پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پہلا حصّہ جہاں كا خالق خدا

پہلا حصّہ
جہاں کا خالق خدا



بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس حصہ کے آغاز میں ہم چند طالب علموں کى اپنے چچا سے اس دنیا کى پیدائشے کے متعلق اور اس کے نظم و ضبط سے مربوط سادہ اور آسان گفتگو پیش کریں گے اور اسى حصہ میں پھر اس موضوع پر بھر پور روشنى ڈالیں گے_

کائنات کى تخلیق میں ہم آہنگى کس بات کا ثبوت ہے؟
میرے چچا ایک خوش سلیقہ اور محنتى زمیندار ہیں، اپنى دن رات کى کوشش اور محنت سے ایک بہت عمدہ اور خوبصورت باغ اور فارخم بنا رکھا ہے_ وہ دیہات کى زندگى اور زراعت کے پیشے کو بہت دوست رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زراعت بہت عمدہ پیشہ ہے_
بہار کے موسم میں ایک دن انھوں نے ہمیں اپنے باغ میں دعوت دى تھى وہ ایک بہت زیبا اور باصفا باغ تھا اس کے درخت پھولوں سے لدے ہوئے تھے باغ کے وسط میں ایک مکان تھا ہمارے ماں، باپ اور چچا اس مکان میں چلے گئے اور ہم باغ کى سیز میں مشغول ہوگئے وہ دن بہت ہى پر کیف تھا ہم کھیل کھود میں مشغول تھے کہ اتنے میں بادل چھاگئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی کہ جس نے ہمارے کھیل کود کو ختم کردیا_

ہم دوڑتے ہوئے مکان کى طرف گئے جب ہم مکان تک پہنچے تو بالکل تر ہوچکے تھے میں نے کہا کہ بارش نے ہمارے کھیل کو ختم کردیا ہے کاش بارش نہ آتى اور ہم کھیل کود میں مشغول رہتے_
میرے چچا نے تبسم کیا اور مجھے جب کہ وہ میرے لئے گرم دودھ ڈال رہے تھے کہا کہ بہت زیادہ پریشان نہ ہو، اگر بارش نہ آئے تو ایک مدّت کے بعد پیاس اور بھوک سے گائے مرجائیں گى اس صورت میں تم کیسے دودھ پى سکو گے؟ کیا تمہیں خبر نہیں کہ ہمارى اور تمام موجودات کى زندگى کا بارش سے تعلق ہوتا ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر بارش نہ آئے تو یہ سر سبز اور خرم درخت اور نباتات خشک اور پمردہ ہوجائیں گے؟ اگر بارش نہ آئے تو ہم بھى زندہ نہ رہ سکیں گے کیونکہ ہم حیوانات کے گوشت اور دودھ سے استفاہ کرتے ہیں اور میوہ جات اور سبزیاں اور اناج سے استفادہ کرتے ہیں؟
اس وقت ایک بچہ نے پوچھا: چچا جان باراش کس طرح بنتى ہے؟ چچا نے کہا: تم نے بہت اچھا اور عمدہ سوال کیا ہے_ کون حسن کا جواب دے سکتا ہے؟ میں جب کہ کھڑکى سے بارش کى موٹى موٹى بوندیں دیکھ رہا تھا اور بارش کے ختم ہوجانے کا انتظار کر رہا تھا_ یہ کتنا عام سوال ہے_ معلوم ہے کہ آسمان کے بادلوں سے بارش ہوتى ہے_
کاش کہ یہ بادل چھٹ جاتے اور بارش ختم ہوجاتى اور ہم پھر سے باغ میں جاتے اور کھیلتے_ چچا ہنسے اور مجھ سے کہا: بیٹے تمہیں کتنا کھیل کود کا خیال ہے_ حسن نے دوبارہ پوچھا کہ آسمان پر بادل کیسے آجاتے ہیں؟
چچا نے کہا کہ بادل دریا اور سمندر سے آسمان پر آجاتے ہیں_ حسن نے پھر پوچھا کہ بادل، آسمان پر کیسے آتے ہیں؟ یہاں تو کوئی دریا اور سمندر موجود نہیں ہے میں نے کہا: حسن کتنے سوال کر رہے ہو؟ آج تو ان سوالوں کا وقت نہیں، تم پوچھو کہ بارش کب ختم ہوگی؟ چچا ہنسے اور کہا کہ آج ہى تو ان سوالوں کا وقت ہے تم جس چیز کو نہیں جانتے اس کا سوال کرو اگر سوال نہیں کروگے تو اسے معلوم نہیں کرسکوگے_
پھر انھوں نے حسن بھائی کے لباس کى طرف اشارہ کیا اورکہا:
'' تم اپنے بھائی کے لباس پر نگاہ کرو کہ کس طرح اس سے بخارات اٹھ رہے ہیں، پانى کى ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ گرمى کى درجہ سے وہ بخار بن جاتا ہے اور پھر بخار اوپر اٹھتا ہے، دیکھو اکتیلى سے کس طرح بخار نکل رہے ہیں اور اوپر جارہے ہیں سمندر کا پانى بھى سورج کى تمازت سے بخار بن کر اوپر جاتا ہے اور بخارات ہوا کے چلنے سے چلنے لگتے ہیں اور ادھر ادھر حرکت کرنے لگتے ہیں اور آپس میں اکٹھے ہونے لگتے ہیں اور بادل کى شکل اختیار کرلیتے ہیں اور بارش برسانے کے لئے مہیا ہوجاتے ہیں اور زمین پر بارش برساتے ہیں تا کہ درخت پانى سے سیراب ہوکر پھول اور کونپلیں نکالنے لگیں_
بارش کے قطرے تدریجاً زمین پر پڑتے ہیں اور زمین میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور پھر پہاڑوں کے دامن سے چشموں کى شکل میں پھوٹ پڑتے ہیں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پائے جاتے ہیں اور بالآخر پھر سے دریا یا سمندر کى طرف لوٹ جاتے ہیں_

بارش کے قطرات سخت سردى میں برف کى شکل اختیار کرلیتے اور بہت نرم و خوبصورت ہوکر زمین پر گرپڑتے ہیں_
بچّو سوچو اگر پانى نہ ہوتا اور بارش نہ ہوتى تو کیا ہم زندہ رہ سکتے؟ سوچو اور دیکھو کہ اگر پانى بخارات نہ بنتا تو کیا ہوتا___؟ اور اگر بخارات، آسمان کى طرف جاتے لیکن برف اور بارش کى شکل میں دوبارہ نہ لوٹتے تو بیابان او رجنگل و زراعت اور صحرا کس طرح سیراب ہوتے___؟
____ غور کرو اور بتاؤ کہ ____؟
اگر بارش قطرہ قطرہ ہوکر نیچے نہ آتى تو کیا ہوجاتا____؟
مثلا اگربارش ایک بہت بڑى نہر کى صورت میں نیچے آتى تو کیا ہوتا؟ آیا تدریجاً زمین پر گرسکتی___ ؟ یا تمام چیزوں کو بہاکر اپنے ساتھ لے جاتی___؟
کیا تم خوب سمجھ چکے ہو کہ بارش کس طرح بنتى ہے___؟ کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ یہ زندگى بخش مادّہ پانى کس حیران کن ضبط اور ترتیب سے مادّہ میں گردش کرتا ہے___؟ اب سمجھ گئے ہو کہ سوال کرنا کتنا فائدہ رکھتا ہے_
''فرشتہ'' نامى لڑکى جواب تک غور سے گفتگو سن رہى تھی، یکدم بولی: کتنا عمدہ اور بہتر سورج، سمندر پر چمکتا ہے اور پانى بخارات بنتا ہے اور پھر اوپر چلاجاتا ہے اور بادل بن جاتا ہے اور ہوائیں اسے ادھر ادھر لے جاتى ہے اور بادل بارش کے قطرات کی

صورت میں زمین پر گرتے ہیں اور بیابان و جنگل و زراعت و صحراء کو سیراب کردیتے ہیں_ کتنے دقیق و منظم اور بہتر طریقے سے ایکدوسرے سے ملتے ہیں_
کیا تم بتاسکتے ہو کہ یہ تمام نظم اور ایک دوسرے سے ربط کس ذات نے مختلف اشیاء میں قرار دیا ہے___؟
اس عمدہ اور دقیق ربط کو کس نے ایجاد کیا ہے؟ چچا نے کہا کہ اگر تم مجھے اجازت دو تو اس کے متعلق اپنا نظر یہ بیان کروں اس کے بعد تم بھى اپنے نظریات کا اظہار کرنا_
میرا خیال ہے کہ یہ تمام دقیق ربط اور ضبط اس چیز کى نشاندہى اور گواہى دیتا ہے کہ اسے پیدا کرنے والا بہت دانا اور قدرت رکھنے والا ہے کہ جس نے اس جہاں کو اس مستحکم نظام سے پیدا کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے_ میرى فکر یہ ہے کہ اس نے اس عمدہ اور دقیق نظام کو اس لئے بنایا ہے تا کہ جڑی، بوٹیاں، درخت و حیوان اور انسان زندہ رہ سکیں_ تمھارا کیا نظریہ ہے____؟


تمام بچّوں نے کہا: چچا جان


''آپ کى بات بالکل صحیح ہے اور درست فرما رہے ہیں_ یہ دنیا اور اس کا نظم و ضبط ایک واضح نشانى ہے کہ کوئی عالم و قادر اور خالق موجود ہے''_
درست ہے کہ بارش کس عمدہ طریقہ سے برستى ہے، بارش کتنى خوبصورت اور فائدہ مند ہے میں نے کہا: یہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن بارش نے ہمارے کھیل کو دکو تو ختم کر کے رکھ دیا ہے اگر اسے ختم نہ کرتى تو کتنا اچھا ہوتا_ فرشتہ نامى لڑکى نے تبسّم کیا اور کہا:
'' اللہ تعالى نے قرآن مجید میں بارش کے برسنے ، ہواؤں کے چلنے، زندہ موجودات اور ان میں محکم نظم و ضبط کو جو موجود ہے خالق جہان کے علم اور قدرت پر ایک واضح علامت اور نشانى قرار دیا ہے''
دیکھو قرآن کیا کہہ رہا ہے ( کہ وہ بارش کہ جسے خدا آسمان سے برساتا ہے اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور حرکت کرنے والے موجودات کو زمین پر پھیلا د یتا ہے_ ہواؤں کے چلنے اور وہ بادل کہ جو زمین اور آسمان کے درمیان موجود ہیں ان سب چیزوں میں ایک واضح نشانى موجود ہے کہ خدا عالم اور قادر ہے البتہ یہ سب ان کے لئے جو عقل اور سوچ رکھتے ہوں اور غور کریں) ہم سب نے چچا اور فرشتہ کا شکریہ ادا کیا_ چچا نے کہا:
شاباش اس پر کہ تم نے یہ تمام گفتگو سنى اور اس کا نتیجہ بھى برآمد کیا''
پھر کمرے کى طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دیکھو کس طرح بادل ادھر جارہے ہیں شاید چند منٹ کے بعد بارش ختم ہوجائے گى کہ باغ کى طرف جانے اور بہار کى عمدہ ہوا میں کھیل کود اور اللہ تعالى کى اس نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ _ تمام ہنسے اور خوشحال وہاں سے اٹھے اور کھڑکى کے نزدیک بارش کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے_


