پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

دوسرا حصّہ آخرت كے مسائل كے بارے ميں

ہم ان دو درسوں میں چند طالب علموں سے گفتگو کریں گے اور
خلقت کى غرض بیان کر کے جہان آخرت کى طرف متوجہ کریں گے
اس کے بعد انھیں مطالب کو دلیل سے بطور جدّى بیان کریں گے


(1) عمل کا ثمر گرمى کا موسم نزدیک آرہا ہے فصل کاٹنے کا وقت پہنچنے والا ہے_ ''علی'' چچا نے ہمیں دعوت دى ہے تا کہ فصل کاٹنے اور میوے چننے میں اس کى مدد کریں_ ہم نے صبح سویرے جلدى میں حرکت کى جب ہم اپنے چچا کے باغ تک پہنچے تو سورج نکل چکا تھا باغ کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا، موٹے اور سرخ سیب درختوں کى ٹہنیوں اور پتوں کے درمیان سے نظر آرہے تھے_
میں اور میرى بہت نے جب چاہا کہ باغ کے اندر داخل ہوں تو ہمارے باپ نے کہا ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں اور باغ میں اندر جانے کے لئے اجازت لیں اور تب باغ کے اندر داخل ہوں_ ابّا نے پتھر کے ساتھ دروازے کے باہر لگى میخوں کو مارا چچا کى آواز سننے کے بعد ہم باغ کے اندر داخل ہوگئے_ تمھارى جگہ خالى تھى یعنى کاش کہ تم بھى وہاں ہوتے اور دیکھتے کہ کتنى بہترین اور پر لطف ہوا اور عمدہ ماحول تھا، سرخ اور موٹے سیب درختوں پر لٹک رہے تھے اور ہوا کے چلنے سے آہستہ آہستہ


حرکت کر رہے تھے اور کبھى کوئی نہ کوئی زمین پر بھى گرپڑتا تھا اور دور تک جاپہنچتا تھا جب باغ کے وسط میں بنے ہوئے کمرے تک پہنچے تو چچا على دوڑتے ہوئے ہمارے استقبال کے لئے آرہے تھے ہم نے انھیں سلام کیا اور انھوں نے ہمیں خوش روئی اور خوشى سے خوش آمد کہا اور ہمیں اس کمرے میں لے گئے جہاں ناشتہ و غیرہ رکھا ہوا تھا ایک بہت بڑى ٹرے کمرے کے وسط میں پڑى ہوئی تھى کمرے کے وسط میں سیب بھى موجود تھے_


چچا نے سیبوں کى طرف اشارہ کیا اور مجھے اور دوسرے بچوں سے فرمایا کہ اللہ تعالى کا شکر ہے کہ میں اب دن رات کى محنت اور اس کے نتیجے تک پہنچ چکا ہوں درختوں نے بہت اچھا پھل دیا ہے، ان عمدہ اور خوش ذائقہ سیبوں کو اللہ تعالى نے تمھارے لئے پیدا کیا ہے تمھیں دیا ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولى بارش کے باعث تمھیں یاد ہوگا کہ جب تم بہار کے موسم میں یہاں آئے تھے اور معمولى بارش کے باعث تمھیں کچھ تکلیف بھى اٹھانى پڑى تھى اگر بارش نہ ہوتى اور پانى موجود نہ ہوتا تو میرى کوشش اور محنت بے فائدہ اور بے نتیجہ ہوتی، درخت پانى نہ ہونے سے خشک ہوجاتے اور پھر ایسے عمدہ اور خوش مزہ سیب کیسے ہاتھ آتے؟


حسن نے کہا: ہاں چچا وہ دن کیسا عمدہ تھا ہم یہاں کھیلتے تھے اور کچھ کام بھى کیا کرتے تھے اور کچھ نئی معلومات بھى حاصل کیا کرتے تھے_ چچا نے جواب دیا اب تم ناشتہ کروں اس کے بعد اس دن کى گفتگو کو دوبارہ دہرائیں گے اس سے نیا نتیجہ نکالیں گے اس کے بعد سیب چننے اور اپنى محنت کا ثمرہ لینے کے لئے باغ میں جائیں گے_


ناشتہ کرنے کے بعد چچا على نے زہراء سے کہا: بیٹى زہرائ تمھیں یاد ہے کہ اس دن پانى کى گردش کے متعلق کیا کہا تھا___؟ ننھى زہراء نے کہا ہاں مجھے یاد ہے آپ نے احمد کے لباس کى طرف اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بارش بادلوں سے برستى ہے_ ہم زہراء کے اس عمدہ اور مختصر جواب سے ہنسے_ ابّا نے کہا: کیوں ہسنتے ہو؟ زہراء سچ تو کہہ رہى ہے سورج کى روشنى سمندر پر پڑتى ہے اور سمندر کا پانى سورج کى حرارت سے بخار بنتا ے اور اوپر کى طرف چلا جاتا ہے ہوائیں ان بخارات کو ادھر ادھر لے جاتى ہیں ہوا کى سردى اوپر والے بخارات کو بادلوں میں تبدیل کردیتى ہے_


یہ گھنے بادل اور بخارات زمین کى قوت جاذبہ کے واسطے سے زمین کى طرف کھچے آتے ہیں اور بارش کى صورت میں قطرہ قطرہ ہوکر زمین پر برسنے لگتے ہیں، بارش کا پانى نہروں اور ندیوں میں جارى ہونے لگتا ہے تا کہ اسے حیوانات اور انسان پئیں اور سیراب ہوں اور کچھ پانى آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہونے لگتا ہے اور انسانوں کى ضروریات کے لئے وہاں ذخیرہ ہوجاتا ہے یہى ذخیرہ شدہ پانى کبھى چشموں کى صورت میں باہر نکل آتا ہے اور انسانوں کے ہاتھوں آتا ہے یا وہیں زمین کے اندر ہى رہ جاتا ہے اور انسان اپنى محنت و کوشش کے ذریعے سے کنویں، ٹیوب دیل و غیرہ بنا کر اس سے استفادہ کرتا ہے_
چچا ہنسے اور کہا: تم نے کتنا عمدہ درس حاضر کر رکھا ہے ابا نے چچا کى طرف دیکھا او رکہا کہ چونکہ آپ نے ایک عمدہ اور اچھا سبق پڑھایا ہے او رکہا ہے کہ تمام موجودات اسى طرح ایک پائیدار قوانین اور دقیق نظام پر خلق کئے گئے ہیں اور ایک معین غرض اور ہدف کى طرف جا رہے ہیں_ ماد ى دنیا اللہ تعالى کے ارادے اور فرمان کے ماتحت ہمیشہ بدلتى او رحرکت کر رہى ہے تا کہ انسانوں کى خدمت انجام دے پائے انسانوں کى ضروریات پورى کى جاتى ہیں اور ان کى کوششوں کو نتیجہ آور قرار دیا جاتا ہے درخت اور نباتات، آب و ہوا اور سورج کى روشنى اور معدنى مواد جو زمین کے اندر موجود ہیں، سے استفادہ کرتے ہیں اور انسانوں کے لئے غذا اور پوشاک مہیّا کرتے ہیں، حیوان چارہ کھاتے ہیں اور انسانوں کے لئے خوراک اور پوشاک مہیا کرتے ہیں_

خلاصہ
ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند
تا تو نانى بہ کف آرى و بہ غفلت نخوری

