پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سبق 7 زمين اور آسمان كا خالق

 زمین اور آسمان کا خالق

اپنى عمرکے گزرہے ہوئے دور کاتصور کرتاہوں، اپنے بچپن کوذہن میںلاتا ہوں،گوکہ اپنے شیرخوارگى کے زمانے کوتوپردہ ذہن پر نہیں لاپاتا لیکن اپنے اس دور کے معصوم چہرے کواپنى ماں کى آغوش میںدیکھ سکتاہوں__ اپنى بہن کے چہرے کو جومجھ سے چھوٹى ہے اورحال ہى میں دنیا میںآئی ہے دیکھتا ہوں_

وہ اپنى خوبصورت ننّھى منّى آنکھیں کھولتى ہے،جیسے آسمان سے ابرب کا پردہ ہتا رہى ہے_ ہونے ہولے اپنے نازک بسوںپرمسکراہٹ بکھیرتى ہے اپنى چھوٹى چھوٹى انگلیوں سے چیزیں پکڑ کراپنے منہ کے قریب لے جاتى ہے_

میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا سوچاکرتاہوں کہ___:

ماںکے پیٹ میں اسى طرح کس نے تیرى پرورش کى ہے؟ وہ کیسا بہترین مصوّر ہے کتنا زبردست مجسمہ ساز ہے اوروہ کتنى اچھى طرح جانتا ہے کہ تجھے کن کن چیزوں کى ضرورت ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس نے تیرى یہ تمام ضروریات پورى بھى کى ہیں_

اس کائنات کے نظارے کے لئے خوبصورت آنکھیں، طرح طرح کى آواز میں سننے کے لئے کان، اپنى ضروریات پورى کرنے کے لئے ہاتھ اورچلنے پھرنے کے لئے پیر عطافرمائے_

تیرى محبت کوماں کے دل میںجگہ دى اوراس نے تیرى اچھى طرح تربیت کی___

سچ بتا تیرا پروردگار کون ہے___؟

میںبھى تیرى طرح ایک نوزائیدہ بچّہ تھا_ اس سے پہلے اپنے وجود کى کوئی شکل توکیا نشان بھى نہ رکھتا تھا، ایک قدرت منہ مصوّر نے مجھے یہ شکل و صورت اور رنگ وروپ عطا کیا اورایک طاقت ور وجود نے مجھے اس طرح بنایا ہے_

پھر میں بھى کیوں نہ پوچھوں کہ میرا پروردگارکون ہے___؟

تمام انسان اس طرح کاسوال اپنے آپ سے کرتے ہیں_ اپنے وجود کى ضروریات پرنظر ڈالتے ہیں_ اپنے بچپن،شیرخوارگى کازمانہ اور اس سے بھى پہلے جب کہ وہ اپنى ماںکے پیٹ میں تھے، تصور میں لاتے ہیں_ اپنى ضروریات اور ان کى تکمیل کومحسوس کرتے ہیں اور اس حقیقت کوپالیتے ہیں کہ

ایک بے نیاز اورطاقتور وجود نے انھیں خلق کیا ہے اور ان کى اس طریقہ سے پرورش کى ہے_ اورخود سے پوچھتے ہیںکہ:

ہمارا پروردگار کون ہے؟

ان کى پاک فطرت،ان کى اپنے بزرگ پروردگار کى طرف رہنماتى کرتی ہے اور ان کا واضح ادارک انھیں اس ذات کى ستائشے اور عبادت کى طرف راغب کرتا ہے_

ہمیشہ سے اور ہر دور میں انسان اپنے پروردگار (بے نیاز اور قادرمطلق) سے آشنا تھے اور صرف اسى کى پرستش کرتے تھے_ البتہ کبھى غلطى اور گمراہى کا شکار ہوجاتے اور بے جان بتوں، ناتواں مجسموں اور سورج چاند اورستاروں کو اپنا پروردگار سمجھتے لگتے تھے، ان کى تمام پریشانیوں اوربدبختیوں کا سبب یہى غلطى و گمراہى تھی_

اسى گمراہى کى وجہ سے وہ ہر قسم کى ذلّت کو برداشت کرلیتے تھے اور ہر قسم کے ظلم و ستم سہہ لیتے تھے_ جہالت اور گمراہى کے گہرے غار میں گرپڑتے تھے اور تاریکیوں کے اسیر ہوجاتے تھے_