سوالات
ان سوالات کے جوابات دیجئے
1)___ جب نرگس نے کہا تھا کہ کاش بارش نہ آتى تو چچا على نے اسے کیا جواب دیا تھا؟
2)___ بادل آسمان پر کیسے آتے ہیں؟ یہ سوال کس نے کیا تھا؟ اور چچا على نے اس کا کیا جواب دیا تھا؟
3)___ ''فرشتہ'' نامى لڑکى نے کون سے سوال پوچھے تھے اور اس کا کس نے اور کیا جواب دیا تھا؟
4)___ دنیا میں نظم و ضبط کا موجود ہونا کس چیز کى علامت ہے کوئی ایک نظم اور ربط بیان کرو_


دنیا میں پانى کى گردش


ہم آہنگى کى ایک عمدہ اور واضح مثال ہے_ موجودات میں پانى کى تقسیم کا نظام بہت تعجب آور ہے پانى کا اصلى مرکز دریا، نہریں اور سمندر ہیں_ ان پر برکت اور مستغنى مراکز سے پانى زمین میں تقسیم ہوتا ہے_ سمندروں اور دریا کا پانى سورج کى تمازت سے آہستہ آہستہ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور آسمان کى طرف چلاجاتا ہے اور ہواؤں کى وجہ سے بخارات ادھر ادھر جات ہیں او ر حب ایک خاص حد تک دباؤ پڑتا ہے تو بخارات بادل کى شکل اختیار کرلیتے ہیں یعنى بخارات اکٹھے ہوتے ہیں اور تیز اور سست ہوا کے چلنے سے حرکت میں آجاتے ہیں اور زمین کے مختلف گوشوں میں اکٹھے ہوکر بارش برسانے کے لئے مہیا ہوجاتے ہیں اور بلند پہاڑوں کى چوٹیوں پر درختوں، نباتات اور دور دراز جنگلوں کو سیراب کردیتے ہیں_
بارش کا پانى بالتدریج زمین پر آتا ہے اور زمین میں ضرورت کے ایام کے لئے ذخیرہ ہوجاتا ہے یہ ذخیرہ شدہ پانى کبھى چشموں کى صورت میں پہاڑوں کے دامن سے ابل پڑتا ہے اور کبھى انسان اپنى کوشش اور محنت سے کنویں اور نہرین بنالیتا ہے_
انسان، زمین میں چھپے ہوئے بہترین منابع ہے استفادہ کرتے ہیں_ بارش کے قطرات، خاص حالات کے تحت برف کى صورت اختیار کرلیتے ہیں اور گردش کرتے ہوئے بہت نرمى اور خوبصورتى سے زمین پر گرنے لگتے ہیں_ برف، نباتات کے لئے بہت فائدہ مند ہوتى ہے جو کہ آہستہ آہستہ پانى بن جاتى ہے اور زمین کے منابع میں ذخیرہ ہوجاتى ہے یا نہر اور دریاؤں میں جاگرتى ہے ضرورت مند لوگوں کے کام آجاتى ہے پھر سمندروں میں چلى جاتى ہے_ پانى کا بخارات بننے، اوپر چلاجانے اور ادھر ا دھر پھیل جانے کى خاصیت بھى قابل غور اور لائق توجہ ہے_
اگر ہوا میں طاقت نہ ہوتى تو بادل کیسے ہوا میں پھیلتے اور کیسے ادھر ادھر جاتے؟ اگر سورج میں گرمى اور تمازت نہ ہوتى تو کیا سمندر کے پانى بخارات میں تبدیل ہوجاتے؟ اور اگر سمندر کا پانى سوڈ گرى تک گرم ہوجاتا تو کیا تمام موجودات کى ضروریات کے مطابق قرار پاتا___؟ کیا اس صورت میں انسان زندہ رہ سکتا تھا؟ اور اگر بارش قطرات کى صورت میں نہ برستى تو پھر کون سى مشکلات پیدا ہوجاتیں؟ مثلاً اگربارش اکٹھے نہر کى صورت میں زمین پر برستى تو کیا ہوتا___؟ کیا ہوسکتا کہ تدریجاً زمین پر آتى اور زمین میں ذخیرہ ہوجاتی___؟
بارش اور برف کى ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ ہوا کو صاف اور ستھرا کردیتى ہے اگر بارش ہوا میں زہر اور کثافت کو صاف اور پاک نہ کرتى تو کیا ہم اچھى طرح سانس لے سکتے؟ اب آپ خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ پانى و برف اور بارش میں کتنى قیمتى خصوصیات موجود ہیں_
سمندر، سورج، ہوا، بادل اور بارش کس طرح دقیق نظم و ضبط سے ایک دوسرے سے ربط کے ساتھ کام انجام دے رہے ہیں ؟ یہ کام انجام دیتے ہیں تا کہ ہمارى اور حیوانات و موجودات کى زندگى کے وسائل فراہم کریں_ یہ نظم و ضبط اور ترتیب و ہماہنگى اور ہمکارى کس بات کى گواہ ہے___؟ کیا اس کا بہترین گواہ نہیں کہ اس باعظمت جہاں

کى خلقت میں عقل اور تدبیر کو دخل ہے؟ کیا یہ نظم و ضبط اور ترتیب و ہماہنگى ہمیں یہ نہیں بتا رہى ہے کہ ایک عالم اور قادر کے وجود نے اس کى نقشہ کشى کى ہے اور یہ وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام موجودات کو خلق فرمایا ہے اور جس چیز کى انھیں ضرورت تھى وہ بھى خلق کردى ہے_
اب جب کہ تم پانى کے خواص اور اہمیت سے اچھى طرح باخبر ہوچکے ہو تو اب دیکھنا ہے کہ اللہ تعالى نے اس نعمت کے مقابلے میں ہمارے لئے کون سا وظیفہ معین کیا ہے؟ اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس پر برکت نعمت سے استفادہ کریں اور اس ذات کى اطاعت و شکریہ ادا کریں اور متوجہ رہیں کہ اسے بیہودہ ضائع نہ کریں اور اسراف نہ کریں بالخصوص نہروں و غیرہ کو آلودہ نہ کریں اور زیرزمین منابع کى حفاظت کریں تا کہ دوسرے بھى اس سے استفادہ کرسکیں_
اس بارے میں قرآن کى آیت ہے:
اللہ الذى یرسل الرّیاح فتثیر سحابا فیبسطہ فى السّماء کیف یشاء و یجعلہ کسفا فترى الودق من خلالہ فاذا اصاب بہ من یشاء من عبادہ اذا ہم یستبشرون
''خدا ہے کہ جس نے ہوائیں بھیجى ہیں تا کہ بادلوں کو حرکت دیں اور آسمان میں پھیلادیں اور انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بدلیں اور اکٹھا کریں بارش کے قطرات کو دیکھتے ہو کہ جو بادلوں سے نازل ہوتے ہیں_ خدا بارش کو جس کے متعلق چاہتا ہے نازل کرتا ہے تا کہ اللہ کے بندے شاد ہوں'' سورہ روم آیت نمبر 48

سوالات
ان سوالوں کے جوابات کے سوچو اور بحث کرو
1)___ موجودات اور مادہ میں پانى کى گردش کس طرح ہوتى ہے؟
2)___ تم پانى کے فوائد بیان کرسکتے ہو اور کتنے؟
3)___ جانتے ہو کہ بارش کے آنے کے بعد کیوں ہوالطیف ہوجاتى ہے؟
4)___ چشمے کس طرح بنتے ہیں؟ نہریں کس طرح وجود میں آتى ہیں، چشموں اور نہروں کا پانى کس طرح وجود میں آتا ہے؟
5)___ ربط، ایک دوسرے کى مدد، ہم آہنگی، دقیق نظام جو جہاں میں موجود ہے اس کا تعلق طبیعت میں پانى کى گردش سے کیسے ہے؟ اسے بیان کرو_
6)___ یہ نظم و ترتیب اور ہم آہنگى کس چیز کى گواہ ہے؟
7)___اس حیات بخش نعمت کے مقابل ہمارا کیا وظیفہ ہے؟ اللہ تعالى نے ہمارے لئے کون سا وظیفہ معین کیا ہے؟


