پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

حصّہ دوم معاد

حصّہ دوم معاد


پہلا سبق
کیا اچھائی اور برائی برابر ہیں


آپ اچھے اور برے کے معنى سمجھتے ہیں اچھے اور برے انسان میں فرق کرسکتے ہیں جو انسان عدل چاہنے والا سچا، نیک کردار، صحیح با ادب، اور امین ہوا سے اچھا انسان شمار کرتے ہیں، لیکن بد اخلاق، جھوٹا، بدکردار، ظالم بے ادب خائن انسان کو برا انسان سمجھتے ہیں کیا آپ کے نزدیک برے اور اچھے انسان مساوى اور برابر ہیں_ کیا آپ اور تمام لوگ اچھے انسانوں کو دوست رکھتے ہیں اور برے آدمیوں سے بیزار ہیں خدا بھى اچھے کردار والے آدمیوں کو دوست رکھتا ہے اور برے انسانوں سے وہ بیزار ہے اسى لئے اللہ تعالى نے پیغمبر(ص) بھیجے ہیں تا کہ اچھے کاموں کى دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں
اب ان سوالوں کے جواب دیں_ کیا اچھے لوگوں کے لئے کوئی جزا ہوگى اور برے لوگ اپنے اعمال بد کى سزا پائیں گے؟
کیا اچھے اور برے لوگ اس جہاں میں اپنے اعمال کى پورى اور کامل جزا اور سزا پالیتے ہیں؟
پس اچھے اور برے کہاں ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور کہاں اپنے اعمال کا پورا اور کامل نتیجہ دیکھ سکیں گے؟
اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے جسے آخرت کہا جاتا ہے کہ جہاں اچھے اور برے لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے اور اپنے اعمال کا ثمرہ پائیں گے اگر آخرت نہ ہو تو اچھے لوگ کس امید میں اچھا کام کریں اور کس لئے گناہ اور برائی سے دور ہیں_ اگر آخرت نہ ہو تو پیغمبروں کى دعوت بے مقصد اور بیہودہ ہوگى اچھائی اور برائی کے کوئی معنى نہ ہوں گے اگر آخرت ہمارے سامنے نہ ہو تو ہمارى زندگى بے نتیجہ اور ہمارى خلقت بھى بے معنى ہوگی_ کیا علیم و قادر خدا نے ا س لئے ہمیں پیدا کیا ہے کہ چند دن اس دنیا میں زندہ رہیں؟ یعنى کھائیں پئیں، پہنیں، سوئیں اور پھر مرجائیں اور اس کے بعد کچھ بھى نہیں یہ تو ایک بے نتیجہ اور بے معنى کام ہے اور اللہ تعالى بے معنى اور بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا_ اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ''ہم نے تمہیں عبث خلق نہیں کیا ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تا کہ اس دنیا میں زندگى گزار و اچھے کام انجام دو اور لائق و کامل بن جاؤ اس کے بعد ہم تم کو اس دنیا سے ایک دوسرى دنیا کى طرف لے جائیں گے تا کہ اس دنیا میں اپنے کاموں کا کامل نتیجہ پاؤ''
آخرت میں اچھے بروں سے جدا ہوجائیں گے جو لوگ نیک کام انجام دیتے رہے اور دین دار تھے وہ بہشت میں جائیں گے اور خوشى کى زندگى بسر کریں گے اللہ ان سے راضى ہے اور وہ بھى اپنى اچھى زندگى اور اللہ کى بے پایاں نعمتوں سے خوشنود اور راضى ہیں بے دین اور بد کردار لوگ دوزخ میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کى سزا پائیں گے اللہ ان پر ناراض ہے اور وہ دردناک عذاب کى زندگى بسر کریں گے اور ان کے لئے بہت سخت زندگى ہوگی