لیکن مہربان خدا کہ جس نے ان کى پرورش کا وعدہ کیا ہے انھیں یوں ہى نہیں چھوڑ دیتا تھا_ انھیںبیدار اور آگاہ کرنے کے لئے پیغمبر بھیج دیتا تھا تا کہ ان کو اپنے پیغامات کے ذریعہ شرک کى تاریکیوں اورانحراف سے نجات دلاسکے_

پیغمبر ان کوبیدار کرنے کى کوشش کرتے تا کہ خداپرستى اور توحید کى طرف بلائیں اور شرک اوربت پرستى سے (جو تمام مشکلات اور پریشانیوں کا سبب ہے) مقابلہ کریں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے بڑے پیغمبروں میں سے ایک ہیں کہ جنھیں خداوند عالم نے لوگوں کى نجات اورہدایت کے واسطے بھیجا تھا تا کہ اپنى قوم کو بیدار اور آگاہ کریں اور ان کى عقلوں کے چراغ کو روشن کریں_ ان کے دلوں کو اپنے پروردگار کے عشق اورامید سے لبریز کردیں_ نیکیوں اوراچھائیوں کى ان کوتعلیم دیں اور برائیوں سے انھیں روکیں_

اس زمانے میں اکثر لوگ بت پرست تھے_ لکڑى اور پتّھر سے مجسمے بناتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے_

یا سورج،چاند اور ستاروں کى پرستش کرتے تھے_

خداوند عالم نے ان لوگو کى ہدایت اورنجات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذمّے ڈال دى اور آپ کو دورجوانى میں اپنى قوم کے پاس بھیجا لیکن چونکہ وہ لوگ بت پرستى میں برى طرح مبتلا تھے اس لئے ان کى رہنمائی بہت شکل تھی_ اس کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالى کے حکم سے ان لوگوں کى ہدایت کے لئے کمر ہمّت باندھی_

آپ وقتاً فوقتاً ان کى عبادت گاہ میں جاتے اورجب موقع ملتا ان سے گفتگو کرتے_ خوش اخلاقى اورمہربانى کے ساتھ خالق کائنات (جو پورى دنیا کا خالق و پروردگار ہے) کے متعلق ان سے تبادلہ خیالات اوربحث و مباحثہ کرتے واضح اورروشن دلیلوں کے ذریعہ لوگوں کوخداشناسى کى طرف راغب کرتے_

آپ(ع) جانتے تھے کہ لوگوں کو شرک اور ذلّت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے پہلے مرحلہ میں ان کى عقل اور فکر کوبیدار کیا جائے_ لہذا آپ(ع) ان کى خوابیدہ عقلوں کوبیدار کرنے کى کوشش کرتے تھے_

جب آپ(ع) بت پرستوں کودیکھتے کہ بتوں کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے ہیں توان سے پوچھتے:

کیا انہیں پوجتے ہو کہ جن کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے بنایا ہے؟ یعنى تمہارے ہاتھ کا بنایا ہوا یہ بت تو خود تمہارى مخلوق ہے پھر وہ کیسے تمہارا پروردگار اور خالق ہوسکتا ہے؟

وہ مجسمہ کہ جسے میں خود بناؤں کیسے میرا پروردگار ہوسکتا ہے؟ ایک مرتبہ آپّ ستارہ پرستوں کے عبادت خانے کے قریب سے گزرے، دیکھا کہ ایک جماعت اپنى آنکھیں آسمان کى طرف لگائے انتظار میں بیٹھى ہے_ آپ(ع) نے ان سے پوچھا_ کس کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو_

انھوں نے کہا کہ رات کے انتظار میں، تا کہ ہمارا خدا طلوع ہو اور ہم اس کى عبادت اور پرستش کریں_

غروب آفتاب کا وقت تھا،حضرت ابراہیم علیہ السلام بھى ان کے پہلو میں انتظار کرنے بیٹھ گئے، یہاں تک کہ تاریکى چھاگئی اور خوبصورت ستارہ زہرہ افق سے نمودار ہوا_ ستارہ پرست سجدے میں گر گئے اور ایک خاص قسم کى عبادت اور دیگر رسوم ادا کرنے لگے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زہرہ ستارے کى بلندی، خوبصورتى اورروشنى کو دیکھا اور کہا: کیا یہ میرا پروردگار ہے؟