ایمان او رعمل


ہمارى کلاس کے استا د بہترین استادوں میں سے ہیں_ آپ پوچھیں گے کہ کیوں؟ خوش سلیقہ، بامقصد، مہربان و بردبار اور خوش اخلاق ہیں، وہ ہمیشہ نئی اور فائدہ مند چیزیں بیان کرنا چاہتے ہیں_ سبق پڑھانے میں بہت پسندیدہ طریقہ انتخاب کرتے ہیں_ شاید تمھارے استاد بھى ایسے ہى ہوں تو پھر وہ بھى ایک بہترین استاد ہوں گے_
ایک دن وہ کلاس میں آئے تو ہم ان کى تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے_ انھوں نے ہمیں سلام کیا اور ہم سب نے ان کے سلام کا جواب دیا پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر درس دینا شروع کردیا اور فرمایا:
''بچّو آج ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بدن کے متعلق تازہ اور عمدہ مطالب معلوم کریں_ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ مدد سے کے صحن میں ان اینٹوں کے نزدیک بیٹھ کر درس پڑھیں جو مدرسہ کے ایک گوشہ میں نامکمل عمارت کے پاس پڑى ہیں''؟
آپ کہ یہ خواہش عمدہ تھى اور ہمیں ان کى بات سے بہت خوشى ہوئی اور ہم سب اس طرف چلے گئے مسترى اور مزدوروں کو سلام کیا اور اس درس کى کلاس اس نامکمل عمارت کے پاس لگادی_ استاد نے درس دینا شروع کردیا اور فرمایا:
'' جیسے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ عمارت مختلف چیزوں سے یعنی اینٹوں، سیمنٹ اور لوے و غیرہ سے بنائی گئی ہے، تم ذرا نزدیک جاکر دیکھو کہ مسترى کس طرح اس نقشہ کے مطابق کہ جسے پہلے سے بنا رکھا ہے_ تمام اجزا کو پہلے سے سوچے ہوئے مقامات پر رکھ رہا ہے اور اس کام میں ایک خاص نظم اور تربیت کى مراعات کر رہا ہے_
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کى اس سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہے آیا تم نے کبھى اپنے بدن کى عمارت میں غور کیا ہے؟ آیا تم اپنے بدن کے چھوٹے اجزاء کو جانتے ہو___؟ ہمارے بدن کى عمارت کے چھوٹے سے چھوٹے جز کو خلیہ کہا جاتا ہے ہمارے بدن کى عمارت ان اینٹوں کى عمارت کى طرح بہت چھوٹے اجزاء سے کہ جسے خلیہ کہا جاتا ہے بنى ہوئی ہے_
تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ذرّہ بین کى اختراع سے پہلے لوگ ان خلیوں سے بے خبر تھے_ علماء نے ذرہ بین کے ذریعہ خلیوں کا پتہ چلایا جس سے معلوم ہوا کہ پورا بدن بہت باریک اور چھوٹے زندہ اجزاء سے بنایا گیا ہے اور ان کا نام خلیفہ رکھا_ بہت سے اتنے چھوٹے ہیں کہ بغیر ذرّہ بین کے نظر نہیں آتے کچھ بغیر ذرہ بین کے بھى دیکھے جاسکتے ہیں_
خلیوں کى مختلف شکلیں ہوا کرتى ہیں اور ہر ایک قسم ایک خاص کام انجام دیتى ہے مثلا معدہ کے خلیے، بدن کے اجزاء کو حرکت میں لاتے ہیں_ بینائی کے خلیے جن چیزوں کو حاصل کرتے ہیں اعصاب کے ذریعہ مغز تک منتقل کردیتے ہیں_
ہاضمہ کے خلیے اس کے لیس دار پانى کے ساتھ مل کر غذا کے ہضم کرنے کے نظام کو انجام دیتے ہیں_ یہاں تک کہ بدن کى ہڈیوں کے لئے بھى زندہ خلیے موجود ہوا کرتے ہیں_ بدن کے خلیے ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب سے بدن میں رکھے گئے ہیں ان کے درمیان تعجب آور ہماہنگى اور ہمکارى موجود ہے یہ ایک دوسرے کى مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام اور ضرورت کو انجام دیتے ہیں_
یوں نہیں ہوتا کہ معدہ کے ہاضمہ کے خلیے صرف اپنے لئے غذا مہیا کریں بلکہ تمام بدن کے دوسرے خلیے کى بھى خدمات انجام دیتے ہیں اور تمام اعضاء کے لئے غذا بناتے ہیں اگر کسى عضو پر تکلیف وارد ہو تو تمام خلیے اکٹھے ہوکر اس عضو کى تکلیف کو درست کرنا شروع کردیتے ہیں_
ہاں بچو اس نظم و ضبط اور تعجب و ہمکارى سے جو ہمارے بدن میں رکھ دى گئی ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟
کیا یہ نہیں سمجھ لیتے کہ ان کو پیدا کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمارے بدن میں ایک خاص نظام اور ہماہنگى کو خلق کیا ہے اور وہ عالم اور قادر ذات ''خدا'' ہے_
بچو تم جان چکے ہو کہ خلیے کس تعجب و نظم اور ترتیب سے ایک دوسرے کى ہمکارى کرتے ہیں___؟

اور ایک دوسرے کى مدد و کمک کرتے ہیں اسى وجہ سے خلیے زندہ رہتے ہیں اور زندگى کرتے ہیں_
ہم انسان بھى خالق مہربان کے حکم اور اس کے برگزیدہ بندوں کى رہبرى میں انھیں بدن کے خلیوں کى طرح ایک دوسرے کى مدد و ہمکارى اور کمک کریں اگر ہم ایک دوسرے کى مدد کیا کریں تو اس جہاں میں آزاد و کامیاب اور سربلند زندگى کرسکیں گے اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم ہوا کریں گے اور اللہ تعالى ہمیں بہت نیک جزا عنایت فرمائے گا_
میں تم سب سے خواہش کرتا ہوں کہ راستے میں جو انیٹیں پڑى ہوئی ہیں سب ملکر انھیں راستے سے ہٹاکر اس مکان کے اندر داخل کردو تا کہ ان مزدوروں کى مدد کرسکو''_
تمام بچوں نے اپنے استاد کى اس پیش کش کو خوش و خرم قبول کرتے ہوئے تھوڑى مدت میں ان تمام اینٹوں کو مکان کے اندر رکھ دیا جو باہر بکھرى پڑى ہوئی تھیں_ استاد نے آخر میں فرمایا:
''آج کا سبق ایمان اور عمل کا درس تھا ہم اپنے بدن کى ساخت کے مطالعہ سے اپنے خدا سے بہتر آشنا ہوگئے ہیں اور مزدوروں کى مدد کرنے سے ایک نیک عمل بھى بجالائے ہیں اور اپنے خدا کو خوشنود کیا ہے''_


سوالات
ان سوالات کے جوابات دیجئے


1)___ ہمارے بدن کى ساختمان کے چھوٹے سے چھوٹے جز کا کیا نام ہے؟ تم کو کتنے خلیوں کے نام یاد ہیں___؟
2)___ معدہ کے ہاضمہ کے خلیہ کا دوسرے خلیوں سے کیا ربط ہے___؟
3)___ جب کسى خلیہ کو تکلیف ہوتى ہے تو اس کى ترمیم کردینے سے ہم کیا سمجھتے ہیں، خلى کے ایک دوسرے سے ربط رکھنے سے کیا سمجھا جاتا ہے___؟
4)___ اگر ہمارے بدن کے خلیے ایک دوسرے سے ہماہنگى نہ کرتے تو کیا ہم زندگى کرسکتے___؟
5)___ ہمارے بدن میں تعجب آور جو ہماہنگى اور ہمکارى پائی جاتى ہے اس سے ہم کیا سمجھتے ہیں___؟
6)___ ہم انسان کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ زندگى بسر کریں___؟
7)___ استاد نے آخر میں کیا خواہش ظاہر کی، تمھارے خیال میں استاد نے وہ خواہش کیوں ظاہر کی___؟
8)___ کیا بتاسکتے ہو کہ استاد نے اس سبق کو کیوں ایمان اور عمل کا نام دیا___؟

 

 

بہترین سبق


دوسرے دن وہى استاد کلاس میں آئے اور کل والى بحث کو پھر سے شروع کردیا اور فرمایا: ''پیارے بچو تم نے کل کے سبق میں پڑھا تھا کہ ہمارے بدن کى ساخت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہوئی ہے کہ جنھیں خلیے کہا جاتا ہے یہ خلیے ایک خاص نظم اور ترتیب سے رکھے گئے ہیں اور خلیے کى ہر ایک قسم اپنے کام سے خو ب آشنا ہے اور اسے بخوبى انجام دیتى ہے_
آج بھى میں اسى کے متعلق گفتگو کروں گا جانتے ہو کہ خلیہ کو کس طرح بنایا گیا ہے، خلیہ ایک خاص مادہ سے بنایا گیا ہے کو جو انڈے کى سفیدى کى طرح ہوتا ہے اور اس کا نام پروٹو پلازم رکھا گیا ہے اور پھر یہى پروٹو پلازم کئی مواد اور اجزاء سے مرکب ہوتا ہے_ تمھیں معلوم ہے کہ ایک سل میں کتنے اجزاء ہیں اور اس میں کام کرنے والے اجزاء کون سے ہیں عمدہ کام کرنے والا جزو وہى پروٹوپلازم ہے یہ حرکت کرتا ہے اور اکسیجن لیتا ہے اور کاربن خارج کرتا ہے، غذا حاصل کرتا ہے تا کہ زندہ رہ سکے پروٹوپلازم غذا کى کچھ مقدار کو دوسرے نئے پروٹوپلازم بنانے میں

صرف کرکے تولید مثل کرتا ہے اسى وجہ سے زندہ موجودات رشد کرتے ہوئے اپنى زندگى کو دوام بخشتے ہیں جو اجزاء کو جو بے کار ہوجاتے ہیں ان کى جگہ دوسرے اس قسم کے اجزاء بناتا ہے اور خراب شدہ کى ترمیم کردیتا ہے_
ہر سل کے اندر بہت چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں کہ جنھیں سل کا حصہ یعنى مغز یا گٹھلى کہاجاتا ہے کیا تم جانتے ہو کہ سیلز (CELLS) کے یہ مغز کیا کام انجام دیتے ہیں___؟ کیا تم ایک سیل اور ایک اینٹ کا فرق بتاسکتے ہو؟ کیا تم بتاسکتے ہو کہ ان دونوں کى ساخت میں کیا فرق ہے___؟ بچوں نے ان سوالوں کے جوابات دیئے اور ان کے کئی فرق بیان کئے_ اس کے بعد استاد نے پھر سے اسى بحث کو شروع کیا اور پوچھا کہ:
'' کیا تم اپنے بدن میں سیلز کى تعداد کو جانتے ہو؟ کیا جانتے ہو کہ صرف انسان کے مغز میں تقریباً دس میلیارد سیلز موجود ہیں_ کیا تمھیں علم ہے کہ انسان کے خون میں تقریباً پندرہ تریلیوں سیلز موجود ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام سیلز زندہ ہوتے ہیں اور اپنا کام بہت دقت سے ایک خاص نظم و ترتیب سے بخوبى انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام کو پایہ تکمیل پہنچاتے ہیں_
غذا اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور کاربن باہر خارج کردیتے ہیں، تولید مثل کرتے رہتے ہیں_ بعض دیکھنے کے لئے

