پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

چوتھا حصّہ پيغمبر اسلام (ص) اور آپ كے اصحاب كے بارے ميں

پیغمبر اسلام(ص) کى مخفى تبلیغ


ابتداء ہى سے پیغمبر اسلام (ص) کى رسالت عالمى تھى خداوند عالم نے انھیں پورى دنیا کے لئے نبى بنا کر بھیجا تھا آپ کا یہ عزم تھا کہ پورى دنیا کے کفر و شرک او رمادى گرى سے مقابلہ کریں_ دنیا کے مظلوم و محروم طبقے کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلوائیں اور سبھى کو اسلام کے مقدس قانون اور خداپرستى کى طرف دعوت دیں_


پیغمبر اسلام (ص) ابتداء ہى سے اتنى بڑى ذمہ دارى سے آگاہ تھے مشکلات و دشواریوں کى طرف پورى طرح متوجہ تھے آپ کو اچھى طرح علم تھا کہ اس قسم کا کام آسان اور معمولى نہیں ہے بہت سى مشکلات سامنے آئیں گى آپ مشکلات کا خندہ پیشانى سے استقبال کر رہے تھے اور اللہ تعالى کے فرمان کے بجالانے کے لئے آمادہ تھے_ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنى دعوت کو اللہ کے حکم سے بغیر عجلت پسندى کے شروع کیا اور صبر و استقامت اور عاقبت اندیشى سے پورى احتیاط کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوئے تبلیغ میں مشغول ہوگئے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کام میں جلدبازى مضرثابت ہوسکتى ہے اسى لئے آپ نے اللہ کے حکم سے اپنى تبلیغ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور پہلے اس طریقہ سے ابتداء کى جو ممکن ہوسکتا تھا_


پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کى ابتداء میں اپنى دعوت کو اپنى دعوت کو اپنى باوفا بیوى جناب خدیجہ (ع) اور فداکار چچازاد بھائی حضرت على علیہ السلام سے جو آپ کے گھر میں رہتے تھے شروع کیا_ اللہ تعالى کى طرف سے اپنى اہم ذمہ دارى کو انھیں دو کے درمیان ذکر کیا_ فداکارى و باوفا خاتون جناب خدیجہ (ع) اور طاقتور و مہربان جوان حضرت على علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کى بات سنى اور اسلام کا اظہار کردیا اور وعدہ کیا کہ آپ کے اس کام میں مدد کریں گے_


پیغمبر اسلام (ص) اپنى پہلى دعوت میں ہى کامیاب ہوگئے آپ انھیں دو فداکاروں اور صحیح مددگاروں سے اپنى آسمانى دعوت کى تبلیغ میں مدد طلب کرتے تھے آپ نے ایک طاقتور تبلیغى مرکز اپنے گھر میں بنالیا تھا_ پیغمبر اسلام(ص) ان دو کے ساتھ کبھى گھر میں اور کبھى مسجدالحرام میں اکٹھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے_ تھوڑے ونوں کے بعد زید کہ جو پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے دین مقدس اسلام پر ایمان لے آئے اور پیغمبر اسلام (ص) کى فکر داخلى لحاظ کے کاملاً مطمئن اور آرام ہوگئی یہاں مناسب ہے کہ تھوڑى سى جناب زید سے واقفیت حاصل کریں_
جناب زید حضرت خدیجہ (ع) کے غلام تھے جناب خدیجہ (ع) نے انھیں پیغمبر اسلام (ص) کو بخش دیا تھا اور آنحضرت (ص) نے انھیں آزاد کردیا تھا وہ باپ کے گھر واپس جاسکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ زندگى بسر کرسکتے تھے لیکن وہ پیغمبر اسلام (ص) کے اخلاق و صداقت کے اتنا شیفتہ ہوچکے تھے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ رہنے اور زندگى گذارنے کو ترجیح دیتے تھے اور آنحضرت (ص) کے گھر ہى رہ رہے تھے_
پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کى دعوت کو پورى طرح مخفى شروع کیا تھا جب بھى کسى سمجھدار اور روشن دل، آگاہ اور آمادہ انسان کو دیکھتے تو اس سے اپنے مدعا کو بیان کرتے اور قرآن کى آیات اس کے سامنے پڑھتے اس کى وضاحت کرتے اور اسے اسلام لانے کى دعوت دیتے تھے کبھى یہ کام مسجد الحرام کے کسى گوشہ میں، کبھى صفا و مروہ کے کنارے اور کبھى اپنے گھر میں انجام دیتے تھے_
آپ نے تین سال تک اسى روش سے اپنى دعوت کى تبلیغ کى اس مدت میں آپ بہت استقلال اور صبر سے فرد فرد سے علیحدہ گفتگو کرتے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیتے اور مسلمانوں سے ملحق ہوجاتے تھے_ اس تین سال کے عرصے میں مسلمان اسلام کو ظاہر نہیں کرتے تھے اور اپنى نماز ادھر ادھر مخفى طور سے پڑھا کرتے تھے کا فر و شرک بھى چونکہ اسلام کے نفوذ اور وسعت سے زیادہ مطلع نہیں ہوا کرتے تھے لہذا وہ بھى اپنا ردّ عمل ظاہر نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمد صلّى اللہ علیہ و آلہ و سلّم کى دعوت تبلیغ بے نتیجہ و بے اثر اورپھر چونکہ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو خداپرستى و توحید کى دعوت دیا کرتے تھے اور واضح طور سے بتوں کى مذمت نہیں کیا کرتے تھے لہذا وہ اس سے کوئی خطرہ کا احساس نہیں کیا کرتے تھے_ ان تین سالوں میں خود پیغمبر اسلام(ص) اورمسلمانوں مکہ میں زندگى بسر کر رہے تھے کوئی بھى ان کو پریشان نہیں کرتا تھا لیکن بعثت کے تیسرے سال کے آخر میں ایک واقعہ رونما ہوا کہ جس نے مسلمانوں کو دگرگوں کردیا اور واقعہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطراف کے پہاڑ میں مخفى طور سے نماز پڑھنے اورمناجات کرنے میں مشغول تھا_ چند بت پرستوں کا وہاں سے گذر ہوا مسلمانوں کا منظم طور سے رکوع و سجود کرنا ان کے غصہ کا موجب ہوا غصّہ میں آکر انھوں نے مسلمانوں کا برا بھلا کہنا شروع کردیا اور مسلمانوں کى نماز و دعا کا مذاق اڑایا_


