پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پہلا حصّہ خداشناسى

پہلا سبق
خدا خالق کائنات

جب میرے ابّا جان نے کھانے کا آخرى لقمہ کھایا تو کہا الحمد اللہ رب العالمین_ میں نے کہا: ابا جان الحمد اللہ رب العلمین کا کیا مطلب ہے کیوں آپ ہمیشہ کھانا کھانے کے بعد یہ جملہ کہتے ہیں؟
میرے ابا نے کہا: بیٹے میں اس جملے سے خداوند عالم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس کى نعمتوں کا شکر بجالاتا ہوں وہ خدا جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے اور پرورش کرتا ہے یہ تمام نعمتیں خدا نے ہمیں دى ہیں جب ہم ان سے استفادہ کرتے ہیں تو ضرورى ہے کہ نعمتوں کے مالک کا شکریہ ادا کریں_
اسى غذا او رکھانے میں ذرا غور کرو کہ خدا نے ہمیں کتنى نعمتیں بخشى ہیں آنکھ سے غذا کو دیکھتے ہیں، ہاتھ سے لقمہ اٹھاتے ہیں اور منہ میں ڈالتے ہیں اور لبوں کے ذریعہ کو بند کرتے ہیں او رزبان کے ذریعہ لقمے کو منہ کے اندر پھیرتے ہیں اور دانتوں سے چباتے ہیں اور پھر اندر نگل لیتے ہیں لیکن یہى کام جو بظاہر سادہ نظر آتے ہیں بہت دقیق اور حیرت انگیز ہیں_ انگلیوں اور ہاتھوں کو کتنا خوبصورت اور مناسب خلق کیا گیا ہے_ انگلیاں خواہش کے مطابق کھلتى اور بند ہوجاتى ہیں اور جس قدر ضرورى ہوتا ہے کھل جاتى ہیں ہاتھ کو جس طرح چاہیں پھیر سکتے ہیں انگلیاں ہمارى ضرورت کو پورا کرتى ہیں کبھى تم نے سوچا ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ اس طرح ہمارے اختیار میں نہ ہوتے تو ہم کیا کرتے_
دانتوں کى تخلیق کس قدر دلچسپ اور مشکل ہے_ آئینے میں اپنے دانتوں کو دیکھوان میں سے بعض تیز اور غذا کو چبانے کے لئے ہیں اگر ہمارے دانت نہ ہوتے تو ہم کیسے غذا کھاتے اور اگرتمام دانت ایک ہى طرح کے ہوتے تو بھى غذا کو صحیح طریقے سے نہیں چبا سکتے تھے_
بیٹا سب سے بڑھ کر تعجب خیز لعاب دہن ہے لعاب غذا کو ہضم ہونے کے لئے لازمى ہے اسى لئے نوالہ جتنا چبایا جائے جلدى اور بہتر ہضم ہوتا ہے اس کے علاوہ لعاب لقمے کو تر کرتا ہے تا کہ آسانى سے گلے سے اتر سکے لعاب تین چھوٹے غدوں سے ترشح کرتا ہے ان غدّوں کو لعابى غدّہ کہا جاتا ہے_ دیکھنے اگر ہمارا منہ خشک ہوتا تو ہم کیا کرتے کیا غذا کھاسکتے تھے؟ کیا کلام کرسکتے تھے؟ دیکھو یہى لعاب دہن کتنى بڑى نعمت ہے_ لعابى غدّے کتنے مفید اور اہم کام انجام دیتے ہیں اب بیٹے بتاؤ کس کو ہمارى فکر تھى اور کون جانتا تھا کہ ہمارا منہ تر ہونا چاہیے کون ہمارى فکر میں تھا اور جانتا تھا کہ غذا کے ہضم ہونے کیلئے اور بات کرنے کے لئے لعاب ضرورى ہے اسى لئے لعابى غدّے ہمارے منہ


میں خلق کردیئےاس کو ہمارى فکر تھى اور جانتا تھا کہ ہم کو لب چاہیں؟ کسکو ہمارى فکر تھى اور جانتا تھا کہ ہمیں ہاتھ اور انگلیاں در کار ہیں_ میں باپ کى بات غور سے سن رہا تھا_ میں نے جواب دیا ابا جان مجھے معلوم ہے کہ خدا کو ہمارى فکر تھى وہ ہمارى ضروریات سے باخبر تھا_ جس کى ہمیں ضرورت تھى اس نے بنادیا_ میرے باپ نے کہا: شاباش بیٹا تم نے درست کہا ہے، لعابى غدّے خودبخود وجود میں نہیں آئے دانت اور لب اور انگلیاں خودبخود بغیر حساب کئے پیدا نہیں ہوئیں یہ تمام نظم و ترتیب اس بات کى دلیل ہے کہ ان کى خلقت ایک دانا ذات سے وابستہ ہے اور پیدائشے کا سرچشمہ اور منبع خدا ہے_ میرے بیٹے: جب انسان اللہ تعالى کى بخشش کو دیکھتا ہے تو بے اختیار اس کا خوبصورت نام لیتا ہے اور اس کى ستائشے اور تعریف کرتا ہے اور اس کى نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا ہے_ احمد جان الحمد اللہ رب العلمین یعنى تمام تعریفیں اس خدا کے ساتھ مخصوص ہیں جو سارى کائنات کا پروردگار ہے_

سوچو ا ور جواب دو
1)___ احمد نے باپ سے کیا پوچھا؟
2)___ احمد کا باپ کھانے کے بعد کیا کرتا تھا کس کا شکریہ ادا کرتا تھا؟
3)___ کیا اللہ کى نعمتوں کو شمار کرسکتے ہیں؟
4)___ احمد کے باپ کن نعمتوں کا تذکرہ اپنے بیٹے کے سامنے کیا؟
5)___ لعابى غدے پیدا کرنے کى غرض کیا ہے؟
6)___ جب باپ نے احمد سے کہا دیکھو اور بتلاؤ تو احمد سے کیا تو پوچھا تھا اور احمد نے اس کا کیا جواب دیا تھا؟
7)___ یہ نظم اور ترتیب جو ہمارے بدن میں ہے کس چیز کى دلیل ہے
8)___ الحمد اللہ رب العلمین کا کیا مطلب ہے؟
9)___ آپ غذا کے بعد کس طرح

تجزیہ کیجئے اور غور کیجئے


اپنى انگلیوں کو بند کیجئے اور مٹھى بنایئےسى حالت میں کہ جب انگلیاں بند ہیں ایک ہاتھ میں پنسل لیجئے اور لکھیئے؟
چمچہ اٹھایئےور غذا کھایئے
اگر ہم انگلیاں نہ رکھتے ہوتے تو کس طرح لکھتے؟ کس طرح غذا کھاتے اگر انگلیاں ہمارے ارادے کے ما تحت کھلتى اور بند نہ ہوتیں تو ہم کیسے کام کرتے_
اب آپ انگلیاں کھولیئے اور پھر انہیں حرکت نہ دیجئے اسى حالت میں ان انگلیوں سے پنسل اٹھایئےور اپنا نام لکھئے_
چمچہ اٹھایئےور اس سے غذا کھایئےکیا ایسا کرسکتے ہیں پس ہمارا خدا بہت علیم اور حکیم ہے کہ جس نے انگلیوں کو ہمارے اختیار میں قرار دیا ہے تا کہ وہ ہمارے ارادے اور خواہش پر کھلیں اور بند ہوں: سوائے ذات الہى کے کون اتنا عالم اور قادر ہے کہ انگلیوں کو اس طرح بنائے_

