پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پيغمبر (ص) كے شخصى اموال

پیغمبر (ص) کے شخصى اموال

پیغمبر (ص) کى کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کى ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہى اس کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کا وہ کمرے کہ جس میں آپ (ص) اور آپ(ص) کى ازواج رہتى تھیں آپ کى شخصى لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن و غیرہ، تلوار، زرہ، نیزہ، سوارى کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گائے و غیرہ_ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کى کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں (1)_

بظاہر اس میں کوئی شک نہ ہوگا کہ یہ تمام چیزیں آپ کى ملک تھیں اور آپ کى وفا کے بعد یہ اموال آپ کے ورثا کى طرف منتقل ہوگئے_ حسن بن على و شاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کى خدمت میں عرض کى کہ کیا رسول خدا(ص) نے فدک کے علاوہ بھى کوئی مال چھوڑ تھا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء اور صہبا، اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا، اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والى گوسفند، چالیس اونٹیاں دودھ دینے والی، ایک تلوار ذوالفقار نامی، ایک زرہ بنا م ذات الفصول عمامہ بنام سحاب، دو عدد عبا، کئی چمڑے کے تکئے_ پیغمبر(ص) یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں جناب فاطمہ (ع) کى طرف سوائے زرہ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھى کے منتقل ہوگئیں تلوار، زرہ، عمامہ اور انگوٹھى حضرت على (ع) کو دیئے گئے (2)_

پیغمبر(ص) کے وارث آپ کى ازواج او رجناب فاطمہ زہراء (ع) تھیں_ تاریخ میں اس کا ذکر نہیں آیا کہ پیغمبر (ص) کے ان اموال کو ان کے ورثا میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن بظاہر اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے امکانات آپ کى ازواج ہى کو دے دیئے گئے تھے کہ جن میں وہ آپ کے بعد رہتى رہیں، بعض نے یہ کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنى زندگى میں یہ مکانات اپنى ازواج کو بخش دیئے تھے اور اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے_

''و قرن فى بیوتکن وَلا تبرّجن تبرّج الجاہلیة الاولى '' (3)

گہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں حکم دیا ہے کہ اپنے گھروں میں رہتى رہو اور جاہلیت کے دور کى طرح باہر نہ نکلو_ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تب تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر(ص) کے گھروں میں رہتى ہو، لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لئے کافى نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کى نسبت دے دینا عرفى گفتگو میں زیادہ ہوا کرتى ہے اور صرف کسى چیز کا کسى طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کى دلیل نہیں ہوا کرتا_ مرد کى ملک کو اس کى بیوى اور اولاد کى طرف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلى مالک ان کا باپ یا شوہر مرد ہوا کرتا ہے_ کسى چیز کو منسوب کرنے کے لئے معمولى سى مناسبت بھى کافى ہوا کرتى ہے جیسے کرائے پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھى کہاجاتا ہے تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر(ص) نے ہر ایک بیوى کے لئے ایک ایک کمرہ مخصوص کر رکھا تھا اس لئے کہا جاتا تھا جناب عائشےہ کا گھر یا جناب ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبر اکرم(ص) نے یہ مکانات ان کو بخش دیئے تھے_ اس کے علاوہ اور کوئی بھى دلیل موجود نہیں جو یہ بتلائے کہ یہ مکان ان کى ملک میں تھا، لہذا کہنا پڑے گا کہ ازدواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر(ص) کے احترام میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر(ص) کى زندگى میں رہ رہیں تھی_ جناب فاطمہ (ع) ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھى اسى لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہى کو اپنا حصہ تا حیات دیئےکھا_ خلاصہ اس میں کسى کو شک نہیں کرنا چاہیئے کہ رسول خدا(ص) نے اس قسم کے اموال بھى چھوڑے ہیں جو ور ثاء کى طرف منتقل ہوئے اور ان کو قانون وراثت اور آیات وراثت شامل ہوئیں_

1) مناقب شہر ابن آشوب، ج 1 ص 168 _ کشف الغمہ، ج 2 ص 122_
2) کشف الغمہ، ج 2 ص 122_
3) سورہ احزاب آیت 33_