باہمى تعاون
جو شخص بھى اپنے آپ کودوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے بوجھ کو دوسروں پر ڈالے، خدا کے غیظ و غضب کا شکار ہوگا''
لعنت اور نفرین ہو اس پر کہ جو اپنى زندگى کا بوجھ دوسرے کے کندھے پر ڈالتا ہے،
یہ دونوں اقوال رسول گرامى (ص) کے ہیں_ آپ(ص) مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ سستى اور تن پرورى سے پرہیز کریں او رمحنت و کوشش سے اپنى روزى اپنے ہاتھ سے کمائیں خدا کے لطف و کرم کى امید رکھیں اور اپنى دنیا کو پاک و پاکیزہ اور آباد بنائیں''
نہ صرف یہ کہ اپنے بوجھ کو دوسروں پر نہ ڈالیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کے بوجھ کو بھى بانٹیں او راپنى مدد کا ہاتھ ان کى طرف بڑھائیں اور جان لیں کہ خداوند عالم نیکى کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا:
جانتے ہیں، رسول خدا(ص) نے اس نیک خصلت کى لوگوں کو کس طرح تعلیم دی____؟
کیا صرف اپنى گفتگو سے____؟
نہیں ... بلکہ گفتار سے زیادہ اپنے رفتار و عمل سے آپ(ص) نے اچھى باتوں کى تعلیم دى کیونکہ پیغمبراکرم(ص) جو کچھ فرماتے تھے اس پر کامل ایمان رکھتے تھے اور اس سے پہلے کہ لوگوں کو کسى کام کى دعوت دیں، خود اس پر ایمان اور بصیرت سے عمل کرتے تھے_
لوگ بھى چونکہ آپ(ص) کى صداقت اور ایمان کو نہ صرف آپ کے قول میں بلکہ آپ کے اعمال و افعال بھى دیکھ رہے ہوتے تھے لہذا آپ(ص) سے اور آپ(ص) کے خدائی پیغام سے عقیدت کا اظہار کرتے اور آپ(ص) کى پیروى کرتے تھے،
اس بات کو اچھى طرح سمجھنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم آپ(ص) کے ساتھ ایک سفر پر چلیں اور آپ(ص) کے سلوک و رفتار اور عادات و اطوار کو بالخصوص لوگوں کى مدد اور ان سے مدد و تعاون کے سلسلے میں آپ(ص) کى روش کو قریب سے دیکھیں_
پیغمبر(ص) سفر پر جانے کے لئے تیار ہیں آپ(ص) نے کنگھی، مسواک، اور مختصر سا سامان سفر اٹھایا، اور اپنے ہم سفروں اور ساتھیوں کو بھی ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ سب بھى اپنا سامان سفر اور ضرورت کى چیزیں ساتھ لے لیں تا کہ سفر میں دوسروں کے لئے زحمت کا باعث نہ بنیں_
تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد آپ(ص) نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے اہل و عیال او ردوستوں کو نہایت گرم جوشى سے خداحافظ کہا جب قافلہ روانگى کے لئے حرکت میں آیا تو آپ نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ خداوند متعال سے یوں مخاطب ہوئے_
خدایا تیرى رضا و عنایت سے سفر کر رہا ہوں اور تیرى ذات کى طرف متوجہ ہوں اور تیرى رحمت پر اعتماد کرتا ہوں_ خدایا اس سفر میں تمام امید و اطمینان تیرے لطف سے وابسطہ ہے تو میرى حاجات کو برلا جس چیز کو تو میرے لئے پسند کرتا ہے اسى کى توفیق عنایت فرما کہ تو میرى مصلحت کو مجھ سے بہتر جانتا ہے خدایا: پرہیز گارى اور تقوى کو میرے راستے کا سامان قرار دے او رمجھے اپنى رحمت و مغفرت کا مستحق قرار دے اور جس طرف بھى جاؤں مجھے نیکى اور اچھائی کى طرف متوجہ کردے''
اس سفر میں بھى دوسرے سفروں کى طرح آپ(ص) کاروان کے آخر میں چل رہے تھے تا کہ کمزور و ضعیف اور پیچھے رہ جانے والوں کى خبرگیرى کرتے رہیں_