تجزیہ کیجئے اور غور کیجئے


لبوں کو بغیر حرکت کے رکیھے اور پھر کلام کیجئے_ کیا ایسا کرسکتے ہیں کیا تم کلمات ادا کرسکتے ہیں؟ جب لبوں کو کھولے رکھیں تو کیا خوراک چبا سکتے ہیں_ کیا خوراک آپ کے منہ سے نہیں گرجائے گی؟ ہم زبان سے کون سے کام انجام دیتے ہیں بات کرتے ہیں غذا کا مزا چھکتے ہیں اور کیا؟ کیا غذا چباتے وقت زبان کو حرکت نہ دینے پر قادر ہیں_ تجربہ کیجئے_
زبان غذا کھانے کے وقت جارى کیا مدد کرتى ہے؟ اگر زبان نہ رکھتے تو کس طرح غذا کھاتے؟ کس طرح باتیں کرتے؟ کس نے سوائے ذات الہى کے جو دانا اور توانا ہے ہمارے لئے لب اور زبان خلق کى ہے_

تجربہ کیجئے اور فکر کیجئے

زبان کو منہ میں پھیریئےپ کیا چیز محسوس کرتے ہیں؟
دانت ... تالو ... اور کیا ...


اب لعاب کو نگلیئےور پھر اندر کے حصّہ میں زبان پھیریئےکیا آپ کا پورا منہ خشک ہوتا ہے: یہ تازہ لعاب کہاں سے پیدا ہوگیا؟ کیا جانتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہو تو کیا ہوجائے گا_
آپ بات نہیں کرسکیں گے غذا نہیں کھاسکیں گے اور آپ کا منہ خشک ہوجائے گا_
کس ذات نے دانتوں کو آپ کے لئے پیش بینى کر کے خلق کیا ہے سوائے ذات الہى حکیم اور دانا کے کون یہ ہمارے لئے بنا سکتا ہے_

 

دوسرا سبق
خدا کى بہترین تخلیق_ پانی


جب پیاسے ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں_ پانى پیتے ہیں_ جى ہاں ہم سب پانى کے محتاج ہیں حیوانات جب پیاسے ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ پانى پیتے ہیں_ جى ہاں حیوانات بھى پانى کے محتاج ہیں_ کیا نباتات بھى پیاسے ہوتے ہیں_ جى ہاں نباتات بھى پیاسے ہوتے ہیں وہ بھى پانى کے محتاج ہیں لیکن وہ ہمارى طرح پانى نہیں پیتے بلکہ پانى کو اپنى جڑوں کے ذریعہ زمین سے حاصل کرتے ہیں_
اگر نباتات کو پانى نہ پہنچے تو خشک ہوجائیں گے_
اگر حیوانات پانى نہ پئیں تو پیاس سے مرجائیں گے_
اگر پانى نہ ہو تو ہم بھى پیاس سے مرجائیں گے_
اگر پانى نہ ہو تو گندم اور جو پیدا نہ ہوں گے اور اس وقت ہمارے

پاس روٹى نہ ہوگى کہ کھاسکیں: اگر پانى نہ ہو تو تمام حیوانات مرجائیں گے تو پھر ہمارے پاس نہ گوشت ہوگا اور نہ دودھ نہ پنیر اور نہ دہى ہوگا کہ انہیں کھا سکیں_ لیکن خدا بہت مہربان ہے میٹھا اور مزے دار پانى پیدا کیا ہے اور ہمارے اختیار میں رکھا ہے تا کہ پى سکیں اور اپنے آپ کو اس سے صاف کرسکیں اور اس سے کاشت کارى کرسکیں_ اس کو حیوانات پئیں اور ہمارے لئے دودھ اور گوشت مہیا کریں_ خدا ہم کو دوست رکھتا ہے اسى لئے مزے دار اور میٹھا پانى اوردوسرى سیکڑوں نعمتیں ہمارے لئے پیدا کى ہیں ہم بھى مہربان خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کى نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کو خدا کے حکم کے مطابق صرف کرتے ہیں_

تجربہ کر کے غور کیجئے
تھوڑا سا نمک گلاس میں ڈالیئے تو پانى نمکین ہوجائے گا کیا اسے پیاس دور کرنے کے لئے پى سکتے ہیں_ نہیں _ نمکین پانى سے پیاس میں اضافہ ہوتا ہے_ نمکین پانى کا شتکارى کے لئے بھى اچھا نہیں ہے_
جى ہاں_ اگر تمام پانى نمکین اور کڑوے ہوتے تو ہم کیا کرتے؟ روٹى نہ ہوتى دودھ اور گوشت و پنیر نہ ہوتا اس وقت کیا کرتے؟
اگر تمام پانى زمین میں چلا جائے اور ختم ہوجائے تو ہم کیا کریں گے کس طرح زندگى گذاریں گے؟ کیا پھر بھى زندہ رہ سکیں گے؟ پس خدا بہت مہربان ہے کہ جس نے مزے دار پانى پیدا کیا اور ہمارے اختیار میں دیا_

اگر نباتات کو پانى نہ ملے تو خشک ہوجائیں_ اگر حیوانات پانى نہ پئیں تو پیاس سے مرجائیں_ اگر پانى نہ ہو تو ہم بھى پیاس سے مرجائیں_ خدا بہت مہربان ہے کہ جس نے میٹھا اور مزے دار پانى پیدا کیا اور ہمارے اختیار میں دے دیا تا کہ ہم پئیں اور اپنے آپ کو اس سے دھوئیں اور اس سے کھیتى باڑى کریں حیوانات پئیں اور ہمارے لئے دودھ اور گوشت مہیّا کریں_

سوچئے اور خالى جگہیں پر کیجئے

1)___ اگر پانی___ تو اس وقت___ روٹى نہ ہوگى اگر پانى نہ___ تو ہمارے پاس___ میوے ___اگر پانى ___نہ ہو تو اس وقت ہم گوشت دودھ اور پنیر نہ رکھتے ہوں گے ___خدا ہم کو دوست رکھتا ہے اور دوسرى سیکڑوں نعمتیں ہمارے لئے ___ہم بھى مہربان خدا___ اور اس کى نعمتوں ___اور ان کو ___صرف کرتے ہیں_

 

تیسرا سبق
سیب کا درخت خداشناسى کا سبق دیتا ہے


سیب مفید اور خوش ذائقہ میوہ ہے شاید آپ نے بھى یہ عمدہ میوہ کھایا ہو سیب میں بہت سے وٹامن ہیں ہمارا جسم ان کا محتاج ہے خدا نے سیب کا درخت پیدا کیا تا کہ ہمارى ضروریات کو پورا کرے سیب کے درخت پر پھل لگنے کے لئے ان چند چیزوں کى ضرورت ہوتى ہے_
1) ___ پانی
2)___ معدنى اجزاء جو مٹى میں موجود ہیں
3)___ کاربن ڈائی آکسائیڈ جو ہوا میں موجود ہے_
4)___ روشنائی اور طاقت جو سورج میں ہے_
سیب کے درخت کى جٹریں پانى اور معدنى اجزاء زمین سے لیتى ہیں سیب کے درخت کا جسم اور اس کى شاخیں بہت باریک رگوں سے

