پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

رسول خدا (ص) كے مدينہ ميں اموال

رسول خدا (ص) کے مدینہ میں اموال

بنى نضیر یہودیوں کى زمینیں رسول خدا (ص) کا خالص مال تھا، کیونکہ بغیر جنگ کے فتح ہوئی تھیں اس قسم کے مال میں پیغمبر اسلام (ص) کو پورا اختیار تھا کہ جس طرح مصلحت دیکھیں انہیں مصرف میں لائیں، چنانچہ آپ نے بنى نضیر سے منقول اموال جو لئے تھے وہ تو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیئےور کچھ زمین اپنے لئے مخصوص کرلى اور حضرت على (ع) کو حکم دیا کہ اس پر تصرف کریں اور بعد میں اسى زمین کو وقف کردیا اور موقوفات میں داخل قرار دیا اپنى زندگى میں اس کے متولى خود آپ تھے آپ کى وفات کے بعد اس کى تولیت حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) اور ان کى اولاد کے سپرد کى (1)
 

یہودیوں کے علماء میں سے مخیرق نامى ایک عالم _ مسلمانوں ہوگئے انہوں نے اپنا مال جناب رسول خدا (ص) کو بخش دیا ان کے اموال میں سے سات باغ تھے کہ جن کے یہ نام تھے_ مشیب، صافیہ، دلال، حسنی، برقہ، اعوف، مشربہ ام ابراہیم یہ تمام اس نے جناب رسول خدا (ص) کو ہبہ کردیئےھے آپ(ص) نے بھى انہیں وقف کردیا تھا (2) _

بزنطى کہتے ہیں کہ میں نے سات زرعى زمینوں کے متعلق ''جو جناب فاطمہ (ع) کى تھیں'' امام رضا (ع) سے سوال کیا _ آپ نے فرمایا یہ رسول خدا(ص) نے وقف کى تھیں کہ جو بعد میں حضرت زہراء (ع) کو ملى تھیں، پیغمبر اسلام (ص) اپنى ضروریات بھر ان میں سے لیا کرتے تھے جب آپ نے وفات پائی تو جناب عباس نے ان کے بارے میں حضرت فاطمہ (ع) سے نزاع کیا، حضرت على (ع) اور دوسروں نے گواہى دى کہ یہ وقفى املاک ہیں وہ زرعى زمینیں اس نام کى تھیں دلال، اعوف حسنی، صافیہ، مشربہ ام ابراہیم، مشیب، برقہ (3) _

حلبى اور محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کى ہے کہ ہم نے رسول خدا (ص) اور فاطمہ زہراء (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا کہ وہ بنى ہاشم اور بنى مطلب کا مال تھا (4)_

ابومریم کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) کے صدقات اور اوقاف کے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے لئے حلال ہے جناب فاطمہ (ع) کے صدقات بنى ہاشم اور بنى المطلب کا مال تھا (5) _

جناب رسول خدا(ص) نے ان املاک کو جو مدینہ کے اطراف میں تھے وقف کردیا تھا اور ان کى تولیت حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت على (ع) کے سپرد کردى تھی_ یہ املاک بھى ایک مورد تھا کہ جس میں حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا ہوا تھا_

بظاہر حضرت زہراء (ع) اس جھگڑے میں کامیاب ہوگئیں اور مدینہ کے صدقات اور اوقاف کو آپ نے ان سے لے لیا، اس کى دلیل اور قرینہ یہ ہے کہ آپ نے موت کے وقت ان کى تولیت کى على (ع) اور اپنى اولاد کے لئے وصیت کى تھی، لیکن مجلسی نے نقل کیا ہے کہ جناب ابوبکر نے بالکل کوئی چیز بھى جناب فاطمہ (ع) کو واپس نہیں کى البتہ جب جناب عمر خلافت کے مقام پر پہنچے تو آپ نے مدینہ کے صدقات اور اوقاف حضرت على (ع) اور عباس کو واپس کردیئےلیکن خیبر اور فدک واپس نہ کئے اور کہا کہ یہ رسول خدا(ص) کے لازمى اور ناگہانى امور کے لئے وقف ہیں_

مدینہ کے اوقاف اور صدقات حضرت على (ع) کے قبضے میں تھے اس بارے میں جناب عباس نے حضرت على (ع) سے نزاع کیا لیکن اس میں حضرت على کامیاب ہوگئے لہذا آپ کے بعد یہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں آیا اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کے بعد جناب عبداللہ بن حسن (ع) کے ہاتھ میں تھے یہاں تک کہ بنى عباس خلافت پر پہنچے تو انہوں نے یہ صدقات بنى ہاشم سے واپس لے لئے (6)_

 