اور بعض سننے کے لئے، بعض ذائقہ اور شامہ کے لئے وسیلہ بنتے ہیں، بعض سے گرمى و سردى اور سختى محسوس کیا جاتا ہے اور یہ بدن کے تمام کاموں کو انجام دیتے ہیں_
انسان کى ضروریات کو پورا کرتے ہیں_ میرے عزیز طالب علمو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک منظم عمارت کا بنانے والا کوئی نہ ہو بغیر نقشے اور غرض و غایت کے موجود ہوجائے_ تم ایک عمارت کى ترتیب اور نظم سے سمجھ جاتے ہو کہ اس کے بنانے میں عقل اور شعور کو دخل ہے اور یہ از خود بغیر غرض و غایت کے وجود میں نہیں آئی بالخصوص ایسى عمارت کہ جس کے تمام اجزاء آپس میں ایک خاص ارتباط و ہم آہنگى اور ہمکارى رکھتے ہوں_
بچو تم اپنے بدن کى عمارت کى ساخت کے بارے میں کیا کہتے ہو___؟ تم اپنے بدن کے بہت دقیق اور ہم آہنگ سیلز کے متعلق کیا سوچتے ہو___؟ تم ایک ایسى عمارت کے متعلق کہ جو کئی ہزار اینٹوں اور دوسرے ازجزاء سے بنائی گئی ہو کبھى یہ احتمال نہیں دیتے کہ یہ خود بخود وجود میں آگئی ہوگى بلکہ اس میں کوئی شک اورتردید نہیں کرتے کہ اس کے بنانے والے نے اسے علم سے ایک خاص نقشے کو سامنے رکھ کر ایک خاص غرض کے لئے بنایا ہے___؟ اپنے بدن کے متعلق جو کئی ملیارد سیلز سے جو ایک خاص نظم اور ترتیب و تعجب آور ہمکارى اور اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں بنایا گیا ہے_ تم اس کے متعلق کیا نظر رکھتے ہو؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ یہ از خود بن گیا ہوگا___؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا اور نقشہ کشى کرنے والا کوئی بھى نہ ہوگا؟ کیا یہ احتمال دے سکتے ہو کہ اس کا بنانے والا عالم اور قادر نہ ہوگا___؟
کیا احتمال دے سکتے ہو کہ اس کے بنانے میں کوئی غرض و غایت مقصود نہ ہوگى تم کیا کہتے ہو___؟ بتلاؤ
کیا نہیں کہوگے کہ پیدا کرنے والا ایک بہت بڑا عالم اور قادر ہے اور سب کا پہلے سے حساب کر کے انسان کے بدن کو ملیارد سیلز سے اس طرح منظم اور زیبا خلق فرما ہے_ سچ کہہ رہے ہو کہ ہم اس دقیق و زیبا نظم سے جو تعجب آور ہے سمجھ جاتے ہیں کہ اسے خلق کرنے والا عالم اور قادر ہے کہ جس نے اسے اس طرح خلق فرمایا ہے اور اس کو چلا رہا ہے_
سوچو اگر بدن کے سیلز کو غذا اور آکسیجن نہ پہنچے تو وہ کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں اور کام کرسکتے ہیں ؟ اگر غذا کو ہضم کرنے کے لئے سیلز غذا کو جذب اور ہضم نہ کرتے تو بدن کے دوسرے سیلز کہاں سے غذا حاصل کرتے، کس طرح بڑھتے اور رشد کرتے؟ کس طرح تولید مثل کرتے؟
اگر ہاتھ کے اعصاب کے سیلز مدد نہ کریں تو کس طرح غذا کو منھ تک لے جایا جاسکتا ہے؟ اگر پانى و غذا اور آکسیجن موجود نہ ہوتے تو کہاں سے غذا حاصل کى جاتی؟ اگر بدن کے سیلز میں تعاون اور ہمکارى موجود نہ ہوتى تو کیا ہمارا زندگى کو باقى رکھنا ممکن ہوتا؟ کیا ان تمام ربط اور ہم آہنگى کے دیکھنے سے خالق کے دانا اور توانا ہونے تک نہیں پہنچا جاسکتا؟ ہم بہت اشتیاق سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس ذات کو بہتر پہچانیں اور اس کا زیادہ شکریہ ادا کریں ہمارے وظائف میں داخل ہے کہ دستورات اور احکام کو معلوم کریں اور ان کى پیروى کریں تا کہ دنیا میں آزاد و کامیاب اور سربلند ہوں اور آخرت میں سعادت مند اور خوش و خرم بنیں_
بچو میں بہت خوش ہوں کہ آج میں نے تمھیں بہترین سبق پڑھایا ہے یہ ''خداشناسی'' کا سبق ہے جو میں نے تمھیں بتلایا ہے_ ''خداشناسی'' کا سبق تمام علوم طبعى اور جہاں شناسى کى کتابوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے''
قرآن مجید کى ایک آیت:
و فى الارض ایات للموقنین و فى انفسکم افلا تبصرون (سورہ ذاریات آیت نمبر 21)
'' زمین میں خداوند عالم کے وجود کے لئے یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں موجود ہیں اور خود تمھارے وجود میں بھى اس کے وجود کے لئے علامتیں موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ہو___؟



سوالات
ان سوالات کے جواب دیجئے


1) ___ ایک سیل کى تصویر بنایئےور اس کے مختلف اجزاء کے نام بتلایئے
2)___ تم کن کن سیل کو جانتے ہو، کیا ان کى تصویریں بناسکتے ہو___؟ ایک ایسى تصویر بنایئےو کتاب میں موجود نہ ہو_
3)___ اپنے بدن کے سیلز کى تعداد کو جانتے ہو___؟ حروف میں لکھو
4)___ کیا تم بدن کے سیل کا فرق ایک اینٹ سے بتلاسکتے ہو____؟
5)___ تمام اعضاء کے ربط اور ہم آہنگى سے تم کیا سمجھتے ہو، کیا اس قسم کى مخلوق بغیر کسى غرض اور غایت کے وجود میں آسکتى ہے___؟
6)___ اگر سیلز کے درمیان تعاون و ربط اور ہم آہنگى نہ ہوتى تو کیا زندگى باقى رکھنا ممکن ہوتا___؟
7)___ بدن کے سیلز اور ان کے درمیان ربط و ہم آہنگى سے تم کیا سمجھتے ہو_
8)___ اپنے خالق کے بارے میں ہمارا کیا فریضہ ہے، اگر اس کے احکام کو معلوم کرلیں اور ان کى پیروى کریں تو کس طرح کى زندگى بسر کریں گے___؟
9)___ کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ استاد نے اس سبق میں کتنے سوال بیان کئے ہیں سبق کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ تمھارا اندازہ ٹھیک ہے؟ سوالوں کو لکھو_
10)___ اس سبق میں اور پہلے دوسبقوں میں تم نے کچھ خالق جہاں کے صفات معلوم کئے ہیں کیا ان کو بیان کرسکتے ہو___؟

 

آپ ربط و ہم آہنگى کے مشاہدے سے کیا سمجھتے ہیں؟


تم یہاں دو قسم کى شکلیں دیکھ رہے ہو ان میں سے کون سى شکل منظم اور مرتبط ہے اور کون سى شکل غیر منظم اور غیر مرتبط ہے؟ کیا بتلاسکتے ہو کہ منظم شکل اور غیر منظم شکل میں کیا فرق موجود ہے___؟

ایک منظم اورمرتبط شکل میں ایک خاص غرض اور غایت ہے اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ ان کے ارتباط سے اسى غرض اور غایت تک پہنچنا ممکن ہے اسى بناپر اس شکل کو منظم اور مرتبط کہا جاسکتا ہے کہ جس کے تمام اجزاء بطور کامل ایک دوسرے سے ہم آہنگى او رہمکارى رکھتے ہوں اور ان تمام سے ایک خاص غرض اور غایت حاصل کى جاسکتى ہو مثلا شکل نمبر دو کو ایک منظم اور مرتبط شکل کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے تمام اجزاء اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جن سے ایک خاص غرض اور غایت مراد ہے اور وہ ہے ''سوار ہونا'' اور راستہ طے کرنا_
کسى منظم شکل میں ہر ایک جزء کو اس کى مخصوص جگہ پر رکھا جاتا ہے اور وہ دوسرے اجزاء کے ساتھ مل کر ایک مخصوص کام انجام دیتى ہے اگر اسى اس جگہ نہ رکھا جائے تو اس سے پورا کام حاصل نہ کیا جاسکے گا اور وہ کام ناقص انجام پائے گا_
جب ہم دیکھ رہے ہوں کہ کوئی چیز منظم اور مرتبط ہے اور اس کے مختلف اجزاء کسى خاص حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور اس کا ہر جزء ایک مخصوص کام اور ایک خاص اندازے سے انجام دے رہا ہو مثلا شکل نمبر دو میں پہئے ایک خاص مقدار سے بنائے اور ایک خاص جنس سے بنائے گئے ہیں_ گدى بیٹھنے کے لئے، بریک روکنے کے لئے، گھنٹى ہوشیار کرنے کے لئے، بتیاں اور پیٹروں کى جگہ ایک خاص جنس سے بنائی گئی ہے اور یہ ایک خاص اندازے اور حساب سے ایک دوسرے سے مرتبط کر کے رکھے گئے ہیں کہ اگر وہ اس طرح منظم اور حساب کے ساتھ رکھے نہ جاتے تو وہ کسى کام نہ آتے اور وہ اس غرض و غایت کى بجاآورى نکے لئے بے فائدہ ہوتے کہ جوان سے مقصود تھی_


اب تم ان سوالوں کے جوابات دو_

ایک منظم اور مرتبط شکل کے مشاہدے سے کہ جو وقت اور حساب سے کسى خاص جنس سے کسى خاص ہیئت میں بنائی گئی ہو اور اس کے اجزاء کے ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے کام میں تعاون سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ایسى شکل اور چیز کے بنانے والے کے متعلق یہ نہ سمجھیں گے کہ وہ باشعور و عالم و دانا اور اس قسم کى چیز کے بنانے پر قادر تھا اور ایسى ذات کا ہونا اس صورت میں ضرورى نہ ہوگا؟ اگر کوئی عالم اور قادر نہ ہو تو کیا شکل نمبر ایک کو شکل نمبر دو میں تبدیل کرسکتا ہے___؟ حالانکہ شکل نمبر ایک بھى خاص اجزاء متفرق کا مجموعہ ہے کہ جسے ایک خاص جنس او رکسى خاص شکل و اندازے کے مطابق بنایا گیا ہے جس کے بنانے میں بھى ایک عالم اور قادر کى ضرورت ہے_ کیا تم یہ بتاسکتے ہو کہ ایک منظم شکل کے دیکھنے سے اس کے بنانے والے کے متعلق اس کے قادر، عالم و دانا ہونے اور آیندہ نگرى کو معلوم نہیں کیا جاسکتا ___؟
دنیا اور اپنے خالق کے قادر و عالم ہونے کے متعلق اس سے زیادہ معرفت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے بدن کے بنانے اور اس میں حیرت انگیز نظم و ربط اور دنیا کى دوسرى اشیاء کو دیکھیں اور سوچیں کہ بدن کے جس حصہ کو دیکھیں اس میں حیران کن ہم آہنگى او رتعجب انگیز نظم و ربط کو دیکھ سکتے ہیں؟
بینائی اور سماعت کے حصے کو غور سے دیکھیں یا دل کے کام کو ملاحظہ کریں یا پھیھپڑے اور جکر کو غور سے دیکھیں تو ان میں سے ہر ایک میں سوائے ایک خاص نظم اور ربط کے کچھ اور دیکھ سکیں گے___؟
(اس کے بعد والے سبق میں ہم کلیہ اور پیشاب کے باہر پھینکنے والے حصّے کو بیان کریں گے)