پانى او رمعدنى اجزاء کو اوپر لے جاتى ہیں اور پتوں تک پہنچاتى ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ پتّوں کے باریک سوراخوں سے پتوں کے اندر جاتى ہے سورج کى روشنى بھى پتّوں پر پڑتى ہے_ پتّے سورج کى روشنى کى مدد سے پانى اور معدنى اجزاء اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بہت خوش ذائقہ شربت تیار کرتے ہیں اور اس خوش ذائقہ شربت کو بہت باریک رگوں سے درخت کے تمام جسم میں پھیلا دیتے ہیں_ سیب کا درخت اس شربت کى کچھ مقدار تو خود ہضم کر کے بڑھتا جاتا ہے اور باقى کو خوبصورت اور خوش ذائقہ میوے کى شکل میں باہر نکلتا ہے ہم اس مزے دار پھل کو کھا کر لذت حاصل کرتے ہیں خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ یہ خوبصورت میوے ہمارے بدن میں طاقت پیدا کرتے ہیں_ خدائے علیم و قدیر نے اس نظم اور ترتیب کو درخت کى خلقت میں قرار دیا ہے تا کہ ہمارے لئے سیب بنائے اور ہم خوش ذائقہ میوے سے استفادہ کرسکیں تا کہ ہمیشہ آزاد اور سعادت مند زندگى گذاریں_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

1)___ سیب کا درخت سیب کے بنانے میں کن چیزوں کا محتاج ہے
2)___ پانى اور معدنى اجزاء کس طرح پتوں میں جاتے ہیں
3)___ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کہاں موجود ہے اور کس طرح پتوں میں داخل ہوتى ہے_
4)___ پتّے کس طاقت کے ذریعہ سیب بناتے ہیں؟

5)___ کس ذات نے یہ ارتباط اور نظم اور ترتیب سیب کے درخت میں ایجاد کیا ہے تا کہ سیب کا درخت ہمارے لئے سیب کا پھل بنائے_
6)___ اگر زندگى میں ہمیشہ سعادت مند اور آزاد رہنا چاہیں تو کس کے فرمان کى پیروى کریں_
7)___ اللہ کى نعتوں کو کس طرح اور کس راستے میں خرچ کریں_

 

چوتھا سبق
نباتات کے سبز پتے یا خداشناسى کى عمدہ کتابیں


ہم سب کو غذا کى ضرورت ہے بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتے درخت اور نباتات ہمارے لئے غذا تیار کرتے ہیں تا کہ کام کرسکیں درختوں کے سبز پتّے غذا بنانے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے ہیں جو کام میں مشغول ہیں اور ہمارے لئے غذا بناتے ہیں_ نباتات اور درخت بھى سیب کے درخت کى طرح پانى اور معدنى اجزاء جٹروں کے ذریعے زمین سے لیتے ہیں اور چھوٹى نالیوں کے ذریعے پتوں تک پہنچاتے ہیں کاربن ڈائی آکسائڈ ہوا ہیں موجود پتوں کے بہت باریک سوراخوں سے داخل ہوتى ہے سورج کى روشنى اور شعاعیں (انرجی) بھى پتوں پر پڑتى ہیں اس وقت سبز پتّوں والا کارخانہ اپنا کام شروع کردیتا ہے اور سورج کى روشنى کى مدد سے غذا بناتا ہے نباتات اپنى ضرورت سے زیادہ غذا بناتے ہیں البتہ کچھ مقدار خود ہضم کرلیتے ہیں تا کہ زندہ رہ سکیں اور زائد مقدار کو ہمارے لیئے ذخیرہ کرلیتے ہیں_ گائے بھیڑ بکریاں بھى غذا کى محتاج ہیں وہ دانے اور سبز گھاس کھاتى ہیں اور ہمیں دودھ مکھن دہى گوشت اور پنیر دیتى ہیں مرغیاں بھى دانہ کھاتى ہیں اور ہمارے لئے گوشت اور انڈے بناتى ہیں_ تمام حیوانات اور جانور غذا کے محتاج ہیں_
ان تمام کى غذا سبز نباتات کے ذریعے بنتى ہے_ کوئی انسان او رحیوان نباتات کے بغیر اپنى غذا تیار نہیں کرسکتا_ بلکہ تمام نباتات کے محتاج ہیں_ انسان نباتات اور حیوانات کا محتاج ہے اور حیوانات نباتات کے محتاج ہیں اور نباتات غذا تیار کرنے میں پانى مٹى اور ہوا اور سورج کى روشنى کے محتاج ہیں_
اب دیکھیں کہ کس ذات نے سورج کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا پر چمکے اور روشنى اور طاقت (انرجی) دے تا کہ نباتات ہمارے لئے غذا تیار کرسکیں؟ کس ذات نے درختوں اور نباتات کو اس نظم اور ترتیب اور ارتباط سے پیدا کیا اور خوبصورت سبز پتّوں کو غذا بنانے کى طاقت عنایت فرمائی ہے_
وہ دانا اور توانا ذات خدا ہے کہ جو تمام چیزوں کا عالم ہے اور ہر کام پر قدرت رکھتا ہے_
وہ عالم اور توانا ذات ہمیں دوست رکھتى ہے کہ ہمارى تمام ضروریات کو پیش بینى کرتے ہوئے پیدا کردیا ہے_ ہم بھى اسے دوست رکھتى ہیں اس کى نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اس کے فرمان کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں_ خدا سے بہتر کون ہے جو ہمارى زندگى کے لئے راہنما ہوسکتا ہے؟


غور کیجئے اور جواب دیجئے
1)___ روٹى کس چیز سے بناتے ہیں
2)___ گندم کا پودا گندم اگانے میں کس چیز کا محتاج ہے_
3)___ اگر سورج کى روشنى گندم کے پودے پر نہ پڑے تو کیا گندم وجود میں آسکتا ہے_
4)___ اگر سبز پتے گندم کا پودا اور دوسرى غذا نہ بنائیں تو کیا ہم غذا حاصل کرسکتے ہیں
5)___ کس ذات نے ہمارى ضروریات کى پیش بینى کى ہے اور جہاں کو اس نظم و ارتباط سے خلق کیا ہے؟
6)___ ہمارا فریضہ ان نعمتوں کے مقابل کیا ہے؟

تجربہ اور تحقیق کیجئے
بڑے سبز پتّے ہوا کو بھى صاف کرنے کا کام کرتے ہیں: جانتے ہو کس طرح

مشق
1)___ سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں_
2)___ اس سبق میں کئی اور سوال بنائیں اور ان کے جواب اپنے دوست سے پوچھیں
3)___ سبق کا خلاصہ بیان کریں اور اس سبق کى غرض و غایت کو بھى بیان کر یں
4)___ اوپر کے سوالوں کا جواب خوبصورت خط سے اپنى کاپى میں لکھیں

 