جب ابّا کى گفتگو یہاں تک پہنچى تو فرشتہ خانم نے سیب سے بھرى ہوئی ٹرے اٹھائی اور ماں کے سامنے پیش کى اور کہا اس سے کچھ لیجیئے کیونکہ آپ نے نہیں سنا

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند
تا تو نانى بہ کف آرى و بہ غفلت نخوری

اس کے بعد ٹرے اس نے چچا کے سامنے پیش کى اور چچا نے وہ سیب سے بھرى ٹرے ابّا اور ہمارے سامنے پیش کى اور ہنستے ہوئے فرمایا بچّو تم بھى سیب اٹھاؤ اور اسکے کھاؤ اور کہیں غفلت میں کھانا شروع نہ کردینا پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لینا اور اللہ تعالى کا شکر ادا کرنا_ ہم چاہتے ہیں کہ تمام اکٹھے باغ میں چلیں اور سیب چینیں کیونکہ آج عصر کے وقت کچھ سیب مجاہدین کى بس کے ذریعے فوجیوں اور ملک کے حفاظت کرنے والے پاسداروں کو بھیجنے ہیں تا کہ وہ بھى اللہ تعالى کى اس نعمت سے استفادہ کریں کیونکہ وہ اسلام کے سپاہى اور قرآن کے محافظ ہیں اور دین و وطن اور اسلامى انقلاب کى پاسدارى کرتے ہیں_ اٹھو اور باغ چلیں اور باقى گفتگو کو کل اور اس کے بعد کے لئے چھوڑ دیتے ہیں_


سوالات:
یہ سوالات، بحث اور گفتگو کرنے کے لئے بیان کئے گئے ہیں
1)___ جب نرگس اور اس کے بہن بھائی چچا کے باغ تک پہنچے تو باغ کا دروازہ بند تھا یا کھلا ہوا تھا؟ کیا نظارہ اور ماحول تھا؟ بچے کیا چاہتے تھے؟ کہ باپ نے انھیں کہا کہ ٹھہرو تا کہ دروازہ کھٹکھٹائیں_
2)___جب ان کے چچا على نے دیکھا کہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں تو اس نے کیا کہا تھا؟ تمھارى نگاہ میں چچا على خوش اخلاق تھے؟ اس کے ثابت کرنے کے لئے اس سبق اور سابقہ سبق سے کچھ دلائل بیان کرسکتے ہو؟
3)___ جب چچا على نے نرگس اور دوسرے بچوں کو سیب دیئے تو کیا کہا؟ حسن نے اس وقت کیا کہا؟ آپ کى نگاہ میں حسن کیسا بچہ ہے؟ آیا غور و فکر کرنے والا لڑکا ہے اور کیوں؟
4)___ جب چچا على ہنسے اور اپنے بھائی سے کہا کہ تم نے بہت اچھا درس حاضر کردیا ہے تو اس کے بھائی نے اس کا کیا جواب دیا؟ کیا تم اس کى طرح پانى کى گردش اور دنیا کى خلقت کى غرض و غایت کى توضیح بیان کرسکتے ہو؟ یقینا ایسا کرسکو گے؟ تجربہ کرو_
5)___ نرگس کے باپ نے اپنى گفتگو کو بطور خلاصہ ایک شعر میں بیان کیا، کیا تمھیں وہ شعر یاد ہے؟ فرشتہ خانم نے اس شعر کو کس طرح پڑھا تھا؟ تمھارى نگاہ میں فرشتہ خانم خوش سلیقہ اور خوش ذوق لڑکى ہے اور کیوں؟

6)___ اللہ تعالى کى نعمتوں کو غفلت کى حالت میں نہ کھا بیٹھنے کے لئے ہمیں کون سا کام انجام دینا چاہئے؟ على نے اس بارے میں کیا کہاتھا؟
7)___ چچا على نے کہا تھا کہ وہ اللہ تعالى کى نعمتوں سے استفادہ کریں گے، اس سے ان کا قصد کن لوگوں کے متعلق تھا_ وہ کیوں پسند کرتا تھا کہ وہ لوگ بھى اس سے استفادہ کریں وہ اللہ تعالى کا شکریہ کون سے اعمال کر کے بجالاتے ہیں؟


(2) عمل کا ثمر


ہم جمعرات کو صبح جلدى میں اٹھے باغ کے وسط میں بہنے والى نہر سے وضو کیا اور کمرے میں جا کر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے_ چچا على نے نماز کے بعد بلند آواز سے قرآن اور دعا پڑھنى شروع کردى ہم بھى ان کے ہمراہ دعا اور قرآن پڑھنے لگے، کاش تم بھى ہوتے کیسى عمدہ نماز اور با اخلاص دعا پڑھى گئی، کتنى بہترین صبح تھی، بہت اچھى ہوا اور باصفا ماحول تھا_ کاش تم بھى وہاں ہوتے اور سورج بلند پہاڑوں اور خوش و خرم اور سبزہ زار جنگلوں سے خوبصورتى کے ساتھ نکلنے کا نظارہ کرتے، ابّا کھڑکى کے پیچھے کھڑے تھے اور سورج کے طلوع کا حسین منظر دیکھ رہے تھے اور کل والے شعر کو گنگنا رہے تھے:

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند
تا تو نانى بہ کف آرى و بہ غفلت نخوری

چچا على کى بیوى فرشتہ خانم نے سماور کو جلایا_ میں نے اور حسن نے طاقچے سے ایک رسالہ اٹھایا اور اس کے ورق الٹنے لگا اس کے ایک صفحہ پر ایک شہید کا وصیت نامہ نظر سے گذرا_ فرشتہ خانم نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ تھوڑا آواز سے پڑھو کہ میں بھى سن سکوں_ صفحہ کى ابتداء میں ایک آیت کا یہ ترجمہ لکھا ہوا تھا:

''جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں''
اس کے بعد اس شہید کا یہ وصیت نامہ درج تھا_
''اللہ کے راستے میں شہید ہونا کتنا اچھا ہے یہ پھول کى خوشبو کى طرح ہے میں اس سرزمین میں دشمن سے اتنا لڑوں گا کہ یا فتح ہمارے نصیب ہوگى اور یا درجہ شہادت پر فائز ہوجاؤںگا_
اگر اسلام اور قرآن کى راہ میں شہید ہونے کى لیاقت نصیب ہوگى تو اس وقت میرى ماں کو اس کى مبارکباد دینا کیونکہ میں اللہ کا مہمان ہوگیا ہوں واقعاً خدا کى راہ میں مرنا کتنا اچھا ہے''
حسن نے پوچھا چچا جان شہید کیسے اللہ کى مہمان کے لئے جاتا ہے، موت کیا ہے اور شہادت کیا ہے___؟ چچا بولے ''ناشتہ کے بعد ان سوالات کے بارے میں گفتگو کروں گا اب تم ناشتہ کرلو''_ جب ہم ناشتہ کرچکے تو میرى ماں کى مدد سے فرشتہ خانم نے دسترخوان اکٹھا کیا اور اس وقت چچا بولے:
''تمھیں یاد ہے کہ آبا نے کل کیا کہا تھا؟ تمھیں یاد ہے کہ کائنات کى خلقت اور اس کے اغراض و مقاصد کے سلسلے میں انھوں نے مطالب بیان کئے تھے ____؟ جیسے کہ ابّا نے بیان کیا تھا کہ عالم مادی، اللہ تعالى کے ارادے او رحکم سے ہمیشہ تغیر و تبدل میں ہے تا کہ اس سے وہ انسانوں کى خدمت بجالائے اور ہمارى کوشش و محنت کو بار آور قرار دے اپنى زندگى میں غور کرو_