غور کیجئے اور جواب دیجئے

1)___ کون لوگ اچھے ہیں او رکون لوگ برے، ان صفات کو شمار کیجئے
2)___ کیا برے اور اچھے لوگ آپ کے نزدیک مساوى ہیں؟
3)___ کیا برے اور اچھے لوگ خدا کى نزدیک برابر ہیں؟
4)___ پیغمبر(ص) لوگوں کو کن کاموں کى طرف دعوت دیتے ہیں اور کن کاموں سے روکتے ہیں؟
5)___ کیا لوگ اس دنیا میں اپنے اعمال کى کامل جزاء پاتے ہیں؟
6)___ کہاں اپنے اعمال کا کامل نتیجہ دیکھیں گے؟
7)___ اگر آخرت نہ ہو تو اچھائی اور برائی کا کوئی معقول اور درست معنى ہوگا
8)___ اگر آخرت نہ ہو تو ہمارى زندگى کا کیا فائدہ ہوگا؟
9)___ جب ہم سمجھ گئے کہ اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا ہے تو ہم کس طرح زندگى گزاریں؟
 

دوسرا سبق
پھول کى تلاش


ہمارے خاندان کے کچھ لوگ مرى کے اطراف میں ایک دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات بہت خوبصورت ہے وہاں کى آب و ہوا معتدل ہے اس کے نزدیک ایک پہاڑ ہے کہ جس کا دامن سرخ اور زرد پھولوں سے بھرا ہوا ہے_
ایک دن میرے رشتہ دار بچّے میرے چچا کے گھر بیٹھے تھے عید الاضحى کا دن تھا_ ہم چاہتے تھے کہ کمرے کو پھولوں سے سجائیں میرے والد نے مجھ سے کہا کہ چلیں پھول ڈھونڈ لائیں اور اس کام میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں_
میں نے پوچھا کس طرح؟
والد نے کہا کہ تم تمام کے تمام پہاڑ کے دامن میں جاؤ وہاں بہت زیادہ پھول موجود ہیں پھول توڑو اور لوٹ آؤ لیکن خیال کرنا کہ پھولوں کى جڑوں کو ضرر نہ پہنچے مقابلہ کا وقت ایک گھنٹہ ہے تمام اس مقابلہ میں شریک ہو جاؤ پھول توڑو اور لوٹ آو جو زیادہ پھول لائے گا وہ زیادہ انعام پائے گا تمام بچّے مقابلہ میں شریک ہونے کے لئے آمادہ ہوگئے_
صبح کو ٹھیک سات بجے مقابلہ شروع ہوا کچھ بچے تو اس دیہات کے اطراف میں ہى رہ گئے اور کہنے لگے کہ راستہ دور ہے اور ہم تھک جائیں گے تم بھى یہیں رک جاؤ اور ہم ہمیں مل کر کھیلیں لیکن ہم نے ان کى باتوں پر کان نہ دھرا اور چلے گئے راستے میں دوڑتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلتے تھے تا کہ پھولوں تک جلدى پہنچ جائیں راستہ دشوار آگیا بعض بچّے ٹھہر گئے آگے نہ بڑھے او رکہنے لگے کہ ہم یہیں سے پھول توڑیں گے_
میں میرا بھائی اور چچا کا بیٹا سب سے پہلے پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے کتنى بہترین اور خوبصورت جگہ تھى زرد اور سرخ پھولوں سے بھرى پڑى تھی_ ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کى مدد کریں اور اکھٹے پھول توڑیں میں اور چچا کا لڑکا پھول توڑنے تھے اور اپنے بھائی کے دامن میں ڈال دیتے تھے اس کا دامن پھولوں سے بھر گیا گھڑى دیکھى تو مقابلہ کا وقت ختم ہونے کے قریب تھا گھر کى طرف لوٹے دوسرے بچّے بھى لوٹ آئے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں بہترین انعام ملے گا اور جو تھوڑے پھول توڑ لائے تھے خوش نہ تھے کیوں کہ جانتے تھے کہ مقابلہ میں بہتر مقام نہیں لے سکیں گے اور بہترین انعام حاصل نہیں کرسکیں گے اور جو خالى ہاتھ لوٹ آئے تھے شرمسار اور سرجھکائے ہوئے تھے والد کے پاس پہنچے جس نے جتنے پھول توڑے تھے انہیں دے دیئے اور انعام لیا لیکن جنہوں نے سستى کى تھى اور والد کے فرمان پر عمل نہیں کیا تھا انہوں نے انعام حاصل نہیں کیا بلکہ شرمسار تھے ان سے والد صاحب بھى خوش نہیں ہوئے اور ان کى کوئی پرواہ نہ کى وہ سرجھکائے اپنے آپ کو کہہ رہے تھے کاش ہم بھى کوشش کرتے کاش دوبارہ مقابلہ شروع ہو لیکن مقابلہ ختم ہوچکا تھا