مسلمان بھى ان کى بے ادبى و گستاخى سے غصہ میں آگئے ان کا جواب دینا شروع کردیا اور نتیجہ ایک دوسرے کو مارنے و جھگڑا کرنے تک جا پہونچا مسلمانوں کى ایک فرد سعد نامى کہ جنھیں بہت سخت غصہ آیا ہوا تھا اپنے قریب سے اونٹ کى ایک ہڈى اٹھائی اور دوڑتے ہوئے ایک مشرک کے قریب پہونچے اور پورے غصے کے عالم میں اس کے سرپر مارى اس کا سر پھٹ گیا اور خون جارى ہوگیا_
بت پرست مکہ واپس لوٹ آئے اور مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ کا اپنے لوگوں سے تذکرہ کیا مکہ کے سرداروں سے پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے پیروکاروں کى حالت کو بیان کیا اس وقت سے مشرکوں نے خطرے کو محسوس کرلیا_
پیغمبر اسلام(ص) جناب ارقم کے گھر مخفى طور سے گئے اور وہاں چھپ گئے انھیں دنوں جناب ارقم مسلمان ہوئے تھے مسلمان تنہائی میں پورى طرح لوگوں سے ملاقات کرتے اور اسے اسلام کى دعوت دیتے اور جب پورى طرح مطمئن ہوجاتے تو اسے مخفى طور سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر لے جاتے تا کہ آپ اس کے سامنے قرآن پڑھیں اور اپنى آسمانى دعوت کى وضاحت کریں اسے خداپرستى و توحید کى طرف بلائیں اور اسلام کى صحیح دعوت دیں_


انھیں دنوں ایک گروہ اسلام لے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ملحق ہوگیا_ پیغمبر اسلام(ص) کو ان تین سال کى دن رات کى محنت سے کافى کامیابى مل چکى تھى آپ نے زحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے چالیس فداکارى مسلمانوں کو ترتیب دیا اور اس کو اس زمانہ کے لحاظ سے اہم کامیابى کہى جاسکتى ہے_


اس زمانہ میں اسلام نے قدرت و طاقت حاصل کرلى تھى اور کفر و بت پرستى کى دنیا میں ایک طاقتور مرکز حاصل کرلیا تھا کیونکہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان میں چالیس آدمى صحیح طور پر فداکارى و جانبازى پر آمادہ تھے اور اپنى جان ہاتھوں پر رکھ کر اسلام سے دفاع کرتے تھے_ ان تین سالوں میں اسلام کے پودے نے زمین میں اپنى جگہ بنالى تھى اور اپنى جڑیں دور دور تک پھیلادى تھیں لہذا اب اس درخت کا کاٹنا کوئی معمولى کام نہیں تھا اب پیغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت و تبلیغ کے دوسرے مرحلہ پر اپنا کام شروع کرسکتے تھے_
قرآن مجید کى آیت:
لقد من اللہ على المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم ایاتہ و یزکیہم و یعلمہم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفى ضلال مبین_

'' خداوند عالم نے مومنین پر منّت کى جب کہ ان میں انھیں کا ایک رسول بھیجا تا کہ ان پر اللہ کى آیات پڑھے اور ان کا تذکیہ کرے اور انھیں کتاب و حکمت کى تعلیم دے اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہى میں غرق تھے'' (سورہ آل عمران 162)


عالمى دعوت کا اعلان


مکّہ میں مشہور ہوچکا تھا کہ حضرت محمد صلى اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اپنے آپ کو پیغمبر کہنا شروع کردیا ہے اور ایک گروہ نے آپکى دعوت کو قبول بھى کرلیا ہے اور آپ کى مدد کرنے کا وعدہ بھى کرلیا ہے_ آپ نے اپنے قریبى رشتہ داروں کو بلایا اور ایک مجمع عمومى میںانھیں اسلام لانے کى دعوت دى اور اپنى مدد کرنے کو ان سے کہا اور تمام بزرگان قریش کے سامنے حضرت على علیہ السلام کو اپنا و زیر و جانشین مقرر کیا اور تعجب اس میں ہے کہ اس مجمع میں جناب ابوطالب نے آپ سے کوئی اعتراض آمیز گفتگو نہیں کى تھى کہ جس سے گویا ظاہر ہوتا تھا کہ جناب ابوطالب(ع) بھى آپ کى حمایت و مدد کریں گے_ مکّہ کے لوگ اس واقعہ کو ایک دوسرے سے تعجب سے نقل کرتے تھے اب وقت آچکا تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت و رسالت کو ظاہر بظاہر اور اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کریں اور ان کو راہ راست کى ہدایت کریں چنانچہ خداوند عالم کى طرف سے آپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ:
'' اے محمد(ص) (ص) جو کچھ ہم نے تم کو حکم دیا ہے اسے علناً بیان کرو اور حق کو باطل سے جدا کرو و بت پرستوں اور ان کے استہزاء سے مت گھبراؤ کہ ہم انھیں سزا دیں گے''
پیغمبر اسلام(ص) اس پیغام کو عملى جامہ پہنانے کے لئے کوہ صفا پر گئے کیونکہ عالم طور پر اہم اعلانات اسى پہاڑ پر ہوا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ کے ایک پتھر کے اوپر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے کہا:

'' اے مکّہ والو اے قریش والو اے جوانو اے لوگو''
پیغمبر اسلام (ص) کى یہ بلند و آسمانى آواز کہ جس میں خداوند عالم پر ایمان، اس سے عشق اور لوگوں کى ہدایت کرنے کا جذبہ پایا جاتا تھا تمام مکہ والوں کے کان تک پہونچی_ لوگ گھروں سے باہر نکلے اور اس آسمانى آواز کى طرف دوڑے تا کہ پیغمبر اسلام(ص) کى باتیں سن سکیں لوگ گروہ در گروہ آپ کے اردگرد جمع ہوتے گئے اور بے صبرى سے نئے واقعہ کو جاننے کا انتظار کرنے لگے پیغمبر اسلام(ص) نے اس مجمع کى طرف نگاہ کى اور فرمایا:
'' اے مکہ والو اے قریش کے مرد و زن اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے ہے اور تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا میرى تصدیق کروگے اور کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟
سب نے کہا:
'' اے محمد(ص) ہاں اے محمد(ص) ہاں ہم تمھیں امین، سچّا اور صحیح آدمى سمجھتے ہیں اب تک تم سے کوئی جھوٹ نہیں سنا''
پیغمبر اسلام (ص) نے اس طریقے سے اپنى امانت و صداقت انھیں یاد دلائی اور ان سے اس کا اقرار کرالیا اور اس کے بعد فرمایا:
'' اے لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں، تمھارے اور سارى دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں_ اے لوگو جان لو کہ موت کے آجانے سے زندگى ختم نہیں ہوجاتى جیسے تم سوجاتے ہو تو مرجاتے ہو اور جب بیدار ہوتے ہوا زندہ ہوجاتے ہو، اسى طرح مرنے کے بعد بھى دوبارہ زندہ ہوگے، قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے حاضر کئے جاؤگے اور تمھارى رفتار و گفتار کا حساب و کتاب لیا جائے گا

نیک کاموں کى جزا اور برے کاموں کى سخت سزا پاؤگے_
اے لوگو میں تمھارے لئے بہترین آئین و قانون لایا ہوں_
دینا و آخرت کى سعادت کى خوشخبرى لایا ہوں کہو لا الہ الّا اللہ تا کہ نجات و فلاح پاؤ، خدا کو ایک مان کر عبادت کرو اور ایمان کے ذریعہ تمام دنیا کو عرب کو اور غیر عرب کو یگانہ پرستى کے پرچم تلے لے آو''
مکّہ کے اشراف و بت پرست پیغمبر اسلام (ص) کے اس بیان سے حیرت زدہ ہوگئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے:
'' تعجب ہے محمد(ص) کیا کہہ رہا ہے؟ کس طرح اس نے جرات کى ہے؟ کہ ہمارے سامنے ایک خدا کے ہونے کى بات کرے؟ اسے کس طرح جرات ہوئی کہ ہمارے سامنے ہمارے بتوں کى جو ہمارے خدا ہیں نفى کرے؟
کیا ابوطالب (ع) نے اس کى مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ کیا طاقتور مرید اس کے ہوگئے ہیں کہ جس سے ہم بے خبر رہے ہیں؟ ''
اس وقت ابولہب نے سخت غصّہ میں کہا:
''تم پروائے ہو اسى پیغام کے لئے ہمیں اپنے گھروں سے بلایا ہے؟
لوگ اٹھ گئے اور ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کر رہا تھا_ کچھ کہہ رہے تھے: سنا ہے تم نے کہ محمد(ص) نے کیا کہا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ:
''میں خداوند عالم کى طرف سے پیغام لایا ہوں''
کیا یہ بھى ہوسکتا ہے کہ ایک انسان اللہ کى طرف سے پیغام لے آئے ؟

کیا ہوسکتا ہے کہ انسان پیغمبر ہوجائے؟ پیغمبر کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اب ایک خدا کى عبادت کریں؟ کیا ہمارے باپ دادا ایک طویل مدت سے بت پرست نہ تھے؟ کیا اب ہم ان بتوں کوچھوڑدیں؟ محمد(ص) کى دعوت و تبلیغ کو کس طرح روکیں؟ کیا ابوطالب (ع) محمد(ص) کى حمایت و مدد کریں گے؟
پیغمبر اسلام(ص) پہاڑ سے نیچے اترے اور اپنے گھر واپس لوٹ آئے اس کے بعد آپ اپنى رسالت و دعوت کو علنى طور پر بیان کیا کرتے تھے اور کسى کى پروا نہیں کیا کرتے تھے لوگوں کو خداپرستى کى علنى دعوت دیا کرتے تھے_ پیغمبر اسلام(ص) اپنى دعوت میں صرف ایک خدا کى پرستش پر زور دیا کرتے تھے اور بتوں پر بہت کم تنقید کرتے تھے_ بت پرست بھى اس سے مطمئن تھے اور آپ کو زیادہ نہیں چھیڑتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے:


'' ہم اپنے دین پر اور محمد(ص) اپنے دین پر رہیں بہتر یہى ہے کہ جناب ابوطالب (ع) کے احترام اور ان کى شخصیت کا خیال رکھتے ہوئے محمد(ص) کو اسى حالت پر چھوڑدیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے''
اس لحاظ سے پیغمبر اسلام(ص) کى تبلیغ کا یہ تیسرا مرحلہ بخوبى انجام پا رہا تھا اور آپ حالات کے انتظار میں تھے کہ موقع ملے اور آپ اپنى تبلیغ کا چوتھا مرحلہ شروع کریں_
کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے چوتھے مرحلہ کا آغاز کس سے کیا تھا؟ اس مرحلہ میں آپ کا نقطہ نظر کیا تھا اور کس چیز پر آپ اصرار کیا کرتے تھے؟