اس گفتگو کے دوران ستارہ آہستہ آہستہ غروب ہوئے لگا_ اور افق کے نزدیک ہوتے ہى مکمل طور پرغروب ہوکر عبادت کرنے والوں کى نگاہوں سے اوجھل ہوگیا_

حضرت ابراہیم (ع) نے فرمایا کہ:

کس طر ح اس ستارے کو جوغروب ہوگیا ہے اپنا پروردگار سمجھتے ہو؟ کیونکہ اس ستارہ کى حرکت اوراس کاطلوع و غروب ہونا خوداپنى زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ میں ایک قادر مطلق پروردگار کے فرمان کے ماتحت ہوں جومجھے حرکت میں لاتا ہے اور طلوع و غروب ہونا میرے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے_

نہیں ... میںکسى ایسى چیز کو جو غروب ہوتى اور پستى کى طر ف جاتى ہے اپنا پروردگار نہیں مان سکتا ... اس لئے کہ ایسى محتاج اور نیازمند چیز میرا پروردگار نہیں ہوسکتی_

ستارہ پرستوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کى یہ گفتگو سنى اور گہرى فکر وتذبذب میںڈوب گئے_ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کى دلیل کا کوئی جواب نہ دے سکے_

خوبصورت اور چمکدار چاند طلوع ہوا_ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ کیایہ میرا پروردگار ہے؟

چاندپرستوں نے آپ(ص) سے یہ سوال سنا تو آپ(ع) سے بحث شروع کردی_ لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد چاند بھى ڈوب گیا_

نہیں ... نہیں، یہ بھى میراپروردگار نہیں ہے_ یہ بھى نکلتا اور ڈوبتا ہے_ یہ بھى حرکت کرتا ہے اور اس میں بھى تغیر رونما ہوتا ہے اور زمان

و مکان کا محتاج ہے ... یہ موجود میرا پروردگار نہیں ہوسکتا_ کیونکہ یہ خود محتاج اورنیازمند ہے_

چاندپرستوں نے جب یہ بات سنى تو سوچنے لگے کیونکہ ان کے پاس  بھى حضرت ابراہیم علیہ السلام کى اس واضح دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا_

چاند سے بھى زیادہ روشن اوربڑا سورج طلوع ہوا_ حضرت ابراہیم (ع) نے سوال کیا: کیا یہ میرا پروردگار ہے؟

لیکن سورج بھى مغارب میںپہونچا اور غروب ہوگیا_

نہیں ... سورج بى میرا پروردگار نہیں ہے یہ خود حرکت اور تغیر میں ہے_ یہ خود محتاج اور نیازمند ہے_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت مشرکوں کے درمیان سے اٹھے اورفرمایا:

میں ان چیزوں سے کہ جن کى تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کى پرستش نہیں کرتا ہوں_ یہ سورج اور چاند اور یہ ستارے تمام کے تمام کسى دوسرے کے پیدا کئے ہوئے ہیں مں اس ذات کى طرف دیکھتا ہوں کہ جس نے آسمان اور زمین کوپیدا کیا_ وہى میرا پروردگار ہے_ وہى عبادت وپرستش کے لائق ہے منتہا وہى وہ ذات ہے جو اس کائنات پرحاکم ہے اسى پر ایمان لاؤ اوراپنے ایمان کوظلم وستم سے آلودہ نہ کرو تا کہ امن او ر ہدایت کا راستہ پاؤ_


توضیح اور تحقیق

یہ اللہ تعالى کى طرف سے دلیل تھى جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو تعلیم کى گئی تا کہ وہ اپنى قوم کى بیدار اور آگاہ کر سکیں اور انہیں موحوم تصورات اور غلط عقائد سے نجات دلا سکیں _ یہ دلیل تمام انسانوں کى اس فطرت پر مبنى ہے جسکے تحت وہ جانتے ہیں کہ ہر موجود کے لئے علت ضرورى ہے اور ہر مخلوق کا کوئی خالق ہے_

اس فطرت کى بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ى قوم اس سلسلہ میںکسى شک و شبہ کا شکار نہ تھى کہ وہ کسى دوسرى ذات کى پروردہ اور مخلوق ہیں اور ایک قادر و توانا ہاتھ ہے جوان کى اس طرح پرورش کر رہا ہے اور در حقیقت ایک خالق پرروردگار موجود ہے_