جزاء کا دن


مقابلہ کے ختم ہوجانے کے بعد ہمارے والد نے ہم سے گفتگو کرنا شروع کى او رکہا '' میرے عزیز اور پیارے بچّو مقابلہ کے انعقاد کے لئے میرا نظریہ کچھ اور تھا میں اس سے تمہیں سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ جہان مقابلہ کا جہان ہے_ ہم تمام اس جہان میں مقابلہ کرنے آئے ہیں اور قیامت کے دن اس کا انعام اور جازء حاصل کریں گے ہمارا مقابلہ نیک کاموں اور اچھے اعمال میں ہے_ اچھے اور برے کام کى جزاء اور سزا ہے اچھے اور برے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں _ ہمارى خلقت اور کام و کوشش کرنا بے معنى اور بے فائدہ نہیں لوگوں کا ایک گروہ اللہ تعالى کے فرمان کا مطیع اور فرمانبردار ہے نیک کاموں کا بجالانے میں کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ اللہ کى یاد میں ہے اچھے اور صالح لوگوں سے دوستى کرتا ہے ان کى راہنمائی میں بہت زیادہ اچھے کام انجام دیتا ہے نیک کاموں میں سبقت لے جاتا ہے اپنے دوستوں اور ہمسایوں کى مدد کرتا ہے مظلوموں کى حمایت کرتا ہے
یہ لوگ آخرت میں بہترین انعام اور جزاء پائیں گے خدا ان سے خوش ہوگا اور وہ بھى خدا سے انعام لے کر خوش ہوں گے سب سے پہلے بہشت میں جائیں گے اور بہشت کے بہترین باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ خوش و خرّم زندگى بسر کرین گے ہمیشہ اللہ تعالى کى تازہ نعمتوں اور اس کى پاک محبت سے مستفید ہوں گے، اور لذت اٹھائیں گے_ ایک اور گروہ اس جہان میں اچھے کام انجام دیتا ہے وہ اچھے کاموں میں مدد بھى کرتا ہے اور اللہ کو یاد بھى کرتا ہے لیکن پہلے گروہ کى طرح کوشش نہیں کرتا اور سبقت لے جانے کے درپے نہیں ہوتا یہ بھى قیامت کے دن انعام او رجزاء پائیں گے اور بہشت میں جائیں گے لیکن ان کا انعام او رجزاء پہلے گروہ کى طرح نہیں ہوگا_ تیسرا گروہ ظالم اور بے دنیوں کا ہے وہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے فرمان کو قبول نہیں کرتا اور اس پر عمل نہیں کرتا_ وہ خدا کو بھول گیا ہے، اچھے کام انجام نہیں دیتا، گناہ گار اور بداخلاق، اور بدکردار ہے لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ گروہ خالى ہاتھ آخرت میں سامنے آئے گا اچھے کام اپنے ساتھ نہیں لائے گا اپنے برے افعال اور ناپسندیدہ اعمال سے شرمندہ ہوگا_
جب اچھے لوگ انعام پائیں گے تو یہ افسوس کرے گا اور پشیمان ہوگا اور کہے گا_ کاش دنیا میں پھر بھیجا جائے تا کہ وہ نیک کام بجالائے لیکن افسوس کہ دوبارہ لوٹ جانا ممکن نہیں ہوگا اس گروہ کے لوگ جہنم میں جائیں گے اور اپنے برے کاموں کى سزا پائیں گے_