قرآن کى آیت:
فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین انّا کفیناک المستہزئین
''جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے ظاہر کردیں اور مشرکین کى پروا نہ کریں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شر سے آپ کو کفایت کریں گے'' (سورہ حجر 95)


سوالات
ان سوالات کے بارے میں اپنے دوست سے بحث کیجئے اور درست و کامل جواب کا انتخاب کیجیئے
1)___ پیغمبر اسلام (ص) کى تبلیغ کا تیسرا مرحلہ کس طرح شروع ہوا، اس مرحلہ کے شروع کرنے کے لئے اللہ تعالى سے آپ کو کیا حکم ملا تھا؟
2)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اس فرمان کے لئے کیا کام انجام دیا تھا اور کہاں؟
3)___ ان لوگوں سے جو وہاں اکٹھے ہوئے تھے پیغمبر اسلام(ص) نے کیا اقرار لیا تھا اور آپ کا اس سے کیا مقصد تھا؟
4)___ اپنى رسالت کا اعلان کس طرح کیا، پیغام میں کن چیزوں کا ذکر تھا؟ ان کو بیان کرو_
5)___ پیغمبر اسلام (ص) اس مرحلہ میں کس چیز کے بیان کو اہمیت دیتے تھے_
6)___ بزرگان مکّہ پیغمبر اسلام(ص) کے اس پیغام کو سننے کے بعد ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے؟
7)___ کیا مکّہ کے مشرکین اس مرحلہ میں پیغمبر اسلام(ص) سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے اور کیوں؟


ہر قسم کى سازش کى نفی


پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو اللہ کى طرف ہدایت کرتے تھے آپ دن رات لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے سخت محنت کیا کرتے تھے، اسلام کے حیات بخش آئین کى ترویج میں کو شاں رہتے تھے اب جب کہ مسلمانوں کى تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اسلام کى طاقت پھیلتى جارہى تھى تو آپ نے حق کو باطل سے جدا کرنے اور بتوں و بت پرستى کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے اقدام کیا تا کہ بت پرستى کا عبث فعل سارے لوگوں پر واضح ہوجائے لوگ اپنى بدبختى و ذلت کے اسباب و عوامل کو پہچانیں کیونکہ اگر لوگ اپنى ذلت و رسوائی کى علت کو نہ جانیں گے تو کس طرح اسے ختم کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستى کے رواج دینے والوں کے غلط مقصد سے آگاہ نہ ہوں گے تو کس طرح اس کا مقابلہ کرسکیں گے؟ اگر لوگ بت پرستوں کے سرداورں کى فریب کارى سے مطلع نہ ہوں گے تو کس طرح ان سے نجات حاصل کرسکیںگے؟
لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیئے اور اللہ تعالى کا واضح پیغام لوگوں کے سامنے پڑھا جانا چاہیئے اسى لئے پیغمبر اسلام(ص) نے اپنى دعوت کے چوتھے مرحلہ کو شروع کریا اور بت پرستى کى پورى طرح مذمت اور اس پر تنقید کی، بت پرستى کے رواج دینے والے سرداروں کے اندرونى اغراض کو واضح بیان کر کے ان کو ذلیل کیا اور ان کے ظلم و پلید مقاصد سے پردہ اٹھایا_
بت پرستى کے سرداروں نے اس سے زیادہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرلیا اور اپنے پلید منافع کے خطرے میں پڑنے سے خوفناک ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کس طرح اسلام کى طاقت کا مقابلہ کیا جائے اور کس طرح لوگوں کو خداپرستى سے دور رکھا جائے کیا محمد (ص) کو ان کى تبلیغ سے روکا جا سکتا ہے؟


پہلے پہل تو انھوں نے بات چیت اور صلح و صفائی کى خواہش کى بت پرستوں کے چند سردار جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے کہا:
'' اے ابوطالب (ع) آپ کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟ کیوں ہمارے کام کے متعلق نہیں سوچتے؟ کیوں محمد (ص) کو کچھ نہیں کہتے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے شہر کے امن کو ختم کرکے اور ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے؟ کیا نہیں جانتے کہ وہ ہمارے غلاموں کو دھوکہ دیتے ہیں؟


اب تک ہم آپ کے احترام کى وجہ سے ان سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اب انھوں نے پاؤں پھیلانا شروع کردیا ہے اورہمارے بتوں کے متعلق جسارت کرنى شروع کردى ہے کیا آپ نے سنا ہے کہ وہ بت پرستى کو ایک سفیہانہ کام بتلاتے ہیں؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ ہمارے باپ دادا کو گمراہ و نادان بتلاتے ہیں؟ کیا ہم اب بھى اس کو برداشت کرسکتے ہیں؟ آپ انھیں بلائیں اور ان سے کہیں کہ اس قسم کى باتوں سے دست بردار ہوجائیں''_
جناب ابوطالب (ع) نے اپنے بھتیجے سے ملاقات کى اور بت پرستوں کى بات کو ان کے سامنے بیان کیا اور کہا:

'' اے میرے بھتیجے انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم بتوں کے بارے میں جسارت کرتے ہو اور بت پرستى کو ایک غیر عاقلانہ کام بتلاتے ہو انھوں نے خواہش کى ہے کہ تم اس کام سے دست بردار ہوجاؤ صرف اسلام کے آئین و قانون کى تبلیغ و ترویج کرو بتوں اور بت پرستوں سے سرو کار نہ رکھو''_