انسان ابتداء میں کمزور اور ایک چھوٹا سا وجود تھا، سرعت کے ساتھ اس عمدہ ہدف کى طرف جو اس کے لئے اللہ تعالى نے معین کر رکھا تھا حرکت کر رہا تھا، دودھ پیتا تھا اور بڑھ رہا تھا، غذا کھاتا تھا اور بڑا ہو رہا تھا اور رشد کر رہا تھا، کام کرتا تھا اور تجربہ حاصل کر رہا تھا اور خارجى دنیا سے وابستگى حاصل کر رہا تھا، علم حاصل کرتا تھا اور مادّى دنیا کى طبعى ثروت سے اور اپنے کام کے نتائج اور حیوانات و نباتات اور درختوں کى کوشش سے ا ستفادہ کر رہا تھا، اپنے جسم اور جان کى پرورش کر رہا تھا مختصر یہ کہ تمام موجودات عالم کوشش اور محنت کر رہے ہیں تا کہ وہ انسان کى خدمت بجالائیں اور انسان کى زندگى کى ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اسے کمال تک پہنچائیں لیکن اسى حالت میں اسے موت آپہنچتى ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنا بند کردیتا ہے''_
آپ کیا فکر کرتے ہیں___؟ کیا انسان موت کے آجانے سے فنا اور نابود ہوجاتا ہے___؟ اس صورت میں تمام عالم کے موجودات کى تلاش اور کوشش جو انسان کى زندگى کے لئے کر رہے تھے بے کار نہ ہوگی___؟ اور تمام عالم کے موجودات کى کوشش اور حرکت لغو اور بے فائدہ نہ ہوگی___؟ کیا انسان اپنى کوشش اور محنت کا کوئی صحیح اور مثبت نتیجہ حاصل نہیں کرتا___؟ کیا انسان اور تمام عالم کى کوشش اور تلاش بے کار نہ ہوجائے گی___؟
نہیں اور بالکل نہیں انسان اور تمام عالم اور جہاں کى خلقت، لغو اور بے غرض نہیں ہے_ خداوند عالم نے اس منظم کائنات کو فنا اور نابود ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشگى کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اس جہاں سے عالم آخرت کى طرف جو باقى اور ہمیشہ رہنے والا ہے منتقل ہوجاتا ہے اور آخرت میں ان تمام کاموں کا ثمرہ پائے گا جو اس مادّى عالم میں انجام دیئے ہوتے ہیں اور پھر اس عالم آخرت میں ہمیشہ کے لئے زندگى گذارے گا_
موت ایک پل ہے جو نیک بندوں کو آخرت اور اللہ تعالى کى محبت و شفقت کى طرف منتقل کردیتا ہے_ اللہ تعالى کى یہ محبت اور نعمتیں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ ہوا کرتى ہیں_ یہ پل گناہگار انسنوں کو ان کے برے کردار کى سزا اور جہنم کے سخت عذاب تک جا پہونچاتا ہے_
اب تم سمجھے کہ موت کیا ہوتى ہے___؟ موت ایک جگہ سے دوسرى جگہ جانے کا نام ہے جس طرح تم اپنے گھر سے پھل چننے کے لئے اس باغ میں آئے ہو اسى طرح نیک بندے اللہ تعالى کى خوبصورت بہشت میں اللہ اور اس کے نیک اچھے بندوں کى مہمانى میں جائیں گے_ اللہ کے نیک بندے جو اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے احکام کو بجالاتے ہیں اور اپنى روح اور جان کو اللہ تعالى کے اولیاء کى محبت سے پرورش کرتے ہیں وہ آخرت میں اپنے کاموں کا ثمرہ اٹھائیں گے اور بہت میں جائیں گے اور اللہ تعالى کى عمدہ بہشت کى نعمتوں سے جو انھیں اپنے اچھے کردار اور ایمان کى وجہ سے ملیں گى استفادہ کریں گے_ اس وقت میرى بہن مریم نے پوچھا:
چچا جان شہادت کیا ہوتى ہے___؟ شہادت یعنى ہم اللہ کے راستے میں اللہ تعالى کے رہبر کے حکم سے کافروں اور ظالموں سے جنگ کریں تا کہ مارے جائیں_ شہید بھى اس دنیا میں عزت و شرافت اور وقار پاتا ہے اور آخرت میں سب سے بلند و بالا مقامات پر فائز ہوتا ہے وہ پیغمبروں و نیک اور صالح انسانوں کا ہمنشین ہوتا ہے اور اللہ تعالى کى خاص نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے_ بہشت میں رہنے والے شہید کے مقام اور رتبے سے غبطہ کریں گے_
میرے پیارے بچو جان لو کہ آخرت کى نعمتیں اسے ملیں گى جو اس دنیا کى نعمتوں سے صحیح طریقے سے استفادہ کرتا ہے، اللہ کى یاد اور اطاعت سے غفلت نہیں کرتا یہ دنیا آخرت کى کھیتى ہے ہم انى کوشش اور محنت کا کامل نتیجہ آخرت میں حاصل کریں گے_
یہ دنیا زراعت، محنت و کوشش اور عبادت کرنے کا زمانہ ہے اور آخرت اس زراعت کے کاٹنے اور ثمرہ حاصل کرنے کے زمانے کا نام ہے_ اب اٹھو اور باغ میں چلیں اور باقى ماندہ سیب چنیں کل جمعہ ہے اور کچھ افراد خدمت خلق کرنے والے ادارے کہ جس کا نام ''جہاد سازندگی'' ہے کل ہمارى مدد کے لئے آئیں گے_ جب ہم ان درختوں کى طرف جو سیبوں سے لدے ہوئے تھے جا رہے تھے تا کہ باقى ماندہ سیب چنیں تو سب کے سب یہ پڑھ رہے تھے _

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند
تا تو نانى بہ کف آرى و بہ غفلت نخوری


سوالات
یہ اس لئے کئے گئے ہیں تا کہ تم سوچ سکو، بحث کرو اور جواب دو
1)___ حسن نے اپنے چچا سے موت اور شہادت کے متعلق کیا پوچھا___؟
2)___اللہ تعالى ان لوگوں کے متعلق جو راہ خدا میں مارے جاتے ہیں کیا فرماتا ہے؟
3)___ آخرت کى نعمتیں کسے ملیں گی؟

 

آخرت کى طرف منتقل ہونا


ہمارے بے پایاں درود و سلام ہوں انقلاب اسلامى ایران کے شہیدوں پر کہ جنھوں نے اپنى رفتار سے ہمیں شجاعت و دلیرى اور دیندارى کا درس دیا ہے اور اپنى روش سے عزت اور بزرگى ہمیں سمجھائی ہے_
شہید احمد رضا جن کى یاد باعظمت رہے اور ان کا آخرت میں مقام، بہشت جاویداں ہو کہ جنھوں نے ایک بلند مقام شہید کى طرح اپنے مہم وصیت نامہ میں یوں لکھا ہے:
''انسان ایک دن دنیا میں آتا ہے اور ایک دن دنیا سے چلاجاتا ہے صرف اس کا کردار اور عمل دنیا میں رہ جاتا ہے موت ہمارا انجام ہے، کتنا اچھا ہو کہ انسان کسى غرض و ہدف اور خاص مکتب کے لئے مارا جائے_
میرى موت سے پریشان نہ ہونا کیونکہ میں اللہ تعالى کے نزدیک زندہ ہوں اور زرق پاتا ہوں، صرف میرا جسم تمھارے درمیان سے چلاگیا ہے، میرے مرنے سے پریشان نہ ہونا اور میرے لئے سیاہ لباس نہ پہننا یعنى عزادارى نہ کرنا_ میری