غور کیجئے اور جواب دیجئے


1)___ کیا ہمارى خلقت و کوشش بغیر کسى غرض اور غایت کے ہے اور کیا ہم ان کاموں اور کوششوں سے کوئی نتیجہ بھى لیں گے؟
2)___ یہ جہان مقابلہ کى جگہ ہے، سے کیا مراد ہے؟
3)___ متوجہ اور آگاہ انسان اس دنیا میں کن کاموں کى تلاش میں اور کن کاموں میں مقابلہ کر رہا ہے؟
4)___ کون لوگ آخرت میں بہترین انعام پائیں گے؟
5)___ ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا ہے؟
6)___ ان کے اعمال اور کردار کیسے تھے، ان کے دوست کیسے تھے کن کاموں میں مقابلہ کرتے تھے؟
7)___ آپ کى رفتار اور آپ کا کردار کیسے ہے، آپ کے دوستوں کا کردار کیسا ہے، کن کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کى کوشش کرتے ہیں اگر آپ کا کوئی دوست آپکو کسى ناپسندیدہ کام کى دعوت دے تو پھر بھى اس سے دوستى رکھتے ہیں؟
8)___ کون لوگ قیامت کے دن شرمندہ ہوں گے کیوں افسوس کریں گے یہ لوگ اس دنیا میں کیسا کردار تھے ہیں؟
9)___ دوسرے گروہ کا انعام اور جزاء کا پہلے گروہ کے انعام اور جزائ


سے کیا فرق ہے اور کیوں؟

ان سوالوں کے جواب خوش خط لکھیں

 

تیسرا سبق
جہان آخرت عالم برزخ اور قیامت


مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتے بلکہ اس جہان سے دوسرى دنیا کى طرف جاتے ہیں کہ جس کا نام جہان آخرت ہے، آخرت سے پہلے عالم برزخ ہے اور اس کے بعد قیامت ہے عالم برزخ ایک دنیا ہے جو دنیا و آخرت کے درمیان میں واقع ہے_خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ان کے سامنے بزرخ ہے قیامت تک'' اور ایک جگہ فرماتا ہے ''گمان نہ کرو کہ وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجاتے ہیں وہ مرگئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزى پاتے ہیں'' خداوند عالم نے ہمیں پیغمبر(ص) اسلام کے ذریعہ خبر دى ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے اور دنیا کو ترک کرتا ہے_ اور برزخ میں جاتا ہے تو عالم برزخ میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کتنے خدا کا عقیدہ رکھتے ہو_ کس کے فرمان کے مطیع تھے خدا کے یا غیر خدا کے، تیرا پیغمبر کون ہے، تیرا دن کیا ہے، تیرا رہبر و امام کون ہے، جس نے دنیا میں خداپرستى او ردیندارى اور با ایمان زندگى گزارى ہوگى وہ آسانى سے جواب دے گا اور اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا اس مختصر سوال و جواب کے بعد برزخ میں آرام سے اور خوشى سے قیامت تک زندگى گزاریں گے اور عمدہ نعمتیں جو بہشتى نعمتوں کا نمونہ ہوں گى اسے دى جائیگى لیکن وہ لوگ جو خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کو قبول نہ کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطیع نہ تھے بے دین اور ظالم تھے برزخ میں بھى خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا اقرار نہیں کریں گے ان کا کفر اور ان کے بے دینى ظاہر ہوگى اس قسم کے لوگ برزخ میں سختى اور عذاب میں مبتلا ہوں گے برزخ کا عذاب ان کے لئے جہنّم کے عذاب کا نمونہ ہوگا_ برزخ میں انسان کى حقیقت ظاہر ہوجائے گى اور اس کا ایمان اور کفر واضح ہوجائے گا جو شخص دنیا میں خدا و قیامت کے دن پیغمبروں(ص) پر واقعاً ایمان رکھتا تھا اور نیکوکار تھا برزخ میں اس کا ایمان ظاہر ہوجائے گا_ وہ صحیح اور صاف صاف جواب دے گا لیکن جو شخص واقعى ایمان نہیں رکھتا تھا اور ظالم و بدکار تھا برزخ میں اس کا کفر ظاہر ہوجائے گا اور وہ صحیح جواب نہیں دے سکے گا_
گناہ گار انسان جہنم کے عذاب کا نمونہ برزخ میں دیکھے گا اور اس کے اعمال کى سزا یہیں سے شروع ہوجائے گى پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ گھر مین بداخلاقى کرتے ہیں برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت على علیہ السلام نے فرمایا کہ جو لوگ خچل خورى کرتے ہیں اور جو لوگ شراب سے پرہیز نہیں کرتے برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے_