پیغمبر اکرم (ص) نے جناب ابوطالب (ع) کے جواب میں فرمایا:
'' چچا جان لوگوں کى پورى بدبختى اسى بت پرستى میں ہے یہ سردار بت پرستى کے بہانے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو غصب کرتے ہیں_ ایک خدا کى طرف بلانا، بتوں کى نفی، اللہ تعالى کى بندگى اور ظالموں کے پنجے سے آزادى کے ساتھ ہى ہوسکتى ہے_ چا جان مجھے خداوند عالم کى طرف سے ایسا ہى حکم ملا ہے اور اس کام کو انجام دیتا ہوں گا''


بت پرستوں کى طرف سے صلح و صفائی اورمصالحت کى کئی دفعہ خواہش کى گئی تھى انھوں نے کئی دفعہ اس بارے میں جناب ابوطالب (ع) سے بات چیت کى لیکن اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو اور بالآخرہ انھوں نے سوچا کہ محمد(ص) کو جاہ مال کا وعدہ دے کر دھوکہ دیا جائے یا ڈرایا اور دھمکایا جائے لہذا پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور ان سے یوں گفتگو کی:


'' اے ابوطالب (ع) محمد (ص) سے پوچھ کہ تمھارى اس تبلیغ کا کیا مقصد ہے اور کیا چاہتے ہو؟ کیا مال و دولت چاہتے ہو؟ کیا طاقت و قدرت اور حکومت چاہتے ہو؟ کیا بیوى اور اچھى زندگى چاہتے ہو؟ اگر مال و دولت چاہتے ہو تو ہم اسے اتنى دولت دے دیں گے کہ وہ قریش کا ثروت مند ترین فرد ہوجائے_ اگر جاہ و جلال چاہتے تو حجاز کى حکومت و زمامدارى اس کے اختیار میں دے دیں گے اور اگر ابھى زندگى و بیوى چاہتے ہو تو اس کے لئے خوبصورت ترین اور بہترین عورت انتخاب کردیتے ہیں_
جو بھى وہ چاہیں ہم اس کے پورا کرنے کے لئے حاضر ہیں لیکن صرف ایک شرط ہے کہ وہ اپنى گفتگو سے دست بردار ہوجائیں اور ہمارے بتوں سے کوئی سر و کار نہ رکھیں''
پیغمبر اسلام (ص) ان کى ان خواہشات کے جواب میں جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہیں گے؟ کیا یہ وعدے انھیں فریب دے سکیں گے؟ کیا لوگوں کى ہدایت و نجات سے دست بردار ہوجائیں گے؟ کیا ظالموں کى خوشنودى کو اللہ تعالى کى خوشنودى اور محروم طبقے کى خوشنودى پر ترجیح دے دیں گے؟ نہیں اور ہرگز انہیں وہ اپنے راستہ سے نہیں ہٹیں گے اور یقینا یہ جواب دیں گے:
'' چچا جان یہ میرى تبلیغ اپنى طرف سے نہیں ہے کہ میں اس سے دست بردار ہوجاؤں بلکہ یہ خدا کى طرف سے ہے خدا نے مجھے پیغمبرى کے لئے چنا ہے کہ تا کہ اس کا پیغام لوگوں تک پہونچاؤں اور انھیں ظلم و ستم اور گمراہى سے نجات دلواؤں، خداپرستى و توحید کى دعوت دوں''_
اس وقت جناب ابوطالب (ع) آپ پر محبت بھرى نگاہ کئے ہوئے تھے اور آپ کہہ رہے تھے:


'' چچا جان خدا کى قسم اگر چمکتے ہوئے سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر رکھ دیں اور روشن چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر (یعنى تمام ثروت و جہان کى زیبائی اور قدرت مجھے بخش دیں) تب بھى میں اس فریضہ کى ادائیگى سے دست بردار نہ ہوں گا یہاں تک کہ میں اس میں کامیاب اور فتحمند ہوجاؤں یا شہید کردیا جاؤں_
چچا جان ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ان خواہشات کى جگہ صرف ایک کلمہ لا الہ الّا اللہ کہہ دیں تا کہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں''_
جب بت پرستوں کو جاہ و جلال اور مال و دولت کى لالچ دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گئے اور کہا:
'' اے ابوطالب (ع) تم ہمارے شہر و قبیلہ کے سردار اور ہمارى اس مشکل کو تم ہى حل کرو کہ تمھیں ایک خوبصورت بچہ دیتے ہیں تا کہ اسے تم اپنا بیٹا بنالو، محمد(ص) کى حمایت سے دست بردار ہوجاؤ اور ہم اسے قتل کردیں''_
ابوطالب (ع) ان کى اس بات کو سنتے ہى غصہ میں آگئے اور ان سے کہا:
'' اپنے بھتیجے کو تمھیں دے دوں تا کہ تم اسے قتل کردو یہ تمھارى کتنى شرمناک بات ہے قسم خدا کى ایک لحظہ کے لئے بھى محمد (ص) کى حمایت اور مدد سے ہاتھ نہ کھینچوں گا''_
اب ہم مسلمانوں کا بھى یہى فریضہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اس راستہ پر چلیں اور کفر مادى گری، طاغوت و طاغوتوں کا مقابلہ کریں اور ان کى ہر طرح کى مدد سے پرہیز کریں تا کہ دنیا کے مظلوم اور محروم طبقے کو نجات دلاسکیں_ دیکھیں ہم کس حد تک ا س فریضہ کى انجام دہى میں کامیاب ہوتے ہیں_