پانچواں سبق
تجربے کى روش خداشناسى کا سبق دیتى ہے


جب میں گھر آئی تو میرى ماں نے کہا مریم آج عصر کے وقت کون سا سبق پڑھا ہے؟ میں نے علم حیاتات ''بیالوجی'' اور بحث نظام ہاضمہ کا سبق پڑھا ہے استاد نے پوچھا جانتى ہو کہ غذا کى نالى کیا ہے: معدہ کہاں ہے؟ آنتوں کا کیا کام ہے_ غذا کس طرح ہضم ہوتى ہے؟ شاگرد اس کا جو جواب دے رہے تھے وہ درست نہ تھا استاد نے کہا ان سوالوں کے متعلق تحقیق کرو ان کا صحیح اور کامل جواب یاد کرو اور کل اپنے دوستوں سے بیان کرنا میں حیاتیات کى کتاب لائی تا کہ آپ کى مدد سے ان سوالوں کے متعلق تحقیق کروں میرى امّى بھى اپنى لائبریرى سے ایک کتاب لائیں جس میں مختلف اور بہت زیادہ شکلیں موجود تھیں ایک شکل مجھے دکھلائی اور کہا اس تھیلى کو دیکھ رہى ہو ہم جب غذا کھاتے ہیں تو غذا اس تحصیلى میں جاتى ہے اس کا نام معدہ ہے کیا بتلا سکتى ہو کہ غذا کسے راستے سے معدہ میں جاتى ہے؟
میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یقینا اس نالى کے ذریعہ جاتى ہوگى ماں نے کہا ہاں بالکل ٹھیک ہے اس کا نام غذا کى نالى ہے یہ نالى حلق کو معدہ سے ملاتى ہے_
ایک اور نالى حلق کو پھیپھڑوں سے ملاتى ہے جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہو اس نالى سے پھیھپڑوں میں جاتى ہے_ ا س کا نام جانتى ہو میں نے شکل کو دیکھا اور کہا یہ ہوا کى نالى ہے_ میرى امّى نے کہا یہ نالى غذا کے گذرنے کے لئے ہے اور یہ نالى ہوا کے گذرنے کے لئے ہے_ میں نے کہا کہ اگر غذا ہوا کى نالى سے جائے تو کیا ہوگا؟ امّى نے کہا غذا کو اس نالى سے نہیں جانا چاہتے ورنہ ہوا کے جانے کا راستہ بند ہوجائے گا اور ہمارا دم گھٹ جائے گا_ میں نے کہا پس کس لئے میرا دم ابھى تک نہیں گھٹا مجھے تو علم نہ تھا کہ غذا کو اس نالى سے نہ نگلوں امّى نے کہا: بیٹی: غذا نگلنا بہت عمدہ ہے اس شکل کودیکھو_ دیکھو حلق میں چار راستے ہیں ایک راستہ ناک کى طرف اور ایک راستہ منہ کى طرف اور ایک راستہ پھیھڑوں کى طرف اور ایک راستہ معدہ کى طرف_
جب ہم غذا کو نگلنا چاہتے ہیں تو صرف غذا والى نالى کھلتى ہے اسى لئے حلق میں دو دروازے ہمارى ضرورت کے لئے حلق کئے گئے ہیں پس ایک دروازہ ہوا کى نالى کو بند کرتا ہے اور دوسرا دروازہ ناک والى نالى کو بند کرتا ہے ہوا کا دروازہ کہلاتا ہے اور وہ دروازہ جو ناک کى نالى کو بند کرتا ہے اسے چھوٹى زبان کہا جاتا ہے ہمیں ان دونوں دروازوں کى ضرورت ہے اگر یہ نہ ہوں تو پہلے لقمے کے نگلتے وقت گھٹ کر مرجائیں_ میں نے کہا_ کیا خوب: میں بھى ایک دوازہ ہوا والا دوسرى چھوٹى زبان رکھتى ہوں ورنہ گھٹ کر مرجاتی_
امّى نے کہا مریم جان: کیا تو یہ خیال کرتى ہے کہ چھوٹى زبان اور دوسرا دروازہ خودبخود بے صرف و غرض وجود میں آگئے ہیں میں نے کہا: نہیں چونکہ ان کى غرض و غایت بالکل واضح اور معلوم ہے: ایک ناک کے راستے کو بند کرتى ہے اور دوسرا پھیھپڑوں کو جانے والى نالى کو ان کے کام اور غرض معین اور معلوم ہیں بغیر علّت کے وجود میں نہیں آئے واضح ہے کہ کس ذات عالم نے ان کو ہمارے لئے خلق کیا ہے_ امّى نے کہا_ شاباش_ بالکل ٹھیک کہا تو نے: جس نے ہم کو پیدا کیا ہے ہمارى ضروریات کو جانتا تھا اور تمام چیزوں کو جانتا ہے اسے علم تھا کہ ہمیںاس دروازے کى ضرورت ہے چونکہ ہم کو سانس بھى لینا ہے اور غذا بھى کہانا ہے وہ جانتا تھا کہ غذا کو ہوا کى نالى میں نہیں جانا چاہیئے اسى غرض کے ماتحت ہوا کا دروازہ خلق کردیا ہے_ جب تک لقمے نگلتے رہیں گے ہوا کى نالى کا دروازہ بند رہے گا اور غذا اس میں نہیں جائے گی_ ہمیں پیدا کرنے والا خدا عالم اور قادر ہے اسے ہمارى تمام ضروریات کا علم تھا اسى لئے ان کو ہمارى ضرورت کے تحت خلق کیا_ مثلاً معدہ کى دیوار میں ہزاروں غدّے خلق فرمائے ہیں تا کہ مخصوص لعاب پیدا ہوکر غذا پر پڑے تا کہ غذا ہضم ہو اور مائع میں تبدیل ہوجائے_ ہمارے لئے آنتیں خلق فرمائی ہیں تا کہ مائع شدہ غذا معدہ سے آنتوں میں داخل ہو اور وہاں ہضم او رجذب ہو صفراوى پتا اور تلى کو خلق فرمایا ہے تا کہ مخصوص لعاب غذا پر پڑے تا کہ غذا مکمل طور پر ہضم ہوجائے_ جب غذا پورى طرح ہضم ہوجائے تو ضرورى مواد کو آنتوں کى دیوار سے جذب کرتا ہے اور خون میں داخل ہوجاتا ہے اور تمام بدن تک پہنچتا رہتا ہے_ پیارى مریم_ ایک منظم کارخانہ جو نظام ہضم کہلاتا ہے خودبخود بغیر علت اور فائدہ ہے کے وجود میں نہیں آیا بلکہ مہربان اور دانا خدا نے ہمارے لئے ہمارى ضرورت کے تحت اسے خلق کیا ہے_ غذا کھانے سے طاقت اور انرجى بنتى ہے اور پھر ہم زندہ رہ سکتے ہیں_ خداوند عالم کى مہربانى سے ہمیں توانائی حاصل ہوتى ہے جس کى بدولت ہم زندہ ہیں اور دیگر امور انجام دیتے ہیں_ ہم بھى اس کے شکر کے لئے اس طاقت کو اس کى اطاعت میں صرف کرتے ہیں اس کے فرمان اور احکام کو قبول کرتے ہیں او رگناہ و نافرمانى اور برے اخلاق سے دور رہتے ہیں تا کہ خدا ہم سے خوش ہو اور دنیا و آخرت میں بہت اعلى اور بہترین نعمتیں عنایت فرمائے_
یہ شکل اس عظیم کارخانے کى ہے جو منظم اور مرتبط غذا کے ہضم کے لئے بنایا گیا ہے اور نظام ہضم کہلاتا ہے_ مہربان خدا نے ہمارى ضرورت کے تحت اسے خلق کیا_
کیا سوائے خدا علیم و قادر کے کوئی اتنا بڑا کارخانہ ہمارے لئے بنا سکتا ہے؟