راستے میں ایک جگہ کھانا کھانے اور سستانے کے لئے یہ قافلہ ٹھہرا پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان اور خواہش کے مطابق اونٹوں سے سامان اتار کر انہیں بیابان میں چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ بھى گھاس پھونس سے اپنا پیٹ بھرلیں_
قافلہ کا ہر آدمى کسى نہ کسى کام میں مشغول ہوگیا ایک گروہ پانى لینے چلا گیا، کچھ لوگوں نے دنبہ ذبح کیا اور اس کى کھال اتارنے میں مشغول ہوگئے_ ایک دو آدمى انٹوں کى حفاظت کرنے لگے اسى دوران پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں آگ جلانے کے لئے بیابان سے سو کھى لکڑیاں اکٹھى کر کے لاتا ہوں_
اصحاب نے کہا:
یا رسول اللہ(ص) آپ (ص) تھکے ہوئے ہیں آرام کریں ہم خود سب کام انجام دے لیں گے؟''
آپ کا کیا خیال ہے؟
آیا رسول خدا(ص) نے اصحاب کى اس پیش کش کو قبول کرلیا ہو گا اور اپنى تھکاوٹ دور کرنے کے لئے آ رام کى غرض سے لیٹ گئے ہوں گے؟
اس سلسلہ میں کیا جواب ہے آپ کا؟ خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے اور اپنے کام کى زحمت کو ان کى گردن پر ڈالے
یہ تھا پیغمبر اکرم(ص) کا جواب :
تم بھى میرى طرح سفر سے تھکے ہوئے ہو جس طرح میں غذا کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوں گا کام کرنے میں بھى مجھے تمہارا شریک ہونا چاہیئےہ اسلامى طریقہ نہیں ہے کہ میں آرام کروں ا ور تم لوگ کام کرو نہیں ایسا نہیں ہوگا میں بھى تمہارى طرح کوئی کام انجام دوں گا''
آپ(ص) اٹھے اور جلانے کے لئے سوکھى لکڑیاں جمع کرنا شروع کردیں_ اس طرح تمام لوگوں نے مل جل کر اور باہمى تعاون سے کھانا تیار کیا ا ور نہایت مہر و محبت کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر تناول کیا_
پیغمبر اسلام(ص) باوجود اس مقام او رخدائی منصب اور اجتماعى حیثیت کے ایک عام مسلمان کى طرح زندگى بسر کرتے تھے آپ(ص) کى خوراک اور لباس بھى دوسرے عام مسلمانوں کى طرح تھا بلکہ بسا اوقات ان سے بھى زیادہ معمولى قیمت کا ہوا کرتا تھا اپنے ذاتى کاموں کو اکثر اوقات خود ہى انجام دیتے تھے اپنى جوتى اور لباس کو پیوند لگاتے تھے گھر کے کاموں میں مدد فرمایا کرتے تھے مشکیزہ کے ذریعہ گھر میں پانى لاتے تھے اور کبھى کبھى خودد کھانا تیار کرتے تھے: بچّوں کى نگہداشت و پرورش میں مدد کیا کرتے تھے_ گھر کا دروازہ کبھى خود آکر کھولتے تھے گندم اور جو کا آتا پیسنے اور روٹى پکانے میں مدد کیا کرتے تھے، حیوانات کا دودھ دوہتے تھے، انہیں پانى پلاتے اور چارہ ڈالتے تھے،
کشادہ روٹى سے لوگوں سے پیش آتے تھے اور خندہ پیشانى کے ساتھ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے، کوشش کرتے تھے کہ ہر ایک کو یہاں تک کہ بچّوں کو بھى سلام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ:میں بچّوں کو سلام کرتا ہوں تا کہ بچّوں کا احترام او رعزّت میرى امت کى ایک اچھى سنّت قرار پائے اور مسلمان بچّوں کو سلام کریں اور ان کا احترام کریں،
آپ(ص) بد مزاج اور بد زبان نہیں تھے اگر آپ کے سامنے کوئی کسى کى برائی کرتا تو آپ(ص) ناراض ہوجاتے اور فرماتے کہ رک جاؤ، کوئی اور بات کرو سب مسلمانوں کے لئے مہربان اور ہمدرد تھے اور ان کى مدد کو پہنچتے تھے_ اور اپنے کام دوسروں پر ڈالنے سے پرہیز کرتے تھے،
ایک دن مسلمانوں کى ایک جماعت جو سفر سے لوٹ کر آئی تھى آپ(ص) کى خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک کى تعریف کرنے لگی_
