_
پیغمبر اسلام(ص) کو خبر دى گئی کہ ایک مسلمان جوان مدّت سے بستر بیمارى پر پڑا ہے اور جان کنى کے عالم میں ہے_ آپ(ص) اس کى عیادت کے لئے تشریف لے آئیں شائد آپ کے آنے کى برکت سے اسے آرام ہوجائے_ پیغمبر اسلام (ص) نے ان کى دعوت قبول کى اور اس جوان کى عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ اس کى حالت نے پیغمبر اسلام(ص) کو متاثر کیا_ کبھى وہ ہوش میں آتا اپنے اطراف میں دیکھتا، فریاد کرتا اور کبھى بے ہوش ہوجاتا اس کى صورت بہت خوفناک ہو رہى تھی_
وہ بات بھى نہیں کرسکتا تھا گویا کوئی اسى چیز دیکھ رہا تھا جو ددوسرے نہیں دیکھ رہے تھے اور شائد اپنى زندگى کے آخرى لمحات کو کاٹ رہا تھا اور اس کے سامنے آخرت کا منظر تھا اور وہاں کى سختى و عذاب کا مشاہدہ کر رہا تھا_
پیغمبر اسلام(ص) کہ جو دونوں جہاں سے آگاہ تھے آپ نے اس سے پوچھا:
'' تم کیوں اتنے پریشان ہو؟ کیوں اتنے رنج میں ہو اور فریاد کر رہے ہو؟

259
جوان نے آنکھیں کھولیں اور پیغمبر اسلام(ص) کے نورانى چہرہ کى زیارت کى اور بہت زحمت و تکلیف سے کہا:
'' یا رسول اللہ (ص) مجھے معلوم ہے کہ یہ میرى زندگى کے آخرى لمحات ہیں میں آخرت کى طرف جا رہا ہوں اب میں دو ترسناک اور بدنما شکلیں دیکھ رہا ہوں جو میرى طرف آرہى ہیں اور چاہتى ہیں کہ میرى روح کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں گویا چاہتى ہیں کہ مجھے میرے برے کام کى سزادیں_ یا رسول اللہ (ص) میں ان دونوں سے ڈرتا ہوں آپ میرى مدد کیجئے''
پیغمبر اسلام (ص) نے ایک ہى نگاہ سے سب کچھ سمجھ لیا تھا وہاں بیٹھنے والوں سے فرمایا:
'' کیا اس جوان کى ماں ہے؟ اسے یہاں بلایا جائے''
اس کى ماں نے بلند آواز سے گریہ کیا اورکہا:
'' یا رسول اللہ (ص) میں نے اپنے اس بیٹے کے لئے بہت تکلیفیں اٹھائیں کئی کئی راتیں جاگتى رہى تا یہ سوجائے کتنے دنوں میں نے کوشش کى کہ یہ آرام سے رہے، کبھى خود بھوکى رہتى اور اپنى غذا اسے دے دیتی، اپنے منھ سے لقمہ نکال کر اس کے منھ میں ڈالتی، ان سب کے باوجود جب یہ سن بلوغ و جوانى کو پہونچا تو میرى تمام زحمتوں کو بھلا بیٹھا، مجھ سے سختى سے پیش آنے لگا اور کبھى مجھے گالیاں تک دیتا_ یہ میرا احترام نہیں کرتا تھا اور اس نے میرا دل بہت دکھایا ہے _ میںنے اس کے لئے بد دعا کى ہے''_


رسول خدا(ص) نے اس کى ماں سے فرمایا:
'' یقینا تیرے بیٹے کا سلوک تیرے ساتھ برا تھا اور تجھے ناراض ہونے کا حق ہوتا ہے لیکن تم پھر بھى ماں ہو، ماں مہربان اور در گذر کرنے والى ہوا کرتى ہے اس کى جہالت کو معاف کردے اور اس سے راضى ہوجاتا کہ خدا بھى تجھ سے راضى ہوجائے''
اس رنجیدہ ماں نے ایک محبت آمیز نگاہ اپنے بیٹے پر ڈالى اور کہا:
'' خدایا میںنے تیرے پیغمبر(ص) کى خاطر اپنے بیٹے کو بخش دیا ہے تو بھى اسے بخش دے'' _
پیغمبر اسلام(ص) نے اس کا شکریہ ادا کیا اوراس کے بیٹے کے حق میں دعا کى اور جوان کے لئے خدا سے مغفرت طلب کی_ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام(ص) کى دعا اور اس کى ماں کے راضى ہونے کے سبب اس جوان کے گناہ بخش دیئے_
اس وقت جب کہ جوان اپنى عمر کے آخرى لمحات کاٹ رہا تھا اس نے آنکھ کھولی، مسکرایا اور کہا:
'' یا رسول اللہ (ص) آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہ خوفناک دو شکلیں چلى گئی ہیں اور دو اچھے چہرے میرى طرف آرہے ہیں'' _
اس وقت اس نے اللہ تعالى کى وحدانیّت اور حضرت محمد مصطفى صلّى اللہ علیہ و آلہ و سلّم کى نبوّت کى گواہى دى اور مسکراتے ہوئے ا س کى روح، قفس عنصرى سے پرواز کرگئی_

خداوند عالم قرآن میں ماں باپ کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسى کى پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کى بے احترامى ہرگز نہ کرنا اور بلند آواز سے ان سے گفتگو نہ کرنا ہمیشہ مہربانى اور ادب سے ان کے ساتھ بات کرنا''_
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
'' جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کے پیوند کو مضبوط کرے اورماں باپ کے ساتھ خوش رفتار و مہربان ہو تو اس پر موت کى سختیاں آسان ہوجاتى ہیںاور دنیا میں بھى فقیر و تہى دست نہیں رہتا''_
قرآن کى آیت:
وقضى ربّک الّا تعبدوا الّا ایّاہ و بالوالدین احسانا اما یبلغنّ عندک الکبر احدہما او کلاہما فلا تقل لہما اف و لا تنہرہما و قل لہما قولا کریما (سورہ بنى اسرائیل آیت 23)
'' خدا نے حکم دیا ہے کہ سوائے اس کے کسى کى پرستش مت کرم اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو، اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو ان کى ہرگز بے احترامى نہ کرو اور بلند آواز سے ان کے س اتھ کلام نہ کرو اور ہمیشہ مہربان اور با ادب ہوکر ان کے ساتھ گفتگو کرو_