غور کریں اور جواب دیں

1)___ ہوا کى نالى کے لئے دروازہ بنانے کى غرض کیا ہے؟
2)___ چھوٹى زبان کے خلق کرنے کى غرض کیا ہے؟
3)___ اگر یہ دروازے نہ ہوں تو ہم کیسے غذا کھاسکتے ہیں؟
4)___ کیا یہ دروازے خودبخود بے غرض و غایت کے وجود میں آئے ہیں ... اور کیوں؟
5)___ ہمارا نظام ہضم کن چیزوں سے بنا ہے؟
6)___ ہمارے بدن میں غذا کس طرح ہضم ہوتى ہے؟
7)___ کیا نظام ہضم بے ربط اور بے غرض ہے؟
8)___ کیا ہم نے اس منظّم و مرتبط کارخانہ کو بنایا ہے؟
9)___ نظام ہضم کے منظم اور مرتبط ہونے سے کیا نتیجہ لیتے ہیں؟
10)___ اللہ تعالى کى اعلى اور عمدہ نعمتوں سے نوازے جائیں تو کیا کریں؟
11)___ کیا آپ جانتے ہیں کہ غذا کے نگلنے کے وقت منہ کا راستہ کس طرح بند ہوجاتا ہے؟
ان سوالوں اور اس کے جوابوں کو خوبصورت خط کے ساتھ اپنى کاپى میں لکھیں

 

چھٹا سبق
خدا کى قدرت کے آثار اور اس کى علامتیں


جب میں صبح اسکول پہنچا تو بچّے میرے ارد گرد اکٹھے ہوگئے گویا کہ انہیں کل رات کے حادثے کا علم تھا گھنٹى بجى اور ہم کلاس میں جا بیٹھے استاد کلاس میں آئے میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور کھڑا ہوگیا لیکن میرى آنکھیں اشک آلود تھیں لڑکوں نے کل رات کے متعلق جتنا انہیں علم تھا استاد کو بتلایا جب میرے بھائی احمد کو ہسپتال لے جا رہے تھے تو اس کا ہاتھ اور منہ سیاہ ہوگیا تھا شاگردوں نے پوچھا کہ کیوں احمد کا ہاتھ اور منہ سیاہ تھا_ سانس کا گھٹنا کیا ہے؟ کیوں احمد کے بھائی کا دم گھٹتا ہے کیا وہ ٹھیک ہوجائے گا؟ اس کا کس طرح علاج کریں گے؟ استاد نے کہا بچّوں جب تم ان سوالوں کا جواب چاہتے ہو تو ضرورى ہے کہ خون کى حرکت اور تنفس کا درس جلدى شروع کردیا جائے کل حیاتیات کا علم ایک دوسرے کى مدد سے شروع

31
کریں گے تم میں سے کون ہے جو کل اى بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائے دو طالب علموں نے وعدہ کیا کہ ہم کسى بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لائیں گے دوسرے دن بکرے کا دل اور پھیھپڑا اسکول لے آئے استاد نے چھرى سے دل کو چیرا اور اس کے مختلف حصّے شاگردوں کو دکھلائے اور دل و پھیھپڑے کا کام طالب علموں کو بتلایا تمام طالب علم دل اور پھیھپڑے کے عمل سے آگاہ ہوئے اور اپنے سوالوں کے جوابات سمجھے پھر استاد نے اس درس کا خلاصہ اس طرح لکھا اور شاگردوں کے سامنے رکھا

نظام تنفس اور دوران خون
اس درس سے ہم اپنے جسم کے بعض حالات سے باخبر ہوجائیں گے اور بدن کے کارخانے کى غرض و غایت اور ارتباط کو اچھى طرح جان لیں گے اور قدرت خدا کے آثار کا مشاہدہ کرنے سے خدا کو پہنچانیں گے_
آپ کو علم ہے کہ خون بدن کى رگوں میں ہمیشہ گردش میں رہتا ہے کیا آپ خون کى گردش کے فوائد کو بھى جانتے ہیں؟ خون بدن کے تمام خلیوں کے پہلو سے گزرتا ہے اور انھیں غذا و آکسیجن دیتا ہے_ خون کے کاموں میں سے ایک اہم کام بدن کے تمام خلیوں میں آکسیجن کو پہنچانا ہے خلیوں میں آکسیجن نہ پہنچے تو ہمارى موت فوراً ہوجائے_ بدن میں حرارت اور انرجی آکسیجن کے ذریعہ سے پورى ہوتى ہے آکسیجن کو پہنچانے میں سرخ خلیے حصّہ دار ہیں سرخ خلیے جو خون میں تیرتے ہیں اور بدن میں پھرتے رہتے ہیں وہ بدن کے تمام خلیوں کو آکسیجن پہنچاتے رہتے ہیں_


لیکن آپ کو علم ہے کہ خون خودبخود حرکت نہیں کرتا بلکہ ایک طاقتور پمپ اس کام کو انجام دیتا ہے طاقت ور پمپ جو برابر یہ کام کرتا ہے اور خون کو تمام بدن میں گردش دیتا ہے کیا اس طاقتور پمپ کو پہچانتے ہیں اس کا نام جانتے ہیں کہ سرخ خلیے کہ جن کے ساتھ آکسیجن ہوتا ہے دل کى دھڑکن سے بدن کى بڑى شریان میں وارد ہوتے ہیں یہ شریان بدن میں جگہ جگہ تقسیم ہوجاتى ہے اور ہر شاخ پھر چھوٹى شاخوں میں تبدیل ہوجاتى ہے ان تمام میں سے باریک تر قسم کى رگیں کیلپرى کہلاتى ہیں_
خون کیلپرى سے خلیوں کے پہلو میں سے گزرتا ہے سرخ خلیے جو شاداب ہیں اپنے ساتھ آکسیجن رکھتے ہیں اور خلیوں کو دیتے ہیں اور خلیوں کو سالم و زندہ رکھتے ہیں اور کاربن ڈائی اکسائڈ جو ایک ہوا کى زہریلى قسم ہے اس سے لے لیتے ہیں سرخ خلیے اس ہوا کے لینے سے آدھے سیاہ ہو جاتے ہیں اور اگر چند منٹ ایسے رہیں تو تمام مرجائیں گے جسکے نتیجے میں ہمارى موت بھى واقع ہوجائے گى خلیوں کو آکسیجن کى ضرورت ہوتى ہے تا کہ دوبارہ سرخ اور شاداب ہوجائیں اور اپنے کام کو پھر سے شروع کرسکیں لیکن کہاں سے آکسیجن لیں؟ اور کس طرح اپنا کام دوبارہ شروع کریں اور دل کى طرف لوٹیں ان نیم سیاہ خلیوں کا دل کى طرف لوٹنا دوسرى رگوں کا محتاج ہے تا کہ نیم سیاہ خلیے ان رگوں کے ذریعہ دل کى طرف لوٹ سکیں_