 

برزخ میں سوال و جواب


برزخ میں سوال و جواب حقیقى ہوگا جو لوگ برزخ میں جائیں گے ان سے حقیقتاً سوال ہوگا وہ یقینا ان سوال کا جواب دیں گے لیکن برزخ کا سوال و جواب دنیا کے سوال و جواب کى طرح نہیں_ جو لوگ برزخ میں ہیں سوال کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں لیکن اس کان اور زبان سے نہیں جس کے ذریعہ دنیا میں سنتے اور جواب دیتے تھے بلکہ برزخى زبان اور کان سے، ضرورى نہیں کو بولنا اور سنتا ہمیشہ انہى لبوں، زبان اور انہى کانوں سے ہو_ مثلاً آپ خواب میں اپنے دوست سے کلام کرتے ہیں اس کى باتیں سنتے ہیں اور اس سے گفتگو کرتے ہیں کیا اسى کان اور زبان سے؟ یقینا نہیں_ کبھى خواب میں کسى ایسى جگہ جاتے ہیں کہ جہاں کبھى نہ گئے تھے لیکن بیدار ہونے کے بعد وہاں جائیں تو سمجھ جائیں گے کہ خواب میں اس جگہ کو دیکھا تھا خواب میں کس جسم کے ساتھ ادھر ادھر جاتے ہیں خواب میں کس آنکھ سے دیکھتے ہیں اور کس کان سے سنتے ہیں کیا اسى کان اور آنکھ سے؟ کیا اسى جسم سے، یقینا نہیں کیوں کہ یہ جسم بستر پر پڑا آرام کر رہا ہے اور آنکھیں بند کى ہوئی ہیں_
اس قسم کے خواب ممکن ہے کہ آپ نے دیکھے ہوں یا آپ کے کسى دوست نے دیکھے ہوں، برزخ کى دنیا واقعى اور حقیقى دنیا ہے اور اس میں سوال و جواب بھى حقیقى ہیں_ ہم نے خواب کو بطور مثال ذکر کیا ہے_

غور کیجئے او رجواب دیجئے

1)___ آیا ہمارى محنت اور کام بے فائدہ ہیں ہم اپنى کوشش کا نتیجہ کہاں دیکھیں گے؟
2)___ آخرت سے پہلے کس دنیا میں جائیں گے؟
3)___ خدا نے برزخ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟
4)___ جو شخص دنیا میں خدا اور پیغمبروں پر واقعى ایمان رکھتا ہے برزخ میں کیسى زندگى گذارے گا؟ اس دنیا کے سوالوں کا کس طرح جواب دے گا؟
5)___ برزخ میں انسان سے کیا پوچھا جائے گا؟
6)___ برزخ میں کن لوگوں کا ایمان ظاہر ہوگا؟
7)___ کفر ا ور برائی کسکى ظاہر ہوگی؟
8)___ آیا آخرت میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے؟ اور کیوں؟
9)___ کون سے لوگ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہوں گے؟
10)___ آیا برزخ کا سوال اور جواب اسى دنیاوى زبان اور کان سے ہوگا؟

 