یہ لوگ کہنے لگے وہ کتنا دیندار اور متّقى ہے اس نے کسى کو کوئی تکلیف اور ایذ انہیں پہنچائی جب ہم راستے ہیں کہیں قیام کرتے تو وہ فوراً پانى تلاش کر کے وضو کرتا اور نماز میں مشغول ہوجاتا اسے سوائے نماز اور دعا کے کسى کام سے سروکار نہ تھا،
پیغمبر اکرم(ص) نے دریافت کہا:
اگر اس کى سفر میں یہ عادت تھى تو اس کے کام کاج کون کرتا تھا؟ اس کے اونٹ کا سامان کون اتارتا تھا؟ کون اس کے لئے غذا اور پانى لاتا تھا؟ کون اس کے لئے کھانا پکاتا تھا؟ اور چلتے وقت کون اس کے اونٹ پر سامان لادتا تھا؟''
یا رسول(ص) اللہ ان تمام کاموں کو ہم فخریہ طور پر انجام دیتے تھے'' ان لوگوں نے جواب دیا،
رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا:
یقینا تم اس سے بہتر ہو او راللہ کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہو یہ ٹھیک نہیں کہ ایک مسلمان اپنے کام کا بوجھ دوسروں کى گردن پر ڈالے اور خود اپنے خیال میں عبادت کرنا شروع کردے نماز و دعا اپنى جگہ بہترین عبادت ہیں لیکن سعى و کوشش بھى ایک بہت بڑى عبادت ہے اور خداتعالى کى مخلوق کى خدمت کرنا بھى بڑى عبادت ہے''
اب آپ سوچئے کہ:
آپ کس طرح اللہ کى مخلوق کى خدمت کرتے ہیں؟ کن کاموں میں ان کے ساتھ مدد و تعاون کرتے ہیں؟
کیا آپ کا پّکا ارادہ ہے کہ اپنے مدرسے اور گھر کے کاموں کو خود انجام دیں گے اوردوسروں کے کاندھوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے؟
کیا آپ کوشش کرتے ہیں کہ ماں باپ اور دوسرے افراد کا بوجھ اٹھائیں اور خود کسى پر بوجھ نہ بنیں؟
مختصر یہ کہ آپ رسول خدا(ص) کى اس سنت پر کس طرح عمل پیرا ہوں گے؟
آیت قرآن
''و تعاونوا على البرّ و التّقوى و لا تعاونوا على الاثم و العدوان''
نیک کاموں اور تقوى میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور ظلم و گناہ میں کسى سے تعاون نہ کرو''
سوچئے اور جواب دیجئے
1)___ عام طور پر پیغمبر(ص) کون سى چیزیں سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے؟ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا سفر میں ساتھ لے جانا رسول خدا(ص) کى کن صفات کى نشان دہى کرتا ہے___؟
2) ___ پیغمبر(ص) سفر کرتے وقت اپنے اصحاب کو کیا تاکید کیا کرتے تھے اور کیوں؟
3)___ رسول خدا(ص) کى عادت اور سیرت، سفر کرنے سے پہلے اپنى قوم، دوستوں اور اہل بیت (ع) کے ساتھ کیا تھی؟ پیغمبر(ص) کى یہ سیرت ہمیں کیا درس دیتى ہے؟
4) قافلہ کى روانگى کے وقت رسول خدا(ص) کون سى دعا پڑھا کرتے تھے؟ آپ(ص) کى دعا کے الفاظ بتایئے
5) عام طور پر پیغمبر(ص) قافلے کے کس حصہ میں چلا کرتے تھے؟
6) درمیان راہ قیام کے وقت، رسول خدا(ص) جانوروں کے متعلق کیا حکم دیا کرتے تھے؟
7) خدا کے رسول (ص) نے غذا کى تیارى کے لئے کونسا کام اپنے ذمّہ لیا؟ اس وقت اصحاب نے آپ(ص) سے کیا کہا؟ آپ نے ان کے جواب میں کیا فرمایا؟
8) پیغمبر(ص) بچّوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا کرتے تھے؟
9) اگر پیغمبر(ص) کے سامنے کسى کى برائی کى جاتى تو آپ کیا فرماتے تھے؟
10) پیغمبر(ص) نے ان لوگوں سے کہ جو اپنے ہمسفر کى تعریف کر رہے تھے کیا پوچھا تھا؟ اور ان سے ان کے ہمسفر کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