لیکن وہ اپنے اس پروردگار کى پہچان کے سلسلے میں لغزش کا شکار ہوگئے تھے _ایک گروہ بتوں کى پرستش کرتا تھا اور دورسرا گروہ سورج کو پوجتا تھا، ایک گروہ چاند اور بعض ستاروں کو اپنا پروردگار سمجھتا تھا_

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے مختصر سوالوں سے ان کى سوئی ہوئی دعقلوں مو جھنجھوڑتے اور انھیں آگاہ کرتے تھے تا کہ وہ بیدار ہوجائیں اور شرک کى بدنمائی کو دیکھ کر توحید اور خداپرستى کى طرف آجائیں_

حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے درمیان بیٹھتے تھے اور ان سے محبت اور مہربانى سے گفتگو کرتے تھے اور ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کے دوران ان باتوں کو ترجیح دیتے تھے جو فطرت سے ہم آہنگ اور ان کے لئے قابل قبول ہوا

کرتى تھیں _ اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے تاریک ذہنوں روشنى کا ایک دریچہ کھول دیں _ اور انہیں بتاتے تھے کہ جن چیزوں کى تم پرستش کرتے ہو وہ خود مخلوق اور اپنے کے لئے کس دوسرے کے محتاج ہیں_ وہ کبھى طلوع ہوتے ہیں اور کبھى غروب _ اور مجبور ہیں کہ اپنے وجود کے لئے کسى بے نیاز سرچشمہ پر تکیہ کریں_

اور وہى بے نیاز سرچشمہ ہے کہ جس نے انھین پیدا کیا ہے وہى زمین اور آسمان کا خالق ہے اور وہى تمہارا پروردگار بھى ہے_ میں حق پسندیدہ اور حنیف ہوں، مین اسى ذات کى طرف متوجہ ہوں اور وہى زمین اور آسمانوں کا خالق ہے اور اس کا کسى کو شریک قرار نہیں دیتا_ اس کے سوا کى حکومت اور ولایت کو قبول نہیں کرتا اور اس کے سوا کسى اور کى عبادت و اطاعت نہیں کرتا

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان کلمات کو قرآن مجید میں بیان کیا ہے اور تمام حق پسند اور حنیف انسانوں سے چاہا ہے کہ آپ کى اقتدار کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یک طرح تمام چیزوں سے دل خالى کریں اور زمین اور آسمان کے خالق سے وابستہ ہو جائیں، اسے محبت کریں اور اس سے مانوس اور آشنا ہوجائیں_


آیت قرآنی

انّى وجّہت وجہى للّذى فطر السّموت و الارض حنیفا وّ ما انا من المشرکین''

میںنے اپنا رخ اس ذات کى طرف کرلیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کوپیداکیاہے میںحق پسند ہوں،مشرکین میںسے نہیںہوں''

''سورہ انعام 6 آیت 79''


سوچیئےور جواب دیجیے

1)___ ہم اپنى ضروریات سے کس طرح بہتر طریقہ سے واقف ہوسکتے ہیں؟ اوراس واقفیت کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

2)___ حضرت ابراہیم (ع) بت پرستوں کى خوابیدہ عقل کو بیدار کرنے کیلئے کیافرماتے تھے؟ اورکس طرح ان سے گفتگو کرتے تھے؟ اورکس طرح دلیل دیتے تھے؟

3) آپ نے ستارہ پرستوں سے کیاکہا اورکس طرح ستارے کے غروب ہوجانے سے بے نیاز خالق کیلئے دلیل لائے؟

4)___ چاند پرستوں سے کیاکہا اور ان کیلئے واضح دلیل کس طرح بیان کی؟

5) ___ سورج پرستوں سے کیا کہا اور جب مشرکوں کے درمیان سے اٹھے توان سے کیا کہا؟

6)___ حضرت ابراہیم (ع) کى گفتگوکیا چیز بیانکرتى ہے_ برہان نظم اوربرہان علّیت کى وضاحت کیجیئے؟

7) ___ حنیف کسے کہتے ہیں؟ خداتعالى مومن انسان سے کیاچاہتاہے؟ اوران سے کس شخص کى اقتدا چاہتا ہے اورکس طرح؟