پیارى اماں میں جانتا ہوں کہ تم میرى موت سے پریشان ہوگى لیکن یہ تمھیں معلوم ہونا چاہیئے کہ جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالى کے نزدیک بہرہ مند ہوتے ہیں_
میں امید رکھتا ہوں کہ خداوند عالم مجھے انھیں شہیدوں میں سے قرار دے گا''_
اس محترم شہید نے دوسرے آگاہ شہیدوں کى طرح حق کے راستے کو پہچان لیا ہے اور بالکل درست کہا ہے کہ موت، زندگى کى انتہا نہیں ہے بلکہ موت، زندگى کے گذرنے کا وسیلہ ہے اور ایک قسم کى زندگى کے تبدیل ہوجانے کا نام ہے، موت ایک طبعى اور کامل عادى امر ہے یہ خوف اور وحشت کا موجب قرار نہ پانا چاہیئے_
''موت ہر انسان کے لئے مساوى نہیں ہوا کرتى بلکہ بعض انسانوں کے لئے موت سخت ہوا کرتى ہے اور بعض انسانوں کے لئے بہت زیادہ آسان اور سہل ہوا کرتى ہے بلکہ لذت بخش اور مدہ دینے والى ہواکرتى ہے _ ان لوگوں کے لئے موت، سخت اور دشوار ہوتى ہے جو دنیا اور مال و ثروت اور مقام و اقتدار و لذائذ دنیا کے عاشق و شیفتہ ہوں اور خداوند عالم کو فراموش کرچکے ہوں اور کفر و نافرمانى کا راستہ اختیار کرلیا ہو اور اللہ کى مخلوق پر ظلم کرتے ہوں''_

اس قسم کے مادّى دنیا کے دوست انسان نے دنیا کے اقتدار اور زر و زیور اور جاہ و مقام کے محبت کر رکھى ہوتى ہے_ اللہ و آخرت اور خداپرست انسانوں سے محبت نہیں رکھتے ان لوگوں کے لئے اس عالم سے دوسرے عالم کى طرف منتقل ہونا بہت سخت ہوتا ہے اس قسم کے لوگ اخروى دنیا کو آباد نہیں کرتے اور اس کے سفر کے لئے کوئی زاد راہ نہیں رکھتے یہ لوگ کس طرح اس دنیا سے قطع روابط کرسکتے ہیں___؟ کس طرح وہ آخرت کے ویران اور دردناک گھر کى طرف کوچ کرسکتے ہیں___؟ اس لحاظ سے موت کى سختى اور جان کا سخت نکلنا دنیاوى اور مادّى امور سے دلبستگى کے معیار اور گناہوں کى مقدار پر مبنى ہوگا_
لیکن انسانوں کا دوسرا گروہ جو اللہ تعالى اور پیغمبروں کے دستور کے پیروکار اور اہل آخرت اور ہمیشہ اللہ کى یاد میں رہنے والے ہوتے ہیں اور اللہ سے محبت و انس رکھتے ہیں اور ان کے دل کى گہرائیوں میں اللہ تعالى کى محبت اور ولایت نے نفوذ کیا ہوا ہوتا ہے، اللہ کى اطاعت اور اس کے سیدھے راستے پر گامزن رہتے ہیں اور جنھوں نے اپنے نیک اعمال اور بندگان خدا کى خدمت سے اپنى آخرت کو آباد کیا ہوتا ہے ان لوگوں کے لئے اس مادى دنیا سے قطع روابط صرف مشکل ہى نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا استقبال بھى کرتے ہیں_
ایسے لوگ موت سے کیوں کبھرائیوں___ ؟ انھوں نے دنیاوى لذات سے دلبستگى نہیں کى ہوتى تا کہ مرنا ان کے لئے سخت ہو یہ محبت اور رغبت سے اپنى پاک روح اور جان کو اللہ تعالى کے فرشتوں کے سپرد کر کے بہشت کى طرف چلے جاتے ہیں_
جنت کى نعمتیں اور کتنے عمدہ ہدایا اللہ تعالى کے نیک اور حب دار بندوں کے لئے آخرت کے جہاں میں موجود ہیں_
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے وفادار ساتھیوں سے جو شہادت کے انتظار میں تھے شب عاشوریوں فرمایا:
''اے میرے وفادار ساتھیو دشمن سے جہاد کرنے اور دین سے دفاع کرنے میں پائیدار بنو اور جان لو کہ موت ایک پل کى طرح ہے جو تمھیں سختیوں اور دشواریوں سے نجات دلائے گى اور عالم آخرت کى طرف منتقل کردے گی_ ایسا کوئی ہوسکتا ہے جو ایک سخت اور دردناک قیدخانے آباد اور بہترین باغ کى طرف منتقل نہ ہو___؟ لیکن تمھارے دشمنوں کے لئے موت ایک ایسا پل ہے جو ایک خوبصورت محل سے سخت اور دردناک زندوان کى طرف منتقل کردیتى ہے''_
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کى یوں توصیف کى ہے:
''مرد مومن کے لئے موت ایک میلا اور کثیف اذیت وہ لباس کا اتارنا، ہاتھ، پاؤں اور گردن سے غل و زنجیر کا نکالنا اور اس کے عوض میں عمدہ اور معطر لباس پہننا اور بہترین سوارى پر سوار ہوکر بہترین جگہ کى طرف جانے کا نام ہے_
کافر اور بدکردار کے لئے موت، عمدہ اور راحت دہ لباس کا اتارنا اور بہترین و راحت دہ مکان سے نکل کر بدترین و کثیف ترین لباس پہن کر وحشتناک اور دردناک ترین جگہ کى طرف منتقل ہونے کا نام ہے''_

ٌحضرت امام حسین اور حضرت امام زین العابدین علیہما السلام کى موت کے بارے میں یوں تعریف اور توصیف کے بعد کون مومن اور نیک انسان موت اور شہادت سے ڈرے گا اور ذلت و خوارى کو برداشت کرے گا___؟
آیت قرآن مجید:
کل نفس ذائقة الموت ثم الینا ترجعون (سورہ عنکبوت آیت نمبر 57)
''ہر انسان، موت کا ذائقہ چھکے گا اور پھر ہمارى طرف لوٹ آئے گا''_



سوالات
سوچنے، بحث کرنے اور بہتر یاد کرنے کے لئے کئے گئے ہیں
1)___ ایران میں انقلاب اسلامى کے شہداء نے اپنى رفتار اور کردار سے کون درس دیا ہے___؟
2)___ احمد رضا خادم شہید نے اپنے وصیت نامے میں کیا لکھا تھا اور اپنى ماں کو کیا پیغام دیا تھا___؟
3)___ کیا موت تمام انسانوں کے لئے برابر ہے بعض کے لئے کیوں سخت اور تکلیف دہ ہے اور دوسرے بعض کے لئے کیوں آسان اور خوشى کا باعث ہے___؟
4)___ حضرت امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے وفادار ساتھیوں سے کیا فرمایا___؟
5)___ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے موت کى کیا تعریف کى ہے؟
6)___ مسلمان انسان، موت اور شہادت سے کیوں نہیں ڈرتا اور کیوں ذلت اور خوارى کو برداشت نہیں کرتا___؟