اپنے آپ کو دیکھیں


آپ نے ابھى گردے دیکھے ہیں اگر نہیں دیکھے تو ایک گوسفند کے گردے لے آئیں اور انھیں غور سے، قریب سے دیکھیں_ انسان کے بھى دو گردے ہوتے ہیں_ تم بھى یقینا دو گردے رکھتے ہو_ کیا تم دو عدد عمدہ اور چھوٹے عضو کے کام اور اہمیت کو جانتے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ اگر تمھآرے بدن میں یہ چھوٹے دو عضو نہ رکھے جاتے تو کیا ہوتا___؟ آپ کے پیدا ہونے کے دن ہى آپ کے تمام بدن میں زہریلا مواد پیدا ہوجاتا اور زیادہ مواد اکٹھا ہوکر تمام بدن پر چھا جاتا اور پھر تمھارى موت یقینى ہوجاتی_
کیا تم جانتے ہو کہ پیشاب کے خارج کرنے والا عضو اور حصہ کن کن چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے___؟ کیا تم جانتے ہو کہ خود پیشاب کن کن چیزوں سے بنتا ہے اور کس طرح بدن سے خارج ہوتا ہے؟ انسان کے بدن میں کچھ زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے کہ جس کا بدن میں باقى رہنا انسان کى سلامتى اور زندگى کے لئے خطرناک ہوتا ہے ضرورى ہے کہ وہ انسانى بدن سے خارج ہوجائے اس زائد مواد میں سے ایک سفید رنگ کا ماہ ہے کہ جسے (اورہ) کہاجاتا ہے یہ حیوانى غذا اور ان پروٹین سے جو بدن کے سیلز کے کام آتے ہیں پیدا ہوجاتا ہے یہ اور دوسرے مواد جو مضر ہوتے ہیں ایک عمدہ اور شائستہ حصہ کے ذریعہ جو خون سے پیشاب کو حاصل کرتا ہے اور بدن سے باہر نکال دیتا ہے وہ حصہ جو پیشاب بناتا اور باہر پھینکتا ہے ایک بہت منظم و دقیق عضو اور حصّہ ہے کہ جس میں سیکڑوں دقیق اور عمدہ اجزاء رکھے گئے ہیں کہ جس سے بہت زیادہ تعجب اور حیرت ہوتى ہے_
درج ذیل شکل کو دیکھئے اور غور سے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ پیشاب والا عضو اور مقام کن کن چیزوں سے بنایاگیا ہے_

 

گردے، ینرنالی، مثانہ


گردے:
گردے لوبیا کى شکل کے ہوتے ہیں سرخ رنگ معدے اور جگر کے پیچھے دو عضو ہوتے ہیں اور انسان کے مہروں کے ستون کے دونوں طرف واقع ہوتے ہیں_ ہر انسان کے دو گردے ہوتے ہیں، گردوں کى ساخت کئی نالیوں سے ہوتى ہے _ تم جانتے ہو کہ گردے کتنى نالیوں سے بنائے گئے ہیں___؟
ہر ایک گردے میں ایک ملیون کے قریب نالیاں ہوتى ہیں ان کے اطراف میں مو ہرگیا سے جالى نے گھیر رکھا ہے، خون ایک بڑى سرخ رگ کے ذریعہ ان میں داخل ہوتا ہے اور ان میں گردش کرنے کے بعد ایک سیاہ رگ سے خارج ہوجاتا ہے، اس سرخ رگ کو بڑے اہتمام سے بنایا گیا ہے کہ جس کى تفصیل تم علوم طبعى کى کتابوں میں پڑھا کرتے ہو_


2)نیرنالى :
ہر ایک گردے سے ایک نالى باہر نکلى ہوتى ہے جو مثانہ سے گردے کو ملائے رکھتى ہے اس نالى کا نام ''نیرنالی'' ہے انھیں میں خون سے زائد مواد اکٹھا ہوجاتا ہے او رپیشاب گردے سے مثانہ میں وارد ہوجاتا ہے_


3) مثانہ:
یہ ایک چھوٹاسا کیسہ ہے کہ جن کى کیفیت پلاسٹیک کى طرح ہوتى ہے کہ جو کہ پھیل سکتا ہے یہ انسان کے پیٹ کے نیچے کى طرف واقع

ہوتا ہے_ جب مثانہ کى دیوار خالى ہو تو یہ تقریبا پندرہ ملى میٹر تک کا ضخیم ہوتا ہے اور جب یہ پیشاب سے پر ہوجائے تو پھیل جاتا ہے اور اس کى دیوار کى ضخامت تین سے چار ملى میٹر تک ہوجاتى ہے_ مثانہ کى دیوار میں تین عدد مسل ماہیچہ رکھے ہوئے ہیں کہ جو پیشاب کے خارج ہونے کے وقت اس کے منقبض ہونے میں مدد دیتے ہیں_

 

4) پیشاب کے خارج ہونے کا راستہ:


یہ مثانہ کو باہر کى طرف مرتبط کرتا ہے، ابتداء میں اس میں دو ماہیچہ ہوتے ہیں کہ جو عام حالات میں پیشاب کو خارج ہونے سے روکے رکھتے ہیں، بدن میں گردے ایک صاف کرنے والى چھلنى کى طرح ہوتے ہیں_ سرخ رگ کے ذریعہ خون گردے میں وارد ہوتاہے_

اور وہ مویرگ میں تقسیم ہوجاتا ہے اور جب ان سے عبور کرتا ہے تو اپنے ہمراہ معمولى پانى اور اورہ، آسیدہ، اوریک، نمک اور گلوگز جالیوں سے ترشح کرتے ہوئے پیشاب کى نالیوں میں وارد ہوتا ہے_ اس وقت معمولى پانی، نمک اور گلوگز ان نالیوں کى دیواروں میں جذب ہوکر دوبارہ خون میں لوٹ جاتا ہے_
تعجب اس ہوتا ہے کہ اگر بدن میں پانى ضرورت کے مطابق نہ ہو تو پھر زائد پانى گردوں سے مثانہ میں وارد نہیں ہوتا اور صرف اورہ، آسید، اوریک اور معمولى پانى پیشاب کى نالیوں سے نیرنالیوں میں وارد ہوتا ہے اور وہاں سے قطرہ قطرہ ہوکر مثانہ میں جمع ہوتا رہتا ہے_
گردے نہ صرف کمال وقت سے اورہ، رسید، اوریک کو خون سے لیتے ہیں اور اسے صاف کرتے ہیں بلکہ بدن کے مختلف مواد کو بھى اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں مثلاً اگر خون میں شوگر یا نمک ضرورت سے زائد ہوجائے تو زائد مقدار کو لے کر بدن سے باہر پھینک دیتے ہیں_
مثانہ کافى مقدار میں پیشاب کو محفوظ رکرسکتا ہے اور جب پیشاب کى مقدار بہت زیادہ ہوجائے اور مثانہ کى ظرفیت پر ہوجائے تو پھر وہى ماہیچہ حرکت کرتے ہیں اور اس صورت میں وہى دو ماہیچے پیشاب کے مجرى کو کھولتے اور بند کرتے ہیں اور پیشاب کى ایک مقدار مثانہ میں وارد ہوجاتى ہے اور اس میں سوزش پیدا کردیتى ہے اگر اسے اپنے اختیار سے باہر نہ نکالا گیا تو پھر مثانہ کا منھ قہراً کھل جاتا ہے اور پیشاب باہر نکل آتا ہے_
آپ اس وقت اور تعجب آور صنعت کے بارے میں جو اس عضو کے کام میں لائی گئی ہے خوب سوچیں اور اس نظم، مزید ہم آہنگى کو جو خون کى گردش گردوں میں اور گردوںکا ارتباط ینرنالى سے اور اس کا مثانہ سے موجود ہے_ تامّل اور غور سے دیکھیں تو کیا یہ ایک ایسا حصہ نہ ہوگا جو منظم اور کسى خاص غرض کے لئے بنایا گیا ہو___؟

 یا یہ ایک ایسا حصہ اور عضو ہوگا کہ جس میں کوئی غرض اور غایت مد نظر نہ رکھى گئی ہو بلکہ اسے ایک غیر منظم حصہ مانا جائے___؟ کیا گردوں کى کوئی خاص غرض ہوگى کہ جس کا اسے ذمہ دار اور پابند سمجھا جائے___؟ کیا ہم اس خون کے باوجود جو زہر سے اور زائد مواد سے پر ہو زندہ رہ سکتے تھے___؟ اگر یہ عضو مرتبط اور ہم آہنگ نہ ہوتا اور نیرنالى کى نالیاں نہ ہوتیں تو گردے زائد مواد کو خون سے لے کر کہاں پہنچاتے___؟
اگر ہمارا مثانہ نہ ہوتا کہ جس میں پیشاب جمع ہوجاتا ہے تو مجبوراً پیشاب قطرہ قطرہ ہوکر باہر نکلتا رہتا تو اس وقت کیا کرتے___؟ اگر پیشاب کے خارج کرنے کے دروازے ہمارے اختیار میں نہ ہوتے تو پھر کیا ہوتا___؟
اس دقیق اور مہم عضو اور حساس حصّہ کے دیکھنے سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟ اس منظم اور دقیق حساب سے جو اس عضو میں رکھا گیا ہے اور اس حصہ کى اس طرح کى شکل ہے جو بنائی گئی ہے اور اس میں جو نظام ربط اور ہم آہنگى رکھى گئی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ یہ منظم اور دقیق حساب جو اس عضو اور بدن کے دوسرے اعضاء میں موجود ہے از خود، بغیر کسى غرض اور حساب کے موجود نہیں ہوا___؟
کیا یہ کسى عاقل اور صاحب بصیرت کے لئے ممکن ہے کہ وہ قبول کر لے کہ سیاہ اور خاموش، بے شعور طبیعت و مادّہ سے یہ تعجب آور اور حیران کن نظم، وجود میں آیا ہے؟ صاحب عقل اور سمجھدار اناسان کو یقین ہوجائے گا کہ کسى عالم اور قادر ذات نے اسے خلق فرمایا ہے کہ جس میں اس نے ایک خاص غرض و غایت، مد نظر رکھى ہے اس سوچ کے بعد ہر عقلمند کا ان تمام اسرار اور مصالح کے دیکھنے کے بعد خالق جہاں جو ''عالم اور توانا'' ہے کے متعلق یقین زیادہ محکم اور مضبوط ہوجائے گا، اس کى اس عظیم قدرت اور فراوانى نعمت کے سامنے سر تسلیم خم کردے گا_
قرآن کى آیت :
قل انظروا ماذا فى السّموات و الارض___ (سورہ یونس آیت نمبر 101)
'' کہہ دیجئے کہ جو کچھ زمین اور آسمان میں موجود ہے اسے دیکھو''