چوتھا سبق
مردے کیسے زندہ ہونگے


حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر(ص) تھے وہ آخرت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے تھے انہیں علم تھا کہ آخرت میں مردے زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب کے لئے حاضر ہوں گے لیکن اس غرض کے لئے کہ ان کا یقین کامل ہوجائے اللہ تعالى سے درخواست کى کہ مردوں کا زندہ کرنا انہیں دکھلائے انہوں نے خدا سے کہا معبود تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اللہ نے ان سے کہا کیا تم مردوں کو زندہ ہونے پر ایما نہیں رکھتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا یا ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے، اللہ تعالى نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کى درخواست قبول کرلى اور حکم دیا کہ چار پرندے انتخاب کرو اور انکو ذبح کرو اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور انہیں اچھى طرح کوٹ دو پھر انکو قیمہ شدہ گوشت اور پروں اور ہڈیوں کو کئی حصّوں میں تقسیم کردو اور ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھ دو اسکے بعد پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوجاؤ اور ہر ایک پرندے کو اس کے نام کے ساتھ پکارو و ہ اللہ کے حکم سے تیرے حکم پر زندہ ہوں گے اور تیرى طرف ڈورے آئیں گے اور تم جان لوگے کہ اللہ تعالى عالم و قادر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالى کے اس حکم پر عمل کیا چار پرندے لئے ایک کبوتر دوسرا کوّا تیسرا مرغ اور چوتھا مور تھا، ان کو ذبح کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں کوٹ کو قیمہ بنادیا اور آپس میں ملادیا پھر ان کاگوشت تقسیم کر کے ہر ایک حصّہ کو پہاڑ پر رکھا اور اس پہاڑ کے وسط میں کھڑے ہوکر پہاڑ کى طرف دیکھا اور بلند آواز سے مور کو بلایا اور کہا اے مور ہمارى طرف آؤ: مور کے ٹکڑے پہاڑ سے آنحضرت کى طرف آئے اور آپس میں ملتے گئے اور مور کى گردن، سر، پاؤں اور اس کے پرو ہیںبن گئے اور مور زندہ ہوگیا، اپنے پروں کو ہلایا اور حضرت ابراہیم کے سامنے چلنے لگا اسى طرح کبوتر، کوّا، اور مرغ بھى زندہ ہوگئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مردہ پرندوں کا اپنے اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہونا اپنى آنکھوں سے دیکھا_
آپ(ع) کا ایمان اور یقین کامل تر ہوگیا اور اللہ تعالى کى قدرت کا مشاہدہ کیا اور آپ کا دل مطمئن ہوگیا اور آپ نے سمجھ لیا کہ قیامت کے دن مردے کس طرح زندہ ہوں گے_


غور کیجئے اور جواب دیجئے

1)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالى سے کونسى درخواست کى تھی
2)___ اس درخواست کى غرض کیاتھی؟
3)___ اللہ تعالى نے حضرت ابراہیم (ع) کى درخواست کا کیا جواب دیا؟ اور انہیں کیا حکم دیا؟
4)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اللہ تعالى کے فرمان پر کس طرح عمل کیا؟
5)___ کس طرح پرندوں کو زندہ کیا؟
6)___ کس ذات نے پرندوں کے زندہ کرنے کى قدرت حضرت ابراہیم (ع) کو دى تھی؟
7)___ حضرت ابراہیم (ع) نے اس تجربہ سے کیا نتیجہ لیا؟

 

پانچواں سبق
کس طرح


آپ کس طرح کام کو یاد کرتے ہیں؟ اور کس طرح کام کرنے کے عادى بنتے ہیں؟ ایک کام کا بار بار کرنا آپ کى جان اور روح پر کیا اثر کرتا ہے، جب ایک کام کو بار بار انجام دیں تو وہ آپ کى روح پر کیا اثر کرتا ہے آہستہ آہستہ آپ اس کے عادى ہوجاتے ہیں اور پھر اس کام کو ٹھیک بجالاسکتے ہیں مثلا جب کچھ لکھتے ہیں تو یہ لکھنا آپ پر اثرانداز ہوتا ہے اگر لکھنے میں ذرا محنت کریں صاف اور اچھى طرح لکھیں تو یہ محنت کرنا آپ کى روح پر اثرانداز ہوگا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کا خط خوشنما اور خوبصورت ہوجائے گا لیکن اگر لکھنے میں محنت نہ کریں تو یہ بے اعتنائی بر اثر چھوڑے گى جس کے نتیجے میں آپ کاخط بدنما ہو جائے گا ہم جتنے کام کرتے ہیں وہ بھى اسى طرح ہمارى روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اچھے کام اچھے اثر اور برے کام برا اثر چھوڑتے ہیں_