 

تذکّر:


ہم تمام شہیدوں کے وصیت نامے نقل نہیں کرسکے آپ درس میں شہیدوں کے وصیت نامے نقل کرسکتے ہیں اور اس کے لئے ان کے خاندان کى طرف رجوع کر کے معلومات حاصل کرسکتے ہیں_

تکامل انسان یا خلقت عالم کى آخرى غرض و غایت سورج نکلتا ہے، بادل برستے ہیں، درخت گل اور شگوفے نکالتے ہیں اور میوے دیتے ہیں، صاف و شفاف چشمے پتھروں کے درمیان سے پھوٹتے ہیں تا کہ انسان ان کے پاک پانى کو پیئے_ رات جاتى ہے اور دن آتا ہے تا کہ ہم انسان دن کى روشنى اور گرمى میں محنت کریں اور اللہ تعالى کى نعمتوں سے بہرہ ور ہوں_
دن چلاجاتا ہے اور رات آتى ہے تا کہ ہم تاریکى میں راحت اور آرام کریں اور دوسرے دن نشاط و خوشى سے عبادت کرسکیں_ سورج، چاند، بادل، ہوا، آسمان و زمین تمام کے تمام کوشش کر رہے ہیں تا کہ انسان کى پرورش کریں اور نادانى و ناتوانى سے دانائی اور توانائی تک پہنچائیں اور اس کے حجم و روح کى پرورش کریں_
نباتات و حیوانات سب کے سب انسان کى خدمت کے لئے ہیں اور وہ انسان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اس کى رشد و پرورش کا وظیفہ انجام دے رہے ہیں تمام کوشش کر رہے ہیں تا کہ ا نسان زندگى گزار سکے لیکن اسى درمیان انسان کو موت آجاتى ہے اور انسان کا جسم حرکت کرنے سے رک جاتا ہے تم کیا فکر کرتے ہو___؟
کیا تمام جہاں کے موجودات اس لئے کوشش کر رہے ہیں کہ انسان چند ایک دن زندہ رہ سکے اور اس کے بعد مرکر فنا ہوجائے____؟
اس صورت میں تمام جہاں کى کوشش بے کار اور بے ہدف نہ ہوگی___؟ کیا یقین کرسکتے ہو کہ جہاں کى خلقت میں کوئی غرض و غایت نہیں ہے؟ کیا اللہ تعالى نے اتنى بڑى کائنات کو بے کار اور بے ہدف پیدا کیا ہے ؟ کیا خداوند عالم نے اس جہاں کو پیدا کیا ہے کہ وہ ایک مدت کے بعد اس عظیم کوشش او رتلاش کے بعد نابود ہوجائے؟
اگر خداوند عالم نے اسے فنا کے لئے پیدا کیا ہو تا تو کیا اس کا ابتداء میں پیدا کرنا ممکن بھى ہوتا___ ؟ خداوند عالم نے ان سوالات کا چند آیتوں میں جواب دیا ہے:
آیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو عبث خلق کیا ہے اور تم ہمارے پاس آخرت میں لوٹ نہیں آؤگے؟ اس طرح ہرگز نہیں ہے وہ خدا جو تمام جہاں کا حاکم اور اسے چلانے والا ہے کبھى بھى عبث اور بلافائدہ کام انجام نہیں دیتا_ (سورہ مومنوں آیت نمبر 115)
ہم نے انسان کو معزز قرار دیا ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر 70)
آیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ بیہودہ اور باطل چھوڑ دیا گیا ہے؟ (سورہ قیامت آیت نمبر 36)
تم تمام انسان اللہ کى طرف لوٹ آؤگے اس وقت اللہ تعالى تمھیں

تمھارے کردار سے مطلع کرے گا کیونکہ اللہ تعالى جو کچھ تمھارے دل میں ہے آگاہ ہے (زمر آیت 39) _
پس آپ کو علم ہوگیا ہوگا کہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور موت اسے نابود اور فنا نہیں کرتى بلکہ انسان مرنے سے ایک دنیا سے دوسرى دنیا کى طرف منتقل ہوجاتا ہے_ انسان اس عالم مادى میں اپنے جسم اور روح دونوں کو پرورش دیتا ہے تا کہ دوسرى دنیا کى طرف منتقل ہوکر اپنے اعمال اور کردار کا ثمرہ اور نتیجہ دیکھ سکے اس دوسرى دنیا کو آخرت کہتے ہیں کہ جس میں انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا_
اگر انسان اپنى زندگى کو پیغمبروں کى تعلیم کے مطابق سنوارے، اللہ تعالى اور اس کے اولیاء کى ولایت کو قبول کرے اور نیک و صالح ہوجائے تو پھر آخرت میں خوش و خرم اور آسودگى کى زندگى بسر کرے گا اور پیغمبروں اور اماموں کے ساتھ زندگى بسر کرے گا لیکن اگر دستور الہى اور پیغمبروں اور ائمہ کى ولایت و رہبرى سے انحراف کرے اور سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے تو سخت خطرناک وادیوں میں جاگرے گا اور آخرت میں سوائے بدبختى اور عذاب کے کچھ بھى نہ دیکھے گا_


قرآن کى آیت:
افحسبتم انّما خلقناکم عبثا و انّکم الینا لا ترجعون (سورہ مومنون آیت نمبر 115)
کى تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہارى بارگاہ میں لوٹائے نہ جاؤگے؟


سوالات یہ اس لئے کئے جار ہے ہیں تا کہ غور کرو اور اس پر بحث کرو
1)___ کیا انسان عبث خلق کیا گیا ہے خداوند عالم نے اس سوال کا کیا جواب دیا ہے؟
2)___ انسان، حیوانات اور نباتات سے کس طرح بہرہ مند ہوتا ہے؟
3)___ انسان اپنے کام کا نتیجہ کس دنیا میں دیکھے گا؟
4)___ انسان کون سے کاموں کے بجالانے سے آخرت میں سعادت مند ہوگا؟
5)___ جو انسان اللہ تعالى اور اس کے اولیاء اور پیغمبروں کى ولایت کو قبول نہ کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟


نامہ اعمال


کبھى تم نے اپنے گذرے ہوئے زمانے کے متعلق سوچا ہے اور ان گذرے ہوئے اعمال کو سامنے لائے ہو___؟ نمونے کے طور پر اپنے گذرے ہوئے کاموں میں سے کسى کام کے متعلق سوچ سکتے ہو اور اسے یاد کرسکتے ہو___؟ ممکن ہے تمھیں اپنے بعض کاموں کے یاد کرنے پر خوشى ہو اور ممکن ہے بعض دوسرے کاموں پر پشیمانى ہو_
ہمارے تمام کام اور گذرى باتیں اسى طرح روح اور ضمیر کى تختى پر ثبت ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان میں سے بعض کاموں کو بظاہر فراموش کرچکے ہوں لیکن اس کے باوجود تمام کے تمام اعمال ہمارى روح میں ثبت ہیں_ ہمارى روح اور جان ایک دقیق فیلم کے نیگیٹوں کى طرح ہے بلکہ اس بھى دقیق اور حساس ہے جس طرح فیلم کے نیگٹیو موجو ات کى تصویروں کو لے لیتى ہے اور محفوظ رکھتى ہے اسى طرح ہمارى جان اور روح ہمارے تمام کاموں اور اخلاق و اعتقادات کو ضبط کر کے اپنے آپ میں محفوظ کرلیتى ہے روح انھیں اعمال کے واسطے سے یا ارتقاء کى طرف بڑھتى ہے یا سقوط اور نزول کا راستہ اختیار کرلیتى ہے_
ہمارے عمدہ اور اچھے اخلاق ہمارى روح کو با صفا اور نورانى کردیتے ہیں نیک اعمال اور اچھے اخلاق، عمدہ آثار اور خوشى انسان کى روح میں چھوڑتے ہیں کو جو باقى اور ثابت رہ جاتے ہیں_