خداوند عالم اس ضرورت کو جانتا تھا لہذا دوسرى رگیں خلیوں کو دل کى طرف لوٹانے کے لئے ہمارے بدن میں بنائی ہیں_
تعجب ہے کہ ان رگوں میں دروازے بھى بنے ہیں جو خون کى حرکت کو صرف دل کى طرف ممکن قرار دیتے ہیں دل گندے خون اور: سفید خلیوں کو ان سیاہ رگوں کے ذریعہ اپنى طرف کھینچتا ہے سیاہ اور گنہ خون دل کے پاس پہنچ کرکیا تازہ اور شاداب خون کے ساتھ مخلوط ہوجاتا ہے؟ نہیں_ مخلوط نہیں ہوتا کیونکہ خالق دانا نے دل کے وسط میں ایک قسم کى مضبوط دیوار بنائی ہے تا کہ تازہ خون اس گندے اور سیاہ خون سے مخلوط ہوسکے اور ہر ایک اپنى مخصوص جگہ پر رہے اب جب کہ نیم سیاہ خلیے دل کے پاس پہنچ جاتے ہیں اب دل میں بھى آکسیجن کى ضرورت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو آزاد ہوا میں پہنجائیں اور آزاد ہوا سے آکسیجن حاصل کریں خالق بزرگ اور دانا نے دل سے ایک راستہ پھیھپڑوں کى طرف بنایا ہے تا کہ خلیے اس راستے سے آزاد ہوا ہیں اپنے آپ کو پہنچائیں اور آزاد ہوا سے جو پھیھپڑوں میں سے، استفادہ کریں دل اپنى ایک دھڑکن سے سیاہ خون اور سفید خلیوں کو اس راستے سے پھیھپڑے تک پہنچا دیتا ہے وہ آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو خارج کردیتے ہیں_ کیا آپ کو علم ہے کہ سرخ خلیوں کى تعداد خون میں کتنى زیادہ ہے؟ کیا خلیوں کى تعداد کے مطابق پھیھپڑوں میں ہوا کى مقدار ان تمام کے لئے کا فى ہے؟ کیا یہ تمام آزاد ہوا کے نزدیک آسکتے ہیں کہ آکسیجن لے لیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کردیں_
جى ہاں اہمارے بزرگ اور دانا خالق نے جو ہمارى تمام ضروریات

سے باخبر تھا لاکھول ہوائی کیسوں کے ذریعہ پھیھپڑوں میں ہمارے لئے پیش گوئی کى تھى اور خلق فرما دیا تھا یہ تھیلیاں ہر سانس لینے سے تازہ ہوا سے بھر جاتى ہیں اور وہى خلیے تازہ ہوا سے نزدیک ہوتے ہیں آکسیجن لے لیتے ہیں اور دل کى طرف لوٹ جاتے ہیں اور اپنا کام پھر سے شروع کردیتے ہیں بدن کے خلیے جو آکسیجن کے انتظار میں ہوتے ہیں آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور بدن کى حرارت اور انرجى کو پورا کردیتے ہیں_ کون ذات ہے سوائے خدائے مہربان اور دانا کے جو خلیوں کى تعداد کو جانتى ہو؟ اور ان کى ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں ہوائی کیسوں کو پھیھپڑوں میں خلق کیا ہے_ نظام تنفس اور نظام دوران خون آپس میں مربوط اور ہم آہنگ ہیں اور یہ ایک ہى غرض و غایت کے ساتھ وجود میں آئے ہیں کیا یہ دقیق اور منظم کارخانہ خودبخود بغیر کسى غرض و غایت کے پیدا ہوا ہے_ کیا بے شعور اور نادان مادہ اس قسم کا کارخانہ جو دقیق اور با مقصد ہے پیدا کرسکتا ہے؟ کون ہے سوائے ذات الہى حکیم اور قادر کے جو اس قسم کا دقیق اور عمدہ کارخانہ وجود میں لاسکے؟ ہم تنفس اور خون کى گردش کے اس عظیم منظم کارخانے کے دیکھنے اور مشاہدے سے پیدا کرنے والے خدا کى عظمت کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کى بے شمار نعمتوں سے زیادہ واقف ہوسکتے ہیں_
اس کو بہتر پہچانتے ہیں اور اس کى بہتر عبادت اور شکر ادا کرتے ہیں:

بہت غور سے ان سوالوں کا جواب دیجئے
1)___ خون کى گردش بدن میں کیا فائدہ رکھتى ہے؟
2)___ سرخ خلیے بدن میں کیا فائدہ دیتے ہیں؟
3)___ خون کس ذریعے سے بدن میں حرکت کرتا ہے؟
4)___ جب سرخ خلیے نیم سیاہ ہوجاتے ہیں تو کس راستے سے دل کى طرف لوٹ آتے ہیں؟
5)___ کیا گندہ اور سیاہ خون دل میں تازہ خون سے مخلوط ہوجاتا ہے؟
6)___ خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے ہیں؟
7)___ کیاتمام خلیے پھیھپڑوں کى تازہ ہوا سے استفادہ کرسکتے ہیں؟ اور کس طرح؟
8)___ اگر خلیوں کو آکسیجن نہ ملے تو کیا ہوگا_
9)___ اگر سرخ خلیوں کا دل کى طرف لوٹ آنے کا راستہ نہ ہو تو کیا ہوگا ...؟ خلیے کس راستے سے دل کى طرف لوٹ جاتے ہیں؟
10)___ آکسیجن کس طرح پھیھپڑوں میں داخل ہوتى ہے؟
11)___ اگر پھیھپڑے اور سانس لینے کا نظام نہ ہوتا تو کیسے صاف ہوا کرتا؟
12)___ اگر ہوا میں آکسیجن نہ ہوتى تو کیا ہوتا خلیے کہاں سے آکسیجن لیتے اور کس طرح زندہ رہتے_
13)___ کیا خون کى گردش اور نظام تنفس اس ارتباط اور نظم کے ساتھ خودبخود وجود میں آیا ہے؟
14)___ یہ ہم آہنگى اور دقیق ربط جو بدن کے کارخانہ میں وجود ہےاس سے کیا سمجھتے ہیں؟
15)___ اللہ تعالى کى ان تمام نعمتوں کے مقابل جو اس نے ہمیں عنایت کى ہیں ہمارى ذمہ دارى کیا ہے؟

 

ساتواں سبق
عالم و قادر خدا

 

سبزیاں اور نباتات ہمارے لے بہت مفید اور کارآمد ہیں اپنى ضرورت سے زائد غذا بناتى ہیں اور ہمارے لئے ذخیرہ کرلیتى ہیں_ درختوں میں سے سب آم گلاب، مالٹے ضرورت سے زائد ہمارے لئے میوہ بناتے ہیں گاجر آلو اور پیاز کے پودے اضافى غذا کو اپنى جڑوں میں ذخیرہ کرتے ہیں_
جى ہاں اگر نباتات کے سبز پتے نہ ہوتے تو کس طرح غذا بناتے اور اگر سبز پتوں میں باریک سوراخ نہ ہوتے تو ہوا کہاں سے داخل ہوتى لیکن مہربان خدا نے نباتات میں سبز پتے خلق کئے اور پتوں میں چھوٹے چھوٹے خانے اور سوراخ بنائے_ تا کہ سبز پتّے غذا بناسکیں اور اگر نباتات اپنى ضرورت کے لئے غذا بناتے تو ہم کیا کھاتے؟ حیوانات کیا کھاتے