سوالات
جواب دیجئے
1) ___ایک منظم و مرتبط شکل میں اور ایک غیر منظم و غیر مرتبط شکل میں کیا فرق ہے؟
2)___ ایک ایسے حصہ سے جو منظم اور مرتبط ہوگیا سمجھاتا جاتا ہے___؟
3)___ ایک حصہ کے بنانے میں جو منظم اور پناتلا ہو اس کے بنانے والے کے لئے عالم اور قادر ہونا ضرورى سمجھتے ہو اور کیوں___؟ وضاحت کرو_
4)___ تمھارے گردے کتنے ہیںاور بدن کے کس حصہ میں واقع ہیں؟ بیان کرو اور گردوں کى شکل بناؤ
5)___ گردوں کى ساخت کس طرح ہوتى ہے اور ان کا کام کى ہے؟ کیا گوسفند کا گردہ کلاس میں لاسکتے ہو؟ وضاحت کرو_
6)___ رنیرنالى کا کیا کام ہے؟ مثانہ کى دیوار کس طرح ہوتى ہے اور مثانہ کا کیا کام ہے___؟
7)___ گردوں کے بعض تعجب آور کام کو بتایئے
8)___ گردوں کے کام اور دوسرے اعضاء سے ان کے ارتباط کو دیکھنے سے کیا سمجھاجاتا ہے؟ کیا تمھیں یہ ایک بے غرض اور غیر منظم حصہ نظر آتا ہے یا یہ ایک منظم اور بامقصد عضو معلوم ہوتا ہے؟
9)___ ہم جہان عالم کى پر اسرار اور مصالح کى پیدائشے و خلقت سے کیا سمجھتے ہیں اور اس سے کیا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں___؟

 


خالق جہان کے صفات کمالیہ


1) ___ تم چل سکتے ہو، فکر کرسکتے ہو، کھاپى سکتے ہو اور کتاب پڑھ سکتے ہو؟ لیکن کیا یہى کام پتھر کا ایک ٹکڑا انجام دے سکتا ہے؟
یقینا جواب دوگے کہ نہیں یہ کام پتھر انجام نہیں دے سکتا پس تم ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو لیکن پتھر ایسى قدرت نہیں رکھتا_ کیا تم ان امور کے لحاظ سے پتھر پر کوئی خصوصیت رکھتے ہو___؟ کون سى خصوصیت___؟ تم کامل ہو یا پتھر کا ٹکڑا___؟ کیا جواب دوگے___؟
یقینا تمھارا یہ جواب ٹھیک ہوگا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو لیکن پتھر یہ کام نہیں کرسکتا پس تم کامل تر ہوگئے کیونکہ ان کاموں کے بجالانے پر قدرت رکھتے ہو تو پھر قدرت کو ایک کمال کى صفت قرار دیا جاسکتا ہے یعنى قدرت، کمال کى صفت ہے_


2)___ تم بہت سى چیزوں کو جانتے ہو یعنى تمھیں ان کا علم ہے، تمھارے دوست بھى بہت سى چیزوں کو جانتے ہیں اور انھیں بھى ان کا علم ہے_ مخلوقات میں سے بعض کو علم ہوتا ہے اور بعض کو علم نہیں ہوتا_ انسان ان میں سے کون سى قسم میں داخل ہے؟ پتھر، لکڑى اور لوہا ان میں سے کون سى قسم میں داخل ہیں؟

ان دو میں سے کون سى قسم کامل تر اور قیمتى ہے؟ علم رکھنے والى مخلوقات اہم ہیں یا وہ جو بے علم ہیں___؟ اس کا کیا جواب دوگے___؟
یقینا تم ٹھیک اور درست جواب دوگے کہ انسان، علم رکھتا ہے اور پتھر، لکڑى و لوہا و غیرہ علم نہیں رکھتے، یقینا وہ مخلوق جو علم رکھتى ہے وہ کامل تر اور اس سے بہتر ہے جو مخلوق بے علم ہے_ تم نے جواب ٹھیک دیا لہذا علم ایک کمال والى صفت ہے جو شخص یہ کمال رکھتا ہو وہ بغیر شک کے اس سے کامل تر ہوگا جو یہ کمال والى صفت نہ رکھتا ہو_


3)___ بعض مخلوقات زندہ ہیں جیسے حیوانات، نباتات اور انسان لیکن بعض دوسرے زندہ نہیں ہیں جیسے پتھر، لکڑى اور لوہا و غیرہ_ ان دو میں سے کون کامل تر ہے؟ زندہ مخلوقات زندگى رکھتے ہیں یا وہ مخلوقات جو زندہ نہیں ہیں زندگى رکھتے ہیں؟ اس کا کیا جواب دوگے؟
یقینا تم درست جواب دوگے اور زندگى و حیات بھى ایک صفت کمال ہے اب تک ہم نے معلوم کرلیا کہ علم، قدرت اور حیات یہ تینوں صفت کمال ہیں اور مخلوقات میں سے بہت سے ان تینوں صفات کے حامل ہوتے ہیں یعنى دانا، توانا اور زندہ ہوتے ہیں ان زندہ و دانا اور توانا مخلوقات کو اللہ تعالى نے خلق فرمایا ہے اور اللہ تعالى نے یہ کمالات انھیں عنایت فرمایا ہے جس خدا نے انھیں یہ کمالات دیئے ہیں وہ خود بھى ان کمالات کو بہتر اور بالاتر رکھتا ہے یعنى وہ ذات بھى ان صفات کمالیہ سے متصف ہے_

تم نے سابقہ درس میں کائنات میں دقیق نظام اور تعجب آور ارتباط کو اجمالى طور پر معلوم کرلیا ہے اور تم جان چکے ہو کہ کتنى عمدہ اور بارک کا دیگرى خلقت عالم میں رکھى گئی ہے اور کس دقیق ہم آہنگى و ارتباط سے یہ جہان خلق کیا گیا ہے اور تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ سارى مخلوقات کو اللہ تعالى نے اسى طرح خلق فرمایا ہے ایسا دقیق اور تعجب آور جہان کس چیز کا گواہ ہے___؟ ہمیں اس جہاں کى ترتیب اور عمدہ ہم آہنگى کیا سبق دیتى ہے؟ اس دقیق اور پر شکوہ نظام سے کیا سمجھتے ہیں____؟
مخلوقات کے مطالعے سے بخوبى واضح ہوجاتا ہے کہ اس جہان کو ایک زندہ و عالم اور قادر ذات نے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں اس کى کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے کہ جس سے وہ مطلع تھا_
جہان کى مخلوقات کو ایک خاص قانون اور نظام کے ماتحت پیدا کر کے اسے چلا رہا ہے اور اسے اسى غرض و غایت کى طرف راہنمائی کرتا ہے_ اب تک ہم نے سمجھ لیا کہ جہان کا پیدا کرنے والا خدا مہربان اور تمام اشیاء کا عالم ہے، تمام کو دیکھتا ہے اور کوئی بھى چیز اس سے پوشیدہ و مخفى نہیں ہے، معمولى سے معمولى چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ذات ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور تمام بندوں کے اعمال سے مطلع ہے اور انھیں ان کى جزا دے گا_
ہم نے جان لیا کہ خدا قادر ہے یعنى ہر کام کے انجام دینے پر قدرت رکھتا ہے، اس کى قدرت اور توانائی محدود نہیں ہے، تمام مخلوقات کو اس نے ہى پیدا کیا ہے اور انھیں چلا رہا ہے_
ہم نے جان لیا کہ خدا حى و زندہ ہے اور تمام امور کو علم و دانائی سے انجام دیتا ہے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظیم خالق و عالم اور قادر کے سامنے ہمارا فریضہ کیا ہے؟


قرآن مجید کى آیت:
یخلق ما یشاء و ہو العلیم القدیر___(سورہ روم آیت نمبر 53)
'' ... خدا جسے چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور وہ دانا و توانا ہے''
 



توحید اور شرک


حضرت محمد صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم کى طرف سے ایسے زمانے میں پیغمبرى کے لئے مبعوث ہوئے جس زمانے کے اکثر لوگ جاہل، مشرک اور بت پرست تھے اور ان کا گمان تھا کہ اس عالم کو چلانے میں خدا کے علاوہ دوسروں کو بھى دخل ہے_ خدا کا شریک قرار دیتے تھے_ خدائے حیّ و عالم او رقادر یکتا کى پرستش اور اطاعت کرنے کے بجائے عاجز و بے جان بتوں کى پرستش کى کرتے تھے اور ان کے لئے نذر و قربانى کرتے اور ان سے طلب حاجت کرتے تھے_
ظالم و جابر اور طاغوت قسم کے لوگوں کو برگزیدہ افراد جانتے تھے اور انھیں بالاتر اور واجب الاطاعت گمان کرتے تھے ان کى حکومت اور سلطنت کو قبول کرتے تھے_ اپنى سعادت و شقاوت، خوش بختى و بدبختی، موت اور زندگى کو ان کے ارادے میں منحصر جانتے تھے اور عبادت کى حد تک ان کى اطاعت کرتے تھے اور ان کے سامنے عاجزى اور اظہار بندگى کیا کرتے تھے_ جاہل اور مشرک انسان اپنى خدا داد استقلال کو فراموش کرچکے تھے اور غلامانہ روش کى طرف ظالموں اور طاغوتوں کے مطیع و فرمانبردار تھے اور ان کے سامنے عبادت کرتے تھے اور ان کا سجدہ کیا کرتے تھے لوگ بت پرستى میں مشغول تھے اور اسى میں خوش تھے اور استحصال کرنے والے لوگوں کے جان و مال پر مسلط تھے اور ان کى محنت کو غارت کر رہے تھے لوگوں کى اکثریت فقر اور فاقہ میں زندگى بسر کرتى تھى اور وہ جرات نہیں کرسکتے کہ وہاپنے زمانے کے طاغتوں سے اپنے حقوق لے سکیں_ بت پرستی، شخصیت پرستی، قوم پرستی، وطن پرستى اور خود پرسنى نے لوگوں کو متفرق اور پراگندہ کر رکھا تھا اور استحصال کرنے والے اس اختلاف کو وسیع کر رہے تھے_