قرآن کى آیت:
فلذلک فادع واستقم کما امرت و لا تتّبع اہوائہم و قل امنت بما انزل اللہ من کتاب و امرت لاعدل بینکم اللہ ربّنا و ربّکم (سورہ شورى آیت 15)
'' آپ اسى کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کى ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمھارا دونوں کا پروردگار ہے''_



سوالات
ان سوالات کے صحیح جوابات دیجئے اوران پر اچھى طرح بحث کیجئے
1)___ پیغمبر اسلام (ص) کے چوتھے مرحلہ کى خصوصیات کیا تھیں، آپ اس مرحلہ میں کیوں بتوں اور بت پرستوں کى مذمت کیا کرتے تھے؟
2)___ بت پرستوں کے سردار کیوں خطرہ محسوس کرتے تھے؟ کیا تدبیریں انھوں نے سوچیں اور جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا؟
3)___ پیغمبر (ص) نے ان کى سازشوں کو کس طرح ٹھکرایا؟
4)___ بت پرستوں کے سرداروں نے اپنى سازش کو کس صورت مین پیش کیا انھوں نے کون سے وعدے کئے تھے اور پیغمبر اسلام (ص) کا جواب کیا تھا؟

 

پیغمبر (ص) اور مستضعف


مسجد نبوى کے نزدیک ایک بر آمدہ تھا کہ جس کى دیواریں گارے اور مٹى کى انیٹوں سے بنائی گئی تھیں اور اس کى چھت خرما کے پتوں کى تھى اور اسے صفّہ کہا جاتا تھا_ مسلمانوں کا ایک نادار گروہ کہ جن کا مدینہ میں کوئی گھر نہ تھا اسى صفّہ میں رہا کرتے تھے_ پیغمبر خدا (ص) ان سے بہت مانوس تھے ان کے پاس بیٹھتے اور گفتگو کیا کرتے تھے آپ انھیں دوست رکھتے تھے اور اپنے اصحاب سے کہا کرتے تھے کہ ان کى مہمان نوازى و دلجوئی کیا کریں_ آپ کبھى انھیں اپنے گھر لے آتے اور بہت احترام سے ان کى مہمان نوازى کیا کرتے تھے اور کبھى ان کے پاس کھانا لے جایا کرتے تھے_
یہ اللہ کے نیک بندے پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد بیٹھا کرتے تھے اور آپ سے مانوس تھے دین کے احکام پوچھتے اور قرآن و احادیث یاد کیا کرتے تھے_ جب پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں ہوا کرتے تھے تو اکثر یہى لوگ اور مدینہ کے دوسرے فقراء پیغمبر(ص) کے اردگرد بیٹھتے اور آپ کى باتوں کو سنتے تھے اہل وطن بھى ان کا احترام کیا کرتے تھے_
پیغمبر اسلام (ص) کى معاشرہ کے تمام محروم اور مستضعف طبقے سے اسى قسم کى رفتار ہوا کرتى تھى لیکن بعض لوگ پیغمبر اسلام (ص) کى اس رفترا کو ناپسند کرتے تھے اور کبھى کبھار آپ پر اعتراض بھى کرتے تھے اور کہتے تھے آپ کیوں اتنى اس فقیر اور چھوٹے طبقے سے آمد و رفت رکھتے ہیں اور ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں ؟ آپ انھیں اپنے پاس بیٹھتے کى کیوں اجازت دیتے ہیں؟


فقراء کے سا تھ بیٹھنا آپ کے مقام و مرتبہ کو کم کر رہا ہے یہى وجہ ہے کہ اشراف و مالدار لوگ آپ سے دورى کرتے ہیں کیونکہ وہ فقراء کے ساتھ زانو ملاکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس فعل کو وہ اپنے لئے کسرشان سمجھتے ہیں اگر آپ انھیں اپنے سے دور کردیں تو ثروتمند اور اشراف اسلام کى طرف زیادہ رغبت کریں گے اور ان کى توجہ و مدد سے اسلام مضبوط ہوگا لیکن اعتراض کرنے والے ایسے لوگ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کا مبعوث ہونا انھیں جاہلیت کے رسوم اور وقار کو بدلنے کے لئے ہوا کرتا ہے_
اللہ تعالى نے اپنے پیغمبر(ص) کا بھیجا تا کہ آپ اپنى گفتار و رفتار سے صحیح وقار کو قائم کریں اور لوگوں سے کہیں کہ شرافت و تقوى اللہ پر ایمان لانے میں ہے_ اسلام کى نگاہ میں اسے شریف کہا جاتا ہے جو متقى و مومن ہوا اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ص) پر ایمان لے آتے ہیں وہى در حقیقت شریف و بزرگوار ہیں_
انھیں مستضعفین میں سے ایک خدا اور رسول (ص) اور آخرت پر ایمان لانے والے جناب سلمان فارسى تھے ان کے پاس ایک اون کى عبا تھى کہ وہى ان کا دسترخوان و بستر تھا اور اسى کو رات میں اوڑھتے اور دن میں اس کو لباس بناتے تھے_ پیغمبر اسلام (ص) سلمان فارسى سے بہت محبت کرتے ت ھے اور انھیں شرافت و تقوى سے متصف بیان کرتے تھے اوراپنے اہلبیت (ع) میں شمار کیا کرتے تھے_
ایک دن جناب سلمان فارسى پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھیں اشراف میں سے ایک آپ کے پاس آیا اور ایک نگاہ سلمان فارسى کے پھٹے لباس، آفتاب سے جلے ہوئے چہرہ اور ورم شدہ ہاتھوں پر ڈالى اور کہا:
'' یا رسول اللہ (ص) جب ہم آپ کے پاس آتے ہیں تو یہ فقیر پھٹا لباس پہنے آپ کے پاس ہوتا ہے بہتر ہے کہ آپ اس کے فرمائیں کہ وہ آپ کے پاس کم آیا کرے اور آپ سے دور بیٹھا کرے''_
جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس قسم کے لوگوں کے جواب میں کیا فرمایا؟ آپ نے فرمایا کہ
'' کسى انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ہوا کرتى عرب، عجم، سیا ہ و سفید سب کے سب اللہ کے بندے اور حضرت اکرم (ع) کى اولاد ہیں، فضیلت و شرافت، تقوى اور پرہیزگارى سے ہوا کرتى ہے''
یہى رسول خدا (ص) کى دوستى و دشمنى کا معیار تھا آپ متقیوں کے دوست اور ان پر مہربان تھے اگر چہ پھٹے لباس پہنے ہوئے فقیر و نادار ہى کیوں نہ ہوں اور آپ مستکبرین سے جو اللہ تعالى سے بے خبر ہوا کرتے تھے دشمنى رکھا کرتے تھے اگر چہ وہ مالدار اور طاقتور ہى کیوں نہ ہوں_
ایک دن ایک متقى انسان پیغمبر اسلام (ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور بات کرنے میں منہمک تھا اسى حالت میں مدینہ کے اشراف و مالدار طبقہ سے ایک آدمى حضور (ص) کى خدمت میں حاضر ہوا پیغمبر اسلام (ص) نے اسے فرمایا کہ یہاں نزدیک آکر بیٹھو لیکن وہ دور ہى بیٹھ گیا_ آپ اس کے اس فعل سے بہت متاثر ہوئے اورناراضگى کے عالم میں فرمایا:
'' کیوں نزدیک آکر نہیں بیٹھتے ہو؟ کیا ڈرگئے ہو کہ اس مومن کا فقر اور نادانى تیرى طرف سرایت کر جائے گی؟ تو نے سوچا کہ شاید تیرى دولت سے کچھ کم ہوجائے گا؟ ''
یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنى خودخواہى اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے یہ شخص بجائے اس کے کہ اپنى خودخواہى اور کبر پر نادم ہوتا بڑے غرور و تکبّر سے کہنے لگا کہ:
'' ہم نہیں چاہتے کہ ان جیسے فقیر اور بے سر و پا انسانوں کے ساتھ بیٹھیں بہتر یہ ہوگا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ یہاں کم آیا کریں اور دور ہوکر بیٹھا کریں''_