خیبر کے خمس کا بقایا

7 ہجرى کو اسلام کى سپاہ نے خیبر کو فتح کیا اس کے فتح کرنے میں جنگ اور جہاد کیا گیا اسى وجہ سے یہودیوں کا مال اور اراضى مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوئی_

رسول خدا(ص) نے قانون اسلام کے مطابق غنائم خیبر کو تقسیم کیا، آپ نے منقولہ اموال کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا چار حصّے فوج میں تقسیم کردیئےور ایک حصہ خمس کا ان مصارف کے لئے مخصوص کیا کہ جسے قرآن معین کرتا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے :

"و اعلموا انما غنمتم من شیئً فان للہ خمسہ و للرسول و لذى القربى و الیتامى و المساکین و ابن السبیل " (7)

یعنى جان لو کہ جو بھى تم غنیمت لو اس کا خمس خدا اور پیغمبر(ص) اور پیغمبر(ص) کے رشتہ دار اور ذوى القربى اور اس کے یتیم اور تنگ دست اور ابن سبیل کے لئے ہے_ اس آیت اور دیگر احادیث کے رو سے غنیمت کا خمس چھ جگہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف اسى جگہ خرچ کرنا ہوگا_

جناب رسول خدا (ص) خمس کو علیحدہ رکھ دیتے تھے اور بنى ہاشم کے ذوالقربى اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کى ضروریات زندگى پورا کیا کرتے تھے اور باقى کو اپنے ذاتى مصارف او رخدائی کاموں پر خرچ کیا کرتے تھے آپ نے خیبر کے خمس کو بھى انہیں مصارف کے لئے علیحدہ رکھ چھوڑا تھا اس کى کچھ مقدار کو آپ نے اپنى بیویوں میں تقسیم کردیا تھا مثلاً جناب عائشےہ کو خرما اور گندم اور جو کے دو وسق وزن عنایت فرمائے_ کچ مقدار اپنے رشتہ داروں اور ذوى القربى میں تقسیم کیا مثلاً دو وسق سو وزن جناب فاطمہ (ع) کو اور ایک سو وسق حضرت على (ع) کو عطا فرمائے (8)_

اور خیبر کى زمین کو دو حصوں میں تقسیم کى ایک حصہ زمین کا ان مصارف کے لئے جو حکومت کو در پیش ہوا کرتے ہیں مخصوص کردیا اور دوسرا حصہ مسلمانوں اور افواج اسلام کى ضروریات زندگى کے لئے مخصوص کردیا اور پھر ان تمام زمینوں کو یہودیوں کو اس شرط پر واپس کردیا کہ وہ اس میں کاشت کریں اور اس کى آمدنى کا ایک معین حصّہ پیغمبر(ص) کو دیا کریں_ آپ اس حصہ کو وہیں خرچ کرتے تھے کہ جسے خداوند عالم نے معین کیا (9)_

جب رسول خدا (ص) کى وفات ہوگئی تو جناب ابوبکر نے خیبر کے تمام موجود غنائم پر قبضہ کرلیا، یہاں تک کہ وہ خمس جو خدا اور اس کے رسول (ص) اور بنى ہاشم کے ذوى القربى اور یتیموں، مسکینوں اور ابن سبیل کا حصہ تھا اس پر بھى قبضہ کرلیا_ اور بنى ہاشم کو خمس سے محروم کردیا_

حسن بن محمد بن على (ع) ابن ابیطالب کہتے ہیں کہ جناب ابوبکر نے ذوى القربى کا سہم جناب فاطمہ (ع) اور دوسرے بنى ہاشم کو نہیں دیا اور اس کو کار خیر میں جیسے اسلحہ اور زرہ و غیرہ کى خریدارى پر خرچ کرتے تھے (10)_

 

عروہ کہتے ہیں کہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر کے پاس گئیں اور فدک اور سہم ذى القربى کا ان سے مطالبہ کیا_ جناب ابوبکر نے انہیں کوئی چیز نہ دى اور اسے اللہ کے اموال میں داخل کردیا (11)_

الحاصل یہ موضوع بھى ان موارد میں سے ایک ہے کہ جس میں جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے جھگڑا و مورد نزاع قرار پایا کہ آپ کبھى اسے خیبر کے عنوان سے اور کبھى اسے سہم ذى القربى کے عنوان سے جناب ابوبکر سے مطالبہ کیا کرتى تھیں_

اس مورد میں بھى حق جناب فاطمہ زہراء (ع) کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن شریف کے مطابق خمس ان خاص موارد میں صرف ہوتا ہے کہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور ضرورى ہے کہ بنى ہاشم کے ذوى القربى اور یتیموں اور فقیروں اور ابن سبیل کو دیا جائے_ یہ کوئی وراثت نہیں کہ اس کا یوں جواب دیا جائے کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے، جناب فاطمہ (ع) ابوبکر سے فرماتى تھیں کہ خداوند عالم نے قرآن میں ایک سہم خمس کا ذوى القربى کے لئے مخصوص کیا ہے اور چاہیئے کہ یہ اسى مورد میں صرف ہو آپ تو ذوى القربى میں داخل نہیں ہیں اور نہ ہى اس کے مصداق ہیں آپ نے یہ ہمارا حق کیوں لے رکھا ہے_