لیکن احسان کرنے والے خدا ے نباتات کو اس طرح خلق کیا ہے کہ وہ اپنے مصرف سے زیادہ غذا بناسکیں اور اگر سوراخ کى روشنى نباتات تک نہ پہنچى تو پودے کس طاقت سے غذا درست کرسکتے تھے؟ لیکن خدائے علیم اور قدیر نے سوراخ کو ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کى روشنى ضرورت کے مطابق نباتات تک پہنچ سکے تا کہ پتے سورج کى روشنى اور توانائی کى مدد سے غذا حاصل کرسکیں پس خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے اور اس پر قادر ہے اسے علم تھا کہ ہمیں غذا کى ضرورت ہے اورہم خود نہیں بناسکتے اسى لئے نباتات کے سبز پتّے خلق کئے اور ان میں سوراخ رکھے تا کہ ہمارے لئے غذاسازى کا کارخانہ بن سکے_
اسے علم تھا کہ ہى چھوٹا کارخانہ سورج کى روشنى اور توانائی کا محتاج ہے لہذا سورج کو اس طرح خلق کیا کہ سورج کى توانائی اور روشنى جس قدر پتّوں کے لئے ضرورى ہے اس چھوٹے کارخانے تک پہنچ سکے اگر خدا قادر نہ ہوتا تو ان کو نہ بناپاتا جو ہمارے لئے ضرورى تھیں_
اگر خدا بخشش کرنے والا اور مہربان نہ ہوتا تو یہ تمام نعمتیں ہمیں عطا نہ کرتا پس معلوم ہوا کہ خدا عالم ہے، خدا قادر ہے، خدا رحمان یعنى بخشنے والا ہے''
خدا رحیم یعنى مہربان ہے:

اس سبق کے متعلق آپ خود سوال بنائیں

1)

39
3)

اور مشقیں بھى آپ خود بتلائیں


1)
2)
3)

 

آٹھواں سبق
خدا جسم نہیں رکھتا


کیا آپ جانتے ہیں جسم کیا ہے؟
کتاب، قلم، میز، پتھر، درخت، زمین، سورج، اور وہ چیزیں جو ان کى طرح ہوں اور جگہ گھیرتى ہوں انہیں جسم کہا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوا بھى جسم ہے اور جسم کو مادہ بھى کہاجاتا ہے ہر جسم مکان کا محتاج یعنى ایک جگہ چاہتا ہے کہ جس میں مستقر ہو کیونکہ بغیر مکان کے جسم وجود میں نہیں آسکتا_ ہر جسم ایک وقت میں ایک مکان سے زیادہ میں نہیں ہوتا جب وہ ایک مکان میں ہو گا تو اسى وقت دوسرے مکان میں نہیں ہوگا ہم جب مدرسہ میں ہوتے ہیں توگھر میں نہیں ہوتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو مدرسہ میں نہیں ہوتے اور جب مدرسہ میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو گھر میں ہو رہے ہوتے ہیں انہیں نہیں دیکھ سکتے اور جب گھر میں ہوتے ہیں تو وہ کام جو مدرسہ میں ہو رہے ہوتے ہیں انہیں نہیں دیکھ سکتے جسم کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے اور ہاتھ سے چھواجا سکتا ہے وہ چیزیں جو آنکھ سے دیکھتے ہیں یا دوسرے کسى عضو سے مس کرتے ہیں تمام کے تمام جسم اور جسمانى ہیں یہاں تک ہوا اور روشنى بھی؟
اب ان دو سوالوں کے متعلق فکر کریں_
کیا خدا جسم رکھتا ہے؟
کیا خدا کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟
چونکہ خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے اور اس کى قدرت او ردانائی کى کوئی انتہا نہیں اور کسى چیز اور کسى شخص کا محتاج نہیں _ پس خدا کا جسم نہیں ہے کیونکہ اگر جسم ہوتا تو مکان کا محتاج ہوتا اور چونکہ خدا کسى کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس نے خود مکان خلق کیا ہے لہذا جسم نہیں رکھتا کیونکہ خدا اگر جسم رکھتا ہوتا تو یہاں ہوتا اور وہاں نہ ہوتا اور پھر جو چیزیں وہاں ہوتیں انہیں خلق نہ کرسکتا اور نہ دیکھتا_ خدا جسم نہیں رکھتا اور نہ ہى ایک مخصوص جگہ پر مستقر ہے تا کہ دوسرى جگہیں اس سے خالى ہوں ہر ایک شخص اور ہر ایک چیز کو اس نے پیدا کیا ہے خدا یہاں وہاں یہ مکان وہ مکان نہیں رکھتا اس کے سامنے تمام مکان برابر ہیں تمام کے ساتھ ہے او رتمام جگہوں سے مطلع ہے خدا چونکہ جسم نہیں رکھتا لہذا مکان نہیں رکھتا نہ زمین میں نہ آسمان میں خدا چونکہ جسم نہیں ہے آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ہاتھوں سے نہیں چھواجا سکتا خدا یہاں کے نور سے بھى نہیں چوں کہ یہ نور جسمانى ہیں اور مکان کے محتاج ہیں لیکن خدا محتاج نہیں اس نے مکان کو پیدا کیا ہے اس نے آنکھ اور ہاتھ کو خلق کیا ہے اس نے نور کو پیدا کیا ہے اللہ کى بے پایاں قدرت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے وہ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے باخبر ہے _

''فکر کیجئے اور جواب دیجئے''
1)___ جو تمہارے اطراف میں اجسام ہیں انہیں شمار کرو؟
2)___ میز جسم ہے یہ کس چیز کى محتاج ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہ کسى مکان میں نہ ہو؟
3)___ کرسى جسم ہے کیا ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں دو مکان میں ہو؟
4)__ _ کوئی ایسا جسم جانتے ہو کہ مکان کا محتاج نہ ہو؟ اور کیوں؟
5)___ کیا خدا جسم رکھتا ہے؟ کیا خدا مکان کا محتاج ہے؟
6)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے؟
یہ سوال اور ان کے جواب خوبصورت خط سے اپنى کاپى میں لکھیں

مشقیں

1)___ اس سبق کو ایک دفعہ بلند آواز سے پڑھیں
2)___ سبق کو اپنے دوستوں سے بیان کریں
3)___ اس درس کا خلاصہ لکھیں اور دوستوں کو پڑھ کر سنائیں
4)___ کئی اور سوال بھى بنائیں اور ان کے جواب دوستوں سے پوچھیں

 

نواں سبق
کیا خدا غیر مرئی ہے


محمود نقاشى کر رہا تھا اس نے کتنا خوبصورت کبوتر بنایا کیا محمود عقل و فہم رکھتا ہے؟ کیا آپ اس کى عقل و فہم کو دیکھ سکتے ہیں_ کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب محمود کى عقل اور فہم کو نہیں دیکھ پائے لہذا وہ عقل اور فہم ہى نہیں رکھتا؟
لازماً جواب دیں گے کہ عقل اور فہم آنکھ سے نہیں دیکھى جاسکتى لیکن اس کى علامتیں اور نشانیاں آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان ہى علامات اور آثار کے دیکھنے سے درک کرتے ہیں کہ وہ عقل اور فہم رکھتا ہے_ جى ہاں یہ آپ کا جواب بالکل درست ہے عقل اور فہم کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ عقل اور فہم جسم نہیں ہے کہ آنکھ سے دیکھا جائے آنکھ اور دوسرے حواس صرف جسم کے آثار اور نشانیوں کو درک کرسکتے ہیں_ بہت سى چیزیں ایسى موجود ہیں کہ جنھیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن ان کو آثار سے دیکھ لیتے ہیں اور ان کے وجود کا علم حاصل کرلیتے ہیں خدا بھى چونکہ جسم نہیں ہے لہذا آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور دوسرے حواس سے بھى درک نہیں کیا جاسکتا لیکن اس جہان پر عظمت کى خلقت جو خود اس کى قدرت کے آثار اور علائم میں سے ہے اس سے اس کے وجود کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم جہان کا خالق او رانتظام کرنے والا موجود ہے_