اس وقت جبرئیل اللہ تعالى کى طرف سے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ:
'' اے پیغمبر (ص) ان لوگوں کو جو صبح و شام اللہ کى یاد میں ہوتے ہیں اور نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس میں سوائے اللہ تعالى کے رضا کے اور کوئی غرض نہیں رکھتے اپنے سے دور نہ ہٹانا ان کا حساب تم سے اور تمھارا حساب ان سے نہیں لیا جائے گا (سبھى اللہ کے بندے ہیں اور خدا تمھارے اعمال و کردار سے واقف ہے) اگر تم نے انھیں اپنے سے دور کیا تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے''
رسول خدا(ص) نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء و محروم اور مستضعف طبقہ سے اپنا ربط زیادہ کردیا اور ان سے زیادہ آمد و رفت رکھتے تھے اور ان سے بہت گرمجوشى و محبت اور پیار سے گفتگو کیا کرتے تھے کیونکہ خداوند عالم نے انھیں اس آیت میں نماز قائم کرنے اور صبح و شام اللہ کى یاد میں رہنے اور رضائے خدا کے لئے کام کرنے والا شمار کیا ہے ان کى نماز و دعا کو بہت اہمیت کى نظر سے دیکھا ہے پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے فرمایا:
'' لوگوں کى ملامت کى پروا نہ کیا کرو اور پورے اطمینان سے میرے پاس آیا کرو کہ میں تمھارى ہمنشینى پر فخر اور مباہات کرتا ہوں''_


پیغمبر(ص) کى رفتار اور اخلاق:


پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفى صلى اللہ علیہ و آلہ و سلّم بہت خوش اخلاق اور مہربان تھے وہ ہر ایک کے خیرخواہ و دلسوز تھے اور سبھى کى ہدایت کرنے میں کو شاں رہتے تھے بالخصوص فقراء اور بے چاروں کے ساتھ زیادہ لطف و عنایت کیا کرتے تھے ان کے ساتھ مخلصانہ رویہ برتتے تھے اور ایک ہى دسترخوان پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے_
آپ لوگوں کے لئے ایک مہربان باپ کى طرح تھے، بڑوں کا احترام کیا کرتے تھے اور چھوٹوں اور جوانوں سے بڑا نرم رویہ رکھتے تھے، بچوں کو سلام کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے
'' کہ میں چاہتا ہوں کہ بچوں کو سلام کرنا عام رواج پاجائے تا کہ تمام مسلمان اس اچھى روش کى پیروى کریں اور بچوں کو سلام اور ان کا احترام کریں''
پیغمبر اسلام (ص) تمام انسانوں اور ہمارے لئے زندگى کا نمونہ اور اسوہ ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
'' پیغمبر خدا(ص) مومنین کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں تمام مومنین کو چاہیئے کہ آپ کى رفتار و کردار اور اخلاق سے درس حاصل کریں اور آپ کى پیروى کریں''
پیغمبر اسلام (ص) اپنے رشتہ داروں سے آمد و رفت رکھا کرتے تھے ان پر احسان کیا کرتے تھے اور مسلمانوں سے بطور تاکید فرمایا کرتے تھے کہ:
'' رشتہ داروں سے آمد و رفت، مہر و محبت اورمخلصانہ ارتباط رکھا کرو اورمشکلات میں ایک دوسرے کى مدد کیا کرو''_
رسول خدا(ص) بیماروں کى عیادت کیا کرتے اور ان کے جنازوں میں شریک ہوا کرتے تھے اور مسلمانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ:
'' وہ بھى جنازوں میں شریک ہوا کریں اور جو لوگ مرگئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالى سے رحمت و مغفرت طلب کیا کریں، جنازے کو دیکھنے سے عبرت حاصل کریں، بیدار ہوں، جان لیں کہ ان کى زندگى بھى ختم ہوجائے گى اور آخرت کے راستہ کے لئے بہترین زاد راہ تقوى ہے''_
پیغمبر اسلام(ص) لباس و خوراک میں بہت کفایت شعارى سے کام لیتے تھے، مختلف طرح کے کھانوں سے پرہیز کیا کرتے تھے آپ کى غذا سادہ اور تھوڑى ہوا کرتى تھی، آپ کا لباس سادہ اور کم قیمت کا ہوا کرتا تھا_ معاشرہ میں ایک دوسرے کى مدد کرتے تھے اور آپ اپنے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے، کبھى اپنے لباس کو خود اپنے ہاتھوں سے پیوند لگایا کرتے تھے اور کبھى اپنى جوتیوں کوٹا نکتے تھے_
آپ بہت متواضع او رمخلص تھے جب کسى محفل میں وارد ہوتے تو وہاں بیٹھ جاتے جہاں جگہ خالى نظر آتى کسى خاص جگہ پر بیٹھتے کے متمنى نہ ہوتے تھے تمام اہل فلس کا احترام کیا کرتے تھے اور گفتگو کرنے کے وقت سبھى کى طرف متوجہ ہوا کرتے تھے، دوسروں کى بات کو غور سے سنتے تھے کسى کى بات کو نہیں کاٹتے تھے آپ بہت با حیا اور کم گو تھے_ ضرورت سے زیادہ بات نہیں کیا کرتے تھے کبھى مزاح بھى کرلیا کرتے تھے لیکن پورى طرح متوجہ ہوتے تھے کہ اس سے کس کى دل آزارى نہ ہو اور ناحق بات بھى نہ ہو_
غیبت، تہمت ، افتراء و جھوٹ اور ہر برى بات سے اجتناب کیا کرتے تھے لوگوں سے ہدیئے کو قبول کرتے ت ھے لیکن کوشش کرتے تھے کہ اس سے بہتر اور زیادہ اسے واپس کریں_ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کریں تا کہ محبت زیادہ ہو اور کینہ دلوں سے دور ہو_ ولیمہ کى سادہ دعوت و مہمانى کو قبول کیا کرتے تھے اور فقراء و محروم طبقے کے ساتھ وہاں جایا کرتے تھے آپ اس قدر خوش اخلاق اور مہربان تھے کہ خداوند عالم آپ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
'' اے پیغمبر (ص) تیرا خلق و عادت بہت عظیم و پسندیدہ ہے اور تو مومنین کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہے''_
قرآن مجید کى آیت:
و لا تطرد الّذین یدعون ربّہم بالغداة و العشّى یریدون و جہہ ما علیک من حسابہم من شییء و ما من حسابک علیہم من شییء فتطردہم فتکون من الظّالمین (سورہ انعام آیت 52)
'' خبردار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیں اور خدا ہى کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انھیں اپنى بزم سے الگ نہ کیجئے نہ آپ کے ذمہ ان کا حساب ہے اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے کہ آپ انھیں دھتکاریں اور اس طرح ظالموں میں شمار ہوجائیں''_


سوالات
سوچیئے اور جواب دیجئے
1)___ اصحاب صفّہ کن لوگوں کو کہا جاتا ہے، پیغمبر اسلام(ص) کا ان کے ساتھ کیسا سلوک تھا؟
2)___ کون سے لوگ پیغمبر(ص) پر محروم طبقے کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض کیا کرتے تھے اور پیغمبر اسلام(ص) سے کیا کہا کرتے تھے؟
3)___ جاہلیت کى چند رسوم کو شمار کرو اور بتلاؤ کہ اسلام میں پیغمبر (ص) کے نزدیک ان کى کیا قیمت تھى اور ان رسوم کے بدلنے میں پیغمبر اسلام(ص) کیا اقدام کرتے تھے؟
4)___ اسلامى تہذیب میں کسے شریف انسان کہا جاتا ہے؟
5)___ پیغمبر اسلام (ص) کا رویہ جناب مسلمان فارسى کے ساتھ کیسا تھا؟ پیغمبر (ص) سلمان فارسى کو کیوں دوست رکھتے تھے اور ان کا کیوں احترام کرتے تھے؟
6)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس شخص کو کہ جس نے پیغمبر (ص) پر سلمان فارسى کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض کیا تھا کیاب جواب دیا تھا؟
7)___ رسول خدا (ص) کا کسى سے دوستى اور روشنى کرنے کا کیا معیار تھا؟
8)___ جبرئیل نے محروم طبقے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے سلسلہ میں کیا پیغام دیا تھا؟
9)___ ''اسوہ'' کے کہتے ہیں اور کون شخص مسلمانں کے لئے ''اسوہ'' بن سکتا ہے؟
10)___ مندرجہ ذیل چیزوں میں پیغمبر اسلام (ص) کى سیرت کو بیان کرو:
فقراء اور ناداروں کے ساتھ گھر میں خوراک و غذا کے بارے میں
لوگوں کى ہدایت کرنے میں مزاح کرنے، بات سننے اور بات
بڑوں، چھوٹوں اور جوانوں کے ساتھ کرنے، ہدیہ دینے و ہدیہ لینے
رشتہ داروں، بیماروں و مردوں کے ساتھ اور مہمانى کے سلسلہ میں