انس بن مالک کہتے ہیں کہ فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم خود جانتے ہو کہ تم نے اہلبیت کے ساتھ زیادتى کى ہے اور ہمیں رسول خدا (ص) کے صدقات اور غنائم کے سہم ذوى القربى سے کہ جسے قرآن نے معین کیا ہے محروم کردیا ہے خداوند عالم فرماتا ہے ''و اعلموا انما غنمتم من شیء الخ'' جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر اور آپ کے والد پر قربان جائیں اس رسول (ص) کى دختر میں اللہ کتاب اور رسول (ص) کے حق اور ان کے قرابت داروں کے حق کا پیرو ہوں، جس کتاب کو آپ پڑھتى ہیں میں بھى پڑھتا ہوں لیکن میرى نگاہ میں یہ نہیں آیا کہ خمس کا ایک پورا حصہ تمہیں دے دوں_

جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ آیا خمس کا یہ حصہ تیرے اور تیرے رشتہ داروں کے لئے ہے؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ اس کى کچھ مقدار تمہیں دونگا اور باقى کو مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کروں گا جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ اللہ تعالى کا حکم تو اس طرح نہیں ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ اللہ تعالى کا حکم یوں ہى ہے (12)_


رسول خدا کى وراثت

جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر سے ایک نزاع اور اختلاف رسول خدا (ص) کى وراثت کے بارے میں تھا_ تاریخ اور احادیث کى کتابوں میں لکھا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) کى وفات کے بعد جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور اپنے والد کى وراثت کا ان سے مطالبہ کیا، جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت کے عنوان سے کچھ بھى نہ دیا اور یہ عذر پیش کیا کہ پیغمبر (ص) میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ وہ مال چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس مطلب کے لئے انہوں نے ایک حدیث بھى بیان کى کہ جس کے راوى وہ خود ہیں اور کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ ہم پیغمبر (ص) سونا، چاندی، زمین اور ملک اور گھر بار میراث میں نہیں چھوڑتے بلکہ ہمارى وراثت ایمان اور حکمت اور علم و دانش اور شریعت ہے_ میں اس موضوع میں پیغمبر(ص) کے دستور اور ان کى مصلحت کے مطابق کام کروں گا (1)_

جناب فاطمہ (ع) نے حضرت ابوبکر کى اس بات کو تسلیم نہ کیا اور اس کى تردید قرآن مجید کى کئی آیات سے تمسک کر کے کى ہمیں اس موضوع میں ذرا زیادہ بحث کرنى چاہئے تا کہ وراثت کا مسئلہ زیادہ واضح اور روشن ہوجائے_


قرآن میں وراثت

قرآن کریم میں وراثت کا مطلق قانون وارد ہوا ہے_ خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کے بارے میں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ لڑکى کے دو برابر ہے (13)_

یہ آیت اور قرآن کى دوسرى آیات جو میراث کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان میں کلیت اور عمومیت ہے اور وہ تمام لوگوں کو شامل ہیں اور پیغمبروں کو بھى یہى آیات شامل ہیں_ پیغمبر (ص) بھى ان نصوص کلیہ کى بناء پر میراث چھوڑنے والے سے میراث حاصل کریں گے اور ان کے اپنے اموال بھى ان کے وارثوں کو ملیں گے انہیں نصوص کلیہ کى بناء پر ہمارے رسول (ص) کے اموال اور ترکے کو ان کے وارثوں کى طرف منتقل ہونا چاہیئے، البتہ اس قانون توارث کے عموم اور کلیت میں کسى قسم کا شک نہیں کرنا چاہیئے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا کوئی قطعى دلیل ہے جو پیغمبروں کو اس کلى اور عمومى قانون وراثت سے خارج اور مستثنى قرار دے رہا ہے ؟

1) بحار الانوار، ج 20 ص 173_
2) فتوح البلدان، ص 31_ سیرة ابن ہشام، ج 2 ص 5 16_
3) بحار الانوار، ج 22 ص 296_
4) بحار الانوار، ج 22 ص 266_
5) بحار الانوار، ج 22 ص 297_
6) بحار الانوار، ج 42 ص 300_
7) سورہ انفال آیت 41_
8) سیرہ ابن ہشام، ج 3 ص 365، ص 371_
9) فتوح البلدان، ص 26 تا 42_
10) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 231_
11) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 131_
12) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 230_
12) شرح ابن ابى الحدید، ج 16 ص 214_
13) سورہ نساء آیت 11_