فکر کیجئے اور جواب دیجئے

1)___ اپنے دوست کودیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے؟
2)___ کیا اس کى عقل اور فہم کو آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟
3)___ کس طرح جانتے ہیں کہ وہ عقل و فہم رکھتا ہے؟
4)___کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ اسکى عقل اور فہم کو نہیں دیکھ سکتے لہذا وہ عقل و فہم نہیں رکھتا؟
5)___ ہمارے ظاہرى حواس کس چیز کو درک کرسکتے ہیں؟
6)___ کیا خدا کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے
7)___ کیا خدا کو دوسرے کسى حواس سے محسوس کیا جاسکتا ہے اور کیا بتلا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
8)___ کیا اب بھى کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ خدا نہیں دیکھا جاسکتا لہذا موجود نہیں ہے؟

 

دسواں سبق
موحّدین کے پیشوا حضرت ابراہیم (ع)


حضرت ابراہیم (ع) علیہ السلام کے زمانے میں لوگ نادان اور جاہل تھے پہلے پیغمبروں کے دستور کو بھلاچکے تھے خداپرستى کے طور طریقے نہیں جانتے خدا کى پرستش کى جگہ بت پرستى کرتے تھے یعنى پتھر یا لکڑى سونا یا چاندى کے مجسمے انسانى یا حیوانى شکل میں بناتے تھے اور ان بے زبان اور عاجز بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے زمین پر گرپڑتے اور ان کے لئے نذر و نیاز مانتے اور قربانى دیا کرتے تھے بعض لوگ سورج کى پرستش کرتے تھے اور بعض لوگ چاند یا ستاروں کى پرستش کرتے تھے_ جاہلوں کا ایک گروہ اس زمانہ میںطاقتور اور ظالموں کى پرستش کرتا تھا اور ان کى اطاعت واجب و لازم سمجھتا تھا اور بغیر سوچے سمجھے ظالموں کے دستور پر عمل کرتا تھا اپنے آپ کو ذلیل کر کے ان کے سامنے زمین پر گرتے تھے اور ان کے لئے بندگى کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالى نے حضرت ابراہیم (ع) کو چنا اور انھیں زندگى کا صحیح راستہ بتلایا اور حکم دیا کہ لوگوں کى تبلیغ کریں اور انھیں خداپرستى کے طور طریقے بتلائیں_
حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے فرمایا کہ بتوں میں کونسى قدرت ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور ان کى پرستش کرتے ہو یہ مجسمے کیا کرسکتے ہیں یہ نہ تو دیکھتے ہیں نہ سنتے ہیں یہ نہ تو تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہى تمہیں ضرر پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں_ تم کیوں اپنے اپ کو ان کے سامنے ذلیل کرتے ہو؟ تم کیوں ان کے سامنے زمین پر گرتے ہو؟ کیوں ان کى عبادت و اطاعت کرتے ہو؟ جو لوگ حضرت ابراہیم (ع) کى گفتگو سنتے اور اس کے متعلق فکر نہ کرتے تھے وہ آپ کے جواب میں کہتے کہ ہمارے آباؤ اجداد بت پرست تھے ہمارے دوست اور رفقاء بھى بت پرست تھے اور ہم اپنے گزرے ہوئے آباؤ اجداد کى پیروى کریں گے اور ان کے دین پر باقى رہیں گے_
حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے تھے کہ تمہارے آباؤ اجداد نے اشتباہ کیا کہ وہ بت پرست بنے کیا تم میں عقل و شعور نہیں؟ کیا تم خود کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا دیکھ نہیں رہے ہو کہ ان بتوں سے کچھ بھى تو نہیں ہوسکتا_ کس لئے تم اپنے آپ کو طاقتوروں اور ظالموں کے سامنے ذلیل کرتے ہو وہ بھى تمہارى طرح اللہ کى مخلوق ہیں_
لوگو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اس کى طرف سے آ زادى اور سعادتمند ى کا پیغام لایا ہوں_ میرى بات سنو تا کہ دنیا اور آخرت میں سعادت

مند بن جاؤ: لوگو تمہارا پروردگار اور مالک وہ ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا ہے، زمین اور آسمان کو پیدا کیا ہے، کائنات اور اس میں رہنے والوں کے لئے انتظام کرتا ہے تمام قدرت اس کى طرف سے ہے دنیا کا نظام چلانا کسى کے سپرد نہیں کیا اور اس کے چلانے میں کس سے مدد نہیں لى وہ ایک ہے اور قادر مطلق ہے_ میں ان بتوں سے جن کى تم پرستش کرتے ہو بیزار ہوں اور ان کو دوست نہیں رکھتا اور ان کى اطاعت نہیں کرتا
خدا کو دوست رکھتا ہوں اور صرف اس کى پرستش کرتا ہوں کیوں کہ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے_
بیمارى سے شفا اور زندگى اور موت دنیا اور آخرت سب اس کے ہاتھ میں ہے_
میں امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن بھى خداوند عالم مجھ پر مہربان ہوگا اور مجھ پر رحم کرے گا_
لوگو ایک خدا کى پرستش کرو کیوں کہ تمام قدرت خدا سے ہے، خدا ہے اور ہمیشہ رہے گا تمہارى مدد کرنے والا صرف خدا ہے تمہارا راہنما خدا کا پیغام ہے اسى کى طرف توجہ کرو اور صرف اسى کى پرستش کرو پرستش صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے اس کے سواء اور کوئی لائق اطاعت اور پرستش نہیں ہے_

غور کریں اور جواب دیں

1)___ حضرت ابراہیم (ع) کے زمانے میں جاہل لوگ کن چیزوں اور کن لوگوں کى پرستش کرتے تھے؟ اور کن لوگوں کى اطاعت کو ضرورى سمجھتے تھے؟
2)___ اللہ تعالى نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا فرمان دیا؟
3)___ حضرت ابراہیم (ع) نے لوگوں سے کیا فرمایا اور کس طرح وضاحت کى کہ بت قابل پرستش نہیں ہیں؟
4)___ کیا لوگ حضرت ابراہیم (ع) کى گفتگو پرغور کرتے تھے؟ اور آپ سے کیا کہتے تھے؟
5)___ لوگوں نے حضرت ابراہیم (ع) کو کیا جواب دیا تھا وہ ٹھیک تھا یا غلط اور کیوں؟
6)___ کیا یہ جائز ہے کہ ایک انسان دوسرے کے سامنے بندگى کا اظہار کرے؟
7)___ آپ نے بت پرست دیکھا ہے؟
8)___ حضرت ابراہیم (ع) کى توحید پر کیا دلیل تھى کیوں صرف خدا کو دوست رکھتے تھے اور صرف اسى کى پرستش کرتے تھے؟
9)___ سوائے خدا کے اور کوئی کیوں قابل پرستش اور اطاعت نہیں؟
10)___ کیا جو کسى ظالم کى اطاعت کرتا ہے وہ موحّد ہے؟
11)___ کس کو موحّد کہتے ہیں موحّد آدمى کى امید کس سے ہوتى ہے؟
12)___ اس سبق سے ایک اور سوال بنائیں اوراپنے دوست سے کہیں کہ وہ اس کا جواب دے_