اچھا انسان اللہ تعالى کى رضا اور محبت کے حاصل کرنے کے لئے اعمال انجام دیتا اور ہمیشہ اللہ کى یاد اور اس سے انس و محبت رکھتا ہے، اپنے آپ کو اچھے اخلاق اور نیک اعمال سے پرورش کرتا ہے اور خدائے قادر سے تقرب حاصل کرتا ہے اپنے ایمان سے خدا اور اس کى طرف توجہ سے اپنى روح اور جان کو نورانى اور باصفا بناتا ہے اور ہمیشہ ترقى کے لئے قدم اٹھاتا رہتا ہے اور اپنے انسانى کى قیمتى گوہر کى پرورش کرتا ہے_
اس کے برعکس غلط و باطل اور برے اخلاق و کردار انسان کى پاک اور حسّاس روح پر انداز ہوتے ہیں اور انسان کى ذات اور باطن کو سیاہ اور آلودہ کردیتے ہیں اور غمگینى اور افسردگى کا موجب ہوتے ہیں_ بے دین اور بدکردار دنیاوى اور حیوانى لذات میں مست ہوتا ہے اس طرح کا انسان صراط مستقیم اور ارتقاء سے دور رہتا ہے اور پستى کى طرف چلاجاتا ہے_ حیوانى اور وحشت زدہ تارى وادیوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے ایسا انسان اپنے اس طرح کے افکار اور پلید اعمال کى وجہ سے حیوانیت اور درندگى کى عادت کو اپنے آپ میں اپنا لیتا ہے اور انسانیت کے نورانى گوہر کو اپنے آپ میں کمزور اور کم نور کردیتا ہے_


اس حقیقت کى جو ہر آگاہ او رہوشیار انسان کے سامنے واضح او رنظر آرہى ہے بہت سادہ مگر اچھے انداز میںہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے تصویر کشى کى ہے فرماتے ہیں کہ:
'' ہر انسان کى روح ایک صاف اور سفید تختى کى طرح ہے کہ


جسے نیک کام اس کو زیادہ صاف و نورانى اور زیبا بلکہ زیباتر کردیتے ہیں اس کے برعکس برے کام اور گناہ اس پر سیاہ داغ ڈال دیتے ہیں کہ جس سے انسان روح کثیف اور پلید ہوجاتى ہے_
اگر کوئی انسان گناہ کرنے پر اصرار کرتا ہے تو یہ سیاہ داغ اس نورانى اور سفید روح کى تختى پر چھا جاتے ہیں اور گناہگار انسان کے تمام وجود کو سیاہ اور کثیف کردیتے ہیں_ ایسا سیاہ دل اور پلید انسان کہ جس نے خود سیاہى اور پلیدى کو اپنے اعمال سے اپنے آپ میں فراہم کیا ہے_ اس دنیا میں غم زدہ اور حسرت میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں جہنم کى آگ میں کہ جس کو خود اس نے اپنے کاموں سے فراہم کیا ہے جلتا رہے گا''_

الحاصل:
انسان کے تمام اعمال خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں انسان کى ذات اور روح اور نامہ اعمال میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس کے علاوہ اللہ تعالى کے فرشتے جو کہ دن رات ہمارے نگراں اور محافظ ہیں اور ان کے اوپر ذات الہى جو کہ ہمارے اعمال کى ناظر اور حاضر ہے ہمارے اعمال کو محفوظ رکھتى ہے ہمارا کوئی بھى کام نابود اور ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تمام کے تمام اعمال ہمارے حساب کے لئے باقى ہیں_ خداوند عالم قرآن میں یوں ارشاد فرماتا ہے_
ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کى گردن میں ڈالیں گے تا کہ اسے قیامت کے دن کھول کر دیکھ سکے، آج اپنے نامہ اعمال کو پڑھ اور اپنا حساب خود کر لے کہ تیرا نفس اپنے حساب کرنے کے لئے کافى ہے_ (سورہ اسراء آیت نمبر 13)


2)___ قیامت کے دن لوگ گروہ گروہ اٹھائے جائیں گے پس جس نے بھى ذرّہ برابر نیک کام انجام دیا ہوگا اسے دیکھے گا اور جس نے ذرّہ برابر برا کام انجام دیا ہوگا اس کو دیکھے گا_ (سورہ زلزال آیات 6، 8)
ہمارے کام اس دنیا میں فنا نہیں ہوتے بلکہ نامہ اعمال میں ثبت اور ضبط ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن کبھى ہم ان سے غافل ہوجاتے ہیں_ موت کے بعد اور آخرت میں منتقل ہوجانے کے بعد قیامت کے دن غفلت کے پردے ہٹادیئےائیں گے اور انسان پر اپنا باطن اور اس کى اصلى ذات ظاہر ہوجائے گى اور اس کا حیران کن نامہ عمل اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا اس وقت اپنے تمام اعمال کو اپنى آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا جیسے اس نے ابھى انجام دیا ہے_


3)___ قیامت کے دن انسان کا باطن ظاہر ہو کر رہ جائے گا اور انسان کا نامہ عمل ظاہر کر کے کھول دیا جائے گا گناہگاروں کو دیکھے گا کہ وہ اپنے برے نامہ عمل کے دیکھنے کى وجہ سے سخت خوف و ہراس میں غرق ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم پر ویل ہو کہ جس طرح کا حیرت انگیز ہمارا نامہ عمل ہے کسى چھوٹے اور بڑے کاموں کو ضبط و ثبت کرنے سے اس نے صرف نظر نہیں کیا اور تمام کے تمام کو لکھ لیا جائے گا_ اس دن تمام بندے اپنے اعمال کو حاضر دیکھیں گے تیرا پروردگار کسى پر ظلم نہیں کرتا_ (سورہ طارق آیت نمبر9)

ان آیات کى روسے انسان اس جہاں سے رخصت ہوکر آخرت کى طرف منتقل ہوجاتا ہے_ قیامت کے دن اپنے نامہ عمل کو دیکھے گا اور تمام کے تمام کو اپنى آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا اس وقت خداوند عالم کى طرف سے خطاب ہوگا_


4)___ اے انسان تو اپنے اعمال سے دنیا میں غافل تھا لیکن اب ہم نے تیرے دل سے غفلت کے پردے ہٹا دیئے ہیں اور تیرى آنکھوں کو بینا کردیا ہے_ (سورہ ق آیت نمبر 22)
قیامت کے دن جب انسان حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنى حقیقت اور واقعیت سے مطلع ہوجائے گا_ ہر ایک انسان اپنے نامہ عمل کو کھولے گا اور واضح دیکھ لے گا اور اسے دقّت سے نگاہ کرے گا اپنے تام گزرے ہوئے اعمال کو ایک دفعہ اپنے سامنے حاضر پائے گا_ اللہ تعالى نامہ عمل کے دریافت کرنے کے بارے میں یوں فرماتا ہے:


5)___ '' نیک لوگوں کو ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے (اور اسى لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب یمین'' کہا گیا ہے ایسے لوگ خوش اور شاہدوں گے کیونکہ جان رہے ہیں کہ ن کا حساب و کتاب آسان ہے اور انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آرہى ہے وہ کہیں گے آؤ اور ہمارے نامہ اعمال کو پڑھو_ ہمیں علم تھا کہ ایک دن حساب و کتاب کا آنے والا ہے ایسے لوگ خوشگوار زندگى بہشت میں گذاریں گے_
بے دین اور بدکردار انسانوں کو نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا (اسى لئے ایسے انسانوں کو ''اصحاب شمال'' کہا جاتا


ہے) ایسے لوگ غمگین اور ناخوش ہوں گے کیونکہ وہ جان چکے ہونگے کہ ان کا حساب و کتاب بہت سخت اور دشوار ہے_ وہ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ عمل ہمارے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور ہم اپنے اعمال و کردار اور حساب سے بے اطلاع اور غافل رہتے، کاش موت آجاتی_
ایسے انسانوں کى زندگى سخت اور غم انگیز ہوگى اور وہ جہنم کے بلند اور جلانے والے شعلوں میں ڈالے جائیں گے ( یہ سب کچھ ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہوگا''_
آیت قرآن کریم
ووضع الکتاب فترى المجرمین منفقین ممّا فیہ و یقولوا یا ویلتنا ما لہذا الکتاب لا یغادر صغیرة و لا کبیرة الّا احصیہا و وجدوا ما عملوا حاضرا و لا یظلم ربّک احدا (سورہ کہف آیت نمبر 40)_
نامہ عمل رکھا جائے گا پس گناہگار لوگ بسبب اس کے جوان میں پایا جاتا ہے اسے خوف زدہ دیکھے گا اور وہ کہے گا دائے ہو ہم پر یہ کیسا نامہ عمل ہے؟ کہ کوئی چھوٹى اور بڑى چیز ہمارى نہیں چھوڑتا جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے وہ اس میں موجود ہے_ تیرا پروردگار کسى پر ظلم نہیں کرتا_



سوالات
سوچئے اور جواب دیجئے
1)___ اچھے اور پسندیدہ اخلاق اور اعمال انسان کى ذات پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟
2)___ نیک انسان کس طرح اپنى روح اور جان کو نورانى اور باصفا قرار دیتا ہے؟
3)___ کن اعمال اور عقائد سے انسانى روح کثیف و پلید اور سیاہ ہوتى ہے؟ انسان کس طرح مستقیم اور نورانى راستے اور تقرب الہى سے دور ہوجاتا ہے؟
4)____ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانى نفس اور روح پر اعمال کے اثرانداز ہونے کى کس طرح تصویر کشى کى ہے؟
5)___ انسانى اعمال جو انسانى روح اور نفس میں ثبت ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ کون سى ذوات ہمارے اعمال کے مراتب اور محافظ ہیں؟
6)___ قیامت کے دن جب گناہگار اپنے نامہ اعمال دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟
7)___جب انسان قیامت کے دن اپنے نامہ عمل دیکھے گا اور اپنے تمام اعمال کا مشاہدہ کر رہا ہوگا تو اس وقت اللہ تعالى اس سے کیا خطاب کرے گا؟
8)___ انسان کو اپنى ذات اور واقعیت کس دنیا میں پورى طرح ظاہر ہوگی؟
9)___ قرآنى اصطلاح میں ''اصحاب یمین'' کسے کہا جاتا ہے اور جب انھیں نامہ عمل


دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟
10)___ قرآنى اصطلاح میں ''اصحاب شمال'' کسے کہا جاتا ہے جب انھیں اپنا نامہ عمل دیا جائے گا تو وہ کیا کہیں گے؟ اور آخرت میں کس طرح زندگى بسر کریں گے؟

 

قیامت کا منظر


لوگوں کو بتایا گیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک صحابى فوت ہوگئے ہیں ان کے دوست اور احباب اس خبر سے بہت رنجیدہ ہوئے اور ان کے لئے طلب مغفرت کى ایک مدت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھى اور وہ آدمى نہیں مرا تھا اس کى اولاد رشتہ دار اور دوست و احباب بہت خوش ہوئے_ امیرالمومنین علیہ السلام نے ان دو خبروں کے معلوم کرنے پر اس شخص کو یہ خط تحریر فرمایا:
'' بسم اللہ الرّحمن الرحیم
ایک اطلاع ہمیں تمھارے بارے میں ملى کو جو دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے افسوس کا باعث تھى جس نے ان کو عمزدہ کردیا_ ایک مدت کے بعد دوسرى اطلاع ملى کہ پہلى خبر جھوٹى تھى اور اس نے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کو خوش کردیا_
ان دو خبروں کے متعلق تم کیا سوچتے ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ یہ خوشحالى اور خوشى پائیدار و دائمى ہے یا یہ خوشى ایک دفعہ پھر حزن و ملال میں تبدیل ہوجائے گی؟ واقعاً اگر پہلى خبر درست ہوتى تو اب تک تم آخرت کى طرف منتقل ہوگئے ہوتے، کیا تم پسند کرتے ہو کہ خداوند عالم تمھیں دوبارہ دنیا کى طرف لوٹا دیتا اور نیک کاموں کے بجالانے

کى فرصت عنایت فرماتا؟ تم یوں فکر کرو کہ پہلى خبر درست تھى اور تم آخرت کى طرف چلے گئے ہو اور موت کے مزہ کو چکھ چکے ہو اور پھر دوبارہ اس دنیا کى طرف لوٹائے گئے ہو تا کہ اعمال صالحہ بجالاؤ_
اس طرح گمان کرو کہ اللہ تعالى نے تمھیں اس دنیا میں واپس تمھارى خواہش کو قبول کرتے ہوئے لوٹا دیا ہے، اب کیا کروگے؟ آیا جلدى میں حقیقى زندگى کے لئے زاد و توشہ جمع کروگے؟ آیا ہمیشہ رہنے والى جگہ کے لئے کوئی پیشگى بھیجوگے؟
نیک کام، عمل صالح، لوگوں کى دستگیری، دعا اور عبادت ان میں سے کیا روانہ کروگے؟ جان لو کہ اگر اس سے آخرت کى طرف خالى ہاتھ کوچ کر گئے تو پھر دوبارہ واپس لوٹ کر نہیں آؤگے؟ اور سوائے افسوس و حسرت اور رنج و غم کے اور کوئی چیز نہ پاؤگے_
یہ جان لو کہ دن، رات ایک دوسرے کے پیچھے آجا رہے ہیں اور وہ تمھارى عمر کو کوتا ہ کر رہے ہیں اور موت کو تم سے قریب کر رہے ہیں اور انسان کو زندگى کے آخرى نقطہ تک پہنچا رہے ہیں_ یقینا یہ آخرى لحظہ بھى انسان کو آپہنچے گا اور حق کى طرف بلانے والا آخرت کى طرف لے جاکر رہے گا_ پست اور کمتر اور ہوى و ہوس اور لذائذ مادى کو کم کرو، اللہ کى طرف اور حقائق الہى کى طرف لوٹو اور آخرت کے سفر کا بار تقوى اور اعمال صالح کے ساتھ باندھو آئیں گے کہ جن سے گذرنا ضرورى ہے_ جان لو کہ آخرت کے راستے کا توشہ، تقوى ہے ورنہ تم لڑکھڑاؤگے اور جہنم کے گہرے گڑہے ہیں جاگرو گے_ گناہوں اور اللہ کى معصیت سے بچو تا کہ بہشت میں نیک لوگوں کے ساتھ جاملو''
امیرالمومنین علیہ السلام نے اس گفتگو میںسخت موڑوں ، گزرگاہوں اور خوفناک منازل کا ارشادتا ذکر فرمایا ہے، آپ کى گفتگو میں صرف ایک اشارہ ہى کیا گیا ہے کیونکہ آخرت کى عظیم حقیقت اور قیامت کے حوادث کو سوائے اشارے کے بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہى سنا جا سکتا ہے_
آخرت کے واقعات اور حوادث کو ذرا زیادہ عظمت کے ساتھ معلوم کرنے کے لئے قرآن کریم کى طرف رجوع کرتے ہیں، قیات ک شگفت آور مناظر کو قرآن کریم کى نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھى اس عظیم واقعہ کى حقیقت کو اس طرح کہ جس طرح وہ ہے معلوم نہیں کرسکتے صرف مختصر اشارے سنے ہیں تا کہ جان لیں کہ ایک بہت سخت اور غیر قابل توصیف دن آگے آنے والا ہے اور ہمیں اپنے آپ کو تقوى اور عمل صالح سے متصف کرنا چاہیئے تا کہ ان سخت خطرناک موڑوں اور نشیب و فراز سے ہمارے لئے گذرنا آسان ہوجائے اور پروردگار کى بہشت اور رضوان پہنچتا میسّر ہوجائے_