ہمارى زندگى کے کام


جب ہم اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہمارى روح پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں پاک اور نورانى کردتے ہیں ہم نیک کام بجالانے سے ہمیشہ اللہ تعالى کى طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالى سے انس و محبت کرتے ہیں اور نیک کام بجالانے کے انجام سے لذّت اٹھاتے ہیں صحیح عقیدہ ہے اور ہمیں نورانى اور خوش رو کردیتا ہے_ برے کردار اور ناپسندیدہ اطوار بھى انسان پر اثر چھوڑتے ہیں انسان کى روح کى پلید اور مردہ کردیتے ہیں پلید روح خدا کى یاد سے غافل ہوا کرتى ہے وہ برے کاموں کى عادى ہونے کى وجہ سے سیاہ اور مردہ ہوجاتى ہے اور انسان کو ترقى سے روک دیتى ہے ہمارى خلقت بیکار نہیں ہے اور ہمارے کام بھى بیہودہ اور بے فائدہ نہیں ہیں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اثر باقى رہتا ہے ہم اپنے تمام کاموں کے اثرات آخرت میں دیکھیں گے بہشت اور اس کى عمدہ نعمتیں صحیح عقیدہ رکھنے اور اچھے کاموں کے کرنے سے ملتی ہیں اور جہنّم اور اس کے سخت عذاب باطل عقیدہ اور ناپسندیدہ کاموں کے نتیجے میں ہمارے تمام کام خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں ہمارى زندگى کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ باقى رہتے ہیں ممکن ہے کہ ہم اپنے کاموں سے غافل ہوجائیں لیکن وہ ہرگز فنا نہیں ہوتے اور تمام کے تمام علم خدا میں محفوظ ہیں آخرت میں ہم جب کہ غفلت کے پردے ہت چکے ہوں گے اپنے کاموں کا مشاہدہ کریں گے_
خدا قرآن میں فرماتا ہے_ کہ جب انسان کو حساب کے لئے لایا جائے گا اور وہ نامہ اعمال کو دیکھے گا اور اپنے اعمال کا مشاہدہ کرے گا تو تعجب سے کہے گا یہ کیسا نامہ اعمال ہے کہ جس میں میرے تمام کام درج ہیں کس طرح میرا کوئی بھى کام قلم سے نہیں چھوٹا_ اللہ تعالى کى طرف سے خطاب ہوگا تیرے کام دنیا میں تیرے ساتھ تھے لیکن تو ان سے غافل تھا اب جب کہ تیرى روح بینا ہوئی ہے تو تو اس کو دیکھ رہا ہے ''دوسرى جگہ ارشاد الہى ہوتا ہے''
جو شخص اچھے کام انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے دیکھے گا'' اور جو شخص برے کام انجام دیتا ہے معدہ ان کو قیامت کے دن مشاہدہ کرے گا_
اب جب کہ معلوم ہوگیا ہمارے تمام کام خواہ اچھے یا برے فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ تمام کے تمام ہمارى زندگى کے نامہ اعمال میں درج ہوجاتے ہیں اور آخرت میں ان کا کامل نتیجہ ہمیں ملے گا تو کیا ہمیں اپنے اخلاق اور کردار سے بے پرواہ ہونا چاہیئے؟


کیا ہمارى عقل نہیں کہتی؟ کہ خداوند عالم کى اطاعت کریں اور اس کے فرمان او رحکم پر عمل کریں؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

1)___ اچھے کام اور اچھا اخلاق ہمارى روح پر کیا اثر چھوڑتے ہیں؟
2)___ برے کام اور برے اخلاق کیا اثر چھوڑتے ہیں؟
3)___ کیا ہمارے برے اور اچھے کام فنا ہوجاتے ہیں؟
4)___ کن چیزوں کے ذریعہ سعادت اور کمال حاصل ہوتا ہے؟
5)___ بہشت کى نعمتیں کن چیزوں سے ملتى ہیں؟
6)___ جہنم کا عذاب کن چیزوں سے ملتا ہے؟
7)___ ہمارے کام کہاں درج کئے جاتے ہیں؟
8)___ کیا ہم اپنے کاموں کو دیکھ سکیں گے؟
9)___ خداوند عالم ہمارے اعمال کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟
10)___ اب جب کہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے تمام کام محفوظ کر لئے جاتے ہیں تو ہمیں کون سے کام انجام دیتے چاہیئےور کسى طرح زندگى بسر کرنى چاہیئے