 اس قسم کى تمام پرستش شرک کا پرتو اور مظاہرہ تھا اور لوگوں کى بدبختى کا سب سے بڑا عامل یہى شرک تھا_ ان تمام مصائب کا علاج کیا تھا___؟ ایسے لوگوں کى نجات جو بدبختى میں جل رہے تھے کس میں تھی؟ کس طرح ان تمام مظالم اور ستم سے نجات حاصل کرسکتے تھے؟ انھیں ایسے رہبر کى ضرورت تھى جو روشن فکر اور بدار و ہوشیار ہو جو انھیں بت پرستى اور شرک سے نجات دلائے اور توحید و خداپرستى کى طرف لے جائے ایسے زمانے میں خداوند عالم کى طرف سے حضرت محمد مصطفى صلّى اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو پیغمبرى اور رہبرى کے لئے چناگیا_ آپ(ص) نے اپنا پہلا اور اہم کام شرک و بت پرستى سے مقابلہ کرنا قرار دیا_ آپ (ص) نے لوگوں کو پہلى دعوت میں فرمایا کہ کہو:
''قولوا لا الہ الّا اللہ تفلحوا''
''یعنى کلمہ توحید پڑھو اور نجات حاصل کرو_ اس پر ایمان لے آؤ کہ سوائے خدائے ذوالجلال کے اور کوئی معبود نہیں تا کہ نجات حاصل کرسکو''
اس کلام سے کیا مراد ہے سمجھتے ہو؟ یعنى مختلف خدا اور جھوٹے خداؤں کو دور پھینکو اور دنیا کے حقیقى خالق کى اطاعت اور عبادت کرو_ ظالموں کى حکومت سے باہر نکلو اور اللہ تعالى کے بھیجے ہوئے رہبر اور پیغمبر کى حکومت اور ولایت کو قبول کرو تا کہ آزاد اور سربلند اور سعادت مند ہوجاؤ_ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگو
''کائنات کا خالق اورچلانے والا صرف خدا ہے _جو قادر مطلق

ہے_ خداوند عالم کى ذات ہى تو ہے جس نے خلقت اور نظام جہان کا قانون مقرر کیا ہے اور اسے چلا رہا ہے اس کى ذات اور اس کے ارادے سے دن رات بنتے اور آتے جاتے ہیں_ آسمان سے زمین پر بارش اور برف گرتى ہے_ درخت اور نباتات میوے اور پھول دیتے ہیں، انسان اور حیوان روزى حاصل کرتے ہیں، اللہ ہى نے جو حّى و قیّوم اور عالم و قادر ہے تمام موجودات کو خلق فرمایا اور وہ ان سے بے نیاز ہے، تمام موجودات اس کے محتاج اور نیازمند ہیں، اللہ تعالى کى مدد کے بغیر کسى بھى موجود سے کوئی بھى کام نہیں ہوسکتا جان لو کہ اللہ تعالى نے دنیا کا نظام کسى کے سپرد نہیں کیا_
پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے لوگو جان لو کہ تمام انسان اللہ تعالى کى مخلوق ہیں تمام کے ساتھ عادلانہ سلوک ہونا چاہیئے سیاہ، سفید، زرد، سرخ، مرد، عورت، عرب، غیر عرب تمام بشر کے افراد ہیں اور انھیں آزادى و زندگى کا حق حاصل ہے، اللہ تعالى کے نزدیک مقرّب انسان وہ ہے جو متقى ہو_ اللہ تعالى نے زمین اور تمام طبعى منابع اور خزانوں کو انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے اور تمام انسانوں کو حق حاصل ہے کہ ان فائدے حاصل کرے ہر ایک انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنى محنت اور کوشش سے زمین کو آباد کرے اور اپنى ضرورت کے


مطابق اس کے منابع طبعى سے استفادہ کرے اور لوگوں کو فائدے پہنچائے_ پیغمبر اسلام(ص) فرمایا کرتے تھے: لوگو ظالموں کے مطیع اور غلام نہ بنو خداوند عالم نے تمھیں آزاد خلق فرمایا ہے، تمھارا ولى اور صاحب اختیار خدا ہے، خداوند عالم تمھارا مالک اور مختار ہے کہ جس نے تمھیں خلق فرمایا ہے، تمھارى رہبرى اور ولایت کا حق اسى کو حاصل ہے_ اللہ تعالى اور ان حضرات کے علاوہ جو اس کى طرف سے اس کا پیغام بندوں تک پہنچاتے اور اس کے احکام سے مطلع کرتے ہیں اور کوئی واجب الاطاعت نہیں ہے، پرہیزگارى اختیار کرو اور میرى اطاعت کرو تا کہ میں تمھیں ان ظالموں کے شر سے نجات دلاؤں، تم سب آزاد ہو اور ظالموں و ستمگروں کے غلام اور قیدى نہ بنو، خدا کے علاوہ کسى سے نہ ڈرو اور اس کے علاوہ کسى سے امید وابستہ نہ رکھو صرف اللہ تعالى کى رضا حاصل کرنے کى کوشش کرو اور اس کى رضا کے لئے کام بجالاؤ اور ایک دل ہوکر ایک غرض اور ہدف کو بجالاؤ، جھوٹے معبودوں اور اختلاف ڈالنے والوں کو دور پھینک دو، تمام کے تمام توحید کے علم کے سایہ میں اکٹھے ہوجاؤ تا کہ آزاد و سربلند اور سعادتمند بن جاؤ، تمام کاموں کو صرف خدا کے لئے اور خدا کى یاد کے لئے بجالاؤ صرف اللہ تعالى سے مدد اور کمک طلب کرو تا کہ اس مبارزہ میں کامیاب ہوجاؤ''


قرآن مجید کى آیت:

من یشرک باللہ فقد ضل ضلالا بعیدا___ (سوره نساء / 116)
''جس شخص نے اللہ کے ساتھ شریک قرار دیا وہ سخت گمراہى میں پڑا''



سوچنے، مباحثہ کرنے اور جواب دینے کیلئے ہیں
1)___ بت پرستى اور شرک کے مظاہرات کون سے ہوتے ہیں؟
2)___استحصال کرنے والے کیوں لوگوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرتے ہیں؟
3)___ توحید سے کیا مراد ہے اور شرک کا کیا مطلب ہے؟
4)___ حضرت محمد صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہم کام او رپروگرام کیا تھا؟
5)___ اسلام کے فلاح اور نجات دینے کے لئے کون سا پیغام ہے اور اس کا معنى کیا ہے؟
6)___ اللہ تعالى کے نزدیک کون سا انسان مقرب ہے، اللہ تعالى کے نزدیک برترى کس میں ہے؟
7)___ ظالموں کے لئے دوسروں پر حق ولایت اور حکومت ہوا کرتا ہے، انسان کا حقیقى مالک اور مختار کرون ہے؟
8)___ مستکبرین پر کامیابى کا صحیح راستہ کون سا ہے؟

 

عدل خدا


خداوند عالم نے اس جہاں کو ایک خاص نظم اور دقیق حساب پر پیدا کیا ہے اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص خاصیت عنایت فرمائی ہے، دن کو سورج کے نکلتے سے گرم اور روشن کیا ہے تا کہ لوگ اس میں سخت اور کوشش کر کے روزى کما سکیں رات کو تاریک اور خاموش قرار دیا ہے تا کہ لوگ اس میں راحت اور آرام کرسکیں ہر ایک چیز کى خلقت میں ایک اندازہ اور حساب قرار دیا ہے_
انھیں خصوصیات اور لوازمات کے نتیجے میںجہاں کى اشیاء خلقت کے لحاظ سے بہت عمدہ قسم کى زیبائی سے مزیّن ہیں_ سوچئے اگر آگ اپنى ان خصوصیات کے ساتھ موجود نہ ہوتى تو اس عالم کا رخ کیسا ہوتا___؟
فکر کیجئے اگر پانى اپنے ان خواص کے ساتھ جو اس میں موجود ہیں نہ ہوتا تو کیا زمین پر زندگى حاصل ہوسکتی___؟ غور کیجئے اگر زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتى تو کیا کچھ سامنے آتا؟ کیا تم اس صورت میں یہاں بیٹھ سکتے اور درس پڑھ سکتے تھے؟
ہرگز نہیں کیونکہ اس صورت میں زمین اس سرعت کى وجہ سے جو زمین اپنے ارد گرد اور سورج کے اردگرد کر رہى ہے تمام چیزوں کو یہاں تک کہ تمھیں اور تمھارے دوستوں کو فضا میں پھینک دیتی، ہمارا موجودہ زمانے میں زندہ رہنے کا نظم اور قانون ان خواص اور قوانین کى وجہ سے ہے جو اللہ تعالى نے طبع اور مادّہ کے اندر رکھ چھوڑا ہے اگر یہ قوانین اس دنیا میں موجود نہ ہوتے تو زندگى کرنا حاصل نہ ہوتا گرچہ اس عالم

کے موجودہ قوانین کبھى ہمارے لئے پریشانى کو بھى فراہم کردیتے ہیں مثلاً ہوئی جہاز کو ان قوانین طبعى کے ما تحت اڑایا جاتا ہے اور آسمان پر لے جاتا ہے جو ان مواد اور طبائع میں موجود ہیں اور انھیں قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے ہوئے اسے آسمان پرتیز اور سرعت سے حرکت میں لایا جاتا ہے_


قانون جاذبہ اور اصطلاک و ٹکراؤ سے ہوائی جہاز کو زمین پر اتارا جاتا ہے ہوائی جہاز کے مسافر اسى قانون سے استفادہ کرتے ہوئے ہوائی جہاز سے نیچے اترتے ہیں اور زمین پر چلتے ہیں اور اپنى اپنى منزل تک جا پہنچتے ہیں لیکن یہى ہوائی جہاز جب اس کا ایندھن اور پیٹرول فضا میں ختم ہوجائے تو زمین کا قانون جاذبہ فوراً سے زمین کى طرف کھینچتا ہے اور ہوائی جہاز زمین پر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا کہ جس سے اس میں سوار بعض فوراً دم توڑ دیتے ہیں اور کچھ زخمى اور بیکار ہوکر رہ جاتے ہیں اس صورت میں قصور کس کا ہے___؟
ٹھیک ہے کہ ہم اس صورت میں تمّنا کریں گے کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ نہ ہوتى اور اس صورت میں قوت جاذبہ اپنا کام اور عمل انجام نہ دیتی___؟ کیا یہ ٹھیک ہے کہ ہم یہ آرزو کریں کہ کاش زمین اس ہوائی جہاز کو جس کا ایندھن ختم ہوگیا ہے اپنى طرف نہ کھینچتی___؟ سمجھتے ہوکہ اس آرزو کے معنى اور نتائج کیا ہوں گے___؟ اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلقت کا قانون ہمارى پسند کے مطابق ہوجائے کہ اگر ہم چاہیں اور پسند کریں تو قانون عمل کرے اور جب ہم نہ چاہیں اور پسند نہ کریں تو قانون عمل نہ کرے کیا اس صورت میں اسے قانون کہنا اور قانون کا نام دینا درست ہوگا___؟ اور پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس شخص کى خواہش اور تمنا پر قانون عمل کرے___؟