برزخ اور قیامت


جب کوئی گناہگار اس دنیا سے کوچ کرتا ہے تو عذاب اور رنج کا عالم برزخ میں مشاہدہ کرتا ہے اور کہتا ہے:
1)___ ''خدایا مجھے دنیا کى طرف واپس لوٹا دے تا کہ اعمال صالحہ بجالا سکوں اور اپنے گذشتہ گناہوں کا جبران کرسکوں، لوٹنے کى خواہش کرے گا لیکن ہرگز دنیا کى طرف لوٹایا نہیں جائے گا اور قیامت و روز بعث تک عذاب میں مبتلا رہے گا'' (سورہ مومنون آیات 99_ 100)
2)___ ''قیامت کے دن سورج تاریک اور لپیٹ لیا جائے گا، ستارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ حرکت کریں گے اور لرزنے لگیں گے حاملہ اونٹنیاں بغیر ساربان کے رہ جائیں گی، وحوش محشور ہوں گے اور دریا جلانے والے اور شعلہ خیز ہوجائیں گے'' (سورہ تکویر آیات 1_ 6)
3)___ ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے منتشر ہوجائیں گے اور دریا چیر دیئے جائیں گے اور دریاؤں کے پانى پراگندہ ہوجائیں گے جب کہ قبریں اوپر نیچے، ہوجائیں گى یعنى دہنس جائیں گی، اس وقت زمین لزرے گى اور جو کچھ اس کے اندر ہوگا اسے باہر پھینک دے گی'' (سورہ زلزال آیات 1_9 93)
4)___ ''جب پہاڑوئی کى طرح دھنے جائیں گے اور پاش پاش ہوجائیں گے'' (1)
5)___ ''جب چاند کو گرہن لگے گا اور تاریک ہوجائے گا اور سورج و چاند اکٹھے ہوں گے'' (2)
6)___ ''جب زمین بہت سخت لرزے گى اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں گے اور غبار بن کر چھاجائیں گے'' (3)
7)___ ''جب زمین اور پہاڑ سخت لزریں گے اور پہاڑ خوفناک ٹیلے کى صورت میں بدل جائے گا'' (4)
8)___ ''جب آسمان سخت حرکت کرے گا اور پہاڑ چلنے لگے گا'' (5)
9)___ '' جب آسمان کے دروازے کھول دیئےائیں گے اور پہاڑ سخت حرکت کریں گے اور سراب کى طرح بے فائدہ ہوں گے'' (6)
10)___ ''جب زمین غیر زمین میں تبدیل ہوجائے گى اور آسمان متغیر ہوجائے گا اور لوگ خدائے قادر کے سامنے حاضر ہوں گے ''_ (7)
11) ___ ''جب دن تیرے پروردگار کے نور س روشن اور منور ہوجائے گا'' (8)


ان آیتوں سے اجمالى طور سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کا موجودہ نظام خلقت تبدیل ہوجائے گا، سورج تاریک اور بے نور ہوجائے گا، چاند خاموش اور بے رونق ہوگا، ستارے پراگندہ اور پہاڑ اس عظمت کے باوجود لرزاں ہوں گے، چلنے لگیں گے اور خوفناک ٹیلوں میں تبدیل ہوجائیں گے، گرد و غبار کى صورت میں پراگندہ اور بے فائدہ ہوجائیں گے، زمین کسى اور زمین میں تبدیل ہوجائے گى اور ایک وسیع میدان وجود میں آجائے گا کہ جہاں تمام لوگ حساب و کتاب کے لئے حاضر کئے جائیں گے_
یہ تمام قیامت کے عظیم مناظر کے مختصر اشارے تھے اس کے باوجود اس عظیم واقعیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے صرف قرآن مجید کے ان اشارات سے اتنا سمجھتے ہیں کہ ایک بہت سخت دن آنے والا ہے ہم ایمان و عمل صالح سے اپنے آپ کو لطف الہى اور اس کے خوف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں_
آیت:
یوم تبدّل الارض غیر الارض و السّموات و برزوا للہ الواحد القہار (سورہ ابراہیم آیت نمبر 48)
''جس دن زمین غیر زمین میں تبدیل کى جائے گى اور آسمان بھى اور سب خدائے واحد و قہّار کے سامنے حاضر ہوں گے''

سوالات
غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ جب گناہگار انسان، عالم برزخ میں جاتا ہے اور عذاب و رنج کو دیکھتا ہے تو کون سى آرزو کرتا ہے، کیا کہتا ہے، اس کى یہ آرزو پورى کى جائے گى ؟
2)___ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس صحابى کو اس جہاں میں دوبارہ آجانے کے بعد کیا لکھا تھا اور اسے کس بیان سے نصیحت کى تھی؟
3)___ قرآن مجید میں قیامت کو کن خصوصیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؟
4)___ قیامت کے سخت ہنگامے اور خوف و ہراس سے کس طرح امان میں رہ سکتے ہیں؟
5)___ امیرالمومنین علیہ السلام کے خط میں نصرت کے لئے کس زاد اور توشے کو بیان کیا گیا ہے؟
6)___ کون سى چیزیں انسان کو بہشت میں جانے سے روک لیتى ہیں اور کس طرح قیامت کے خطرناک اور پر پیچ راستے کو طے کرسکتے ہیں؟

 

1) سورہ قاعد آیت3
2) سورہ قیامت آیات 8_9
3) سورہ واقعہ آیات 4_6
4)سورہ مزمل آیت 14
5)سورہ طور آیات 9-10
6) سورہ نبا آیات 19، 20
7)سورہ ابراہیم آیت 48
8) سورہ زمر آیت 69