اس صورت میں سوچئے کہ ہر ج و مرج لازم نہ آ تا___ ؟ ممکن ہے کہ آپ اس شخص کو جو ہوائی جہاز کے گرجانے کى صورت میں بیکار ہوگیا ہے دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ وہ اس کى وجہ سے اندھا ہوگیا ہے اور اس کا ایک ہاتھ کٹ چکا ہے اور پاؤں سے معذور ہوگى ہے اور یہ کہیں اور سوچیں کہ کس نے اس پر ظلم کیا ہے___؟ اور کس نے اسے اس طرح ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں سے محروم کردیا ہے___؟
کیا ت م خدا کى عدالت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کو قوت جاذبہ عنایت فرمائی ہے___؟ یا اس شخص کى عدالت اور قابلیّت میں شک کروگے کہ جس نے زمین کے اس قوت جاذبہ کے قانون اور دوسرے طبائع کے قوانین سے صحیح طور سے استفادہ نہیں کیا ہے___؟ اس شخص کى قابلیّت اور لیاقت میں شک کروگے کہ جس نے ہوائی جہاز میں بقدر ضرورت ایندھین نہیں ڈالا تھا___؟
اللہ تعالى نے ہر ایک موجود کو ایک خاص استعداد اور کمال سے پیدا کیا ہے اور دنیا پر کچھ عمومى قوانین اور طریقے معین کردیئے ہیں اور ہر چیز کے لئے ایک خاص حساب اور نظم قرار دیا ہے_ ہم انسانوں پر ضرورى ہے کہ ہم ان قوانین سے صحیح طریقے سے استفادہ کریں تا کہ اللہ تعالى کے فیض و کرم اور رحمت و عدل سے صحیح طور سے مستفید ہوسکیں مثلا ماں کے رحم میں جو بچہ بڑھتا اور رشد کرتا ہے تو وہ اس عالم پر تمام مسلّط قوانین سے پیروى کرتا ہے اگر ماں، باپ یا دوسرے مخیّر حضرات خلقت کے قوانین کو صحیح طور پر استعمال کریں گے تو بچہ صحیح و سالم انھیں مل سکے گا بخلاف اگر وہ سگریٹ نوش یا شراب خور ہوئے تو سگریٹ یا شراب کے زہر سے یقینا بچے کے بدن میں نقص پیدا ہوجائے گا جس طرح کہ ہوائی جہاز کے گرنے نے نقص ایجاد کردیا تھا اور کسى کو آنکھ یا ہاتھ سے

محروم کردیتا تھا_ شرابى ماں کا بچہ دنیا میں بیمارى لے کر پیدا ہوتا ہے وہ ماں جو ضرر رساں دوائیں استعمال کریں ہے اس کا بچّہ دنیا میں معیوب پیدا ہوتا ہے، بچے کى ماں یا باپ یا اس کے لواحقین، قوانین صحت کى مراعات نہیں کرتے تو بچہ خلقت کے لحاظ سے ناقص پیدا ہوتا ہے یہ اور دوسرے نقائص ان قوانین کا نتیجہ ہیں جو اللہ تعالى نے دنیا پر مسلط کر رکھا ہے اور یہ تمام قوانین، اللہ تعالى کے عدل سے صادر ہوتے ہیں_
ہم تب کیا کہیں گے جب کوئی ماں باپ کہ جو قوانین صحت کى رعایت کرتے ہیں اور بچہ سالم دنیا میں آتا ہے اور وہ ماں باپ جو قوانین صحت کى رعایت نہ کریں اور ان کا بچہ بھى سالم دنیا میں آتا ہے کیا یہ کہ دنیا بے نظم اور بے قانون ہے اور اس پر کوئی قانون حکم فرما نہیں ہے_ کیا یہ نہیں سوچیں گے کہ جہاں میں ہرج اور مرج اور گربڑ ہے کہ جس میں کوئی خاص نظم اور حساب نہیںہے اور کوئی قانون اس پر حکم فرما نہیں ہے؟ کیا یہ نہیں کہیں


ے کہ جہاں کا خلق کرنے والا ظلم کو جائز قرار دیتا ہے____؟ کیوں کہ ان ماں باپ کو جو قانون کے پورى طرح پابند ہیں انھیں ایک سالم بچہ عنایت فرماتا ہے اور ان ماں باپ کو بھى جو کسى قانون کى پابندى نہیں کرتے سالم بچہ عنایت کرتا ہے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق ہوگا___؟ جس نے کام کیا ہو اور قانون کى پابندى کى ہو وہ اس شخص کے ساتھ مساوى اور برابر ہو کہ جس نے قانون کى پابندى نہ کى ہو___؟ کیا دونوں ایک جیسے منزل مقصود تک پہنچیں گے، گیا آپ اس طرح سوچ سکتے ہیں___؟ ہرگز نہیں کیونکہ تمھیں لم ہے کہ دنیا ایک قانون اور نظم کے ساتھ چلائی جا رہى ہے اور اسے لاقونى اور ہرج و مرج سے نہیں چلایا جارہا ہے _
تمھیں علم ہے کہ اللہ تعالى نے ہر ایک موجود کے لئے علّت قرار دى ہے_ طبائع اور مواد عالم میں قوانین اللہ تعالى کے ارادے سے رکھے گئے ہیں، وہ اپنا عمل انجام دے رہے ہیں اور کسى کى خواہش و تمنّا کے مطابق نہیں بدلتے ہیں البتہ کبھى ایک یا کئی قانون ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ان سے بعض چیزیں وجود میں آجاتى ہیں جو ہمارى پسند کے مطابق نہیں ہوتیں لیکن دنیا کے نظام میں اس قسم کے وجود سے فرار ممکن نہیں ہوسکتا یہى اللہ تعالى کا عدل نہیں ہے کہ جن قوانین کو اس نے عالم پر مسطل کردیا ہے انھیں خراب کردے اور لاقانونیّت اور ہرج و مرج کا موجب بنے بلکہ اللہ تعالى کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مخلوق کو اس کى خاص استعداد کى روسے وجود عنایت فرمائے اور اسے کمال تک پہنچائے_ خداوند عالم تمام حالات میں عادل ہوتا ہے یہ انسان ہى ہے جو اپنے اعمال اور نادانى و جہالت کى وجہ سے اپنے اور دوسروں پر ظلم اور مشکلیں کھڑى کرتا ہے_

ایک سوال
ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ ماں باپ نے قانون کى لاپرواہى کرتے ہوئے شراب یا دوسرى ضرر رساں دوائیں استعمال کر کے بچے کو غیر سالم اور بے کار وجود میں لائے اور اس قسم کے نقصان کے سبب بنے کہ جس کے نتیجے میں ایک بیکار اور ناقص فرد دینا میں آیا اور یہ ٹھیک ان قوانین کے ماتحت ہوا ہے جو اللہ تعالى نے خلقت کے لئے بر بناء عدل معین کر رکھا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں بچے کا کیا قصور ہے کہ وہ دنیا میں ناقص پیدا ہو اور تمام عمر بیکار زندگى بسر کرے____

جواب
اس کا جواب یہ ہے کہ بچے کا کوئی بھى قصور نہیں ہے خداوند عالم بھى اس پر اس کیطاقت اور قدرت سے زیادہ حکم اور تکلیف نہیں دے گا اور وہ اس امکانى حد میں جو اس میں موجود ہے اپنے وظائف شرعى پر عمل کرے تو وہ اللہ تعالى سے بہترین جزا کا مستحق ہوگا اس قسم کے افراد اگر متقى اور مومن ہوں تو وہ دوسرے مومنین کى طرح اللہ تعالى کے نزدیک محترم اور عزیز ہونگے اور اپنے وظائف پر ٹھیک طرح سے عمل پیراہوں تو آخرت میں ایک بلند درجے پر فائز ہوں گے_
 

اس بحث کا خلاصہ اور تکمیل


سابقہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خداوند عالم عادل ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالى نے خاص قوانین اس دنیا کے لئے وضع کئے ہیں اور ہر ایک مخلوق میں ایک خاص استعداد اور ودیعت کر رکھى ہے_ اگر ہم ان قوانین اور خصوصیات کى جو اللہ تعالى نے معین کى ہیں رعایت کریں تو پھر ہم اس کے فیض اور رحمت سے مستفید ہوں گے اور اس کے عدل و فضل کے سایہ میں اس نتیجے تک جا پہنچیں گے جو مدّ نظر ہوگا اور ان قوانین عالم سے جو اللہ تعالى کے ارادے سے معین کئے گئے ہیں لاپروائی کریں تو ہم خود اپنے اوپر ظلم کریں گے اور اس بے اعتنائی کا نتیجہ یقینا دیکھیں گے_
خداوند عالم کا آخرت میں عادل ہونے سے بھى یہى مراد ہے یعنى اللہ تعالى نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ لوگوں کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کردیا ہے اچھے کاموں کے لئے اچھى جزاء اور برے کاموں کے لئے برى سزا معین کر رکھى ہے_ خداوند عالم آخرت میں کسى پر ظلم نہ کرے گا ہر ایک کو ان کے اعمال کے مطابق جزاء اور سزا دے گا جس نے نیکوکاری، خداپرستى کا راستہ اختیار کیا ہوگا تو وہ اللہ تعالى کى نعمتوں سے مستفید ہوگا اور


اگر باطل اور مادہ پرستى کا شیوہ اپنا یا ہوگا اور دوسروں پر ظلم و تعدّى روا رکھى ہوگى تو آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوگا اور اپنے برے کاموں کى سزا پائے گا_
قرآن مجید کى آیت:
و ما کان اللہ لیظلمہم و لکن کانوا انفسہم یظلمون (سورہ عنکبوت آیت نمبر 40)
''خداوند عالم کسى پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں''سوچئے اور جواب دیجئے

1)___ کچھ طبعى قوانین بتلایئے
2)___ کیا یہ درست ہے کہ ہم یہ آرزو کرں کہ کاش زمین میں قوت جاذبہ موجود نہ ہوتى کیوں؟ توضیح کیجئے
3)___ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عادل ہے تو اس سے کیا مراد ہوتى ہے؟ کیا اس سے یہ مراد ہوتى ہے کہ تمام کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے خواہ اس نے کہ جس نے کام کیا ہے اور اس نے کہ جس نے کوئی کام نہیں کیا؟
4)___ اللہ تعالى کے عادل ہونے کا کیا تقاضہ ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالى اپنے قوانین طبعى کو ہوا اور ہوس کے مطابق بدل دیتا ہے یا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالى اپنے معین کردہ قوانین کے مطابق ہر ایک انسان کو نعمت اور کمال عنایت کرتا ہے_
5)___ بعض انسان جو ناقص عنصر والے ہوتے ہیں یہ کن عوامل کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے؟ کیا اس سے اللہ تعالى کى عدالت یا قوانین طبعى کے خلاف ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے؟
6)___ اگر کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں اس کى شراب خورى کى وجہ سے اس بچے کى طرح رشد کرے کہ جس کى ماں سالم اور متقى ہو اگر ایسى مساوات ہوجائے تو یہ کس کا نتیجہ ہوگا، کیا یہ عدل الہى کى نشانى ہوگی؟